سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تو میرے گھر سے نکل جا یا یہ کہے کہ میرے اور تمہارے درمیان کوئی نکاح نہیں یا یہ کہے گھر سے چلی جاؤں تو ان صورتوں میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں اگر ہوگی تو کتنی اور کیوں مدلل بیان کریں؟

الجواب:-مسئولہ صورتوں میں ایک طلاق بائن واقع ہوگی اگر شوہر نے طلاق کی نیت کی ہے ورنہ نہیں کیونکہ مذکورہ الفاظ کنایات کی اس قسم میں سے ہیں جو جواب اور در دونوں کا احتمال رکھتا ہو اس میں وقوع طلاق کے لیے نیت ضروری ہے۔

ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك او قال: لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق اذا نوى.....(هنديه: ٤٤٣/١،كتاب الطلاق، الشرفية ديوبند)

فنحو اخرجي واذهبي وقومي يحتمل رداء..... وفي الغضب توقف الاولان.... اي ما يصلح ردا وجوابا.....(رد المختار مع الشامي: ٥٢٩/٤-٥٣٣،باب الكنايات، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ میں نے تجھ کو چھوڑ دیا تو ایسی صورت میں کون سی اور کتنی طلاق واقع ہوگی اور اس کا حکم ہر جگہ ایک رہے گا یا الگ الگ مفصل بیان کریں؟

الجواب:-میں نے تجھ کو چھوڑ دیا کہنے کی صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوگی کیونکہ یہ لفظ اکثر جگہوں میں الفاظ صریح کے لیے مستعمل ہوتا ہے لہذا اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی البتہ اگر کسی جگہ یہ لفظ کنائی میں مستعمل ہو تو پھر ایک طلاق بائن واقع ہوگی اگر ایک کی نیت کرے اور اگر زیادہ کی نیت کرے تو زیادہ واقع ہوگی اصل حکم ان الفاظ میں عرف کا ہے جہاں کا عرف جیسا ہوگا وہاں ویسا ہی حکم ہوگا-”فقط واللہ اعلم

وفي انت الطلاق او انت طالق الطلاق او انت طالق طلاقا يقع واحدة رجعية ان لم ينوى شيئا او نوى واحة او ثنتين لانه صريح مصدر لا يحتمل العدد.....(الدر المختار مع الشامي: ٤٦٣/٤،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

قوله فارقتك يحتمل المفارقة عن النكاح ويحتمل المفارقة عن المكان... وعن الصداقة.....(بدائع الصناعية:١٦٨/٣-١٧٠،كتاب الطلاق، اشرفية)

وبقية الكنايات اذا نوى بها الطلاق كانت واحدة بائنة وانما ثلاثا كان ثلاثا.... وهذا مثل قوله انت بائن وبنة..... وفارقتك لانها تحتمل الطلاق وغيره فلا بد من النية.....(هدايه: ٣٩١/٢-٣٩٢،كتاب الطلاق ،زمزم ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ میں نے تجھ کو جواب دیا تو ایسی صورت میں کون سی اور کتنی طلاق واقع ہوگی کیا اس لفظ سے ہر جگہ ایک ہی حکم ہوگا یا الگ الگ یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت اطمینان بخش جواب تحریر کریں؟

الجواب:-میں نے تجھ کو جواب دیا اس کو لفظ کنائی شمار کیا ہے لہذا اس کی رو سے تو صورت میں ایک طلاق بائن واقع ہوگی اگر ایک کی نیت کرے اور اگر اس سے زیادہ کی نیت کرے تو زیادہ واقع ہوگی لیکن بعض علاقوں میں یہ لفظ صریح طلاق کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے اس کی رو سے صورت مسئولہ میں ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اگرچہ طلاق کی نیت نہ کرے اور اگر زیادہ کی نیت کرے تو زیادہ واقع ہوگی لہذا اس لفظ سے ہر جگہ کا حکم الگ الگ ہوگا اور عرف کے اعتبار سے۔

فالصريح قوله انت طالق ومطلقة وطلقتك فهذا يقع به الطلاق الرجعي لان هذه الالفاظ تستعمل في الطلاق ولا يستعمل في غيره ولا يفتفر الى النية لانه صريح فيه.....(هدايه: ٣٨٠/٢-٣٨١،كتاب الطلاق ،زمزم ديوبند)

