سوال:-لڑکی والے اپنی لڑکی کو بلا کسی کے دباؤ اور خواہش کے اپنی حیثیت کے اعتبار سے کوئی سامان دے دے تو اس میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں جب لڑکی والے اپنی مرضی و خوشی سے جہیز دیں اپنی بیٹی کو اپنی حیثیت کے مطابق اور اس میں کوئی ریا نمود وغیرہ نہ ہو تو جہیز لے سکتے ہیں ناجائز نہیں ہے البتہ اس صورت میں بھی نہ لے اور خوش اسلوجی سے منع کر دے تو یہ اولی اور بہتر ہے خصوصا علماء طلباء حضرات کو ،ورنہ عوام علماء کو دیکھ کر دلیل پکڑے گی اور جہیز میں ان کے مطالبات پڑ جائیں گے اور منہ پھٹ اور جاہل قسم کے لوگوں کو کوں سمجھائے گا، لہذا علماء و مقتدی حضرات کا بچنا ہی بہتر ہے-

عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من أعظم النكاح بركة ايسره مؤنة(مشكاة المصابيح)

عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المتباريان لا يجابان ولا يؤكل طعامهما قال الإمام احمد: يعني المتعارضين باضيافة فخرا ورباء(مشكاة المصابيح شعب الامام للبيهقي:١٨٢/٨،حديث: ٥٦٦٧،دار الكتب العلمية بيروت )

سوال:- رشتہ پکا کرنے کے لیے لڑکی والے لڑکے والے کو کچھ رقم دیتے ہیں اور لڑکے والے لڑکی کو کچھ انگوٹھی وغیرہ دیتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟

الجواب:-جانبین سے بغیر کسی شرط اور دباؤ کے آپس میں بغیر غلو اور تشدد کے لین دین جائز ہے اس کی حیثیت ہدیہ و تحائف کی ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں صلہ رحمی کی قائم کرنے کے لیے ہدیہ کا مشورہ دیا کرتے تھے-

عن انس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم بأمر بالهدية صلة بين الناس ويقول لو قد اسلم الناس تهادوا من غير جوع(المعجم الكبير للطبراني:٣٦٠/١،دار احياء التراث العربي)

عن انس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم بأمر بالهدية صلة بين الناس ويقول لو قد اسلم الناس تهادوا من غير جوع(المعجم الكبير للطبراني:٣٦٠/١،دار احياء التراث العربي)

سوال:-لڑکی والوں کا اپنی لڑکی کو رخصت کرتے وقت دوست و احباب کو کھانا کھلانا صحیح ہے یا نہیں؟دور ثبوت اور دور صحابہ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے یا نہیں؟

الجواب:-لڑکے والوں کے یہاں ولیمہ کے کھانا کھلانے کے متعلق جس درجہ کی روایت حدیث شریف سے ثابت ہے اسی درجہ کی روایت لڑکی والوں کے یہاں کھانا کھلانے سے متعلق ثابت نہیں ہے البتہ اس سے نیچے درجہ کی روایت ثابت ہے “مصنف عبد الرزاق:٤٨٧/٥،حديث: ٩٧٨٢،اور المعجم الكبير طبراني:٤١١/٢٢،حديث: ١٠٢٢”میں اس بارے میں مفصل روایت موجود ہے مگر روایت نیچے درجہ کی ہے اس لیے لڑکی والوں کے یہاں کھانا کھلانے کو مسنون نہیں کہا جا سکتا ہاں البتہ یہ اختیاری عمل ہے لڑکی والوں کا اس کو مباح اور جائز کہہ سکتے ہیں وہ اپنی حسب استطاعت اپنی مرضی سے جو چاہیں کھلائیں کسی کو دباؤ ڈالنے کا حق نہیں ہے -(المستناد فتاوی قاسمیہ:٥٥٣/١٢)

وفي حديث طويل: قال علي: يا رسول الله! متى تبنيني؟ قال: الليلة ان شاء الله ثم دعا بلالا، فقال: يا بلال! اني قد زوجت ابنتي ابن عمي وأنا أحب أن يكون من سنة امتي الطعام عبد النكاح، فات الغنم(المعجم الكبير دار أحياء التراث العربي: ٤١١/٢٢،رقم:١٠٢٢)

