سوال:- مقتدی کو جماعت کے لیے کسی وقت کھڑا ہونا چاہیے اقامت کے ابتداء میں یا کسی خاص کلمہ پر ضروری نہیں تو پھر حدیث کے اندر کسی خاص کلمہ کا ذکر ہے یا نہیں اگر ہو تو اس کا مطلب کیا ہے مفصل بیان کریں؟

الجواب:-اگر امام سامنے یعنی محراب کی طرف سے مصلہ پر ائے تو مقتدیوں کو امام کو دیکھتے ہی کھڑے ہو جانا چاہیے اور اگر پیچھے کی طرف سے آرہا ہو تو جس صف کے پاس سے امام گزرے وہ صف والوں کو کھڑا ہو جانا چاہیے لیکن اگر امام پہلے سے ہی اپنی جگہ پر موجود ہو تو اقامت کے شروع ہوتے ہی امام اور مقتدیوں کو کھڑے ہو جانا چاہیے تاکہ نماز شروع ہونے سے پہلے صفیں سیدھی ہو جائے کسی خاص کلمہ پر کھڑا ہونا ضروری نہیں ہے اگرچہ بعض روایات میں حی علی الصلاۃ کے وقت کھڑا ہونے کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد بھی بیٹھے نہ رہے یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کھڑا نہ ہو لہذا اس سے پہلے کھڑے ہونے میں کچھ حرج نہیں ہے-

دخل المسجد والمؤذن يقيم قعد الى قيام الامام في مصلاة..... يكره له ان يؤذن في مسجدين ولاية الاذان والاقامة لباني المسجد مطلقا.... الافضل كون الامام هو المؤذن.... ويكره له الانتظار قائما.... حي على الفلاح انتهي....(در المختار مع الشامي:٧١/٢،كتاب الصلاة باب الاذان، زكريا ديوبند)

فأما إذا كان الامام خارج المسجد فإن دخل المسجد من قبل الصفوف فكلما جاوز صفا قام ذلك الصف واليه مال شمس الائمة الحواني.... وإن كان الامام دخل المسجد من قدامهم يقومون إذا راوا الإمام....(الهندية:١١٤/١،كتاب الصلاة،زكريا ديوبند)

قوله: والقيام الامام ومؤتم.... مسارعة لا متثال أمره والطاهر انه احتراز عن التأخير لا التقديم حتى لو قام او7ل الاقامة لا باس....(حاشية الطحطاوي على الدر المختار: ١٦/٢،كتاب الصلاة ،بيروت)

سوال:-طوفان،زلزلہ، بلا مصیبت کی وقت اذان دینا شرعا ثابت ہے یا نہیں اگر ثابت نہیں تو کیوں یا اس میں کوئی اختلاف ہے ہر صورت مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:-مذکورہ وقت کے لیے اذان دینا شرعا ثابت نہیں ہے لیکن اگر یہ گرد ہشت دور کرنے کی غرض سے اذان دی جائے تو گنجائش ہے جائز ہے-

عن سهيل قال ارسلني ابي الى بني حارثة قال ومعي غلام لنا او صاحب لنا فناداه مناد من حائط بأسمه قال فاشرف الذي معي على الحائط فلم يرى شيئا فذكرت لابي فقال لو شعرت انك تلقي لهذا لم ارسلك ولكن اذ سمعت صوتا فناد بالصلاة فإنى سمعت ابا هريرة رضي الله عنه يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال ان الشيطان إذا نودي بالصلاة ولي وله حصاص...(صحيح مسلم: ١٦٧/١ رقم: ٣٨٩، الصلاة فضل الاذان وهدب الشيطان عند سماعه)

الاذان في كونه سنة للفرائض فقط.... وليس لغير الصلوات الخمس والجمعة نحو السنن.... وكذا للمنذورة وصلاة.... ولافزاع....(الهندية:١١٠/١،كتاب الصلاة ،باب الثاني في الاذان، زكريا ديوبند)

قد يسن الاذان لغير الصلاة قالوا: يسن للمهموم ان يامر غيره ان يؤذن في اذنه فإنه يزيل انهم كذا عن على رضي الله عنه ونقل الاحاديث الوارده في ذلك فراجعه....(شامي:٥٠/٢،كتاب الصلاة ،باب الاذان ،زكريا ديوبند)

سوال:-عورت کے لیے اذان دینا شرعا کیسا ہے نیز اگر عورت اذان دے دے تو شرعا وہ معتبر ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت مفصل مدلل جواب تحریر کریں؟

