سوال:-اگر عصر کی نماز کے دوران سورج غروب ہو جائے اور فجر کی نماز کے دوران سورج طلوع ہو جائے تو نماز کا شرعا کیا حکم ہے آیا دونوں کا حکم ایک ہے یا الگ الگ اگر الگ الگ ہو تو اس کی وجہ کیا ہے مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:- صورۃ مسئولہ میں دونوں کا حکم الگ الگ ہیں کہ عصر کی نماز کے دوران سورج غروب ہو جائے تو نماز کراہت کے ساتھ ادا ہو جائے گی اور فجر کی نماز کے دوران سورج طلوع ہو جائے تو نماز باطل ہو جائے گی اس کی وجہ کے بارے میں اصول یہ ہے کہ سبب جیسا ہوگا ویساہی مسبب ہوگا یعنی سبب کامل ہو تو مسبب بھی کامل ہوگا اور سبب ناقص ہو تو مسبب بھی ناقص ہوگا اب عصر کی نماز ناقصا واجب ہوئی لہذا ادا بھی ویساہی ہوگا اور فجر کاملا واجب ہوا لہذا ادا بھی کامل ہوگا اور یہاں ایسا نہیں ہوا اس لیے فجر کی نماز درست نہیں ہوگی-

وكره تحريما صلاة مطلقا ولو قضاء.... مع الشروق واستواء وغروب الا عصر يومه قيد به لأن عصر امسه لا يجوز وقت التغير.... فلا يكره فعله لادائة كما وجب بخلاف الفجر اي فانه لا يؤدي فجر يومه وقت الطلوع لان وقت الفجر كله كامل ووجبت فتبطل بطرو الطلوع الذي هو وقت فساد....(الدر المختار مع الشامي: ٣٠/٢-٣٣،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

العصر يومه عند غروب الشمس فإنه يجوز اداؤه لبقاء بسببه وهو الجزء المتصل به الاداء من الوقت فاديت كما وجبت بخلاف غيرها من الصلوات فإنها وجبت كاملة فلا تتادي بالنقص....(اللباب: ٩٧/١،كتاب الصلاة ،اشرفيه ديوبند)

العصر يومه عند الغروب لأن السبب هو الجزء القائم من الوقت لأنه لو تعلق بالكل لوجب الاداء بعده.... واذا كان كذلك فقد اداها كما وجبت بخلاف غيرها من الصلوات لانها وجبت كاملا فلا تتادي بالناقص....(الهدايه: ٨٢/١-٨٣،كتاب الصلاة، زمزم ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص نماز میں اس وقت ائے جب کہ امام رکوع میں وہ شخص تکبیر تحریمہ کہکر اور ہاتھ باندھنے کے اور قیام کے بعد رکوع میں جائیگا یا تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے رکوع میں شریک ہو جائے گا یا اس میں کوئی اور تفصیل ہے ہر حال جملہ صورتوں کی وضاحت کے بعد ان کا حکم بھی تحریر کریں؟

الجواب:-اس حالت میں وہ شخص تکبیر تحریمہ کہکر ہاتھ باندے قیام کے بعد رکوع میں جائے گا اس کے علاوہ وہ شخص جلدی باری میں رکوع یا رکوع کے قریب پہنچ کر تکبیر تحریمہ کہی تو اس کی نماز شروع نہیں ہوئی اس لیے کہ تکبیر تحریمہ بحالت قیام کہنا فرض ہے رکوع کے حالت میں کہی گئی تکبیر تحریمہ کا اعتبار نہیں اس کا حکم از سرنو حالت قیام میں تکبیر کہے اور اگر رکعت چھوٹ جائے تو بعد میں اس کی قضا کرے۔

ترك السنة لا يوجب فسادا ولا سهوا بل اساءة لو عامدا غير مستخف... (رد المختار: ١٧٠/٢،كتاب الصلاة ،باب صفة الصلاة، زكريا ديوبند)

ورفع اليدين عند تكبيرة الافتتاح الصحيح انه سنة فإن ترك رفع اليدين يأثم وقال بعضهم لا يأثم وقدروى عن ابي حنيفة ما يدل على هذا القول فإنه قال ان ترك رفع اليدين جاز وان رفع فهو افضل(الفتاوى التاتارخانية: ٤٨/٢،کتاب الصلاۃ، الفصل ثانی تکبیرة الافتتاح زكريا ديوبند)