سوال:-فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے یا ویڈیو کل کے ذریعے نکاح شرعا درست ہے یا نہیں اگر درست ہے تو کیوں اگر درست نہیں ہے تو کیوں نیز کیا کوئی ایسی صورت ہے جس سے مذکرہ نکاح صحیح ہو جائے مفصل مدلل بیان کریں؟

جواب:-اس صورت میں نکاح صحیح نہیں ہے کیونکہ نکاح درست ہونے کے لیے حجاب و قبول کی مجلس ایک ہونا اور اس میں جانب ائین میں سے دونوں کا خود موجود ہونا یا ان کے وکیل کا موجود ہونا ضروری ہے نیز مجلس نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ موجود ہونا اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی ضروری ہے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے مثلا واٹس ایپ اڈیو کل وغیرہ پر نکاح میں مجلس کی شرط موجود ہوتی ہے کیونکہ شرعا نہ تو یہ صورت حقیقت مجلس کے حکم میں ہے اور نہ ہی حکمت بلکہ فریقین دو مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں جبکہ ایجاب کو قبول کے یہ عقیدہ اور گواہ ہوگی مجلس ایک ہونا ضروری ہے اور وہاں نہیں ہے یہاں اس صورت میں ایک شکل درست ہے جب کہ لڑکا لڑکی دونوں واٹس ایپ ویڈیو کل وغیرہ پر ہو اور ایک جگہ عقد نکاح مجلس منعقد کی جائے اور لڑکا اور لڑکی کے وکیل عقد نکاح کی مجلس میں موجود ہو اور انہوں نے ان کی طرف سے گواہ ہو کے سامنے ایجاب و قبول کیا تو ایسی صورت میں نکاح ہو جائے گا باقی شرائط کے مطابق،فقط واللہ اعلم

ومن شرايط الايجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرين وان طال كالمخيرة..... الآخر (رد المختار مع شامي: ٧٦/٤ كتاب النكاح، زكريا ديوبند)

و في الفتح القدير: ويجوز لواحد ان ينفرد يعقد النكاح عند الشهودي على اثنين اذا كان وليالهما او وكيلا عندهما ....(فتح القدير: ٢٩٩/٣)

ان يكون الاجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كان حاضرين فاوجب احدهما.....(الهنديه: ٣٣٤/١،كتاب النكاح، زكريا ديوبند)

سوال:-تعلیم قران یا خدمت وغیرہ کو مہر بنانا شرعا درست ہے یا نہیں اگر درست ہے تو کیوں اگر درست نہیں تو کیوں اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو اس کی بھی وضاحت کریں؟

جواب:-صورت مسئولہ میں نکاح تو درست ہو جائے گا البتہ تعلیم قران خدمت وغیرہ کو مہر بنانا شرعا درست نہیں ہے کیونکہ یہ چیزیں مال نہیں ہے حالانکہ کلام پاک میںں اللہ تعالی نے فرمایا کہ نکاح مال کے عوض طلب کرو یعنی مہر مال ہونا چاہیے اور تعلیم قران وغیرہ مال نہیں ہے لہذا اس کو مہر بنانا بھی درست نہیں ہوگا یہ تفصیل احناف کے نزدیک ہے اور مہر مثل واجب ہوگا احناف کے نزدیک اور امام شافع نے تعلیم قران وغیرہ کو مہر بنانے کو جائز قرار دیا ہے

وفي حدمة زوج حد سنة للامهار.... وفي تعليم القران اي يجب مهر المثل فيما لو تزوجها على اي يعلمها القران او نحوه من الطاعات....... لهذا ذكر في فتح القدير هنا انه لما جوز الشافعي اخذ الاجر......(رد المختار مع شامي: ٢٤٠/٤،كتاب النكاح باب المهر، زكريا ديوبند)

او تزوجها بتعليم القران لانه ليس بمال او بخدمة الزوج الحر لها سنه لان الخدمة ليس بمال لما فيه من قلب الموضوع فيجب مهرا المثل... وعند الشافعي: كل ما يجوز اخذ العوض عنه يصلح مهرا فتعلم القران... والعفو عن القصاص يصلح مهرا عنده......(مجمع الانهر: ٥٠٩/١-٥١٢،كتاب النكاح فقيه الامة ديوبند)

