سوال:-جامع مسجد کس کو کہا جائے گا کیا ایک شہر میں کئی جامع مسجد ہو سکتے ہیں یا نہیں نیز اگر کوئی مسجد ایک وقت میں جامع مسجد ہو تو کیا اب وہ بدل کر غیر مسجد جامع ہو سکتی ہے یا نہیں؟

جواب:-جامع مسجد وہ شرعی بڑی مسجد ہے جس میں نماز جمعہ بھی قائم کی جاتی ہے اور جس مسجد میں جمعہ قائم نہ کی جاتی ہو تو وہ جامع مسجد نہیں رہے گی بلکہ نماز پنجگانہ والی مسجد بن جائے گی اور ایک ہی شہر میں کئی جامع مسجد ہو سکتی ہیں-

المراد بالمسجد الذي تقام فيه الجمعة.....(الموسوعة الفقهية:٤٤/١٩٩،كويت)

المسجد الموضع الذي يسجد فيه واصطلا: وهو الارض التي جعلها المحالك مسجدا بقوله جعلته مسجدا واندز طريقه واذن بالصلاة فيه....هو المسجد الكبير العام....(التعريفات الفقهية:٢٨٤، تهانوى ديوبند)

ثم المسجد الجامع؛ لأنه من مجمع المسلمين لاقامة الجمعة ثم بعده المساجد الكبار: لأنها في معنى الجوامع لكثيرة اهلها....(بدائع الصنائع :١١/٢،كتاب الصلاة،اشرفية ديوبند)

سوال:-اگر کوئی چھوٹا گاؤں ہو اور وہاں کے لوگ ایک عرصہ سے نماز جمعہ پڑھ رہا ہو تو اس کا شرعا کیا حکم ہے وضاحت بیان کریں؟

الجواب:- مسؤلہ اگر چھوٹا گاؤں اس میں جمعہ شرط پایا جا رہا ہو یعنی ضروریات چیز مہیا ہوں تو عرصہ سے نماز جمعہ پڑھنا درست ہے اب اگر چھوٹا گاؤں اور عرصہ سے جمعہ ادا کر رہا ہو اب اگر مانا کرے تو فتنہ فساد کا اندیشہ ہو تو ان لوگوں کو مسئلہ بتا دیا جائے صاف صاف کہ یہاں جمعہ کی شرائط نہیں پائی جا رہی ہیں اب اگر نہیں مانتے ہیں تو وہ اپنے عمل کے خود ذمہ دار ہے لیکن جن کو مسئلہ معلوم ہے ان کے لیے ایسی جگہ جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اس باوجود اگر نماز جمعہ پڑھے تو اس کی ذمہ سے فریضہ ظہر ساقط نہ ہوگا-

وكذا لا يصح اداء الجمعة الا في المصر وتوابعه فلا تجب على اهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح اداء الجمعة فيها....(بدائع الصنائع :٥٨٣/١،كتاب الصلاة ،باب الجمعة،زكريا ديوبند)

لو صلوا في القرى لذمهم اداء الظهر.....(شامي: ٧/٣،كتاب الصلاة ،باب الجمعة،زكريا ديوبند)

لو صلوا في القرى لذمهم اداء الظهر.....(شامي: ٧/٣،كتاب الصلاة ،باعن الحارث عن على قال: لا جمعة ولا تشريق الا في مصر جامع....(مصنف عبد الرزاق: ١٦٧/٣،الجمعة باب القرى المجلس العلمى، رقم: ٥١٧٥)ب الجمعة،زكريا ديوبند)

سوال:-گاؤں میں نماز جمعہ ادا کرنا شرعا درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر ر صورت بتفصیل بیان کریں؟

الجواب:-گاؤں اگر بڑا ہے اور اس میں ضرورت کی ساری چیزیں مل جاتی ہیں تو اس میں نماز جمعہ ادا کرنا درست ہے اور اگر گاؤں چھوٹا ہے لیکن اس میں ضرورت کی ساری چیزیں ہیں تو پھر اس میں بھی نماز جمعہ درست ہے البتہ اگر اس میں ضرورت کی چیزیں نہ ملتی ہو تو پھر نماز جمعہ درست نہیں ہے-

صرح به في التحفة عن ابي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك واسواق ولها رسايتق وفيها....(رد المختار مع الشامي: ٥/٣،كتاب الصلاة ،باب الجمعة، زكريا ديوبند)

