سوال:- عیدگاہ مسجد کا حکم رکھتی ہے یا نہیں اور بقر عید کی نماز کے بعد آٹھ دس مہینے تک خالی پڑی رہتی ہے اس دوران پیڑ پودے لگا کر فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں نیز اس میں حائضہ اور نفساء کا گزر جائز ہے یا نہیں؟ دلائل کے ساتھ جواب تحریر فرمائیں ؟

الجواب وباللہ التوفیق:-جواز اقتداء میں عیدگاہ مسجد کے حکم میں ہے باقیہ احکام میں مسجد کے حکم میں نہیں، بلکہ فناء مسجد اور مدرسہ وغیرہ کے حکم میں ہے لہذا پیڑ پودے لگا کر خود فائدہ اٹھانا جائز ہے نیز اس میں حائضہ اور نفساء کا دخول جائز ہے-(المستفاد: فتاوى محموديہ:٤٤٦/٢٢)

اما المتخذ الصلوة جنازة او عيد فهو مسجد في جواز الاقتداء وان الفصل... رفقا بالناس لا في حق غيره به يفتى نهاية فحل دخوله لجنب وحائض كفناء مسجد وباط ومدرسة (شامي:٤٣٠/٢،زكريا ديوبند)

شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به(شامي: ٤٣٣/٤،كراچی)

سوال:-امام صاحب نے چار رکعت والی نماز میں قعدہ اولی چھوڑ کر کھڑا ہو گیا مقتدیوں کے لقمہ دینے پر واپس آیا تو سجدہ سہو پر کام چل جائے گا یا نہیں یا نماز کا ارادہ لازم ہوگا؟

الجواب:-صورت مسؤلہ میں نماز درست ہو جائے گی واجب الاعادہ نہیں ہوگی البتہ سجدہ کرنا لازم ہوگا-

عن المغيرة بن شعبة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام الإمام في الركعتين، فإن ذكر فصل أن يستتمم قائما فليجلس وان استتمم قائما فلا يجلس ويسجد سجدتى السهو.(السنن الكبري للبيهقي:٢٩٨/٣، كتاب الصلاة ،باب من سها فقام من اثنتين،دار الكفر) (سنن الدار قطني:٣٦٧/١،دار الكتب العلمية)

وان استقام قائما لا يعود لا شتغاله بفرض القيام ويسجد للسهو لترك الواجب فلو عاد إلى القعود بعد ذلك تفسد صلوته لرقض الفرض لما ليس بفرض وصححه... وقيل لا تفسد لكنه يكون مسيئا ويسجد لنا خير الواجب وهو الا مشبه كما حققه الكمال وهو الحق وفي الشامية ما في المبتغي من ان القول بالفساد غلط ؛ لأنه ليس بترك بل هو تاخير كما لو سها عن السورة فركع ؛ فإنه برفض الركوع ويعود الى القيام و يقرأ (در مختار مع الشامي، كتاب الصلاة ،كراچی٨٤/٢٠ ،زكريا ٥٤٩/٢)

سوال:-مسبوق نے امام کے سجدہ سہو کے موقع پر امام کے ساتھ سلام پھیر دیا پھر امام کے ساتھ التحیات پوری کرنے کے بعد اپنے باقیہ نماز پوری کر لی ہے تو مسبوق کی نماز میں کیا خلل پڑے گا کیا سجدہ سہو میں امام کے ساتھ سلام پھیر دینے سے نماز فاسد ہو جائے گی یا باقی رہے گی وضاحت کے ساتھ تحریر فرمائیں ؟

الجواب:-مسبوق امام کے سجدہ کے موقع پر امام کے ساتھ سلام پھیر دے تو مسبوق کی نماز فاسد نہ ہوگی اس لیے کہ مسبوق سجدہ سہو میں امام کے تابع ہوتا ہے-

ثم المسبوق انما بتابع الامام في السهو لا في السلام فيسجد معه ويشهد، فإن سلم بان عامدا فسدت صلاته والا فلا ولا سجود عليه إن سلم قبل الامام أو معه وان سلم بعده لزمه.(البحر الرائق: ٧٦/٢،زكريا ديوبند)