وان تزوجها..... على خدمته سنة او تعليم القران جاز النكاح ولها مهر المثل...(كتاب الاختيار للتعليل المختار: ١٣٠/٣،كتاب النكاح فقيه الامة ديوبند)

سوال:-مہر محمدی، مہر شرعی اور مہر فاطمی سب ایک ہیں یا الگ الگ یا اس میں کوئی تفصیل ہے مفصل بیان کریں؟

الجواب:-مہر محمدی مہر شرعی اور میرے فاطمی سب ایک ہے یا الگ الگ اس کا مدار عرف پر ہے جہاں جس طرح کا عرف ہے وہاں وہی معنی معتبر ہوگا یعنی بعض جگہ اور علاقہ میں مہر فاطمی ہی کو مہرے محمدی یا مہر شرعی کہا جاتا ہے البتہ عقد کے وقت تعین کرنا بہتر ہے تاکہ بعد میں جھگڑا وغیرہ نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم۔

قوله وعندنا على العرف لان التكلم انما يتكلم بالكلام العرف اعني الالفاظ التي يراد بها معانيها التي وضعت لها في العرف كما ان العرف حال كونه بين اهل اللغة انما يتكلم بالحقائق ... فوجبه صرف الفاظ ي متكلم الى ما عهد انه المراد بها فتح...(شامي: ٧٤٣/٣،ط: بيروت)

الاصل ان الجواب السوائل يجري على حسب ما تعارف ... في مكانهم..(وصول الكرخي:١٠،ط: زكريا ديوبند)

عربي سلمة انا عبد الرحمن انه قال سئلت عائشة كم كانت صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت كان صداقه بازواجه ستة عشرة اوقية او نشا...(مسند احمد: باب الصداق رقم الحديث:٦٩٢٧)

١.سوال:-کن کن عورتوں سے نکاح کرنا درست ہے اور کن عورتوں سے نکاح کرنا درست نہیں ہے وضاحت کے ساتھ بیان کریں؟

الجواب:-جن عورتوں سے نکاح کرنا درست نہیں ہے وہ درج ذیل ہیں(1) ماں، چاہے حقیقی ہو یا سوتلی اس طرح نانی اور دادی(2) بیٹی پوتی اور نواسی(3) بہن ،چاہے حقیقی ہو یا سوتیلی یعنی ماں شریک ہو یا باپ شریک(4) پھوپھی والد کی بہن چاہے سگی ہو یا سوتیلی(5) خالہ چاہے سگی ہو یا سوتیلی (6)بھتیجی (7)بھانجی (8)رضاعی ماں (9)رضاعی بہن(10) رضاعی پھوپھی(11) رضاعی خالہ (12)رضاعی بھتیجی(13) رضاعی بھانجی(14) بہو یعنی بیٹے کی بیوی(15) دو بہنوں کو ایک ساتھ جمع کرنا مذکورہ بالا محرمات کے علاوہ اور بھی کئی ایسی عورتیں ہیں جن سے نکاح حرام ہوتا ہے مثلا بیوی کے انتقال یا طلاق کے بعد عدت میں بیوی کے بہن یعنی سالی اس کی خالہ بھانجی وغیرہ اور مذکورہ بالا عورتوں کے علاوہ عورتوں سے نکاح کرنا درست ہے مثلا چچا کی بیٹی ،خالہ کی بیٹی ،ماموں کی بیٹی وغیرہ-فقط اللہ اعلم

حرمت عليكم امهتكم وبنتكم واخوتكم وعماتكم وخالتكم و وبنت الاخ وبنت الاخت...... الخ (سورة النساء،رقم الآية:٢٣)

قال لا يحل الرجل ان يتزوج بامه ولا جراته من قبل الرجال والنساء ولا بينته ولا بينت ولده وان سفلت للاجماع ولا باخته ولا ببنا اخته ولا ببنات اخيه ولا بعمته..... الخ (هدايه: ٣٢٩/٢،كتاب النكاح، زمزم، ديوبند))

