٣٤.سوال:-اگر کوئی نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کر لی جائے تو مطلقا اس کا اعادہ واجب ہے یا اس میں کوئی تفصیل ہے؟ اگر تفصیل ہو تو بالتفصیل بیان کریں؟

الجواب:-اگر نماز کے دوران کسی داخل عمل مثلا واجب ترک کرنے کی وجہ سے نماز میں کراہت آئی ہے تو اسی نماز کا اعادہ واجب ہے وقت کے اندر لیکن وقت گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہو جاتا ہے اور اگر نماز سے خارج کسی امر (مثلا امام کا فاسق ہونا) کی وجہ سے کراہت آئی ہے تو اس صورت میں نماز کا اعادہ کرنا واجب نہیں ہے-

وكذا كل صلاة اديت مع كراهة التحريم تجب اعادتها والمختار انه جابر للاول لأن الفرض لا يتكرر....(رد المختار: ١٤٨/٢،كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة ،زكريا ديوبند)

وكذا كل صلاة اديت مع كراهة التحريم تجب اعادتها....(الدر المختار مع الشامي:١٤٧/٢-١٤٨،كتاب الصلاة باب صفة الصلاة ،زكريا ديوبند)

وكذا الحكم في كل صلاة اديت مع كراهة التحريم.... والفرض سقط بالاولى.....(حاشية الطحطاوي على المراقي الفلاح:٢٤٨،كتاب الصلاة، اشرفية ديوبند)

٤٥.سوال:-جماعت ثانی کا شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو اس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بیان کریں کہ جماعت ثانیا کہا اور کس وقت درست ہے؟

الجواب:-جماعت ثانی کرنا مکروہ ہے اس وقت جب ہر روز کے مقررہ امام مقتدیوں نے اذان و جماعت وقت مقررہ پر کی ہے تو اب اس مسجد میں دوبارہ جماعت کرنا مکروہ ہے اور جماعت ثانی اس وقت درست ہے جب کہ دوسرے محلہ کے لوگوں نے اس مسجد میں آ کر جماعت کر لیا تو اس وقت اس محلہ کے لوگوں کے لیے دوبارہ جماعت کرنا درست ہے-

ويكره تكرار الجماعة باذان وامامة في مسجد محله لا في مسجد طريق او مسجد لا امام له ولا مؤذن ولو كرر اهله بدونهما او كان مسجد طريق جاز اجماعا....(رد المختار مع الشامي: ٢٨٨/٢،كتاب الصلاة،باب الإمامة ،زكريا ديوبند)

المسجد اذ كان له امام معلوم وجماعة معلومة في محله.... لاب يباح تكرارها فيه باذان ثان اما اذا صلوا بغير اذان يباح اجماعا وكذا في مسجد قارعة الطريق.... (

وليس له ان يترك.... رجل انتهي الى المسجد وقد فرغ الامام فإن دخل المسجد صلى فيه وان لم يدخل طلب الجماعة لا باس بتكرار الجماعة في مسجد وعلى قرارع الطريق ليس له امام ومؤذن معين....(الفتاوى السراجية:٩٧/١،كتاب الصلاة بالجماعة،زكريا ديوبند

٢٢.سوال:- عورتوں کا مرد امام کے پیچھے نماز پڑھنا شرعا کیسا ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:-عورتوں کو گھر میں تنہا نماز پڑھنا چاہیے ان کے لیے مسجد میں حاضر ہونے اور جماعت سے نماز ادا کرنے کا حکم نہیں ہے لیکن اگر کوئی عورت گھر میں اپنے محرم باپ بھائی یا شوہر کے ساتھ جماعت کر لے تو کوئی حرج نہیں البتہ عورت مرد کے پیچھے صف میں کھڑی ہوگی چاہے وہ اکیلی مقتدی ہو تو بھی یہی حکم ہے اور تراویح کا بھی یہی حکم ہے-