كنايته عند الفقهاء مالم يوضع له اي الطلاق واحتمله وغيره.... فلا تطلق بها الا بنية او الالة الحال.... البائن ان نواها او الثنتين..... وثلاث ان نواه.....(الدر المختار مع الشامي: ٥٢٦/٤-٥٣٦،كتاب الطلاق،زكريا ديوبند)

والاصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية انه اذا كان فيها لفظ لا يستعمل الا في الطلاق فذلك الفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية اذا اضيف الى المراة.....(هنديه: ٣٨٩/١،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تجھ کو جواب ہے اور وہاں کا عرف کنایہ کا ہو اور شوہر یہ کہہ رہا ہو میری نیت طلاق کی نہیں تھی تو ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں شوہر کی بات معتبر ہوگی کیونکہ وہاں کے عرف کے اعتبار سے یہ کنائی لفظ ہے اور اس سے طلاق اس وقت واقع ہوگی جب کہ نیت پائی جائے یا دلالت حال پایا جائے یعنی مذاکرہ اور شوہر نے جب کہہ دیا کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

وكنايته عند الفقهاء ما لم يوضع له اي الطلاق واحتمله وغيره فلا تطلق بها الا بالنية او بدلالة الحال....(الدر المختار مع الشامي: ٤٥٧/٤-٤٥٨،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

الفصل الخامس: في الكنايات لا يقع بها الطلاق الا بالنية او بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة......(الهندية:٤٤٢/١،كتاب الطلاق، اشرفية ديوبند)

واما ضرب الثاني وهو الكنايات لا يقع بها الطلاق الا بالنية او بدلالة الحال لانها غير موضوعة للطلاق بل تحتمله وغيره......(الهداية:٣٩١/٢ كتاب الطلاق،زمزم ديوبند)

سوال:-کیا ہر لفظ کنائی کے اندر نیت کا ہونا ضروری ہے یا بغیر نیت کے اور مذاکرہ طلاق کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے اگر کوئی ایسا لفظ ہو تو اس کی بھی وضاحت کرے؟

الجواب:-کنائی الفاظ سے دیانتہ وقوع طلاق کے لیے نیت ہر حال ضروری ہے خواہ مذاکرہ طلاق ہو رہا ہو یا نہ ہو رہا ہو البتہ قضاء مذاکرہ طلاق کی صورت میں بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہو جائے گی لیکن کچھ کنائی الفاظ ایسے ہیں کہ بغیر نیت اور مذاکرہ طلاق کے بغیر بھی اس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے مثلا اعتدى،استبرى رحمك أنت واحدة….. بشرط کے وہ حالت غصہ میں کہا ہو یعنی غصہ کی حالت میں ان الفاظ سے بلا نیت اور مذاکرہ طلاق کے بغیر بھی قضاء اس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

بخلاف الفاظ الاخير اي ما يتعين للجواب لانها وان احتملت الطلاق غيره ايضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والسب...... حال الغضب تعينت الحال دالة على ارادة الطلاق فترجح......(شامي: ٥٣٣/٤،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

الفصل الخامس: في الكنايات لا يقع بها الطلاق الا بالنية او بدلالة الحال...... وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب الا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي.....(هنديه: ٤٤٢/١،كتاب الطلاق ،اشرفيه ديوبند)

وفي حالة الغضب: يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب الا فيما يصلح للطلاق..... كقوله اعتدي اختيار...... فانه لا يصدق فيها لان الغضب يدل على ارادة الطلاق.......(هدايه: ٣٩٢/٢،كتاب الطلاق ،زمزم ديوبند)

١.سوال:-اگر کوئی شخص الفاظ طلاق کو بگاڑ کر تلفظ کر لے تو اس سے طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت اطمینان بخش جواب تحریر کریں؟

الجواب:-اس صورت میں طلاق کی الفاظ کو بگاڑنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے کیونکہ الفاظ طلاق کو بگاڑ تلفظ کرنے کو شریعت کی اصطلاح میں تحریف اور تصحیف کہا جاتا ہے اور ایک کرام نے تحریف اور تصحیف شدہ الفاظ کو صریح اور صحیح الفاظ کے مثل مان لیے ہیں لہذا تصحیف شدہ الفاظ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اگر تلفظ کیا تو جیسے طلاغ،تلاغ،طلاک،تلاک وغیرہ۔

