١.سوال:-بارات کا شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو اس کی بھی وضاحت کرے؟

لجواب:-بارات کا شرعا کوئی اصل نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسنت سے ثابت ہے بلکہ اج کل تو بہت سارے خرافات اور رسومات بھی شامل ہو گئے ہیں ہاں: البتہ اگر چند لوگ لڑکے کے ساتھ جا کر نکاح میں شریک ہو کر لڑکی کی رخصت کرا کے ساتھ چلے ائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اگر بارات تمام تر خرافات و رسومات سے خالی ہو تو یہ صرف ایک امر مباح ہے-فقط واللہ اعلم

عن انس بن مالك ان النبي صلى الله عليه وسلم راى على عبد الرحمن بن عوف اثر صفرة فقال ما هذا قال اني تزوجت امراة على وزن نواة من ذهب قال بارك الله لك او لم ولو بشاة...(صحيح البخاري: ١٩٨٢/٥ رقم: ٤٧٨ دمشق)

ووليمة العرس سنة وهي مثوبة عظيمة وهي عند ابني الرجل بامراته ينبغي ان بدعوا الجيران والاقرباء والاصدقاء......(هنديه: ٣٤٢/٥،كتاب النكاح، زكريا ديوبند)

عن علي بن الحسن رضي الله تعالى عنهما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من حسن اسلام المرء تركه مالا يعنيه........(مشكة المصابيح:١٣٦١/٣ رقم الحديث: ٤٨٣٩، بيروت)

سوال:-ولیمہ کا شرعا کیا حکم ہے اور ولیمہ کا وقت کیا ہے اس میں کوئی تفصیل ہو تو اس کی بھی وضاحت کریں؟

جواب:-ولیمہ کرنا شرعا سنت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس میں اپنی وسعت کے مطابق ریا و نمود سے بچتے ہوئے احباب اور رشتہ داروں کو کھانا کھلانا چاہیے اور اس کے لیے افضل وقت رخصتی کے بعد ہے کسی مصلحت کے پیش نظر دو چار دن بعد بھی ولیمہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ اتنی تاخیر نہ ہوں کہ بشاشت نکاح باقی نہ رہے-

عن انس بن مالك ان النبي صلى الله عليه وسلم راى على عبد الرحمن بن عوف اثر صفرة فقال ما هذا قال اني تزوجت امراة على وزن نواة من ذهب قال بارك الله لك او لم ولو بشاة(صحيح البخاري: ١٩٨٢/٥،رقم الحديث: ٤٨٧،باب الوليمة الحق)

ووليمة العرس سنة وهي مثوبة عظيمة وهي.. بني الرجل بامراة ينبغي ان يدعو الجيران والاقرباء والاصدقاء...(الهنديه: ٣٤٢/٥ كتاب النكاح زكريا ديوبند)

وحديث انس في هذا الباب صريح في انها اي الوليمة بعد الدخول لقوله فيه اصبح عروسا بزينب فرعا القوم......(اعلاء السنن:١٦/١١-١٧ دار الكتب العلمية بيروت)

سوال:-مہر فاطمی کی مقدار کیا ہے؟موجودہ وزن کے اعتبار سے بھی وضاحت کرنے کے بعد بتائیں کہ ادائیگی کے وقت کس قیمت کا لحاظ ہوگا ایا بوقت نکاح یا بوقت ادا مدلل بیان کریں؟

الجواب:-مہر فاطمی کی مقدار صحیح قول کے مطابق 500 درہم ہیں جس کا وزن موجودہ گراموں کے اعتبار سے ڈیڑھ کلو 30 گرام900ملی گرام چاندی ہے اور تولہ کے حساب سے131تولہ3 ماشہ ہے اور ادائیگی کے دن بازار سے چاندی کا بھاؤ معلوم کر کے اس مقدار کے بقدر قیمت مہر میں دے دی جائے یعنی بوقت ادا کی قیمت کا لحاظ ہوگا-”فقط واللہ اعلم

واقله عشرة دراهم فضه وزن سبعة مساقيل كما في النكاة مصروبة كانت اولا ولو دينا او عرضا قيمته عشرة وقت العقد.... انما دخل في ضمانها..(در المختار مع شامي:٢٣٠/٤ كتاب النكاح زكريا ديوبند)