الجواب:-عورتوں کے لیے اذان دینا شرعا مکروہ تحریمی ہے لیکن اگر کوئی عورت اذان دے دے تو اس کو دہرانا مستحب ہے البتہ اگر نہ دہرائے تو کراہت کے ساتھ جائز ہو جائے گی صاحب تاتارخانیہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے-

وهو سنة للرجال اما النساء فيكره الاذان وكذا الاقامة في مكان عال مؤكده هي كالواجب.... ويكره اذان جنب.... واذان امراة....(الدر المختار مع الشامي: ٤٨/٢-٦٠،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

وكره اذان المراة فيعاد ندبا كذا في "الكافي"(الهنديه: ١١٠/١،كتاب الصلاة، باب الثاني في الاذان، زكريا ديوبند)

قال في الأصل: وليس على النساء اذان ولا اقامة قال في الجامع الصغير والمراة اذا اذنت يعاد اذنها وان لم يعيد واجاز وذكر في الاصل ويكره اذان المراة....(الفتاوى التاتارخانية:١٤٤/٢-١٤٥،كتاب الصلاة، باب الاذان، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی نابالغ بچہ اذان دے دے تو وہ کافی ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت اطمینان بخش جواب تحریر کریں؟

الجواب:-صورت مسؤلہ میں اگر وہ نابالغ بچہ سمجھدار ہے تو ان کا اذان دینا کافی معتبر ہے کیونکہ اذان کے لیے بلوغت شرط نہیں ہے لیکن اگر وہ بچہ سمجھدار نہیں ہے تو پھر وہ غیر معتبر ہے اور اگر وہ اذان دے دے تو لوٹانا ضروری ہے-

ويجوز بلا كراهة اذان صبي مراهق.... المراد به العاقل (الدر المختار مع الشامي: ٥٩/٢،كتاب الصلاة،ط: زكريا ديوبند)

اذان الصبي العاقل صحيح من غير كراهة في ظاهر الرواية ولكن اذان البالغ افضل واذان الصبي الذي لا يعقل لا يجوز ويعاد وكذلك المجنون...(الهنديه: ١١٠/١،كتاب الصلاة، باب الثاني في الاذان، زكريا ديوبند)

اذا اذان الصبي الذي لا يعقل او مجنون يعاد ذلك وفي السراجية: اذان الصبي المراهق لا يكره....(الفتاوى التاتارخانية:١٤٥/٢،كتاب الصلاه باب الاذان ،زكريا ديوبند)

سوال:-اگر بوقت اذان دونوں کانوں کے اندر ہاتھ یا انگلی نہ رکھے یا ایک ہی کان پر ہاتھ رکھے تو شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-اذان کے وقت دونوں کانوں کے اندر ہاتھ یا انگلی رکھنا مستحب ہے کیونکہ اس سے آواز بلند ہوتی ہے اگر کوئی نہ رکھے تو مستحب ادا نہ ہوگا البتہ اذان درست ہو جائے گی اور ایک کان پر ہاتھ رکھے تو اس سلسلے میں علامہ شامی رحیم اللہ نے فرمایا کہ تب بھی مستحب ادا ہو جائے گا-

ويجعل اصبعيه في اذنيه وان لم يفعل فحسن لانه ليس بسنة أصلية وانما شرع لا جل المبالغة في الاعلام وان جعل يديه على اذنيه فحسن هكذا في "التبيين"( بافتاوى الهندية:١١٣/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

ويجعل ندبا اصبعيه في صماخ اذنيه فأذ انه بدونه حسن وبه احسن.... لقوله صلى الله عليه وسلم لبلال رضي الله عنه.... وان جعل يديه على اذنيه فحسن....(رد المختار مع الشامي:٥٤/٢،كتاب الصلاة باب الاذان،زكريا ديوبند)

والافضل للمؤذن ان يجعل اصبعيه في اذنيه قال عليه الصلاه والسلام لبلال.... اذا اذنت.... ولان المقصود من الاذان الاعلام وذلك برفع الصوت.... وان ترك لم يضره.... وما قال في الجامع الصغير فحسن....(المحيط البرهاني: ٩٠/٢-٩١،كتاب الصلاة، ادارة القرآن، پاكستان)

سوال:-قضا نماز کے لیے اذان و اقامت دونوں ضروری ہے یا نہیں یا کچھ تفصیل ہے نیز اگر کوئی شخص مسجد میں قضا نماز ادا کرے تو اس کے لیے اذان و اقامت کا شرعا کیا حکم ہے مدلل بیان کریں؟