ولا يصير شارعا بالتكبير الا في حالة القيام او فيما هو اقرب اليه من الركوع هكذا في الراهدي...(هنديه: ٦٨/١،الباب الرابع في صفة الصلاة ،زكريا ديوبند)

سوال:-اوقات مکروہہ میں نماز پڑھنے کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-اوقات مکروہہ کی دو قسمیں ہیں (1) طلوع شمس استوائے شمس غروب شمس ان اوقات میں نماز پڑھنا مطلقا ممنوع ہے خواہ وہ نماز فرض ہو یا نفل ادا ہو یا قضاء البتہ ان اوقات میں پڑھی گئی نفل نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہو جائے گی اور اگر فرض یا واجب نماز پڑھی تو اس کا اعادہ لازم ہے سوائے وقتی نماز عصر کے وہ کراہت کے ساتھ ادا ہو جائے گی(2) صبح صادق سے طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک ان اوقات میں نفل نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے جبکہ فرائض کی قضا پڑھ سکتے ہیں-

واعلم ان الاوقات المكروهة نوعان: الاول الشروق والاستواء والغروب ،والثاني ما بين الفجر والشمس وما بين صلاة العصر الى الاصفراء فالنوع الأول لا ينعقد فيه شيء من الصلوات التي ذكرناها إذا شرع بها فيه.... وكره تحريما صلاة مطلقا ولو قضاء او واجبة او نفلا.... مع الشروق واستواء وغروب الا عصر يومه والنوع الثاني ينعقد فيه جميع الصلوات التي ذكرناها من غير كراهة الا النفل.... فانه ينعقد مع الكراهة فيجب القطع والقضاء في وقت غير مكروه.....(الدر المختار مع الشامي: ٣٠/٢-٣٤،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

لا تجوز الصلاة عند طلوع الشمس ولا عند قيامها في الظهيرة ولا عند غروبها ولا يصلى على جنازة ولا يسجد للتلاوة الا عصر يومه عند غروب الشمس ويكره ان يتنفل بعد صلاة الفجر حتى تطلع الشمس وبعد صلاة العصر حتى تغرب الشمس ولا باس بان يصلى في هذين الوقتين الفوائت....(اللباب:٩٧/١،كتاب الصلاة، اشرفيه ديوبند)

ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة... إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف الى ان تزول وعند احمرارها الى ان تغيب الا عصر يومه ذلك.... و لتطوع في هذه الاوقات يجوز ويكره.... ويجب قطعه وقضاؤه في وقت غير مكروه....(الفتاوى الهنديه: ١٠٨/١،كتاب الصلاة ،اشرفيه ديوبند)

سوال:-واجبات نماز کی تعداد کتنا ہے اور وہ کیا ہے نیز اس کا حکم بھی تحریر کریں؟

الجواب:-واجبات نماز کی باری میں رد المختار مع شامی کے اندر 14 بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے (1) فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنن و نوافل کی تمام رکعتوں میں سورة فاتحہ پڑھنا (2) سورہ ملانا فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنن و نوافل کی تمام رکعتوں میں (3) سورہ فاتحہ کو سورہ پر مقدم کرنا (4) قراة اور رکوع کے درمیان ترتیب ہمرکھنا(5) تعدیل ارکان کرنا (6) قعدہ اولی کرنا(7) دونوں قعدے میں تشہد پڑھنا(8) لفظ سلام کے ساتھ سلام پھیرنا(9) نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھنا(10) تکبیرات عیدین کہنا زائد(11) جہری نماز میں قراة جہری کرنا(١٢سری نماز میں آہستہ قراة کرنا (13) مقتدی کا امام کے پیچھے خاموش رہنا (14) مقتدی کے لیے امام کے مطابعت کرنا -اس کی علاوہ اور ہے صاحب بدائع کہا اصل واجبات کل چھ ہیں (1) سورہ فاتحہ اور ضم سورت (2) جہری نمازوں میں جہر اور سری نمازوں میں سر (3)تعدیل ارکان(4) قعدہ اولی (5) تشہد (6) ترتیب افعال،اور اس کا حکم یہ ہے کہ ان چیزوں کو اگر بھولے سے چھوٹ جائے تو سجدہ سہو کرنا واجب ہے اور اگر جان بوجھ کر چھوڑ دے تو اعادہ کرنا واجب ہے اور ایسا کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے

لها واجبات لا تفسد بتركها و تعاد وجوبا.... وهي على قراءة فاتحة الكتاب فيسجد للسهو.... وضم أقصر سورة.... في الاولين من الفرض.... وفي جميع ركعات النفل.... وكل الوتر في الاولين.... وتقديم الفاتحة على كل السورة.... ورعاية الترتيب بين القراءة والركوع وفيما يتكرر.... في كل ركعة كالسجدة او في كل الصلاة.... وتعديل الاركان.... ولقعد الاول.... وتشهدان.... ولفظ السلام مرتين.... وقراءة قنوة الوتر.... التكبيرات العيدين.... والجهر للامام والاسرار للكل فيما يجهر فيه ويسر.... وكل زيادة تتحلل بين الفرضين وانصات المقتدي ومتابعة الإمام....(رد المختار: ١٤٦/٢-١٦٥،كتاب الصلاة ،باب صفة الصلاة ،زكريا ديوبند)

في واجبات الصلاة يجب تعيين الاوليين من الثلاثية والرباعية....ويجب عليه السجود السهو.... وتجب قراءة الفاتحة وضم السورة.... ويجب مراعاة الترتيب في كل فعل مكرر في كل ركعة كالسجود.... اجمعوا على ان الاعتدال في قومة الركوع.... وتعديل الاركان هو تسكين الجوارح..... والتشهدان يقول.... ويجهر بالقراءة في الفجر وفي...(بالفتاوي والهنديه:١٢٨/١-١٢٩،كتاب الصلاة، الفصل الثاني، زكريا ديوبند)

سوال:-اذان کے بعد دعا ثابت ہے یا نہیں اگر ثابت ہو تو منقول الفاظ ہی ضروری ہے یا نہیں نیز اس کے اندر کچھ الفاظ کی زیادتی درست ہے یا نہیں مدلل جواب تحریر کریں؟

الجواب:-اذان کے بعد دعا پڑھنا صحابی تھے اور منقول الفاظ کے ساتھ اضافہ کرنا درست ہے لیکن شرط یہ ہے کہ منقول الفاظ کے اندر کوئی تغیر اور تبدیل نہ ہو یعنی ان کے بدلے میں زیادتی کرنا درست نہیں ہے البتہ منقول الفاظ رہتے ہوئے کچھ الفاظ زیادتی درست ہے-

ويدعو عند فراغة بالوسيلة لرسول الله صلى الله عليه وسلم..... اللهم رب هذه الدعوة التامة ... حلت له شفاعتي يوم القيامة وزاد البيهقي في آخره انك لا تخلف الميعاد....(رد المختار مع الشامي: ٦٧/٢-٦٨،كتاب الصلاة ،باب الاذان ،زكريا ديوبند)

اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة ات محمد الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته انك لا تخلف الميعاد....(صحيح البخاري: ٨٦/٦،كتاب الصلاة،دمشق)

اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة ات محمد الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته انك لا تخلف الميعاد.....(مرقاه المفاتيح شرح مشكوة المصابيح:٥٦١/٢،كتاب الصلاة،ط: بيروت لبنان)

سوال:-اذان کے بعد درود و سلام ثابت ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت مفصل مدلل جواب تحریر کریں؟

الجواب:- درود و سلام پڑھنا ایک مستقل عبادت ہے اور اس کے بہت سے فضائل قرآن و حدیث میں وارد ہے اور دوسری طرف اذان بھی ایک مستقل عبادت ہے جو نماز کی خبر دینے کے لیے مشروع کی گئی ہے اور اس کے الفاظ حدیث پاک سے ثابت ہے اس میں کسی قسم کا اضافی اور کمی کرنا جائز نہیں ہے-لہذا اذان سے پہلے اور بعد میں بآواز بلند مائک میں درود و سلام اور اذان کے بعد کی دعا پڑھنا شریعت میں ثابت نہیں ہے یہ گویا اذان میں اضافہ ہے لہذا یہ بدعت ہے اس کو ترک کرنا لازم ہے البتہ اذان کے بعد اہستہ آواز سے انفرادی طور پر درود شریف اور دعا پڑھنا اس طرح کہ اسے اذان کا حصہ نہ سمجھا جائے سنت سے ثابت ہے اس قدر عمل کیا جائے تو یہ مستحسن عمل ہے-