واقله عشرة دراهم وزن سبعة مثاقيل وان لم تكن مسكوكة بدا تمرا... ثم القيمة يوم القبض انها تغير بالنسبة لضمانها...(مجمع الانهر:٥٠٨/١ كتاب النكاح, ط: فقيه الامه ديوبند)

انا ابي سلمة بن عبد الرحمن انه قال سئلت عائشة كم كانت صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: قال صداقه لا رواجه سنتى عشرة اوقية نشا قالت: اتدري من النش؟قال: قلت لا , قالت: نصف اوقية فتل قى خمس مائة ديرها فهذا صداقه رسول الله صلى الله عليه وسلم لازواجه(مسند احمد: باب الصداق رقم الحديث: ٦٩٢٧)

سوال:-فضولی کے ذریعہ کیا ہوا نکاح کب درست ہے اور کب درست نہیں ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو با بتفصیل بیان کریں؟

جواب:-فضولی کے ذریعہ کیا ہوا نکاح اصیل کی اجازت پر موقوف رہتا ہے جب وہ اجازت دے اور منظور کرے تو نکاح نافذ ہو جاتا ہے اگر اصیل یا جس کو وکیل بنایا وہ اجازت نہ دے اور منظور نہ کرے تو فضولی کے ذریعے کیا ہوا نکاح درست نہیں ہوگا اور منظوری کی دو صورتیں ہیں (1) زبان سے منظور کرنا (2) کوئی ایسا کام کرنا جو شرعا منظوری پر دلالت کرے ـ

ينعقد نكاح الفضولى موقوفا كابيع اذا كان من جانب واحد واما من جانبين او فاضوليا من جانب اصيلا من جانب فلا.... الخ...(كتاب الاختيار لتعليل المختار:١٢٢/٢-١٢٣،كتاب النكاح:مكنبه فقيه الامة ديوبند)

كنكاح الفضولى اي الذي باشره مع اخر اصيل اوولي او وكيل او فضولي.... فانه يتوقف على اجازة الزوج.... سيجي في البيوع لوقف عقوده كلها....(در المختار مع شامي: ٢٢٥/٤ كتاب النكاح ط: زكريا ديوبند)

سوال:-مہر کی کم سے کم مقدار کیا ہے؟اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو اس کی بھی وضاحت کریں؟

جواب:-مہر کی کم سے کم مقدار کے سلسلے میں حضرات آئمہ کا اختلاف ہے چنانچہ فقہاء احناف کے نزدیک اقل مہر کی مقدار 10 درہم ہیں اس سے کم مہر متعین کرنا درست نہیں ہے حضرات مالکیہ کے نزدیک اقل مہر کی مقدار ربع دینار یا تین در ہم ہے حضرت امام شافعی کے یہاں ہر وہ چیز جس کو عقد بیع میں ثمن بنایا جا سکتا ہے اس کو عقد نکاح میں مہر بھی بنا سکتے ہیں وہ کم ہو یا زیادہ خواہ ایک جبہ ہی کیوں نہ ہو-

واقل المهر عشرة دراهم قال الشافعي ما يجوزان يكون ثمنا في البيع يجوزان يكون مهر الهالانه حقها فيكون تقدير اليها ولنا قوله عليه الصلاة والسلام ولا مهرمن عشرة دراهم ولانه حق الشرع وجوبا اظهارا لشرف المحل... الاخ...(هدايه: ٣٤٧/٢-٣٤٨،كتاب النكاح، زمزم ديوبند)

واما بيان ادنى المقدار الذي يصلح مهرا فادناه عشرة دراهم واما قيمته عشرة دراهم وهذا عندنا وعند الشافعي. : المهر غير مقدر يستوي فيه القليل والكثير .......( بدائع الصنائع:٥٦١/٢، كتاب النكاح، الشرفيه ديوبند )

اقله عشرة دراهم لحديث بيهقي وغيره لا مهر اقل من عشرة دراهم..... وقال الحافظ ابن حجر: انه بهنا الاسناد حسن كما في فتح القدير في باب الكفاءة.....(الدر المختار:٢٣٠/٤-٢٣١،كتاب النكاح،زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص مہر کے بغیر یا مہر کے انکار کے ساتھ نکاح کرے یا اقل مہر سے کم طے کر کے نکاح کرے تو شرعاً کیا حکم ہے؟