ويقع بها اي بهذه الالفاظ وما بمعناها من الصريح و يدل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك او ط ل ق.....(رد المختار: ٤٥٩/٤،كتاب الطلاق باب الصريح ،زكريا ديوبند)

رجل قال لامراته: ترا تلاق هاهنا خمسة الفاظ: تلاق وتلاغ وطلاك وطلاك وطلاك عن الشيخ الامام الخليل ابي..... انه يقع وان تعمد وقصد ان لا يقع....(الهنديه: ٤٢٤/١،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

واما المسحف فهو خمسة الفاظ:تلاق وتلاغ .......وطلاغ وطلاك وتلاك،قال لا يقع به الا واحدة وان نوى اكثر من ذلك.....(فتح القدير: ٧/٤ ،كتاب الطلاق، بيروت)

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تجھ کو طلاق ہے یا یہ کہے کہ تجھ کو جواب ہے تو ایسی صورت میں کون سی اور کتنی طلاق واقع ہوگی اور کیوں واقع ہوگی مدلل مفصل بیان کریں؟

الجواب:-صورت مسولہ میں تجھ کو طلاق کی صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اس لیے کہ یہ صریح الفاظ میں سے ہے اور کہا تجھ کو جواب ہے اس کو (فتاوی محمودیہ: ٥٧٨/١٢) وغیرہ میں طلاق کنائی میں شمار کیا ہے اس کی دو سے تو صورت مسولہ میں ایک طلاق بائن واقع ہوگی لیکن بعض علاقوں میں یہ لفظ طلاق کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ احسن الفتاوی:١٩٢/٥ کراچی میں ہے۔تو اس کی دو سے ایک طلاق صریح واقع ہوگی بلکہ خلاصہ یہ ہے کہ عرف پر مبنی ہے ۔

كنايته عند الفقهاء ما لم يوضع له اي الطلاق واحتمله وغيره....(رد المختار: ٥٢٦/٤،كتاب الطلاق، باب الكنايات، زكريا ديوبند)

الفصل الاول: في الطلاق الصريح وهو كانت طالق ومطلقة وطلقتل وتقع واحدة رجعية وان نوى الاكثر .....(الهندية:٤٢٢/١،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

فالصريح قوله انت طالق ومطلقة وطلقتك فهذا يقع به الطلاق الرجعي لان هذه الالفاظ تستعمل في الطلاق ولا تستعمل في غيره....(هدايه: ٣٨٠/٢،كتاب الطلاق، زمزم ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تو آزاد ہے تو ایسی صورت میں کون سی اور کتنی طلاق واقع ہوگی اور آزاد ہونے کا حکم ہر جگہ ایک ہوگا یا الگ الگ اگر ایک ہو تو کیوں اور اگر الگ الگ ہو تو کیوں یہ وضاحت تحریر کریں؟

الجواب:-تو آزاد ہے یہ لفظ اصلا تو کنائی ہے مگر بعض جگہ یہ لفظ خالص طلاق میں استعمال ہونے لگا لہذا جن جگہوں میں یہ لفظ صریح بن گیا ہو وہاں اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اور اس سے زیادہ کی نیت کی ہو تو زیادہ واقع ہوگی اور جہاں یہ عرفط نہیں بنا وہاں اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگی اگر ایک کی نیت کرے اور اگر اس سے زیادہ کی نیت کرے تو زیادہ واقع ہوگی

والاصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية انه اذا كان فيها لفظ لا يستعمل الا في الطلاق فذلك الفظ صريح يقع به الطلاق من غير نيت اذا اضيف الى المراة.....(الهندية:٣٨٩/١،كتاب الطلاق،زكريا ديوبند)

فان سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فاذا قال... اي سرحتك يقع به الرجعي مع ان اصله كناية ايضا.....(الدر المختار مع الشامي: ٥٣٠/٤،كتاب الطلاق،زكريا ديوبند)

وبقيه الكنايات اذا نوى بها الطلاق كانت واحدة بانية وان نوى ثلثة كان ثلثا.... وهذا مثل قوله انت باين وبنة وبثلت......(هدايه: ٣٩١/٢،كتاب الطلاق،زمزم ديوبند)