والمسجد الجامع ليس بشرط.... لهذا جمعوا على جوازها بالمصلى في فناء المصر وهو ما اتصل بالمصر معدا لمصا الجمعة....(غنيه المتملي في شرح منية المصلى: ٩٨/٣،كتاب الصلاة ،دار العلوم ديوبند)

ولا دائها شرائط في غير المصلى منها المصري هكذا في الكافي والمسر في ظاهر الروايه الموضع الذي يكون فيه مفت وقاض تقيم الحدود.... ومن لا تجب عليهم الجمعة من اهل القرى والبوادي لهم ان يصلوا الظهر بجماعة....(بالفتاوى الهندية:٢٠٥/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

سوال:-جواز جمعہ کے لیے تین آدمی کی علاوہ شہر کے ساتھ مخصوص تعداد کی بھی شرط ہے یا نہیں یا صرف شہر کا ہونا کافی ہو اگر شہر کا ہونا کافی ہو تو بڑا شہر یا چھوٹا شہر یا اس میں کوئی اور تفصیل ہے؟

الجواب:-جواز جمعہ کے لیے ادمی کے علاوہ شہر کے ساتھ مخصوص تعداد کی شرط نہیں ہے صرف شرط ہونا کافی ہے چاہے وہ شہر چھوٹا ہو یا بڑا کیونکہ صحت جمعہ کی شرطوں میں سے یہ ہے کہ مصر ہو جماعت ہو اور اس کے لیے تین آدمی کا ہونا ہی کافی ہے

ويشترك لصحتها.... المصر.... اوفناؤه..... والجماعة واقلها ثلاثة رجال ولو غير الثلاثة الذين حضر والخطبة سوي الامام....(الدر المختار مع الشامي: ٥/٣-٢٤،كتاب الصلاة زكريا ديوبند)

لا تصح الا ستة شروط المصر او فناؤه ....(مجمع النهر: ٢٤٤/١-٢٤٦،كتاب الصلاة ،فقيه الامة ديوبند)

واما شرتطها فنوعان شرائط وجوب فالاول ستة كما ذكره المصنف المصر والسلطان.... والجماعة...(البحر الرائق:٢٤٥/٢،كتاب الصلاة، اشرفية ديوبند)

سوال:-مصر کی تعریف تحریر کریں؟اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو سب کو نقل کر کے راجح قول کی بھی وضاحت کریں؟

الجواب:- مصر کی تعریف و حدود میں علماء کے مابین مختلف اقوال ملتے ہیں چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مصر وہ ایسا بڑا شہر ہے جس میں راستے بازار وغیرہ ہو اور ایسا ولی یا قاضی ہو جو مظلوم کو ظالم سے حق دے سکے چاہے اپنے حکم سے ہو یا علم سے یا دوسرے کے علم سے اور لوگ اس کی طرف رجوع بھی کرتے ہو یہی زیادہ صحیح ہے اور راجح قول ہے، امام کرخی:مصر جامع وہ ہے جس میں شریعت کے احکام نافذ کی جاتی ہو اور حدود قائم کی جاتی ہو امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے بہت سی روایت ہے ہر وہ مصر جس میں ممبر قاضی وغیرہ ہو اور احکام نافذ کی جاتی ہو اور حدود وغیرہ ائین کی جاتی ہو امام عبداللہ بلخی: اگر شہر کے لوگ اتنے زیادہ ہو کہ اگر وہاں کے بڑی مسجد میں جمع ہو جائے تو نہ سماسکے فقہاء کرام کہ تمام افوال سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ جس میں لوگوں کی ضروریات کی چیزیں موجود ہو مثلا راستہ بازار ہے ڈاک خانا وغیرہ تو اس کو شہر یا بڑا قصبہ کہا جائے گا جس میں جمعہ جائز ہے-

صرح به في التحفة عن ابي حنيفة إنه بلدة كبيرة فيها سكك واسواق....(شامي:٥/٣،كتاب الصلاة،باب الجمعة ،زكريا ديوبند)

اما المصر الجامع فقد اختلفت الاقاويل في تعديده: ذكر الكرخي ان المصر الجامع ما افيحت فيه الحدود ونفذت فيه الاحكام وعن ابي يوسف روايات ذكر في الاملاء كل مصر فيه منبر وقاضي ينفذ الاحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على اهله الجمعه عن ابي حنيفه انه بلده كبيره.....اهله الجمعة.... وروي عن ابي حنيفة انه بلدة كبيرة....(بدائع الصنائع:٥٨٥/١-٥٨٦،كتاب الصلاة،اشرفيه ديوبند)

والمصر الجامع قد اختلفوا فيه..... فعن ابي يوسف كل موضع فيه امير وقاضي ينفذ الاحكام ويقيم الحدود.... وعن ابي حنيفة هو بلدة كبيرة فيها سكك واسواق ولها رسايتق ويرجع الناس اليه في ما وقعت لهم من الحوادث....(هدايه: ١٧٧/١،كتاب الصلاة ،زمزم ديوبند)

سوال:-نماز جمعہ کے جائز ہونے کے لیے کتنی شرط ہے ہر ایک کی وضاحت کریں؟

الجواب:-بعض حضرات کے نزدیک نماز جمعہ کے جائز ہونے کے لیے چھ شرائط ہیں (1) مصر یا فنائے مصر: اس سے مراد ایسی بستی ہے جہاز ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہو ابادی پختہ مکانات ہو اور بازار بھی لگتا ہو وغیرہ(2) بادشاہ: اس سے مراد سلطان اسلام یا اس کا نائب ہے (3) وقت: جمعہ کا وقت ظہر کا وقت ہے (4) خطبہ: خطبہ میں شرط یہ ہے کہ وقت میں ہو اور نماز سے پہلے ہو(5) اذان عام: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے جس مسلمان کا جی چاہے آئے کسی کی روک ٹوک نہ ہو (6) جماعت: کم از کم تین آدمی کا ہونا-

أما الشرائط التي ترجع الى غير المصلى فخمسة في ظاهر الروايات البصر الجامع والسلطان والخطبة والجماعة والوقت.....(بدائع الصنائع :٥٨٣/١،كتاب الصلاة،اشرفية ديوبند)

لا تصح الا بستة شروط المصر او فناؤه والسلطان اونائبه وقت الظهر والخطبة قبلها في وقتها والجماعة والاذن العام.....(مجمع النهر: ٢٤٤/١-٢٤٦،كتاب الصلاة، فقيه الامة ديوبند)

ولا دائها شرائط في غير المصلى: منها المصر.... ومنها وقت الظهر... ومنها الخطبة قبلها... ومنها الجماعة... ومنها الاذن العام....(بالفتاوى الهندية:٢٠٥/١-٢٠٩،كتاب الصلاة ،في صلاة الجمعة ،زكريا ديوبند)

سوال:-نماز جمعہ جائز ہونے کے لیے مسجد کا ہونا ضروری ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:-نماز جمعہ کے جائز ہونے کے لیے مسجد کا ہونا ضروری نہیں ہے مسجد کے علاوہ بھی کسی گھر یا میدان میں جماعت ادا کرنا جائز ہے، البتہ صحت جمعہ کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ جگہ شہر یا قصبہ یا اتنا بڑا گاؤں ہو کہ وہاں روز مرہ کی ضروریات کی ساری چیزیں مہیا ہو-

ويشترط لصحتها.... المصر او فناؤه.... والسلطان.... ووقت الظهر فتبطل الجمعة بخروجه،والخطبة فيه كونها قبلها والجماعة والاذن العام....(الدر المختار مع الشامي: ٥/٣-٢٥،كتاب الصلاة ،زكريا ديوبند)

واما الشرائط..... المصر الجامع والسلطان والخطبة والجماعة الوقت....(بدائع الصنائع :٥٨٣/١،كتاب الصلاة،اشرفيه ديوبند)

سوال:-سفر شرعی کی مقدار میں اختلاف ہے یا نہیں اگر اختلاف ہو تو اس کو نقل کر کے راجح قول کی نشان دہی کریں؟

الجواب:-سفر شرعی کی مقدار میں اختلاف ہے چنانچہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اقل مدت سفر دو دن اور تیسرے دن کا اکثر حصہ ہے امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ایک قول کے مطابق ایک دن اور ایک رات اور امام مالک و امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک چار فرسخ اقل مدت سفر ہے یہی ایک قول امام شافعی کا ہے اور طرفین رحمہ اللہ کے نزدیک تین دن تین رات اقل مدت سفر ہے اور یہی زیادہ صحیح اور راجح قول ہے-