الجواب:-صورۃ متولہ میں شرعا نکاح درست ہو جائے گا البتہ اس صورت میں مہر مثل واجب ہوگا اور اقل مہر سے کم طے کرنے والی صورت میں اقل مہر یعنی دس درہم واجب ہوگا-

وان تزوجها ولم يسم لها مهرا او تزوجها على ان لا مهر لها فلها مهر مثلها ان دخل بها او مات عنها......ولو سمى اقل عشرة فلها العشرة......(هدايه: ٣٤٧/٢،كتاب النكاح،زمزم ديوبند)

وتجب العشرة أن سماها او دونها..... وكذا يجب مهرا المثل فيما اذا لم يسم مهرا او نفيان وطى الزوج او مات عنها اذا لم يتراضيا على شي يصلح مهرا.......(الدر المختار: ٢٣٣/٤-٢٤٢،كتاب النكاح زكريا ديوبند)

واقله عشرة دراهم فلم سمى دونها لذمت العشرة....... وان سكت عنه لو نفاه لزم مهرا المثلي بالدخول او الموت.......(بجمع الانهر: ٥٠٨/١-٥٠٩،كتاب النكاح: الفقيه الامة،ديوبند)

صحت نکاح کے لیے کتنی شرطیں ہیں ہر ایک کو واضح کرے؟

جواب:-صفت نکاح کے لیے چند شرطیں ہیں (1). با وقت دو مسلمان ازاد عاقل و بالغ گواہوں کا موجود ہونا خواہ دو آزاد مرد ہو یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (2). عاقدین میں سے ہر ایک کا ایجاب و قبول کے وقت دوسرے کا کلام سننا خوا ہ یہ سننا وصالة ہو یا ولادة ہو وکالة (3) ایجاب و قبول دونوں کی مجلس کا متحد ہونا (4) دونوں گواہوں کے ایک ساتھ ایجاب و قبول کو سننا اور سمجھنا ضروری ہے اگرچہ لفظ کے معنی نہ جانتے ہو (5). زوجین میں نکاح کی اہلیت کا پایا جانا بھی شرط ہے (6). نکاح کو کسی وقت کے ساتھ موقت نہ کرنا (7). زوجین کا ہم مذہب ہونا (8). زوجین کا ہم جنس ہونا وغیرہ-فقط واللہ اعلم۔

ولا ينعقد نكاح المسلمين الا بحضور شاهدين حريين عاقلين بالغين مسلمين رجلين او رجل وامراتين......(الهنديه: ٣٢٨/٢،كتاب النكاح ،زمزم بوك, ديوبند)

وشرط سماع كل من العاقدين لفظ احد ليتحقق رضاهما وشرط حضور شاهدين........ حرين او حر وحريتن مكلفين سامعينا قولهما معا على الاصح فاهمين انه نكاح على مذهب....(رد المختار: ٧٤/٤-٩٢،كتاب النكاح، زكريا، ديوبند )

واما شروطه فمنها: العقل والبلوغ والحرية في العاقد ... ومنها: المحل القابل وهو المراة ... ومنها سماع كل من العاقدين كلام صاحبه.... ومنها الشهادة قال عامه العلماء... ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح ... ومنها ان يكون الزوج والزوجة معلومين..(فتاوى الهنديه: ٣٣٢/١-٣٣٥،كتاب النكاح زكريا ديوبند)