كالعراة فيتوسطهم امامهم ويكره جماعتهم تحريما فتح ويكره حضورهن الجماعة ولو لجمعة.... كما يكره امامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه كاخته أو زوجته او امته.....(رد المختار: ٣٠٧/٢،كتاب الصلاة باب الامامة،زكريا ديوبند)

ويكره لهن حضور الجماعات يعني الشواب منهن لما فيه من خوف الفتنة.....(هداية:١٢٨/١،كتاب الصلاة، زمزم ديوبند)

امامة الرجل للمرأة جائزة إذا نوى الامام امامتها ولم يكن في الخلوة اما اذا كان الامام في الخلوة....(بالفتاوي الهندية:١٤٣/١،كتاب الصلاة،زكريا ديوبند)

1.سوال:-گر کوی شخص دن کی نماز جو فرض کے علاوہ ہوں جیسے سنن مؤکدہ اشراق وغیرہ اگر ان میں جہری قراءت کرلے تو کیا نماز ہوجائگی یا نہی ؟

الجواب وباللّٰه التوفیق: دن کے سنن و نوافل میں سراً قرات کرنا لازم ہے،البتہ رات کے نوافل میں سراً اور جہراً قراءت کرنے میں اختیار ہے، البتہ اگر کوئی شخص دن کے نوافل میں جہری قراءت کر لیتا ہے تو اس کی نماز ادا ہو جائے گی، اور فجر کی سنتوں کا شمار دن کی سنتوں میں ہوگا،اور ان میں بھی سراً قراءت کی جائے گی…

وفي التطوع بالنهار يخافت، وفي الليل يتخير اعتباراً بالفرض في حق المنفرد، وهذا لأنه مكمل له فيكون تبعا (فتح القدیر:ج/١ص/٣٣١)

ﻓﻌﻠﻰ ﻇﺎﻫﺮ اﻟﺮﻭاﻳﺔ ﻻ ﺳﻬﻮ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﻨﻔﺮﺩ ﺇﺫا ﺟﻬﺮ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﺨﺎﻓﺖ ﻓﻴﻪ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻋﻠﻰ اﻹﻣﺎﻡ ﻓﻘﻂ (شامی زکریا:کتاب الصلاۃ، باب سجود السهو:ج/٢ص/٥٤٥)

قال النووي: وأما السنن الراتبة مع الفرائض فيسر بها كلها باتفاق أصحابنا، ونقل القاضي عياض في شرح مسلم عن بعض السلف الجهر في سنة الصبح، وعن الجمهور الإسرار كمذهبنا (کتاب المجموع للنووی:ج/٣ص/٣٥٧)

سوال:-امام کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیے اور کن چیزوں سے بچنا چاہیے مدلل بیان کریں؟

الجواب:-امام کے بعض اہم اوصاف درج کیے جاتے ہیں:کہ وہ تمام گناہ کبیرہ سے بچتا ہو امام قاری عالم دین دار متقی اور پرہیزگار ہو دین کی باتیں سمجھتا ہو سنت سے خوب آگاہ ہو اور ان پر عمل پیروی ہو لوگوں کی غیبت اور عیب جوئی سے اپنی زبان کو روکے اور دوسروں کو نیکی کا حکم دے اور خود بھی اس پر عمل کرے،دوسروں کو برائی سے منع کرے اور خود بھی باز رہے نیکی اور نیک لوگوں سے محبت کرے اوقات نماز سے واقف ہو حرام باتوں سے اجتناب کرے فعل حرام سے اپنے ہاتھوں کو روکنے والا ہو وغیرہ لیکن اگر ان میں کوئی ایسا شخص ہو جو زیادہ علم والا اور نیک ہو تو پھر اسی کو امام بنانا اولی ہے،بالغ نوجوان جس کے ابھی داڑھی نہ نکلی ہو با وجہ خوف شہوت یا غلبہ جہل مکروہ ہے،اندھا ان کو دن رات میک اپ نظر ائے گی اور نجاست سے نہ بچ سکنے کی وجہ سے مکروہ ہے،کم عقل اور جوان کے علاوہ ہے مثلا ایک آدمی جو نماز کے احکام سے خوب واقف ہے اچھا پڑھتا بھی ہے تو ان کو امام بنانے میں کوئی کراہت نہیں ہے-

