جواب:-سورۃ مسئلہ میں زکوۃ واجب نہیں ہے کیونکہ زکوۃ کی نصاب کے بقدر اس مال پر زکوۃ واجب ہوتی ہے جو ضرورت سے زائد ہونے کی ساتھ ہو “مال نامی” بھی ہو ہاں مذکورہ چیزوں میں مالک سے زکوۃ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم
مفازع عن الحاجة الاصلية لان المشغول بها كالمعدوم وفسره ابن مالك لما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كاثيابه.... (رد المختار ١٧٨/٣-١٧٩،كتاب الزكاة زكريا ديوبند)
ومنها: كون المال ناميا لان معنى زكاة وهو انما لا يحصل الا من مال الناى ولسنا معنى به حقيقة النماء لان ذلك غير معتبر والاخ ..(بدائع الصنائع:٩١/٢ كتاب الزكاة الشرفيه،ديوبند)
وعن حاجة الاصلية نام ولو تقديرا.... وانما الحقيقي يكون بالتوالد والتناسل والتجارات والتقديريى يكون بالتمكن من الاستنماء الاخ (حاشية الطحطاوي:٧١٥ كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)
سوال:-دکان کی مال پر زکوۃ کس طرح نکالے جائے گے ؟
جواب:-دکان میں موجود سامان تجارت کی قیمت لگائی جائے گی وہ اگر نصاب کو پہنچتی ہو تو اس پر زکوۃ نکالنا فرض ہوگا۔فقط واللہ اعلم
عن ابراهيم قال: كل شيء اريد به التجارة ففيه الزكاة وان كان لبنا او طينا قال كان الحكم يرى ذلك....(المصنف لابن ابي شيبه: ٤٠٦/٢،رقم: ١٠٤٦٢)
رجل له مئتا قفيز حنطه للتجارة حال وعليها الحول وقيمتها مئتا درهم حتى وجبت عليه الزكاة...(التاتارخانية:١٦٩/٣،رقم: ٤٠١٨)
عن سمورة بن جندب: واما بعده فان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يامرنا ان تخرج الصدقة من الذي نعد للبيع..(سنن الكبرى للبيهقي:٢٤٧/٤،رقم ٧٥٩٧)
سوال:-ضرورت اصلیہ میں کون سی چیزیں داخل ہے اور کون سی چیز داخل نہیں تفصیل سے بیان کریں؟
جواب:-ہر انسان کی ضروریات اور حاجت عموما دوسروں سے مختلف ہوتی ہے لہذا جو چیزیں جن کے استعمال میں ہو اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش اتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہو تو وہ تمام چیزیں حاجت اصلی میں داخل ہیں مثلا کھانا پینا پہننے کے کپڑے رہنے کے مکان وغیرہ اور جو چیزیں انسان کے استعمال میں نہ اتی ہو وہ حاجت اصلی میں داخل نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم
1 thought on “١.سوال:-اگر کسی شخص کے پاس دو گاڑیاں موجود ہو تو ان گاڑیوں پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟”