سوال:-اگر کوئی شخص قصدا جماعت ترک کر دے تو شرعا کیا حکم ہے یا اس میں کوئی تفصیل ہے یا نہیں اگر ہو تو مفصل بیان کریں؟

جواب:-اگر عذر کی وجہ سے جماعت ترک کر دے تو شرعا وہ شخص گنہگار نہیں ہوگا اور اس کو اس کی گنجائش ہے لیکن اگر بلا عذر قصدا جماعت چھوڑ دے اور اس کی عادت بنا لے تو وہ شخص گنہگار ہوگا ایسا نہیں کرنا چاہیے-

قال ابو الرداء سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ما من ثلاثة في قدية ولا بد ولا تقام فيهم الصلاة الا قد استعوذ عليهم الشيطان فعليكم بالجماعة.... قال السائب يعني بالجماعة الجماعة في الصلاة....(مشكوة:٣٣٥/١،رقم الحديث: ١٠٦٧،بيروت)

وكذا الاحكام تدل على الوجب من ان تاركها من غير عذر يعذر وتدد شهادته وياتم الجيران بالسكوت عنه وهذه كلها احكام الواجب....(حلبي كبير: ٥٠٩/١،كتاب الصلاة،بيروت)

قوله بتركها مرة اي بلا عذر وهذا عند العراقيين وعند الخراسانيين انما ياتم ان اعتاده كما في القنية وقد مر قوله.... من غير حرج قيد لكونها سنة مؤكده او واجبة فبالحرج يرتفع الاتم ويرخص في تركها(الدر المختار مع الشامي: ٢٩٠/٢-٢٩١،كتاب الصلاة ،زكريا ديوبند)

٨.سوال:-جماعت کے لیے کم سے کم کتنے لوگوں کا ہونا ضروری ہے؟

الجواب:-جماعت کے لیے کم سے کم دو افراد کا ہونا ضروری ہے کہ ایک امام ہو اور ایک مقتدی ایک حکم نماز پنجگانہ کے لیے ہے

واقلها اثنان واحد مع الإمام لحديث اثنان فما فوقهما جماعة ولو مميزا... اي ولو كان الواحد المقتدى صبيا مميزا....(الدر المختار مع الشامي: ٢٨٩/٢،كتاب الصلاة ،باب الامام زكريا ديوبند) ف

إذا زاد على الواحد في غير الجمعة فهو جماعة وان كان معه صبي عاقل كذا في السراجية....(بالفتاوى الهندية:١٤١/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

اذا زاد على الواحد في غير الجمعة فهو جماعة وان كان معه صبي عاقل....(الفتاوى السراجية:١٥١/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

٩.سوال:-نماز کے لئے جماعت منعقید کرنے کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-نماز کے لیے جماعت منعقید کرنا شرعا سنت مؤکدہ قریب من الوجوب ہے احناف کے نزدیک اور بعض حضرات فرمایا کہ واجب ہے۔

والجماعة سنة مؤكدة للرجال قال الراهدي ارادوا بالتأكيد الوجوه الا في (رد المختار: ٢٨٧/٢،كتاب الصلاة، باب الامامة، زكريا ديوبند )

في الجماعة: الجماعة سنة مؤكدة كذا في..... وفي "العاية"قال عامة مشايخنا إنها واجبة وتسميتها سنة لو جوجها بالسنة.....(بالفتاوى الهندية: ١٤٠/١،كتاب الصلاة، باب الخامس في الإمامة، زكريا ديوبند)

الجماعة سنة مؤكدة اي قوية يشبه في القوة (هدايه: ١٢٣/١،كتاب الصلاة ،ازمزم ديوبند )