ويكره تقديم العبد والاعرابى.... والفاسق والاعمى.... وولد الزنان.... وان تقدموا جاز لقوله عليه الصلاة والسلام صلوا اخلف كل بر وفاجر....(هدايه: ١٢٤/١-١٢٥،كتاب الصلاة، زمزم ديوبند)

وكره أمامة العبد.... والاعمى.... والاعرابي.... وولد الزنان.... والجاهل والفاسق والمبتدع....(حاشية الطحطاوي على المراقي:٣٠٢-٣٠٣،كتاب الصلاة، اشرفية ديوبند)

وتجوز امامة الاعرابي والاعمى والعبد وولد الزنا والفاسق كذا في "الخلاصة" الا انها تكره هكذا في "المتون"..(بالفتاوى الهندية:١٤٣/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

سوال:-لاحق اپنی نماز کس طرح ادا کریں مدلل بیان کریں؟

الجواب:-لاحق اپنی نماز کو مکمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ان رکعتوں کو ادا کرے جو اس کی امام کے ساتھ پڑھنے سے چھوڑ گئی ان رکعت کے ادا کرنے کے بعد اگر امام نے ابھی نماز ختم نہ کی ہو تو اس کے ساتھ شریک ہو کر باقی نماز پوری کر لے اور اگر امام نے نماز پوری کر لی ہو تو اب باقی رکعتیں بھی اسی طرح بغیر قرات کے پوری کر لے اور لاحق اپنی ان رکعتوں میں جو امام کے ساتھ شریک ہونے کے باوجود اس سے چھوڑ گئی ہے ان میں مقتدی شمار ہوگا یعنی ان کو اس طرح پورا کرے گا جس طرح مقتدی اپنی نماز پڑھتا ہے یعنی ان میں قرات نہیں کرے گا بلکہ اندازے سے اتنا قیام کرے گا جتنا امام قیام کرتا ہے اس کے بعد حسب معلوم رکوع قوما اور سجدہ وغیرہ کرے گا اور اگر اس دوران اس سے کوئی سہو ہو جائے تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا،مثل کے طور پر کوئی شخص امام کے ساتھ عشاء کی نماز میں پہلی رکعت میں شریک ہوا پہلی رکعت پڑھنے کے بعد اس کا وضو ٹوٹ گیا اور یہ وضو کرنے کے لیے چلا گیا اور اس کا ارادہ بنا کرنے کا تھا اور اس نے مفسد نماز کوئی حرکت نہیں کی جب عضو کر کے ایا تو اس دوران امام دو رکعت پڑھ چکا تھا تو اب اس شخص لاحق پر واجب ہے کہ پہلے ان دو رکعتوں کو پڑھے جو اس سے چھوٹ گئی ہیں اور ان کو اس طرح ادا کرے جس طرح مقتدی نماز پڑھتا ہے یعنی ان میں قرات نہ کرے بلکہ اتنی مقدار اندازے سے قیام کرے جتنا امام قیام کرتا ہے اس کے بعد رکو سجدہ کر کے پھر یہ دو رکعتیں پوری کرنے کے بعد اگر امام نے نماز ختم نہ کی ہو تو اس کے ساتھ شریک ہو کر باقی نماز پوری کر لے اور اگر امام نے نماز ختم کر لی تھی تو اب یہ ایک رکعت بھی بلا قرات کے پڑھ لے-فقط واللہ اعلم

