سوال:-اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور رخصتی سے پہلے کسی بات پر ناراض ہو کر اپنے بیوی سے یہ کہے کہ تجھ کو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے یا یہ کہے دے کہ تجھ کو تینوں طلاق ہے تو ان دونوں صورتوں میں کیا حکم ہے دونوں صورتوں میں ایک حکم ہوگا یا الگ الگ اگر ایک ہو تو کیوں اگر الگ الگ ہو تو کیوں مدلل المفصل بیان کریں؟
الجواب:-مسئولہ صورت میں اگر تین طلاق الگ الگ جملوں سے دی ہے تو اس کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور باقی دو طلاقیں واقع نہیں ہوگی کیونکہ غیر مد خول بہا ایک طلاق سے بائن ہو جاتی ہے یعنی محل باقی نہیں رہتا ہے اس لیے باقی دو واقع نہیں ہوگی اور بیوی پر عدت گزارنا بھی لازم نہیں ہے پھر اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو اس عورت سے نئے مہر و گواہوں کے موجودگی میں تجدید نکاح کر سکتے ہیں لیکن ائندہ کے لیے دو طلاق کا مالک رہے گا اور اگر تینوں طلاق اکھٹی ایک ہی جملہ سے دیی ہو تو اس صورت میں تینوں طلاق واقع ہو جائے گی اور بیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی اب رجوع کرنا جائز نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ عورت حلالہ شرعی کرنے کے بعد اس سے نکاح کرنا چاہے تو اب درست ہے اس تفصیل سے دونوں صورتوں کے درمیان فرق ہوگا-
قال لزوجته غير المدخول بها انت طالق ثلاثا....... وقعن لما تقرد انه متى..... وان فرق بوصف او خبر او جمل..... بانت بالاولى الا الى عدة وكذا لم تقع الثانيه........ وكذا انت طالق ثلاثا متفرقات او..... واحدة....(رد المختار: ٥٠٩/٤-٥١٢،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)
واذا قال لامراته انت طالق وطالق وطالق ولم يعلقه بالشرط ان كانت مدخوله طلقت ثلاثا وان كانت غير مدخوله طلقت واحدة.....(الهندية:٤٢٣/١،كتاب الطلاق اشرفيه ديوبند)
واذا اطلق الرجل امراته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها لان الواقع مصدر عزوف لان معناه طلاقا ثلاثا...... فان فرق الطلاق بانت بالاولى ولم تقع الثانية والثلاثة الخ......(هدايه: ٢٩٠/٢، كتاب الطلاق ،زمزم ديوبند)