٥.سوال:- مسبوق اپنی نماز کو کس طرح ادا کرے گا مفصل مدلل بیان کرو؟

الجواب:-مسبوق اپنی نماز اس طرح ادا کرے گا کہ امام کے دونوں سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہو کر ثناء پھر سورہ فاتحہ پڑھے گا اس کے بعد بھی سورت پڑھ کر رکوع کرے گا اگر ایک رکعت رہ گئی تھی تو ایک رکعت کے بعد سلام پھیرے گا اور اگر دو رکعت رہ گئی تھی تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس کو اپنی دونوں رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت بھی پڑھے گا اور اگر تین رکعت رہ گئی ہو تو پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت پڑھے گا جب کہ تیسری رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھے گا یہ حکم تو تلاوت کے اعتبار سے تھا قعدہ سے متعلق حکم یہ ہے کہ تین رکعت رہ جانے کی صورت میں ایک رکعت ادا کرنے کے بعد قعدہ کرنا واجب ہے اور مغرب میں اگر دو رکعت رہ گئی ہو تو ایک رکعت کے بعد قعدہ کرنا ہوگا کیونکہ یہ مسبوق کی دوسری رکعت ہے۔

وحكمه المسبوق كمؤتم حقيقة فلا يأتي فيما يقضي بقراءة ولاسهو ولا يتغير فوضه اربعا بنية الاقامة.... انه يقضي اول صلاته في حق القراءة و آخرها في حق القعده وهو منفره فيما يقضيه....(حاشية الطحطاوي على المراقي: ٣٠٩،كتاب الصلاة، اشرفية ديوبند)

أما المسبوق فإنه يجب عليه ان بتابع الامام فيما ادرك ولا يتابع الامام في التسليم فاذا سلم الامام يقوم هو الى قضاء ما سبق به....(بدائع الصنائع:٥٦٣/١،كتاب الصلاة ،اشرفية ديوبند)

قوله (حتى يثني الخ) تفريع على قوله منفرد فيما يقضيه بعد فراغ امامه فيأتي بالثناء والتعوذ لأنه القراءة ويقرا لأنه يقضي اول صلاته في حق القراءة كما يأتي حتى لو ترك القراءة فسدت....(شامي: ٣٤٧/٢،كتاب الصلاة، باب الإمام ،زكريا ديوبند)

٤.سوال:-تکبیر اولی سے نماز پڑھنے کی فضیلت کیا ہے مدلل بیان کریں؟

الجواب:-تکبیر اولی سے نماز پڑھنے کی فضیلت احادیث میں بہت سارے بیان کی گئی ہے ان میں سے چند یہ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے چالیس دن باجماعت نماز اس طرح پڑھی کہ وہ تکبر اولی میں شریک رہا ہو تو اس کے لیے دو پر والے لکھ دیے جاتے ہیں ایک جہنم سے آزادی کا دوسرا انفاق سے براءت کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک خلاصہ ہوتا ہے ایمان کا خلاصہ نماز ہے اور نماز کا خلاصہ تکبیر اولی ہے تکبیر اولی کا ثواب ہزار اونٹ کی قربانی سے بھی زیادہ ہے وغیرہ وغیرہ-

عن انس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلى اربعين يوما في جماعة يدرك التكبيرة الاولى كتبت له براءتان براءة من النار وبراءة من النفاق....(سنن الترمذي: كتاب الصلاة، باب ما جاء في فضل التكبيرة الاولى، رقم الحديث: ٢٤١)

وقيل: بادراك الركعة الاولى وهذا اوسع وهو الصحيح....(الدر المختار مع الشامي: ٢٤٠/٢،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

وصفوة الايمان الصلاة وصفوة الصلاة التكبيرة الاولى.... قال ابو هريرة رضي الله عنه ما يسرني ابي انتهى إلى صلاة مكتوبة وقد سبقني الامام بالتكبيرة الاولى وهي ذروة الصلاة.....(شعب الايمان،ابو بكر البيهقي:٧٣/٣،بيروت)

٧.سوال:-مقتدی کی کتنی قسمیں ہیں ہر ایک کی وضاحت کریں؟

الجواب:-مقتدی کی تین قسمیں ہیں (1) مدرک یہ وہ مقتدی ہے جو امام کے ساتھ اول سے اخر تک نماز میں شریک رہے (2) لاحق یہ وہ مقتدی ہے جو امام کے ساتھ شروع نماز میں شریک ہو مگر پوری نماز یا بعض نماز فوت ہو گئی ہو (3) مسبوق- یہ وہ مقتدی ہے جس کے امام سبقت کر جائے پوری نماز یا بعض نماز-

في المسبوق واللاحق، المسبوق: من لم يدرك الركعة الاولى مع الامام وله احكام كثيرة..... اللاحق: وهو الذي ادرك اولها وفانه الباقي لنوم او حدث او بقي قائما للزحام....(بالفتاوى الهندية:١٤٨/١-١٥٠)