اللاحق: وهو الذي ادرك اولها وفاته الباقي لنوم او حدث او بقي قائما للزحام او الطائفة الاولى في صلاة الخوف كأنه خلف الامام لا يقرأ ولا يسجد للسهو..... ولو سجد الامام للسهو لا يتابعه اللاحق قبل قضاء ما عليه بخلاف المسبوق اللاحق اذا عاد بعد الوضوء ينبغي له ان يشتعل اولا يقضاء ما سبقه الامام بغير قراءه يقوم مقدار القيام الإمام وركوعه وسجوده....(بالفتاوى الهندية:١٥٠/١،كتاب الصلاة،زكريا ديوبند)

واعلم ان المدرك من صلاتها كاملة مع الامام والاحق من فاتته الركعات كلها او بعضها.... بأن سبق امامه في ركوع وسجود فإنه حكمه كمؤتم فلا ياتي بقراءة ولاسهو.... لترك الترتيب..... وان قرأ مع الامام لعدم.....(رد المختار: ٣٤٣/٢-٣٤٨،كتاب الصلاة، باب الامامة، زكريا ديوبند)

وهذا واجب لا شرط حتى لو عكس فإنه يصيح فلو نام في الثالثة واستيقظ فيالرابعة فإنه يأتي بالثالثة بلا قرأة لانه لاحق فيها فاذا فرغ منها قبل ان يصلي الامام.... وان بعد فراغ الامام صلى الرابعة وحدها بلا قراءة ايضا لانه لا حق فلو تابع الامام....(البحر الرائق: ٦٢٣/١،كتاب الصلاة، باب الامامة، المكتبه التهانوية ديوبند)

2.سوال:- جاہل کا امام بننا شرعا کیسا ہے اگر کوئی عالم جاہل کے پیچھے نماز پڑھ لے تو اس وقت کیا حکم ہے اگر کوئی تفصیل ہو تو مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:- جاہل کا امام بننا شرعا مکروہ ہے اگر کوئی عالم جاہل کے پیچھے نماز پڑھے تو دیکھا جائے گا کہ جاہل قراءت پر قدرت رکھتا ہے یا نہیں اگر قراءت پر قادر ہے تو عالم کی نماز صحیح ہوگی ورنہ نہیں بلکہ نماز فاسد ہو جائے گی بشرطیکہ جاہل نماز کے احکام بھی جانتے ہو-

وكره امامة العبد... والجاهل لأن امامة الجاهل مكروهة كيفما كان لعدم علمه باحكام الصلاة.... اذ لو كان عالما تفيا لا تكره امامة....(حاشية الطحطاوي على المراقى الفلاح:٣٠٢-٣٠٣،كتاب الصلاة، اشرفية ديوبند)

وامامة الامي قوما اميين جائزة كذا في"السراجية"اذا ام امي اميا وقادئا فصلاة الجميع فاسده عند ابي حنيفة رحمه الله تعالى وقال صلاة القاري وحده....(بالفتاوى الهندية:١٤٣/١،كتاب الصلاة،زكريا ديوبند)

0.سوال:-نابالغ بچوں کو امام بنانا شرعا درست ہے یا نہیں نیز تراویح کے اندر مرد یا عورتوں کے لیے امام بنانے کا کیا حکم ہے باتفصیل بیان کریں؟

الجواب:-نابالغ بچوں کو امام بنانا شرعا درست نہیں ہے نیز تراویح کے اندر اس کو امام بنانے کے سلسلے میں مشائخ کرام کا اختلاف ہے چنانچہ مشائخ بلخ نے فرمایا کہ نابالغ بچوں کو تراویح اور سنن مطلقہ کے اندر امام بنانا درست ہے اور ہمارے مشائخ نے فرمایا کہ مطلقا نابالغ بچوں کو امام بنانا درست نہیں ہے اور یہی قول زیادہ صحیح اور راجح ہے-