١.سوال:-اگر کوئی شخص نیند کے حالت میں یا خود بخود اپنے دل میں بیوی کو طلاق دے تو یہ طلاق واقع ہوگی یا نہیں اگر ہو تو کیوں اور نہ ہوں تو کیوں مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:-نیند کے حالت میں طلاق دے تو طلاق واقع نہیں ہوگی (اور نیم میں خوابی کی حالت میں بے اختیار بغیر مطلب سمجھے طلاق کے الفاظ نکلنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی) اور خود بخود دل میں یعنی محض خیال سے طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ طلاق واقع ہونے کے لیے الفاظ کا ظاہر کرنا اگر صحیح سالم ہو اور گونگا ہو تو اشارہ ضروری ہے-

ولا يقع طلاق....... والنائم...... هكذا في فتح القدير (الهندية:٤٢٠/١،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

لا يقع الطلاق..... والنائم.....(رد المختار: ٤٤٩/٤-٤٥٣،كتاب الطلاق ،زكريا ديوبند)

عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الله عز وجل تجاوز لامتي عما حدثت به انفسها ما لم تعمل او تتكلم به...(صحيح مسلم: ٧٨/١،كتاب الايمان)

لو اجري الطلاق على قلبه وحرك لسانه من غير تلفظ يسمع لا يقع.....(مرا في الفلاح شراح نور الايضاح:٢١٩)

سوال:-الفاظ کے اعتبار سے طلاق کے کتنی قسمیں ہیں ہر ایک کی تعریف اور حکم تحریر کریں؟

الجواب:-الفاظ کے اعتبار سے طلاق کی دو قسمیں ہیں (1) صریح(2) کنائی-صریح وہ ہے جو صریح الفاظ سے دی جائے اور صریح الفاظ وہ ہے جو اکثر وہ بیشتر طلاق ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں خواہ وہ کسی بھی زبان کے ہو مثلا عربی زبان میں طلاق وغیرہ اور اردو زبان میں چھوڑنا آزاد کرنا ۔کنائی طلاق وہ ہے جو کنائی الفاظ سے دی جائے جن کا استعمال طلاق اور غیر طلاق سب کے لیے ہوتا ہو مثلا عربی زبان میں اعتدی اور اردو زبان میں گھر سے چلی جا وغیرہ۔حکم صریح الفاظ سے وفوع طلاق کے لیے تین کی حاجت نہیں ہے البتہ شرط یہ ہے کہ وہ بیوی کے ارادہ سے کہے گئی ہو اگر تاکید وغیرہ سے خالی ہو تو طلاق رجعی واقع ہو گی اور اگر تاکید کے ساتھ کہے ہو تو اس سے طلاق بائن واقع ہوگی اور کنائی الفاظ سے واقع طلاق کے لیے نیت بہرحال ضروری ہے اور اس سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے البتہ قضاء مذاکرہ طلاق کی صورت میں نیت کے بغیر ہی طلاق واقع ہو جائے گی۔

الطلاق الصريح: هو يطلق زوجته بلفظ لم يستعما الافي الطلاق.... والطلاق بالكناية: هو ما كان بلفظ لم يوضع له واحتمله هو غيره....(التعريفات الفقهية:٢١٢،باب الطاء،اشرفيه ديوبند)

الطلاق اي الفاظ بوقع بها الطلاق على ضربين صريح وكناية فالصريح قوله انت طالق ومطلقة...........(هدايه: ٣٨٠/٢-٣٩١،كتاب الطلاق ،زمزم ديوبند)

صريحه ما لم يستعمل الا فيه ولو بالفارسية تطلقتك وانت طالق..... يقع بها واحدة رجعية.... وكنايته.......(الدر المختار مع الشامي: ٤٥٧/٤-٥٢٨،كتاب الطلاق ،زكريا ديوبند)