السفر الذي يتغير به الاحكام ان يقصد مسيرة ثلاثة ايام ولياليها.... وقدر ابو يوسف رحمه الله بيومين واكثر اليوم الثالث والشافعي رحمه الله بيوم وليلة في قول.....(الهداية:١٧٣/١،كتاب الصلاة،زمزم ديوبند)

قال اصحابنا مسير ثلثه ايام.... وروي عن ابي يوسف يومان واكثر الثالث.... وقال مالك أربعة برد كل بريد اثنا عشر ميلا.... واختلف اقوال الشافعي فيه قيل سنة و اربعون ميلا.... وقيل يوم وليلة....(بدائع الصنائع:٢٦١/١-٢٦٢،كتاب الصلاة،اشرفيه ديوبند)

سوال:- جمعہ کی نماز دنیا میں سب سے پہلے کس مسجد میں ہوئی؟

الجواب:-الجرت سے قبل حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سب سے پہلے بنی بیاضہ میں ادا کی اور ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنی سالم بن عوف کے قبیلہ میں سب سے پہلے مسجد جمعہ میں نماز ادا فرمائی-

اول من جمع بنا في حرة بني بياضة: أسعد بن زرارة.... فكان قبل مقدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة ذكره البيهقي....(حلبي كبير: ٩٦/٣،كتاب الصلاة ،دار العلوم ديوبند)

و اول جمعة اقيمت في الاسلام الجمعة التي اقامها اسعد بن زرارة رضي الله عنه.... و اول جمعة جمعها رسول الله صلى الله عليه وسلم.... فهو انه لما قدم المدينة.... فادركته صلاة الجمعة في بني سالم بن عوف... وصلى الجمعة بهم....(الدر المختار مع الشامي: ٣/٣-٤،كتاب الصلاة،زكريا ديوبند)

و اول من سماها يوم الجمعة....ولما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة واقام.... فادركته الجمعة في بني سالم بن عوف او فصلاتها في المسجد الذي في بطن الوادي....(البحر الرائق: ٢٤٥/٢،كتاب الصلاة،باب صلاة الجمعة،اشرفية ديوبند)

سوال:- اگر کوئی شخص سفر شرعی مقدار سے دور جگہ پر ملازمت کرے اور وہ کبھی ہفتہ میں یا کبھی مہینہ میں یا کبھی پندرہ دن پر گھر آ جائے تو ایسے شخص کا ملازمت کی جگہ شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-صورت مسؤلہ میں اگر وطن اصلی اور وطن اقامت دونوں کے درمیان سفر شرعی کی مسافت ہے تو یہ شخص جب وطن اصلی سے وطن اقامت کے ارادے سے نکلے گا یا وطن اقامت سے وطن اصلی کے ارادے سے نکلے گا تو ابادی سے باہر نکلتے ہی مسافر ہو جائے گا لیکن جب وہ اپنے وطن اصلی کی ابادی میں داخل ہوگا تو فورا مقیم ہو جائے گا اگرچہ وہ صرف ایک دو روز بلکہ ایک گھنٹہ قیام کی نیت ہو اور اگر وطن اقامت میں 15 دن سے کم رہنے کے نیت ہو تو وہاں بھی مسافر رہے گا البتہ اگر پندرہ دن سے زیادہ رہنے کی نیت ہو تو وہ مقیم ہو جائے گا-

الوطن الاصلي يبطل بمثله.... لا غير ويبطل وطن الاقامة بمثله وبالوطن الاصلي وبانشاء السفر والاصل ان الشيء يبطل بمثله وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى الخ.....(رد المختار: ٦١٤/٢-٦١٥،كتاب الصلاة،باب صلاة المسافر،زكريا ديوبند)

ويبطل الوطن الاصلي بمثله لا السفر ووطن الاقامه بمثله والسفر والاصلي.... لان الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه ولا يصلح مبطلا له....(البحر الرائق: ٢٣٩/٢،كتاب الصلاة، اشرفيه ديوبند)

ولا يزال على حكم السفر حتى ينوى الاقامة في بلدة او قرية خمسة عشر يوما او اكثر.... ويبطل الوطن الاصلي بالوطن الاصلي اذ انتقل عن الاول باهله.....(بالفتاوى الهندية: ١٩٩/١-٢٠٢،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)