سوال:-اگر کسی شخص نے پہلی رکعت میں بھول سے تین سجدہ کرلیا تو کیا حکم ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق اگر کوئ شخص بھولے سے ایک رکعت میں تین سجدے کر لیتا ہے تو اس پر سجدہ سہو کرنا لازم ہوگا

لو رکع رکوعین او سجد ثلاثا فی رکعۃ لزمہ السجود لتاخیر الفرض وھو السجود فی الحال والقیام فی الثانی ( البحر الرائق 2/ 105 )

سوال:-عید اور بقرعید کی نماز بعد خطبے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

الجواب و بالله التوفيق عیدین کے خطبے مسنون ہیں . والله أعلم بالصواب

عن عبد الله بن عتبه رضي الله عنه قال : السنه ان يخطب الامام في العيدين خطبتين يفصل بينهما بجلوس. (السنن الكبرى للبيهقي ، كتاب صلاه العيدين باب جلوس الامام حين يطلع على المنبر قديم/٢/١٨٥/دارالفكر /٥/٨٢ . رقم ٦٣٠٥)

عن عبد الله بن السائب رضي الله عنه، قال : شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم : العيد ، فلما قضى الصلاة ، قال : انما نخطب فمن احب ان يجلس للخطبه فليجلس ومن احب ان يذهب فليذهب .(سنن ابو داوود /١/١٦٣ باب الجلوس للخطبه (النسخة الهنديه)

ويشترط للعيد ما يشترط للجمعة الا الخطبة كذا في الخلاصه فانها سنة بعد الصلاه . عالمكيري /١/١٥٠ خطبتاالعيدين سنة باتفاق. (الفقه على المذاهب الاربعه مذاهب صلاه العيدين مكمل ١٩٩ دار الفكر )

سوال:-اگر قراءت کے اندر لحن جلی ہو جائے یا تلفظ کے اندر معروف کے بجائے مجہول پڑھ دے تو شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:- قراءت کے اندر لحن جلی سے علی الاطلاق فاسد نہیں ہوتی ہے البتہ اگر اس میں جلی کی وجہ سے معنی بدل جائے اور تغیر فاحش ہو جائے تو فاسد ہو جائے گا اسی طرح تلفظ میں بھی اگر وہ صحیح پڑھ رہا ہو لیکن سننے میں دوسرا ہو تو خراب نہیں ہوگا ورنہ ہو جائے گا –

ومنها القراءة بالالحان ان غير المعنى والا لا الا في حرف مد ولين اذ فحشى والا لا بزازية ومنها زلة القاري....(رد المختار:٣٩٢/٢-٣٩٣،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

وذكر في الملتقط: إنه لو قرأ في الصلاة الهمد لله بالهاء مكان الحاء ولايقدر على غير تجوز صلاته ولا تفسد....(حلبي كبير: ٤٣٨/٢،كتاب الصلاة، دار العلوم ديوبند)

ومنها اللحن في الاعراب إذا لحن في الاعراب لحنا لا يغير المعنى بأن قرأ لا ترفعوا اصوتكم برفع التاء لا تفسد صلاته بالاجماع.....(بالفتاوى الهندية:١٣?7

سوال:-مرد اور عورت دونوں کی نمازوں میں کوئی فرق ہے یا نہیں اگر فرق ہو تو اس کا ثبوت قرآن و حدیث سے ہے یا نہیں نیز کن چیزوں میں فرق ہے ان چیزوں کو بیان کریں؟

الجواب:-مرد اور عورت دونوں کی نمازوں میں فرق ہیں اور ثبوت بھی ہے اور ان چیزوں میں فرق ہے (1) تکبیر تحریمہ کے وقت مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورتیں صرف کندھوں تک(2) مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینہ پر اس طرح ہاتھ رکھیں کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر ہو چھوٹی انگلی اور نگوٹھے سے حلقا بنائے(3) تیسرا کہ مرد رکوع میں اس طرح جھکے کہ سر، پیٹھ اور سرین سب برابر ہو جائے اور عورت صرف اتنا جھکے کہ ہاتھ گھٹنے تک پہنچ جائے پیٹھ سیدھی نہ کرے (4) چوتھا یہ ہے کہ رکوع میں مرد اپنے بازو کو پہلو سے الگ رکھے اور کھل کر رکوع کرے بخلاف عورت کے کہ وہ اپنے بازو کو پہلو سے خوب ملائے اور دونوں پاؤں کے ٹخنے ملا دے جتنا ہو سکے اتنا سکڑ کر رکو ع کرے(5) پانچواں فرق یہ ہے کہ سجدہ میں عورتیں مردوں کی بانسبت پیٹ کو رانوں سے بازو کو بغل سے ملا ہوا رکھے کہنیاں اور کلائیاں زمین پر بچھا دیں دونوں پاؤں داہنی جانب نکال کر خوب سمیٹ کر سجدہ کریں(6) چھٹا فرق یہ ہے کہ عورتیں قعدہ میں اپنے دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھیں-