١.سوال:-نکاح کی کتنی قسمیں ہیں ہر ایک کی صورت اور حکم تحریر کریں؟

جواب:-نکاح کے پانچ قسمیں ہیں (1). فرض:-جو شخص مہر اور بیوی کے نان نفقہ کی ادائیگی پر قادر ہو اور اپنی طبیعت میں نکاح کا ایسا تقاضا ہو کے نکاح کے بغیر زنا سے بچنا ممکن نہ ہو-(2). واجب:-نان نفقہ مہر اور بیوی کے جملہ حقوق ادا کرنے پر قادر ہو اور ایسے خطرہ ہو کے اگر نکاح نہ کیا تو مبتلائے معصیت (مثلا بد نظری یا مشت زنی) ہو جائے گا تو اس پر نکاح کرنا واجب ہے-(3) سنت:-جو شخص اعتدال کی حالت میں ہو یعنی نان و نفقہ پر قادر ہو اور بیوی کے جملہ حقوق ادا کر سکتا ہو لیکن اس کے دل میں ایسا تقاضا نہ ہو کہ نکاح کے بغیر معصیت نے مبتلا ہونے کا یقین یا اندیشہ ہو تو اس شخص کے لیے نکاح کرنے کے باعثصمت زندگی گزرنا سنت موکدہ ہے اس کا حکم اگر یہ شخص قدرت کے باوجود نکاح نہ کرے گا تو تاریخ سنت ہونے کی بنا پر گنہگار ہوگا۔(4). مکروہ:-اگر انسان کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ نکاح کر کے بی بی کے حقوق ادا نہ کر سکے گا تو ایسے شخص کے لیے نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔(5). حرام:-اگر انسان کو یقین ہو کہ وہ بیوی کا مالی ہو جنسی حقوق ادا کرنے پر قطعا قادر نہیں ہے اور اس کا ارادہ ہے ظلم کرنے کا تو اس کے لیے نکاح حرام ہے اور اس کا حکم اگر وہ نکاح کر لے تو سخت گنہگار ہوگا۔فقط واللہ اعلم

ويكون واجبا عند التوقان فان قيقن الزنا الا به فرض... ويكون سنة ...حال الاعتدال.. ومكروها لخوف الجور فان تيقنه حرم ذلك ويندب اعلانه وتقديم خطبة وكونه...(رد المختار: ٦٣/٤-٦٦ كتاب النكاح زكريا ديوبند)

واما صفته فهو انه في حاله الاعتدال سنة مؤكده وحاله التوقان واجب وحالة خوف الجور مكروه....(الهنديه: ٣٣٢/١ كتاب النكاح زكريا ديوبند)

ويكون واجبا عند التوقان... وتكون سنة معقدة.... وحال الاعتدال.... ومكروها لخوف الجود فان تيقنه حرم ذلك ويذنب....(در المختار:١٨٥/١،كتاب النكاح ، نعيمية ديوبند)

سوال:-گواہوں کا عاقدین کی طرف سے ایجاب و قبول کا سننا ضروری ہے یا نہیں نیز باوقت اجازت عورت سے گواہوں کا سننا ضروری ہے یا نہیں اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو مفصل بیان کریں؟

الجواب:-گواہوں کا عاقدین کی طرف سے ایجاب و قبول کا ساتھ ساتھ سننا ضروری ہے اور عورت سے با وقت اجازت گواہوں کا موجود ہونا اور سننا صرف مستحب ہے ضروری نہیں ہے البتہ نکاح پڑھاتے وقت گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہیں ـ

وشرط السماع كل من العاقدين لبس الاخر وليتحقق رضاهما وشرط حضور شاهدين اي يشهدان على العقد حريين او حر وحرتين مكلفين سامعين قولهما معا على الاصح فاهمين....(شامي :٨٤/٤-٩٢ كتاب النكاح, زكريا ديوبند)

ولا ينعقد نكاح المسلمين الا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين او رجل وامراتين عدولا كانوا او غير عدول او محزورين فى القذف.....(هدايه ٣٢٨/١, كتاب النكاح،زمزم ديوبند)

ومنها: سماع كل من العاقدين كلام صاحبه.... ومنها: سماع الشاهدين كلامهما معا.... ولو سمعا كلام احدهما دون الاخر،او سمع احدهما كلام احدهما والاخر كلام الاخر لا يجوز النكاح....(هنديه:٣٣٢/١-٣٣٣ كتاب النكاح،اشارفيه،ديوبند)

سوال:-نکاح کے لغوی اور شرعی معنی تحریر کریں؟

جواب:-نکاح کا لغوی معنی جمع کرنا اور ضم کرنا یعنی ملنا ملانا ہے، شرعی معنی اس عقد کا نام ہے جو اس لیے مقرر کیا گیا کہ مرد کا عورت سے وطی کرنا اور اس کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانا حلال ہو جائے ۔

وهو عند الفقهاء عقده يفيد ملك المتعة اي يا حلو استمتاع الرجل من المرأة لم يمنع من نكاحها مانع شرعي.....(رد المختار:٥٩/٤-٦٠ كتاب النكاح زكريا ديوبند)

اما تفسيره فهو عقد يدل على ملك المتعة قصدا كذا في" الكنز"...(الهنديه: ٣٣٢/١ كتاب النكاح زكريا ديوبند)