واحل لكم ما وراء ذلكم ان تبتغوا باموالكم محسنين غير مسافحين......... الخ(سورة النساء: رقم الاية:٢٤)

ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دی پھر ایک حیض گزر جانے کے بعد اس نے دو طلاقیں اور دیں اب مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ اس عورت کے لیے از سرِ نو عدت گزارنا ضروری ہے یا طلاق رجعی کے بعد آنے والا حیض بھی عدت میں شمار ہوگا۔

الجواب وبالله التوفيق: مسؤلہ صورت میں از سرنو عدت گزارنا ضروری نہیں ہے، بلکہ طلاق رجعی کے بعد آنے والا حیض بھی عدت میں شمار ہوگا۔

عن عبد الله قال في طلاق السنة يطلقها عند كل طهر تطليقة فإذا طهرت الثالثة طلقها وعليها بعد ذلك حيضة. (سنن ابن ماجة/كتاب الطلاق، ص: ٢٦٢، ط: رحمانية)

ثم إذا وقع عليها ثلاث تطليقات في ثلاثة أطهار۔ فقد مضى من عدتها حيضتان إن كانت حرة؛ لأن العدة بالحيض عندنا، وبقيت حيضة واحدة، فإذا حاضت حيضة أخرى فقد انقضت عدتها. (بدائع الصنائع/كتاب الطلاق، ١٨٩/٤، ط: بيروت)

ثم إذا أوقع الثلاثة في ثلاثة أطهار فقد مضت من عدتها حيضتان إن كانت حرة، فإذا حاضت حيضة انقضت، وإن كانت أمة فبالطهر من الحيضة الثانية باتت ووقع عليها ثنتان. (فتح القدير/كتاب الطلاق، ٤٤٩/٣، ط: بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تجھے طلاق ہے تو گھر سے نکل جا ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی نکاح نہیں ہے تو ایسی صورت میں کتنی طلاق واقع ہوگی مدلل بیان کریں؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں تین طلاق واقع ہوگی کیونکہ تجھے طلاق ہے ایک طلاق ہوئی اس سے پھر اس کے بعد متصلا دو الفاظ طلاق اور بولے ہیں لہذا تین طلاق واقع ہوگی دوسری بات یہ ہے کہ الفاظ طلاق مقرر بولنے سے مقرر طلاق یعنی متعود طلاق ہوتی ہے لہذا صورت مسئولہ میں تین طلاق واقع ہوگی-

لو كدر لفظ الطلاق وقع الكل وان نوى التاكيد دين اي وقع الكل قضاء......(الدر المختار مع الشامي: ٥٢١/٤،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

ولو قالت مرا طلاق كن مرا طلاق فقال كردم كردم تطلق ثلاثا وهو الاصح.......(الهنديه: ٣٨٤/١ كتاب الطلاق ،زكريا ديوبند)

وفي انت الطلاق او انت طالق الطلاق او انت طالق طلاقا يقع واحدة رجعية ان لم بنو شيئا او نوى واحدة او ثنتين لانه صريح مصدر لا يحتمل العدد فانما ثلاث فثلث.....(الدر المختار مع الشامي: ٤٦٣/٤،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی اپنی بیوی سے یہ کہے دے کہ تجھ کو تینوں جواب ہیں تو ایسی صورت میں شرعا کتنی اور کون سی طلاق واقع ہوگی کیا اس صورت میں عرف کے اعتبار سے کوئی فرق ہوگا یا نہیں اگر فرق ہو تو کیوں اگر نہیں تو کیوں؟

الجواب:-مسئولہ صورت میں اگر وہاں کا عرف میں یہ لفظ صریح طلاق کے طور پر استعمال ہونے لگا تو اس سے تین طلاق مغلظہ واقع ہوگی کیونکہ یہ لفظ صریح ہے اور ایک ہی مرتبہ میں تین بولا لہذا تین ہی واقع ہوگی اور اگر ایسا نہ ہو یعنی وہاں کے عرف میں یہ لفظ صریح کے طور پر استعمال نہ ہوتا ہے تو پھر اس سے تین طلاق بائن واقع ہوگی اور اس میں نیت کی حاجت نہیں ہے کیونکہ یہ لفظ کنائی صریح ہے-