ويسن وضع المرأة بدبها الخ: المرأة تخالف الرجل في مسائل منها هذه ومنها اعفالا تخرج كفيها من كميها عند التكبير ترفع يديها حذاء منكبيها....(مراقي الفلاح شرح نور الايضاح: ٢٥٩،كتاب الصلاة ،دار الكتب العلمية)

عن اصحابنا انها اترفع يديها حذ ومنكبيها الأن ذلك استرلها وبناء امرهن على الستر الاترى ان الرجل يعتدل في سجوده، ويبسط ظهره في ركوعه والمراة تفعل كالستر ما يكون لها.... واما محل الوضع فما تحت السرة في حق الرجل والصدر في حق المراة....الخ(بدائع الصنائع:٤٦٦/١-٥٦١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر نمازی کے اندر کا کپڑا جیسے بنیان وغیرہ ناپاک ہو اور اوپر کا کپڑا مکمل پاک ہو تو ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-نماز کے صحیح ہونے کی شرطوں میں سے یہ بھی ہے کہ کپڑا پاک ہونا ہے اس سے مراد پورا کپڑا اندر کا ہو یا باہر کا ہو سب مراد ہے مسؤلہ میں جو ہے بنیان ناپاک ہے اس صورت میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے نماز نہیں ہوگا یہاں اگر اندر کا بنیان پر تھوڑا یعنی مقدار معفو یا اس سے کم نجاست لگی ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے اور دیکھنے کی بعد اس حالت میں بھی نہ پڑھے-

فلاحرام شرط ومعظم الطواف ركن وغيرها واجب.. (غنية الناسك: ٣١٦/١)،كذا في الهنديه: واما ركنها الطواف(٣٢١/١٠ زكريا ديوبند)

تطهير النجاسة واجب من بدن اليصلى وتوبه.... لقوله تعالى وتيابك فطهر الخ اي في الصلاة....(هداية: ٦٨/١،كتاب الطهارة، زمزم ديوبند)

ومنها طهارة الجسد والثوب والمكان....(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: ٢٠٨-٢٠٩،كتاب الصلاة، اشرفية ديوبند)

سوال:-امین باجہر اور آمین باسر کا اختلاف جائز ہے یا ناجائز ہے یا کیا؟

الجواب:-یہ اختلاف جواز عدم جواز کا نہیں ہے بلکہ اولی وغیر اولی کا ہے چنانچہ سری نمازوں میں بالاتفاق اہستہ آمین کہنا مسنون ہے البتہ اختلاف صرف جہری نمازوں میں ہے چنانچہ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک زور سے آمین کہنا زیادہ بہتر ہے اور احناف و مالکیہ کے نزدیک اہستہ آمین کہنا زیادہ بہتر ہے-

وإذا قال الامام ولا الضالين قال امين وقولها الموتم لقوله عليه السلام إذا امن الامام فامنوا.... ويخفونها لانه دعاء فيكون مبناه على الاخفاء...(الهداية:١٠٥/١،كتاب الصلاة زمزم ديوبند)

والثناء والتعوذ والتسمية والتامين وكونهن سرا.... قال في المنية واذا قال الامام ولا الضالين قال امين .....وكونهن سرا(شامي: ١٧٢/٢،كتاب الصلاة ،باب صفة الصلاة زكريا ديوبند)

فاذا فرغ من الفاتحة يقول: امين اماما كان او مقتديا.... ثم السنة فيه المخافتة عندنا وعند الشافعي الجهر في صلاة الفجر.... ولنا :ماروى عن وائل بن حجر ان النبي صلى الله عليه وسلم اخفي بالتامين...(بدائع الصنائع:٤٨٣/١،كتاب الصلاة ،اشرفيه ديوبند)

سوال:-رفع یدین اور ترک رفع یدین کا اختلاف جائز کا ہے یا کیا؟

الجواب:- یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے چنانچہ امام شافعی رحمہ اللّہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، ابن رباح رحمہ اللہ،امام مجاہد بن جبیر،طاؤس ابن کیسان رحمہ اللّٰہ کے نزدیک بوقت تکبیر رکوع و سجدہ رفع یدین لازم ہے نیز امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک قعده سے قیام کی طرف انتقال کے وقت بھی رفع یدین لازم ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سفیان ثوری رحمہ اللہ اور اکثر فقہاء کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ باقی کہیں بھی رفع یدین جائز نہیں ہے-