واعلم ان المدرك من صلاة كاملة مع الامام واللاحق من فاته الركعات كلها او بعضها لكن بعد اقدائه..... والمسبوق من سبقه الامام بها او بعضها وهو منفرد حتى مثنى ويتعو....(رد المختار: ٣٤٣/٢-٣٤٦،كتاب الصلاة ،باب الإمامة ،زكريا ديوبند)

المقتدي اما مدرك او مسبوق او لاحق- فالمدرك من صلى الركعات كاملة مع الامام.... والمسبوق :من سبقه الامام....(الموسوعة الفقهيتة: ٢٨/٦،كويته)

سوال:-تکبیرے اولی کا پانے والا کس کو سمجھا جائے گا یا تکبیر اولی پانے کے لیے کوئی معیار مقرر ہے یا ہے تو کیا مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:- مسؤلہ یہ ہے تکبیر اولی کی باری میں مختلف اقوال ہیں یعنی امام کے ساتھ متصل تکبیر کہہ کر اقتدا کرے تو بالاکتفاق تکبیر اولی کا ثواب مل جائے گا البتہ اس کے بعد بھی وسعت دی گئی ہے – اقوال:(1) ثناء سے پہلے پہلے شریک ہو جائے اس کو (2) سورہ فاتحہ کے نصف سے پہلے امام کے ساتھ شامل ہو جائے (3) سورہ فاتحہ کے ختم ہونے تک شامل ہو جائے (4) پہلی رکعت کے رکوع سے پہلے شامل ہو جائے تو تکبیر اولی پانے والا ہے-

فعنده بالفقارنة وعندهما اذ كبر في وقت الثناء وقيل بالشروع قبل قراءة ثلاث ايات لو كان المقتدي حاضرا وقيل سبع لو غائبا وقيل بادراك الركعة الاولى وهذا اوسع وهو الصحيح وقيل بادراك الفاتحة وهو المختار....(رد المختار مع الشامي: ٢٤٠/٢،كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، زكريا ديوبند)

عن انس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلى اربعين يوما في جماعة يدرك التكبير الاولى كتبت له براءتان براءة من النار وبراءة من النفاق...(سنن الترمذي: كتاب الصلاة،باب ما جاء في فضل التكبيرة الاولى،رقم الحديث: ٢٤١)

واختلف في ادراك فضل التحريمة على قولهما فقيل: إلى الثناء كما في الحقائق وقيل إلى نصف الفاتحة كما في النظم وقيل: في الفاتحة كلها وهو المختار كما في الخلاصة، وقيل: إلى الركعة الأولى وهو الصحيح كما في المضمرات.....(حاشية الطحطاوي على المراقي الفلاح: ٢٥٨)

سوال:-اگر کسی شخص کو نماز کے اندر رکعت کی تعداد میں اشتبا ہو جائے تو شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہے اس کو بھی وضاحت کریں؟

الجواب:-اس صورت میں اگر بار بار بھولنے کی شکل پیش آتی ہے تو غالب ظن اور یقین پر عمل کرتے ہوئے کم سے کم رکعت پر بنا کرنی چاہیے اور آخر میں سجدہ سہو کر لینا چاہیے اور جب سجدہ سہو کر لیا اب نماز کو دہرانے کی ضرورت نہیں چاہے نماز فرض ہو یا سنت سب برابر البتہ اگر کسی شخص کو پہلی مرتبہ یا کبھی کبھی ایسا شک ہوتا ہے اسے چاہیے کہ نیت توڑ کر پھر سے نماز پڑھے تاکہ کوئی شک شبہ نہ رہے-

وان كثر الشك تحري وعمل بغالب ظنه.... فإن لم يغلب له ظن اخذ بالاقل لقوله عليه السلام: اذا سها احدكم في صلاته فلم يدر واحدة صلى او ثنتين على واحدة فإن لم يدر ثنتين صلى او ثلاثا فليبن على ثنتين فإن لم يدر ثلاثا صلى او اربعا فليبن على ثلاث ويسجد سجدتين قبل ان يسلم.... وقعد وتشهد بعد كل ركعة ظنها آخر صلاته....(حاشية الطحطاوي على المراقي:٤٧٧)