وان كان الطلاق ثلاثا في الحرة او ثنتين في الامة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا......(الهندية:٤٧٣/١،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

واما ضرب الثاني وهو الكنايات لا يقع بها الطلاقا الا بالنية وبدلالة الحال لانها غير موضوعة للطلاق بل تحتمله وغيره فلو بد من التعين او دلالته......(الهنديه: ٣٩١/٢،كتاب الطلاق، زمزم ديوبند)

لو قال اكثر الطلاق او انت طالق مرار اتطلق ثلاثا ان كان مدخولا بها....(شامي: ٥٠٤/٤ كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تجھ کو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے تو ایسی صورت میں کون سی اور کتنی طلاق واقع ہوگی اور اس کا شرعا کیا حکم ہے نیز اگر شوہر یہ کہے کہ میری نیت ایک طلاق کی تھی تو ایسی صورت میں کیا حکم ہے مدلل بیان کریں؟

الجواب:-اگر کوئی شخص اپنے بیوی کو صریح الفاظ کے ساتھ طلاق دے تو اس سے ہر حال طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ نیت کرے یا نہ کرے اور جتنی مرتبہ کلمہ طلاق کو دہرائے گا اتنی طلاق واقع ہوگی لہذا مسئولہ صورت میں تین طلاق مغلظہ واقع ہوگی بشرطے کے بیوی مدخول بہا یا اس کے ساتھ خلوت صحیحہ ہو چکی ہو کیونکہ یہ لفظ صریح ہے اور اسے تین مرتبہ دہرایا گیا ہے اور شوہر کی بات معتبر نہیں ہوگی اور شرعا وہ بیوی ان پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہو گئی ہے اب ان دونوں کے لیے بغیر حلالہ شرعی کے ایک ساتھ ازدواجی زندگی گزارنا قطعا جائز نہیں ہے-

فان طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره......الخ( سورة البقرة: رقم الاية:٢٣)

وان الطلاق ثلاثا في الحرة.... تقع الثلث.... لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم لطلقها او عوت عنها.....(الهندية:٤٧٢/١،كتاب الطلاق ،زكريا ديوبند)

لو قال اكثر الطلاق او انت طالق مراة في البحر عن الجوهرة: لو قال انت طالق مرارا اتطلق ثلاثا ان كان مدخولا بها......(الدر المختار مع الشامي: ٥٠٤/٤،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تجھ کو جواب ہے جواب ہے جواب ہے تو ایسی صورت میں کونسی اور کتنی طلاق واقع ہوگی ایا عرف کے اعتبار سے حکم بدل سکتا ہے اگر بدل سکتا ہے تو دونوں طرح جواب تحریر کریں؟

الجواب:-فقہاء کرام نے تجھ کو جواب ہے کو الفاظ کنائی میں شمار کیا ہے اس کی دو سے دو صورت مسولہ میں ایک طلاق بائن واقع ہوگی تجھ کو جواب ہے اور دو مرتبہ کہاں ہیں اس سے کوئی طلاق نہیں پڑے گی کیونکہ فقہ کا قاعدہ ہے البائن لا یلحق البائن لہذا اس سے ایک طلاق بائن ہی پڑے گی لیکن بعض علاقوں میں یہ لفظ صریح طلاق کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے تو اس کی دو سے صورت مسئولہ میں تین طلاق مغلظہ واقع ہوگی کیونکہ الفاظ صریح کو جتنی مرتبہ دہرائے گا اتنی ہی طلاق واقع ہوگی اور یہاں تین مرتبہ دہرایا ہے لہذا اس سے تین طلاق مغلظہ واقع ہوگی ….