عن ابي هريرة ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه عند الركوع وعند رفع الراس من الركوع....(صحيح البخاري: كتاب الصلاة ،باب من الركوع في عل التكبيرة رقم: ٧٣٥ ،وكذا في صحيح مسلم،كتاب الصلاة باب استحباب رفع اليدين رقم:٣٩٠)

عن علي وابن مسعود وابي موسى الاشعري ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يكبر عند كل حفض ورفع....(سنن الترمذي: كتاب الصلاة ،باب ما جاء في التكبير عند الركوع رقم: ٢٥٣)

اما رفع اليدين عند التكبير فليس بسنة في الفرائض عندنا الا في تكبيرة الافتتاح وقال الشافعي يرفع يديه عند الركوع وعند رفع رأس من الركوع وقال بعضهم: يرفع بيديه عند كل تكبيرة....(بدائع الصنائع:٤٨٤/١،كتاب الصلاة ،اشرفيه ديوبند)

سوال:-تکبیر تحریمہ کا طریقہ کیا ہے یعنی پہلے اللہ پر کہے اس کے بعد دونوں ہاتھ اٹھائے یا دونوں ہاتھ اٹھانے کے بعد اللہ اکبر کہے یا دونوں ساتھ ساتھ یاسب طریقہ ہے تو ان میں افضل کیا ہے؟

الجواب:- واضح رہے کہ تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھانے سے متعلق تین طریقے منقول ہیں(1) پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا لے جائیں پھر تکبیر تحریمہ اللہ اکبر کہ کر نماز شروع کی جائے اور تکبیر ختم ہوتے ہی ہاتھ باندھ لے جائیں (2) تکبیر تحریمہ اور ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانا ایک ساتھ ہو ایک ساتھ شروع ہو کر ایک ساتھ ہی ختم ہو یعنی تکبیر کے ختم ہونے تک ہاتھ باندھ لے جائیں (3) پہلے تکبیر تحریمہ شروع کی جائے اس کے فورا بعد ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لے جائے اور ایک ساتھ دونوں (تکبیر تحریمہ اور ہاتھوں کو زیر ناف باندھ لے)کو ختم کیا جائے اس میں افضل کی باری میں یہ ہے کہ بالا تینوں صورتوں سے نماز ادا ہو جاتے ہیں لیکن ان میں سے پہلا اور دوسرا طریقہ افضل ہے-

فالمفتي به لزومه في تكبيرة وتلبية لا قراءة ورفع يديه قبل التكبير وقيل معه ماسا بابهاميه شحمتي اذنيه والمراد بالمحاذاة لانها لا تتيقن الا بذلك....(رد المختار: ١٨٢/٢،كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة ،زكريا ديوبند)

وكيفياتها اذ اراد الدخول في الصلاه كبروا ورفع يديه حذاء اذنيه حتى يحاذي بابهااميه شحمتي اذنيه وبرووس الاصابع فروع اذنيه ولا يطاطي راسه عند التكبير....(الفتاوى الهندية:١٣٠/١،كتاب الصلاة، الفصل الثالث في سنن الصلاة، زكريا ديوبند)

واما صفت الصلاة فهو انه إذا اراد الرجل ان يدخل في الصلاة لوى واخرج يديه من كميه ثم كبر تكبيره الاحترام ورفع يديه وهو سنة والافضل كون الرفع مع التكبير.... وذكر في الهداية انه يدفع يديه اولا ثم يكبر....(حلبي كبير:١٣٩/٢-١٤٠،كتاب الصلاة،ط: دار العلوم ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہو یا رکوع سے کچھ پہلے شریک ہو تو وہ ثنا پڑھے گا یا نہیں اگر پڑھے گا تو کب یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:-اگر کوئی شخص امام کو رکوع میں پائے تو تحری کرے گا اور غالب گمان یہ ہو کہ ثنا پڑھنے کے بعد امام کو رکوع میں پائے گا تو پھر کھڑے کھڑے ثنا پڑنے کے بعد رکوع میں شریک ہوگا اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر ثنا چھوڑ دے اور رکوع میں شریک ہو جائے کیونکہ جماعت کی فضیلت زیادہ ہے ثنا کے مقابلہ میں اور اگر امام کو رکوع سے کچھ پہلے پائے یعنی حالت جہر میں پائے تو اب ثنا نہیں پڑے گا کیونکہ قرات سننا واجب ہے لہذا وہ قرات سنے گا لیکن بعض حضرات نے فرمایا کہ حالت قرات میں بھی وہ ثنا پڑھے گا ایک دو کلمہ کر کے امام کی سکتات کے وقت جیسا ممکن ہو