سوال:-طلاق کے کتنی قسمیں ہیں ہر ایک کے تعریف اور اس کا حکم تحریر کریں؟

الجواب:-طلاق کی تین قسمیں ہیں (1) احسن (2) حسن (3) بدعی-طلاق احسن کی صورت یہ ہے کہ ادمی اپنی بیوی کو ایک طلاق ایسے طہر میں دے جس میں بیوی سے محبت نہ کی ہو اور عدت گزرنے تک اسے چھوڑ دے اور حسن کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی مدخولہ بیوی کو تین طہر میں تین طلاق دے یعنی ایک طہر میں ایک طلاق دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے اور طلاق بدعی یہ ہے کہ اپنی مدخولہ بیوی کو تین طلاق ایک ہی کلمہ میں دے یا ایک طہر میں تین طلاق دے تو طلاق واقع ہوگی اور وہ آدمی گنہگار ہوگا

فالاحسن: ان يطلق امراته واحدة رجعية في طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها......... والحسن:ان يطلقها واحدة في طهر لم يجامعها فيه ثم في طهر اخر اخرى...... واما البدعي: بدعي لمعنى يعود الى العدد ويدعي لمعنى يعود الى الوقت.....(الهندية:٤١٥/١-٤١٦،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

واقسامه ثلاثة: حسن واحسن وبدعي يأثم به والفاظه ومحله المنكوحة..... طلقة رجعية فقط في طهر لاوطء فيه...... احسن.... وطلقة لغير موطوءة ولو في حيض ولا موطوءة تفريق الثلاث في ثلاثة اطهار لا وطء فيها ولا في حيض......(رد المختار: ٤٣١/٤-٤٣٣،كتاب الطلاق ،زكريا ديوبند)

قال الطلاق على ثلاثة اوجه حسن واحسن وبدعي فالاحسن ان يطلق الرجل امراته تطليقة واحدة في طهر لم يجامعها فيه ويتركها حتى تنقضي عدتها....... والحسن هو طلاق السنة وهو ان يطلق المدخول بها ثلثا في الطهار..... والطلاق البدعة يطلقها ثلثا بكلمة واحدة او ثلثا في طهر واحد.....(هدايه: ٣٧٥/٢-٣٧٦ كتاب الطلاق، زمزم ديوبند)

سوال:-طلاق دینے کا حقدار کون اور کب ہے اور کون حقدار نہیں مفصل بیان کریں؟

الجواب:-شریعت نے طلاق دینے کا حق صرف شوہر کو دے رکھا ہے اور ان کی علاوہ بیوی کو طلاق کے حق نہیں اور طلاق اس وقت دے جب اس کو سمجھانے کے بعد بھی وہ باز نہ ائے اس کی وجہ سے اور دل نہ ملنے سے تو اس وقت طلاق دے اور عورت کو اسی لیے نہیں دیا چونکہ فطری ساخت کے اعتبار سے فرق ہے اس لیے شریعت نے نہ تو عورتوں پر کمانے کا بوجھ ڈالا ہے اور نہ ان کو طلاق کے اختیار ہے-

وللرجال عليهن درجة.....(البقرة ايت:٢٢٨)

عن ابن عباس قال........ فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:...... انما الطلاق لمن اخذ بالساق.....(سنن ابن ماجه: ١٥١،كتاب الطلاق باب الطلاق العبد النسخة الهندية دار السلام)

واما حكم الطلاق فزوال الملك عن المحل.....وزوال حل العقد متى ثم ثلاث.....(تاتارخانية ٣٧٧/٤ زكريا ديوبند)

سوال:-طلاق کے لغوی اور شرعی معنی تحریر کریں؟

جواب:-طلاق کے لغوی معنی ترک کرنا یا چھوڑ دینا ہے اور شریعت کی اصطلاح میں کہتے ہیں اپنے بیوی منکوحہ کو مخصوص کہ لفظ کے ذریعہ سے قید نکاح سے ازاد کرنا ہے-

الطلاق في الغة: ازالة القيد والتخلية وفي الشرع ازالة ملك النكاح.....(قواعد الفقه: ٢١٢،اشرفيه ديوبند)

وهو لغة رفع القيد وشرعا رفع قيد النكاح في الحال او المال بلفظ مخصوص هو ما اشتمل على الطلاق.......(الدر المختار مع الشامي: ٤٢٣/٤-٤٢٦،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

اما تفسيره شرعا فهو رفع قيد النكاح حالا او مالا بلفظ مخصوص كذا في البحر الرائق....(الهندية:٤١٥/١،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