والمسبوق يسجد مع امامه قيد بالسجود لانه لا يتابعه في السلام بل يسجد معه ويشهد بان سلم فإن كان عامدا فسدت والا لا(شامي: ٥٤٦/٢،زكريا ديوبند)

لكن المسبوق بتابع في السجود دون السلام (الفقه الاسلامي وادلته: ٩٠/٢)

سوال:-جمعہ کا حکم ہجرت سے پہلے نازل ہوا ہے یا ہجرت کے بعد دلیل سے جواب لکھے اگر جمعہ کا حکم ہجرت سے پہلے نازل ہوا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں کیوں قائم نہیں فرمایا؟

الجواب:-جمعہ کا حکم جمہور کے نزدیک ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے جیسا کہ فتح الباری میں ہے لیکن راجح قول کے مطابق ہجرت سے پہلے جمعہ کا حکم نازل ہوا ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں رہتے ہوئے کفار قریش کی وجہ سے جمعہ نہ کر سکے جیسا کہ لامع الدراری میں ہے-

وذلك ان الجمعة فرضت على النبي صلى الله عليه وسلم وهو بمكة قبل الهجرة كما احرجه الطبراني عن ابن عباس رضي الله عنه فلم يتمكن عن اقامتها هنالك من اهل الكفار.(لامع الدراري:١/٢)

واختلف في وقت فرضية الجمعة فالاكثر على أنها فرضت بالمدينة وهو مقتضي ما تقدم ان فرضيتها الآية المذكورة وهي مدينة وقال الشيخ ابو حامد: فرضت بمكه وهو غريب(فتح البارى:٤١٤/٢)

قلت: لأن الجمعة فرضت بمكة قبل نزول سورة الجمعة على قاله الشيخ أبو حامد والعلامة الثبوطي في الاتفاق "ورسالته" وهو الاصح خلافا للحافظ ابن حجر ولم يتمكن النبي صلى الله عليه وسلم من اقامتما هناك فصلي اول جمعة بالمدينة حين فدم(بذل المجهوده:٦٢)

سوال:-مسافر اور مریض پر جمعہ لازم نہیں لیکن اگر مسافر جمعہ سے پہلے شہر میں داخل ہوا ہے اور شہر میں اتنی دیر رہے گا جتنے میں آسانی سے جمعہ پڑھ سکتا ہے تو کیا اس مسافر پر جمعہ فرض اور لازم ہے یا نہیں؟

الجواب:-مسافر شرعی پر جمعہ فرض نہیں ہے خواہ وہ کسی شہر میں اتنی دیر کے لیے ٹہرا ہو جتنی دیر میں آسانی سے جمعہ پڑھ سکتا ہے البتہ جمعہ پڑھنا مسافر کے لیے فرض نہیں ہے اگرچہ جمعہ پڑھنے کی فرصت اچھی طرح میسر ہو جائے تو افضل ہے-

حتى لا تجب الجمعة على العبيد والنسوان والمسافرين والمريضى كذا في محيط السرخسي(الهندية:٢٠٥/١)

ومن لا جمعه عليه ان اداها جاز من فرض الوقت لانهم تحملون....(حاشية الطحطاوي على المراقي الفلاح:٣٣٢/١)

والدليل على أنه لا جمعه على هؤلاء ما روى عن جابر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فعليه الجمعة إلا مسافرا او مملوكا او صبيا او امرأة او مريضا.(بدائع الصنائع:٥٨٢/١)

سوال:-غیر کی زمین میں اس غیر کی اجازت کے بغیر طاقت کے بل بونے پر مسجد بنا لی گئی اس میں باضابطہ نماز ہونے لگے جب تک اس غیر کو اس زمین کا معاوضہ ادا نہ کیا جائے تو نماز مکروہ ہوتی رہے گی معاوضہ ادا کرنے کے بعد کراہت ختم ہو جائے گی تو سوال یہ ہے کہ معاوضہ ادا کرنے سے پہلے وہ شرعی مسجد کہاں لی جائے گی یا نہیں؟

الجواب وباللہ توفیق:-نماز کے اعتبار سے مسجد شرعی نہیں لہذا نماز مکروہ ہوگی حائضہ اور نفساء کے اعتبار سے مسجد شرعی ہے لہذا ان کا گزرنا ناجائز ہے، اسی طرح مسجد کو مسمار کرنے کے اعتبار سے کہ یہ مسجد شرعی ہے-یا اس کو مسمار کر دیا جائے گا