الجواب:-فوت شدہ نمازوں کے لیے اذان اور اقامت کہنا سنت ہے یہ اس وقت ہے جب کہ فوت شدہ نماز مسجد میں نہ پڑھ رہے ہو چاہے جماعت کے ساتھ پڑھ رہے ہو یا تنہا پڑھ رہے ہوں نیز اگر کوئی مسجد میں قضا نماز پڑھ رہے ہو تو اس کے لیے اذان و اقامت کہنا مسنون نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے-

ويسن ان يؤذن ويقيم الفائتة رافعا صوته لو بجماعة.... اي في غير المسجد بقرينة ما يذكره قريبا من انه لا يؤذن فيه في للفائتة.... او مصل في مسجد بعد صلاة جماعة بل يكره فعلهما....(الدر المختار مع الشامي: ٥٧/٢-٦٣،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

ومن فائته صلاة في وقتها فقضاها اذان لها واقامة واحدا كان او جماعة هكذا في المحيط....(الفتاوى الهنديه:١١١/١،كتاب الصلاة ،اشرفيه ديوبند)

ومن فائته صلاة عن وقتها فقضاها في وقت آخر اذن لها واقام واحدا كان جماعة....(الفتاوى التاتارخانية:١٥٠/٢،كتاب الصلاة ،زكريا ديوبند)

سوال:- وقت سے پہلے اذان دینا شرعا درست ہے یا نہیں اگر کوئی شخص وقت سے پہلے اذان دے دے تو وہ شرعا کافی ہے یا نہیں یا اس میں کوئی اختلاف ہے ہر صورت مفصل و مدلل جواب تحریر کریں؟

الجواب:-وقت سے پہلے اذان دینا شرعا درست نہیں ہے اور اگر کوئی شخص وقت سے قبل اذان دے دے تو شرعا درست ہے یا نہیں اس سلسلے میں اختلاف ہے چنانچہ نماز فجر کے علاوہ باقی چار فرض نمازوں کے باری میں تو اتفاق ہے کہ وقت سے پہلے اذان دینے کافی نہیں ہے بلکہ لوٹانا پڑے گا البتہ فجر کے بارے میں حضرات امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وقت سے پہلے اذان دے تو کافی ہے دوبارہ اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن حضرت امام ابو حنیفہ و محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کافی نہیں ہے بلکہ وقت ہونے پر دوبارہ اذان دینا پڑے گا اور اس پر فتوی ہے-

فيعاد اذان وقع بعضه قبله.... في انها تعاد اذا وقعت قبل الوقت اما بعده فلا تعاد ما لم يبطل.... قوله خلافا للثاني هذا راجع الى الاذان فقط فأن ابا يوسف يجوز الاذان قبل الفجر بعد نصف الليل....(شامي: ٥٠/٢،كتاب الصلاة ،باب اذان، زكريا ديوبند)

تقديم الاذان على الوقت في غير الصبح لا يجوز اتفاقا وكذا في الصبح عند ابي حنيفة ومحمد رحمهما الله وان قدم يعاد في الوقت.... ان الافامة قبل الوقت لا تجوز كذا في "المحيط"(الهنديه: ١١٠/١،كتاب الصلاة، باب الثاني في الاذان،زكريا ديوبند)

وفي الخانية: اذا اذن قبل الوقت يكره الاذان والاقامة ولا يؤذن لصلاة قبل الوقت وقال ابو يوسف والشافعي رحمهما الله يؤذن لصلاة الفجر في النصف الاخير من الليل وفي الحجة: لم اذا طلع الفجر يعيد الاذان عند ابي حنيفة وعندهما يعيد والفتوى على قول ابي حنيفة ... الفتاوى التاتارخانية:١٥٨/٢،كتاب الصلاة ،باب الاذان زكريا ديوبند)

سوال:-نماز تہجد کے لیے اذان دینا ثابت ہے یا نہیں نیز نماز تہجد کے لیے اذان دینا شرعا کیا حکم ہے بوضاحت تحریر کریں؟

الجواب:-نماز تہجد کے لیے اذان دینا ثابت نہیں ہے اور شرعا بھی اذان تہجد کی حکم نہیں کیونکہ پانچ وقت فرائض اور جمعہ کے لیے حکم ہے اور نوافل کے لیے ثابت نہیں ہے اور یہ تہجد نوافل میں سے ہے-

وليس بغير الصلوات الخمس والجمعه نحو السنن والوتر والتطوعات والتراويح والعيدين....(بالفتاوى الهندية:١١٠/١،كتاب الصلاة ،الباب الثاني في الاذان زكريا ديوبند)