وان ادرك في الركوع فتحري ان كان اكبر رأيه انه لو اتي به يدرك الامام في شئ من الركوع يأتي به قائما والا يركع ويتابع الإمام.... وإذ ادرك الإمام وهو يجهر بالقراءة لا يأتي بالثناء بل يستمع وينصت الآية وقال بعضهم: يأتي بالثناء عند سكتات الإمام حال كون الثناء كلمة كلمة او كلمتين كلمتين بحسب ما يمكنه....(حلبي كبير: ١٤٩/٢-١٥٠،كتاب الصلاة ،دار العلوم ديوبند)

إلا إذا شرع الإمام في القراءة سواه كان مسبوقا او مدركا وسواء كان امامه يجهر بالقراءة اولاف انه لا يأتي به لما في النهر عن الصغرى ادرك الإمام في القيام يثني ما لم يبدا بالقراءة وقبل في المجافتة يثني ولو ادركه راكعا وساجدا ان اكبر رأية يدركه اتي به....(رد المختار: ١٨٩/٢-١٩٠،كتاب الصلاة ،باب صفة الصلاة، زكريا ديوبند )

وفي صلاة المجافتة يأتي به ويسكت الموتم عن الثناء اذا جهر الامام هو الصحيح... وان ادرك الامام في الركوع والسجود يتحري ان كان اكبر رأيه انه لو اتي به ادرك في شئ من الركوع او ياتى به قائما.... وان ادرك الامام في القعد لا يأتي بالثناء....(بالفتاوي الهندية:١٤٨/١-١٤٩, كتاب الصلاة زكريا ديوبند)

سوال:-نماز کے اندر کتنی چیزیں مسنون ہیں اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو ہر ایک کی تعداد کی وضاحت کے بعد ایک کے مطابق مختصر اور جامع طور پر بیان کریں؟

الجواب:-نماز کے اندر کتنی چیزیں مسنون ہیں اس سلسلے میں اختلاف ہے چنانچہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے 23 ذکر فرمایا اور صاحب نور الایضاح نے 51 ذکر فرمایا اور صاحبِ حلبی کبیر 21 ذکر فرمایا ہے اور اسی کے مطابق درج ذیل ہے:(1) تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا(2) دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر کھلی اور قبلہ رخ رکھنا (3) تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا (4) امام کو تکبیر تحریمہ اور ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کی تمام تکبیریں بقدر حاجب بلند سے کہنا(5) سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا (6) ثنا پڑھنا (7) تعوذ پڑھنا(8) تسمیہ پڑھنا (9) فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا (10) آمین کہنا (11) ثنا تعوذ تسمیہ اور آمین سب کو اہستہ پڑھنا (12) سنت کے موافق قرات کرنا(13) رکو اور سجدے میں تین بار تسبیح پڑھنا (14) رکوع میں جائے سر اور پیٹ کو برابر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑنا(15) قومہ میں امام کو سمع اللہ لمن حمدہ اور مقتدی کو ربنا لک الحمد کہنا اور منفرد کو دونوں کہنا(16) سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے پھر دونوں ہاتھ پھر پیشانی رکھنا (17) جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو کھڑا رکھنا(18) تشہد میں اشہد اللہ…. پر انگلی سے اشارہ کرنا (19)قعده آخره ميں تشہد کے بعد درود شريف پڑھنا(20) درود کے بعد دعا پڑھنا (21) پہلے بائیں طرف پھر دائیں طرف سلام پھیرنا-

رفع اليدين عند تكبيرة الافتتاح مع التكبير ونشر الاصابع وجهر الإمام بالتكبير والثناء و التعوذ والتسمية والتامين والاخفاء بهن اماما كان مقتديا ووضع اليمين على الشمال تحت السرة للرجل وعلى الصدر للمرأة والتكبيرات التي يؤتي بها في خلال الصلاة وتسبيحات الركوع وتسبيحات السجود واخذ الركعتين في الركوع مفرجا اصابعه وافتراش الرجل اليسرى والقعود عليها ونصب اليمنى والصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بعد التشهد في القعدة الأخيرة والدعاء.... وقراءة الفاتحة في الآخرين من الفرائض والسلام عن يمينه ويساره....(حلبي كبير: ٢٧٩/٢-٢٨٠،كتاب الصلاة، ط: دار العلوم ديوبند)

سننها رفع اليدين للتحريمة ونشر اصابعه وجهر الإمام بالتكبير والثناء والتعوذ والتسمية والتامين سرا ووضع يمينه على يساره تحت سرته وتكبير الركوع وتسبيحه ثلاثا واخذ ركبتيه بيديه وتفريج اصابعه وتكبير السجود والرفع وكذا الرفع نفسه وتسبيحه ثلاثا ووضع يديه وركبتيه وافتراش رجله اليسرى ونصب اليمنى والقومة والجلسة....(بالفتاوى الهندية:١٣٠/١،كتاب الصلاة ،الفصل الثالث،زكريا ديوبند)