ويدعو عند فراغه بالو سيلة لرسول الله صلى الله عليه وسلم.... ويدعو الخ اي يعد ان يصلى على النبي صلى الله عليه وسلم لما رواه مسلم وغيره إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا على فانه من صلى صلاة صلى الله عليه بها عشرا.....(در المختار مع الشامي: ٦٧/٢-٦٨،كتاب الصلاة، باب الاذان، زكريا ديوبند)

انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا على فانه من صلى على صلاة صلى الله عليه بها عشرا.....(صحيح مسلم: رقم الحديث: ٨٤٩)

عن عمرو بن العاص انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي فانه من صلى علي صلاة صلى الله عليه بها عشرا ثم سأل الله لي الوسيلة فإنها منزلة في الجنة لا تبتغي الا لعبد من عبد الله وارجو ان اكون انا هو فمن سأل لى وسيلة حاست عليه الشفاعة.....(مشكوة المصابيح: كتاب الصلاة ،باب فصل الاذان وإجابة المؤذن،دار الكتاب ديوبند)

سوال:-اذان اور اقامت کا جواب دینا واجب ہے یا سنت یا اس میں کوئی اختلاف ہے ہر صورت باوضاحت جواب تحریر کریں؟

الجواب:-اذان کے جواب کے سلسلے میں اختلاف ہے چنانچہ بعض احناف فرماتے ہیں کہ اذان کا جواب دینا واجب ہے اور بعض احنا فرماتے ہیں کہ مستحب ہے لیکن شمس الائمہ حلوانی رحمہ اللہ نے جو فرمایا ہے اس سے دونوں قولوں کے درمیان تطبیق ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہیں کہ اجابت قولی مستحب ہے اور اجابت فعلی واجب ہے اور اجابت قولی جو الفاظ مؤذن کہے وہی الفاظ دہرائے جائے اور جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو اس کے بدلے لا حول ولا قوة إلا بالله کہے اسی طرح فجر کی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم کی جگہ میں صدقة وبردت کہے اور جس طریقے سے اذان کا جواب دیا جاتا ہے اسی طریقے سے اقامت کا جواب ہے اور اقامت کا جواب دینا بالاتفاق مستحب ہے اور قد قامت الصلاة کے وقت اقامها الله وادامها کہے-

ويجيب وجوبا وقال الحلواني ندبا والواجب الإجابة بالقدم من سمع الاذان ولو جنبا لا حائضا ونفساء.... وفي الصلاة خير من النوم صدقت وبردت ويندب القيام عند سماع الاذان.... ويجيب الاقامة ندبا اجماعا كالاذان ويقول عند قد قامت الصلاة اقامها الله وادامها....(رد المختار: ٦٥/٢-٧١،كتاب الصلاة، باب الاذان، زكريا ديوبند)

يجب على السامعين عند الاذان الاجابة وهي ان يقول مثل ما قال المؤذن إلا في قوله حي على الصلاة حي على الفلاح فانه يقول مكان حي على الصلاة "لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم" ... وكذا في قول المؤذن الصلاة خير من نوم.... صدقت وبردت كذا في.... واجابة الاقامة مستحبه.... واذا بلغ قوله قد قامت الصلاة يقول السامع اقامها الله وادامها الله....(الهندية:١٤/١،كتاب الصلاة ،زكريا ديوبند)

ومن سمع الاذان فعليه يجيب.... قال الشيخ الإمام شمس الائمة الحلواني رحمه الله: تكلم الناس في الاجابة قال بعضهم هي الاجابة بالقدم لا باللسان....(الفتاوى التاتارخانية:١٥٢/٢،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

سوال:-نماز جمعہ کے اندر اذان ثانی کے وقت مؤذن کو کہاں کھڑا ہونا چاہیے آیا خطیب کے سامنے یا کچھ دائیں، پہلے صف میں یا آخر صف میں یا لاعلی التعیین کہیں پر کھڑا ہو سکتا ہے اگر کہے پر کھڑا ہو سکتا ہے تو افضل اور بہتر کیا ہے مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کریں؟