ولو قال اكثر الطلاق او انت طالق مرارا..... لطلق ثلاث..... ان كان مدخولا بها فثلاث هو المختار....(شامي :٥٠٤/٤،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

واذا قال لامراته :انت طالق وطالق وطالق ولم يعلقه بالشرط ان كانت مدخولة طلقت ثلاثا وان كانت غير مدخولة طلقت واحدة.....(الهندية: ٤٢٣/١،كتاب الطلاق، اشرفية ديوبند)

فان سرحتک كتابة لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح ..... مع ان اصله كناية ايضا.....(شامي: ٥٣٠/٤ كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور رخصتی سے پہلے کسی بات پر ناراض ہو کر اپنے بیوی سے یہ کہے کہ تجھ کو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے یا یہ کہے دے کہ تجھ کو تینوں طلاق ہے تو ان دونوں صورتوں میں کیا حکم ہے دونوں صورتوں میں ایک حکم ہوگا یا الگ الگ اگر ایک ہو تو کیوں اگر الگ الگ ہو تو کیوں مدلل المفصل بیان کریں؟

الجواب:-مسئولہ صورت میں اگر تین طلاق الگ الگ جملوں سے دی ہے تو اس کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور باقی دو طلاقیں واقع نہیں ہوگی کیونکہ غیر مد خول بہا ایک طلاق سے بائن ہو جاتی ہے یعنی محل باقی نہیں رہتا ہے اس لیے باقی دو واقع نہیں ہوگی اور بیوی پر عدت گزارنا بھی لازم نہیں ہے پھر اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو اس عورت سے نئے مہر و گواہوں کے موجودگی میں تجدید نکاح کر سکتے ہیں لیکن ائندہ کے لیے دو طلاق کا مالک رہے گا اور اگر تینوں طلاق اکھٹی ایک ہی جملہ سے دیی ہو تو اس صورت میں تینوں طلاق واقع ہو جائے گی اور بیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی اب رجوع کرنا جائز نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ عورت حلالہ شرعی کرنے کے بعد اس سے نکاح کرنا چاہے تو اب درست ہے اس تفصیل سے دونوں صورتوں کے درمیان فرق ہوگا-

قال لزوجته غير المدخول بها انت طالق ثلاثا....... وقعن لما تقرد انه متى..... وان فرق بوصف او خبر او جمل..... بانت بالاولى الا الى عدة وكذا لم تقع الثانيه........ وكذا انت طالق ثلاثا متفرقات او..... واحدة....(رد المختار: ٥٠٩/٤-٥١٢،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

واذا قال لامراته انت طالق وطالق وطالق ولم يعلقه بالشرط ان كانت مدخوله طلقت ثلاثا وان كانت غير مدخوله طلقت واحدة.....(الهندية:٤٢٣/١،كتاب الطلاق اشرفيه ديوبند)

واذا اطلق الرجل امراته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها لان الواقع مصدر عزوف لان معناه طلاقا ثلاثا...... فان فرق الطلاق بانت بالاولى ولم تقع الثانية والثلاثة الخ......(هدايه: ٢٩٠/٢، كتاب الطلاق ،زمزم ديوبند)

سوال:اگر مقتدی امام کے ساتھ رکوع نہ کر سکے بلکے امام کے رکوع کے اٹھنے کے بعد رکوع کر لے تو مقتدی کی وہ رکعت شمار ہوگی یا نہیں ؟

الجواب و باللہ التوفیق:-اگر مقتدی امام کے ساتھ رکوع نہ کر سکے بلکہ امام رکوع سے فارگ ہونے کے بعد رکوع کر کے امام کے ساتھ شامل ہو جائے تو مقتدی کی وہ رکعت بالاتفاق شمار ہوگی یعنی مقتدی اس رکعت کو پانے والا ہوگا اس پر سجدہ سہو لازم نہ ہوگا –//شامی ج:٢،ص:٥١٦ زکریا –// بداءع،ج:١،ص:٥٦٢ زکریا –//البنایہ ج:٢،ص:٥٧٨ اشرفیہ

(١) إذا انتهى إلى الإمام وهو قائم يكبر ولم يركع معه حتى رفع الامام راسه من الركوع ثم ركع أنه يدرك الركعة بالاجماع....(البناية شرح الهداية)2/578،ط اشرفية

(٢) بخلاف ما لو أدركه في القيام ولم يركع معه فإنه يصير مدركا لها فيكون لاحقا فياتي بها قبل الفراغ أي أنه ياتي بها قبل متابعة الإمام فيما بعدها حتى لو تابع الإمام ثم أتى بعد فراغ إمامه بما فاتته صح وأثم لترك واجب الترتيب...(الدر المختار مع الشامي) 2/516،ط زكريا