سوال:-طلاق کا مسنون طریقہ کیا ہے مدلل بیان کریں؟

الجواب:-طلاق کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ عورت کو پاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے ایک طلاق کے بعد عدت کے اندر اگر چاہے تو رجوع کر لے اور رجوع نہ کرنا چاہیں تو عدت گزرنے کے بعد عورت ازاد ہوگی پھر وہ عورت کسی اور سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے اس کو شریعت میں طلاق احس کہتے ہیں-

فالاحسن ان يطلق الرجل امراته تطليقة واحدة في طهر لم يجامعها فيه ويتركها حتى تنقض عدتها لان الصحابة رضي الله عنهم كانوا يستحبون ان لا يزيدوا في الطلاق على واحدة حتى تنقض العدة.....(هدايه: ٣٧٥/٢،كتاب الطلاق، زمزم ديوبند)

طلقة رجعية فقط في طهر لا وطاء فيه وتركها حتى تمض عدتها احسن بالفسبة الى البعض الآخر......(الدر المختار مع الشامي ٤٣٢/٤،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

فالاحسن: ان يطلق امراته واحدة رجعية في طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقض عدتها او كانت حاملا قد استبان حملها.....(الهنديه: ٤١٥/١،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

سوال:-مدت رضاعت کیا ہے اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو اس کی بھی وضاحت کریں؟

الجواب:-مدت رضاعت کے سلسلے میں ائمہ کرام اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کی مدت ڈھائی سال ہے اور حضرات صاحبین کے یہاں مدت رضاعت دو سال ہے اور یہی قول امام شافعی کا بھی ہے اور حضرت امام زفر کے نزدیک تین سال ہے-

هو حولان ونصف عنده وحولان فقط عندهما وهو الاصح فتح وبه يفتى كما في تصحيح القدوري.....(الدر المختار مع شامي: ٣٩٤/٤،كتاب النكاح باب الرضاع،زكريا ديوبند)

ثم مدة الرضاع ثلثون شهدا عند ابي حنيفة و قالا سنتان وهو قول الشافعي وقال زفر ثلاثة احوال لان الحول حسن للتحول من حال ابي حال.....(هداية:٣٧١/٢،كتاب النكاح باب الرضاع،زمزم ديوبند)

وقت الرضاع في قول ابي حنيفة رحمه الله عليه مقدر بثلاثين شهرا وقال مقدر جحولين......(هنديه: ٤٠٩/١،كتاب النكاح،الشرفيه ديوبند)

سوال:-حرمت مصاہرت کسے کہتے ہیں اور اس کا شرعا کیا حکم ہے نیز کن کن چیزوں سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتا ہے اور کن چیزوں سے نہیں تفصیل بیان كري

الجواب:-ازدواجي تعلق قائم ہو جانےكي بنا پر جو رشتے حرام ہو جاتے ہیں اس کو حرمت مصاہرت کہتے ہیں اور اس کا حکم یہ ہے کہ اس کی وجہ سے یہ عورتیں حرام ہو جاتی ہے-مثل: ساس بیوی کی بیٹی جو دوسرے سے ہو اگر وہ اپنے بیوی سے جماع کیا ہو بیٹے کی بیوی پوتے کی بیوی سو تیلی ماں سوتیلی دادی وغیرہ، اور حرمت مصاہرت جس طرح نکاح سے ثابت ہو جاتی ہے اس طرح زنا اور شرائط معتبرہ کے ساتھ دواعی زنا سے بھی ثابت ہو جاتی ہے یا اس عورت کو شہوت کے ساتھ کسی جائل کے بغیر چھولے یا شہوت کے ساتھ اس کی شرمگاہ کے اندرونی حصہ کی طرف دیکھ لے تو حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے یعنی اس عورت کے اصول و فرو ع مرد پر حرام ہو جائیں گے اور اس مرد کے اصول و فروع عورت پر حرام ہو جائیں گے اور اس کے علاوہ چیزوں سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی-

وحرم بالمصاهرة بنت زوجته الموطوءة واما زوجته وجداتها مطلقا بمجرد العقد الصحيح وان لم توطا الزوجه.... وزوجة اصله وفروعه مطلقا.... وحرم الكيل ممامر تحريمه نسبا ومصاهرة رجاعا.... وحرم ايضا بالصهرية اصلي مزنيته..... واصلي ممسوسته بشهوة..........(الدر المختار:١٠٤/٤-١٠٨ كتاب النكاح، زكريا ديوبند)