وذكر في الفتاوى الخاقانية فقال رجل صلى ولم يدر ثلاثا صلى ام اربعا قال ان كان ذلك اول ما سهى استقبل....(حلبي كبير: ٤٧٠)

واعلم انه اذ شغله ذلك الشك فتكفر قدر أداء ركن ولم يشتغل صور الشك....(رد المختار: ٥٦٢/٢-٥٦٣،كتاب الصلاة، باب سجود السهو،زكريا ديوبند)

سوال:-حالت حیض و نفاس میں عورت کی نماز کا شرعا کیا حکم ہے اگر اس پر نماز نہیں ہے تو کیا وہ ان حالت میں تشہ بالصلاۃ اختیار کرے گی یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت باتفصیل بیان کرے؟

الجواب:-حالت حیض و نفاس میں عورتوں پر محفوظہ ہے اور نہ ہی نماز ہے البتہ جب پاک ہو جائے تو روزہ کی قضا کرے گی کیونکہ روزہ پورے سال میں ایک ہی مرتبہ اتا ہے لہذا اس کو قضاء کرنے میں حرج نہیں ہے برخلاف نماز کے کیوں کہ اس میں حرج ہے یہی بات ان مدت میں تشبہ بالصلاۃ اختیار کرے گی یا نہیں صحیح بات یہ ہے کہ وہ تشبہ بالصلاة اختیار کرے گی تاکہ سست و کاہلی نہ ہو جائے

ثم ذكر احكامه يقوله يمنع اي الحيض وكذا النفاس صلاة مطلقا اي كلا او بعضا.... ولو مسجده سكر وصوما وجماعا وتقضيه اي الصوم على التراخي في الاصح لزوما دونها لا حرج اي لان في قضاء الصلاة حرج ينكررها في كل يوم....(الدر المختار مع الشامي: ٥٣٢/١-٥٣٢ ،كتاب الطهارة، اشرفيه ديوبند)

ويجوم بالحيض والنفاس ثمانية اشياء الصلاة والصوم.... اعلم انهما يمنعان وجوبها وجرازها وصحتها وويمنعان صحة الصوم وجواز لا وجوبه....(حاشية الطحطاوي على المراقي:١٤١-١٤٢،كتاب الصلاة، اشرفيه ديوبند )

حيض يمنع صلاة وصوما فتقضيه دونها اي فتقضى الصوم لزوما دون الصلاة....,(البحر الرائق: ٣٣٨/١،كتاب الطهارة، اشرفيه ديوبند )

سوال:-مدرسہ البنات میں اجتماعی طور پر جماعت کے ساتھ لڑکی کا نماز پڑھنا شرعا کیسا ہے اگر بغرص تعلیم ادا کرے تو وہ ذمہ سے ساقت ہونے کے لیے کافی ہے یا نہیں ہے یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:-صورۃ مسؤلہ میں عورتوں کے لیے کسی بھی صورت میں امام بننا جائز نہیں ہے عورت کے لیے عورت کی امامت مكروه تحريمي ہے لكن اگر جماعت كرہي لے تو نماز ہو جائے گی اسی طرح بغرص تعلیم جماعت کے ساتھ ادا کر لے تو وہ ذمہ سے ساقط ہو جائے گا-

عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا خير في جماعة النساء الا في مسجد او في جنازة قتيل..... فعلم ان جماعتهن وحدهن مكروهة......( اعلاء السنن:٢٤٢/٤،كتاب الصلاة ،باب كراهة جماعة النساء، ادارة القرآن باكستان)

ويكره تحريما صرح به في الفتح والبحر جماعة النساء ولو في الترابيح في غير صلاة جنازة.... فإن فعلن تقف الامام وسطهن كالحراة....(الدنيا المختار مع الشامي:٢٠٥/٢-٢٠٦،كتاب الصلاة ،زكريا ديوبند)

وكره جماعة النساء ربوا حرة منهن ولا يحفرن الجماعات لما فيه الفتنة و المخالفة(حاشية الطحطاوي على المراقي:٣٠٤،كتاب الصلاة،باب من الق بالامامه،دار الكتب العلميه بيروت)