جواب:-اہل صنعت وہ کاریگر کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورت اصلیہ میں داخل ہے لہذا دکان کی ترازو اور فیکٹریوں کی مشینیں وغیرہ کی زکوۃ نہیں ہے ان کے علاوہ جو چیز اموال تجارت ہے ان پر زکوۃ واجب ہے۔فقط واللہ اعلم
وفسره ابن مالك اي فسره المشغول بالحاجة الاصلية والا ولى فسرها وذلك حيث قال وهي ما يدفع الهلاك.....(الشامي: ١٧٨/٣ كتاب الزكاة زكريا دوبند)
وعلى حاجه الاصلية اكتبابه المحتاج اليها لدفع الحد.. كالنفقة ودور السكنى و الات الحرب والحدفة واساس المنزل والدواب االركوب وكتب العلم .... الآخ (حاشية الطحطاوي:٧١٤،الاشرفيه ديوبند)
الزياده عن الحادث الاصليةايشترط الخفيفية كون المال الواجب فيه زكاة فارغا عن الدين وعن الحاجة الاصلية...(الفقه الاسلامي:١٨٠٩/٣ كتاب الزكاة بيروت)
سوال:-اگر کسی کے پاس نصاب کے بقدر سونا یا چاندی ہو البتہ اس کے پاس زکوۃ ادا کرنے کے لیے کوئی رقم موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ زکوۃ کس طرح ادا کرے گا؟
جواب:-اس صورت میں وہ شخص جس کے پاس زکوۃ ادا کرنے کے لیے پیسہ نہ ہو تو وہ سونا یا چاندی کی واجب مقدار سونا چاندی ہی زکوۃ میں دے دے کیونکہ پیسوں ہی سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے یا تو وہ چاندی کی کچھ مقدار کسی کے پاس بیچ کر رقم حاصل کریں اور اس کے بعد ادا کر دیں۔فقط واللہ اعلم
1 thought on “سوال:-دکان اور فیکٹوریوں کی کن چیزوں پر زکوۃ واجب ہے اور کن چیزوں پر زکاة واجب نہیں ہے؟”