المصاهرة عند الفقهاء هي حرمة الختونة....( قواعد الفقه:٤٩، باب الميم ،دار الكتاب ديوبند)

وتثبت حرمة المصاهرة بالنكاح الصحيح دون الفاسد..... فمن زني بامراة حرمت عليه امها وان علت وابنتها وان سفلت وكذا تحرم المزني بها على اباء الزاني و اجداده وان علوا...(الهنديه: ٣٣٩/١،كتاب النكاح باب الثالث في بيان المحرمات زكريا ديوبند)

١.سوال:-کن دو عورتوں کو جمع کرنا نکاح میں درست نہیں ہے اگر اس کے لیے کوئی ضابطہ ہو تو اس کی بھی وضاحت کریں؟

الجواب:-ہر وہ دو عورت جن میں سے ایک مذکر ماننے کی صورت میں دوسری سے نکاح کرنا درست نہ ہو مثلا دو بہنیں پھوپھی بھتیجی خالہ بھانجی وغیرہ-فقط واللہ اعلم

ولا يجمع بين امراتين لو كانت احدهما رجلا لم يجزله ان يتزوج بالاخرى: لان الجمع بينهما يغض الى القطيعة والقرابة المحرمة للنكاح محرمة للقطع........(هدايه: ٣٣١/٢،كتاب النكاح، زمزم ديوبند)

وحرم الجمع والطابملك يمين بين امراتين ايتهما فرضت ذكرا لم تحل للاخرى.....(الدر المختار مع شامي: ١١٦/٤،كتاب النكاح، زكريا ديوبند)

والاصل: ان كل امراتين لو صورنا احدهما من اي جانب ذكرا لم يجز النكاح بينهما برضاع او نسب لم يجز الجمع بينهما، هكذا في المحيط.......(هنديه: ٣٤٣/١،كتاب النكاح، اشرفيه ديوبند)

سوال:-حرمت رضاعت کسے کہتے ہیں اور اس کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-الرضاع:راء کے فتح اور کسرہ کے ساتھ لغت میں چھاتی چوسنے کے معنی میں اتا ہے اور شریعت کی اصطلاح میں رضاع کہا جاتا ہے رضع کا عورت کی چھاتی سے وقت مخصوص میں دودھ چوسنا خواہ وہ عورت کنواری ہو یا بوڑھی واضح رہے کہ یہاں مص سے مراد دودھ کا منقذین کے ذریعہ پیٹ میں پہنچنا ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ جو عورتیں نسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہے اس طرح وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتی ہیں-

هو لغة بفتح وكسر مص الثرى وشرعا:مص من ثرى ادمية ولو بكر اوميتة او ايسة في وقت مخصوص....... وحرم الكل مما مرتحريمة نساء.......(الدر المختار مع شامي: ٣٨٩/٤-٣٩٣،كتاب النكاح ،زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی مشرک محض نکاح کے لیے مسلمان ہو جائے تو اس کے مسلمان ہونے کا اعتبار ہے یا نہیں اور اس نکاح کا شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو اس کی بھی وضاحت کرے ؟

الجواب:-اسلام اگرچہ ایک عبادت مقصودہ ہے مگر پھر بھی اس میں نیت شرط نہیں ہے لہذا صورت مسولہ میں مشرک کا محض نکاح کے لیے اسلام لانا معتبر ہے اور وہ نکاح بھی درست ہوگا-”فقط واللہ اعلم

واما في العبادات كلها فهي شرط صجتها الا الاسلام فانه يصح بدونها بدليل قولهم: ان اسلام المكره صحيح... الخ(الاشباه والنظائر:٧٦/١ فقيه الامه ديوبند)

ويجوز تزوج الكتابيات لقوله تعالى والمحسنات من الدين اوتوا الكتاب اي العفائف.....(هدايه: ٣٣٢/٢،كتاب النكاح، زمزم ديوبند )

والصحه نكاح كتابية وان كره تنزيها مؤمنة نبي مرسل مقدة بكتابي منزل......(شامي: ١٢٥/١٣٤،كتاب النكاح، زكريا،ديوبند)

سوال:-اہل کتاب سے نکاح کرنا شرعا درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے اگر ہو تو مفصل بیان کریں؟