والله يجوز للرجال ان يقتدوا بامراة او صبي..... واما الصبي فلانه متنفل فلا يجوز اقتداء المفترص به وفي الترابيح والسنن المطلقة جوزه مشايخ بلخ ولم يجوزه ولم يجوزه مشايخنا.... والمختار انه لا يجوز في الصلوات كلها....(هدايه: ١٢٦/١-١٢٧،كتاب الصلاة، زمزم ديوبند)

وللرجال ولخنثى مثله لا يجوز وامامة الصبي المراهق لصبيان مثله يجوز كذا في الخلاصة وعلى قول ائمة بلخ يصح الاقتداء بالصبيان في الترابيح والسنن المطلقة..... المختار انه لا يجوز في الصلوات كلها وهو الاصح......(بالفتاوى الهندية: ١٤٣/١،كتاب الصلاة قزكريا

ولا يصح اقتداء رجل بامراة وخنسي وصبي مطلقا ولو في جنازة ونفل على الاصح قال في الهداية وفي التراويح والسنن المطلقة جوزه مشايخ بلخ ولم يجوزه مشايخنا.... والمختار انه لا يجوز في الصلوات كلها....(الدر المختار مع الشامي: ٣٢١/٢-٣٢٢،كتاب الصلاة،زكريا ديوبند)

0.سوال:-عورتوں کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا کیسا ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:-صرف عورتوں کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے البتہ عورت اپنے محرم کے ساتھ گھر میں جماعت کے ساتھ پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ سکتے ہیں بلکہ افضل ہے مثلا میاں بیوی ہے تو شوہر امام بنے اور بیوی مقتدی اسی طرح گھر کے دوسرے خواتین بھی یعنی جو مرد ہیں وہ امام بنے اور باقی پیچھے کھڑے ہو-فقط واللہ اعلم

ويكره تحريما جماعة النساء ولو في التراويح في غير صلاة جنازة..... افاد ان الكراهة في كل ما تشرع فيه جماعة الرجال فرضا او نفلا....(رد المختار مع الشامي: ٣٠٥/ ٢،كتاب الصلاة، باب الامامة، زكريا ديوبند ) من جانب مختلف

ويكره للنساء ان يصلين وحدهن الجماعة.....(هدايه: ١٢٥/١،كتاب الصلاة، باب الامامة، زمزم بند) کے 8

وكذا اذا بان ان الامام كافر او مجنون او امراة او خنثي او أمي او صلى بغير احرام....(بالفتاوى الهندية:١٤٤/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

1.سوال:-اگر کوئی شخص گھر کے اندر ہی جماعت کر لے اور مسجد کی جماعت میں شریک نہ ہو تو شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:-جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت موکدہ ہے بلا عذر مرد کا گھر میں نماز پڑھنے کی عادت بنا لینا گناہ ہے لہذا مسجد میں ہی جماعت سے نماز ادا کرنا چاہیے البتہ اگر کبھی عذر کی وجہ سے جماعت رہ جائے یا جھوڑنے کا معتبر عذر ہو مثلاً بیماری وغیرہ ہو تو گھر میں نماز پڑھنے میں حرج نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں جو ثواب ہے وہ گھر میں پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا ہے-فقط واللہ اعلم

قوم تخلفوا عن المسجد وصلوا في البيت بجماعة فأنهم ينالون فضل الجماعة ولكن دون ما ينالون في المسجد.....(الفتاوى السراجية:١٥٢/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

والصلاة بالجماعة سنة مؤكدة.... في مسجد او غيره وفي القنية الاصح ان اقامتها في البيت كاقامتها في المسجد وان تفاوتت الفضيلة.....(حاشية الطحطاوي على المراقي: ٢٨٦،كتاب الصلاة ،اشرفية ديوبند)

قوله: في مسجد او غيره قال في القنية واختلف العلماء في اقامتها في البيت والاصح انها كاقامتها في المسجد الا في الافضلية....(الدر المختار مع الشامي: ٢٩٠/٢،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)