للفرائض الخمس في وقتها ولو قضاء لانه سنة الصلاة حتى يبرد به....لا يسن لغيرها كتاب(رد المختار: ٤٩/٢-٥٠،كتاب الصلاة،باب الاذان زكريا ديوبند)

هو سنة مؤكدة للفرائز الخمس والجمعة فحسب في وقتها وليس سنه في النوافل..... وقوله في وقتها احتراز عن الاذان قبل الوقت (الشرح الوقاية:١/١٣٣, كتاب الصلاة ط: نبراس بوك ديوبند)

سوال:-اگر اذان و اقامت کی کلمہ میں کوئی چھوٹ جائے یا غلطی ہو جائے ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-اذان اور اقامت درست نہ ہوگی بلکہ اس کا اعادہ ضروری ہوگا اور جھوٹنے کا علم اگر اذان و اقامت کے فورا بعد ہوا ہو تو جو کلمہ چھوٹ گیا ہے وہی سے اعادہ کرے اور اگر کچھ دیر بعد ہوا ہو تو شروع سے لوٹائے اور اگر اذان و اقامت کے کلمات میں کوئی فحش غلطی کی تو اس کا بھی اعادہ ضروری ہوگا-

ولا لحن فيه بغيهانه لا يحل فعليه وسماعة..... ويترسل فيه.... ويكره تركه.... بغير كلماته اي زياده حركه او حرفه او مد او غيرها في الاوائل....دچد(در المختار مع الشامي:٥٢/٢-٥٣،كتاب الصلاة،باب الاذان زكريا ديوبند)

وإذا قدم في اذانه او في امامته بعض الكلمات فلا بعض نحو يقول اشهد ان محمدا رسول الله قبل قوله.....(هنديه: ٥٦/١،كتاب الصلاة،الباب الثاني ،زكريا ديوبند)

قال واذا قدم المؤذن في اذانه او امامته بعض الكلمات على بعض فالاصل فيه ان ما سبق اداؤ...(المبسوط للسرخسي: ٤١١/١)

سوال:- اذان اوراقامت دونوں کے کلمات برابر ہے یا نہیں اگر برابر نہ ہو تو اذان اور اقامت کے کلمات کی وضاحت کریں؟

الجواب:-اذان اور اقامت دونوں کا کلمات برابر نہیں ہے بلکہ دونوں کے کلمات کے درمیان فرق ہے چنانچہ اذان میں 15 کلمات کہہ جاتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہے:-اللہ اکبر اللہ اكبر،الله اكبر الله اكبر ،اشهد ان لا اله الا الله ،اشهد ان لا اله الا الله، اشهد ان محمد رسول الله، اشهد ان محمد رسول الله ،حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر الله اكبر، لا اله الا الله، اور فجر كى اذان میں حي على الفلاح بعد الصلاۃ خیر من النوم دو بار کہا جاتا ہے اور اقامت میں 17 کلمات کہے جاتے ہیں 15 کلمہ تو وہی ہے جو اذان کے کلمات ہیں اور مزید دو کلمات کہے جاتے ہیں قد قامت الصلاة یہ دو مرتبہ جو حی علی الفلاح کی بعد اب 17 کلمات مکمل ہوئے-

الاذان خمس عشرة كلمة واخره عندنا لا اله الا الله... وهي الله اكبر الله اكبر الله اكبر الله اكبر،اشهد ان لا اله الا الله... اشهد ان محمد رسول الله... حي على الصلاة... حي على الفلاح... والاقامة سبع عشرة كلمة خمس عشرة منها كلمات الاذان وكلمتان قوله قد قامت الصلاة مرتين.... ويزيد بعد فلاح اذان الفجر الصلاة خير من النوم مرتين....(الهنديه: ١١٢/١،كتاب الصلاة ،زكريا ديوبند)

واما بيان كيفية الاذان فهو على الكيفية المعروفة المتواترة من غير زيادة ولا نقصان عند عامة العلماء.... والاقامة سبعة عشرة كلمة....وانما يكون كذلك إذ كان التكبر فيه مرتين....(بدائع الصنائع:٦٣٧/١-٦٣٨،كتاب الصلاة ،ط: دار الكتب العلمية،بيروت)

الخانية: الاذان خمس عشرة كلمة و آخر الاذان عندنا لا اله الا الله والاقامة سبع عشرة ،خمس عشرة منها كلمات الاذان،وكلمة قوله قد قامت الصلاة مرتين....(الفتاوى التاتارخانية:١٤٠/٢-١٤١،كتاب الصلاة ،زكريا ديوبند)