الجواب:-اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے بشرطے کہ وہ واقعی اہل کتاب ہو یعنی یہودیہ یا نصرانیہ عورتیں ہوں دہریہ اور لا مذہب نہ ہو مگر پھر بھی ان سے نکاح کرنا مکروہ تنزیحی ہے کیونکہ کتابیہ کے ساتھ رہ کر خود مسلمان اپنا مذہب تبدیل کر دیتا ہے اس لیے اس دور میں کتابیہ سے نکاح کرنا بہتر نہیں ہے-فقط واللہ اعلم

وصح النكاح كتابية وان كره تنزيها مؤمنة ..... بكتاب وان اعتقدوا المسيح اليها وكذا حل ذبيحتهم على المذهب.....(الدر المختار ما شمي:١٢٥/٤-١٣٤،كتاب النكاح، زكريا ديوبند)

ويجوز للمسلم نكاح الكتابية الحرية والزمية حرة كانت او امراة كتاب في محيط السرخي والاولى ان لا يفعل.....(هنديه: ٣٤٧/١،كتاب النكاح، الشافيه ديوبند)

سوال:-محرمات ابدیہ کا مطلب کیا ہے اور ان میں کون کون سی عورتیں داخل ہے یہ وضاحت تحریر کریں؟

الجواب:-محرمات ابدیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتیں جن سے نکاح کرنا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے اور ان میں تین قسم کی عورت داخل ہے ہیں(1) نسب کی وجہ سے حرام ہوتا ہے اپنے اصول و فروع اور اپنے ماں باپ کے وصول و فروع ہیں (2) رضاعت کی وجہ سے وہی عورتیں حرام ہوتی ہے جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہے(3) مصاہرت کی وجہ سے یعنی نکاح کی وجہ سے یہ عورتیں حرام ہیں ساس بیوی کی بیٹی بیٹے کی بیوی پوتے کی بیوی وغیرہ

اسباب التحريم انواع قرابة مساهرة رضاع...... حرم على المتزوج ذكرا كان او انثى نكاح اصله وفروعه علا او نزل وبنت اخيه واخته وبنتها وعمته وخالته وحرم بالمصاهرة بنت زوجته الموطوءة وام زوجته......(الدر المختار مع شامى:٩١/٤-١٠٥،كتاب النكاح زكريا ديوبند)

المحرمات بالنسب وهن الامهات والبنات والاخوات....... المحرمات غير نسب: وهي اربع فرق: امهات الزوجات.... وبنات الزوجة......(هنديه: ٣٣٩/١،كتاب النكاح الاشرفيه ديوبند)

١.سوال:-جہیز کا شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو اس کی بھی وضاحت کریں؟

جواب:-لڑکی والے اگر اپنی بچی کو شادی کے موقع پر اپنے حیثیت کے مطابق رسم و رواج کی رعایت رکھے بغیر بلا کسی چیز و دباؤ کے اپنی خوشی سے جو چاہیں دے شرعا اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ممانعت اس صورت میں ہیں جب کہ جہیز کے نام پر لڑکے والوں کی طرف سے صراحتا یا دلالتا لڑکی والوں کو زبردستی جہیز ادا کرنے پر مجبور کیا جائے جیسا کہ عام رواج ہو گیا ہے اس کی شرعا قطعا اجازت نہیں بلکہ کھلا ہوا جبر وہ ظلم ہے

لوزفت اليه بلا جهاز يليق به فله مطالبه لاب بالنقد قنية زاد في البحر عن المبتغي: الا اذا سكت طويلا فلا خصومة له لكن في النهر عن البزازية....الخ(الدر المختار مع الشامي: ٣١٠/٤-٣١١،كتاب النكاح، زكريا ديوبند)

قال الامام المر غيناني: الصحيح انه لا يرجع على اب المراة بشيء لان المال في النكاح غير مقصود.....(هنديه: ٣٩١/١،كتاب النكاح، اشرفيه ديوبند)

لوزفت اليه بلا جهاز يليق به فله مطالبة الاب بالنقد..... الا اذا سكت طويلا فلا حصومة له لكن في النهر عن البزازية الصحيح ان لا يرجع على الاب.....(البحر الرائق: ١٨٦/٣،كتاب النكاح ،کوئٹ)