الجواب:-جمعہ کی اذان ثانی کے متعلق یہ حکم ہیں کہ وہ خطیب کے سامنے دیا جائے حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اذان دی جاتی فقہاء کرام نے اس کے صراحت کی ہے اور سلف سے بھی یہی توارث چلا رہا ہے اور یہی افضل اور بہتر طریقہ ہے لیکن اگر کوئی دوسری یا تیسری صف میں یا دروزہ کے پاس کھڑے ہو کر امام کے سامنے اذان دے دے تو بھی کافی ہے البتہ پہلے صورت افضل اور بہتر ہے-

واذا جلس على المنبر اذان بين يديه واقيم بعد تمام الخطبة بذلك جري التوارث كذا في "البحر الرائق"(الهندية:٢١٠/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند )

ويؤذن ثانيا بين يديه اي الخطيب... اي على سبيل السنية كما يظهر من كلامهم.... اذا جلس على المنبر فاذا اقم اقيمت....(رد المختار مع الشامي: ٣٨/٣-٣٩،كتاب الصلاة ،باب الجمعة، زكريا ديوبند)

واذا صعد الامام المنبر جلس واذان المؤذنون بين يدي المنبر وبذلك جري التوارث....(فتح القدير: ٦٧/٢،كتاب الصلاة، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

سوال:-تکبیر اقامت کے لیے کوئی جگہ متعین ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت بالتفصیل بیان کریں؟

الجواب:-جماعت کی نماز میں جو صفوں کی ترتیب ہے اس میں صرف امام کی جگہ متعین ہے کسی اور کی جگہ متعین نہیں ہے البتہ احادیث میں اتنی بات منقول ہے کہ امام کے قریب سمجھدار اور دیندار لوگ کھڑے رہیں اور مؤذن کا کہیں سے بھی قریب سے ہو یا دور سے دائیں سے ہو یا بائیں سے اقامت کہنا درست ہے البتہ مؤذن کا امام کے پیچھے رہنا ہي افضل ہے کیونکہ کچھ احثا ہو جائے تو اس کو حل کر سکے کیونکه اکثر امام سمجھدار اور دیندار ہوتا ہے-

واذا انتهي المؤذن في الإمامة إلى قوله قد قامت الصلاة له الخيار ان شاء اتمها في مكانه وان شاء مثى إلى مكان الصلاة اماما كان المؤذن او لم يكن....(المحيط البرهاني: ١٠٣/٢،كتاب الصلاة، ادارة القرآن باكستان)

ويؤذن ويقيم على طهر لأنه ذكر فيستحب فيه الطهارة كالقرآن كما في الاختيار والمراة من الطهارة من الحدث سواء كان الأصغر او الأكبر لا اكبر فقط كما توهم البعض....(مجمع الأنهار:١١٧/١ كتاب الصلاة ،فقيه الامة ديوبند ڜ

وان اذن رجل وامام رجل آخر ان غاب الأول جاز من غير كراهة وان كان حاضرا وتلحقه الوحشة باقامة غيره يكره وان رضي به لا يكره عندنا....(الفتاوى التاتارخانية:١٤٦/٢،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

سوال:- مؤذن کی اجازت کے بغیر کسی کو اذان اور اقامت کہنا شرعا کیسا ہے؟

الجواب:-اگر مؤذن مقرر ہے تو اس کو موجود رہتے ہوئے کسی کو اس کی اجازت کے بغیر اذان و اقامت دینا مکروہ ہے لیکن اگر وہ موجود نہیں ہے تو پھر اذان و اقامت دوسری کو بلا کراہت جائز ہے-

غير من اذن بغيبته اي المؤذن لا يكره مطلقا وان يحضوره كره ان لحقة وحشة كما كره مشيه في اقامته....(رد المختار:٦٤/٢،کتاب الصلاۃ باب الاذان زكريا ديوبند)

وإن اذن رجل و اقام آخر ان غاب الاول جاز من غير كراهة وان كان حاضر ويلحقه الوحشة باقامة غيره يكره وان رضي به لا يكره عندنا كذا في "المحيط"(الهنديه: ١١٠/١،كتاب الصلاة باب الثاني زكريا ديوبند)

وإن اذن رجل واقام رجل آخر إن غاب الاول جاز من غير كراهة وان كان حاضرا وتلحقه الوحشة باقامة غيره يكره وان رضي به لا يكره عندنا....(الفتاوى التاتارخانية:١٤٦/٢،كتاب الصلاة،زكريا ديوبند)