قال الله تعالى: ومن اظلم ممن منع مساجد الله ان يذكر فيها اسمه وسعى في خرابها....(سورة البقرة: ايت:١١٤)

وقال أبو يوسف هو مسجد ابداً الى قيام الساعة لا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ما له الى مسجد آخر سواء كان يصلون فيه أولا وهو الفتاوى(البحر الرائق: ٢٥١/٥،كتاب الوقف،كوئٹ)

لا يجوز لاحد من المسلمين اخذ مال ما أحد بغير سبب شرعي (البحر الرائق: ٤١/٥،کوئٹہ)

سوال:-اگر کوئی شخص نمازی کے اگلی صف میں ہو اور وہ پچھلی صف والے نمازی سے پہلے جانا چاہے تو اس کے لیے جانا درست ہے یا اس میں کوئی طریقہ ہے یا کوئی اور تفصیل ہے ہر صورت جامع انداز میں جواب تحریر کریں؟

الجواب:-صورت مسؤلہ میں اگلی صف میں جو نمازی ہے اس کے لیے ہٹنا درست ہے کیونکہ یہ ہٹنا ہے مرور نہیں ہے اور حدیث میں جو وعید ائی ہے مرور کے لیے ہے-

ولو مر اثنان يقوم احدهما امامه ويمر الآخر ويفعل الاخر هكذا ويمر ان كذا في "القنية"....(الفتاوى الهندية:١٦٣/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

ولو مر اثنان يقوم احدهما امامه ويمر الآخر ويفعل الآخر....(الدر المختار مع الشامي: ٤٠١/٢،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

والمستحب لمن يصلي في الصحراء ان ينصب بين يديه عودا او يضع شيئا.... وانما قدرناه بزارع دون اعتبار الغرض....(بدائع الصنائع:٥٠٨/١،كتاب الصلاة ،اشرفية ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص اونچی چیز پر یا نیچی چیز پر نماز پڑھے تو اس کے سامنے سے گزرنے کا شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہے تو مفصل مدلل جواب تحریر کریں؟

الجواب:-نمازی کے سامنے سے گزرنے والا اونچی جگہ یا نیچی جگہ سے گزرے تو اگر گزرنے والے اور نمازی کے نصف بانصف سے زیادہ کی محاذات آمنے سامنے ہو رہی ہو تو اس کے سامنے سے گزرنا جائز نہیں ہوگا اور اگر جسم کے آدھے یا اس سے کم حصے کی محاذات ہو رہی ہو تو اس کے سامنے سے گزرنا جائز ہوگا لہذا اگر کوئی بیڈ یا تخت پر نماز پڑھ رہے ہو تو اس کے سامنے سے بلا حائل گزرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ عام طور پر بیڈ یا تخت وغیرہ نصف قامت سے اونچی نہیں ہوتے-

ومرور مار في الصحراء او في مسجد كبير بموضوع سجوده او مروره بين يديه الى حائط القبلة في بيت ومسجد.... مطلقا.... او مروره اسفل من الدكان امام المصلى لو كان يصلي عليها بشرط محاذاة بعض اعضاء المار بعض اعضائه وكذا اسطح وسريد وكل مرتفع....(رد المختار: ٣٩٨/٢-٣٩٩،كتاب الصلاة،زكريا ديوبند)

ويكره ان يكون الامام على دكان والقوم اسفل منه والجملة فيه انه لا بخلو اما ان كان الامام على الدكان والقوم اسفل منه او كان الامام اسفل منه والقوم على الدكان..... وروي الطحاوي انه لا يكره ما لم بجاوز القامة....(بدائع الصنائع:٥٠٨/١،كتاب الصلاة ،اشرفية ديوبند)

ولو كان يصلي في الدكان فإن كانت اعضاء الماء تحاذي اعضاء المصلى يكره والا فلا ولو مر رجلان متحاذيان فالكراهة تلحق الذي يلي المصلى.....(بالفتاوى الهندية:١٦٣/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

سوال: سترہ کسے کہتے ہیں اور سترہ کی مقدار کیا ہے نیز اس کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-سترہ سے مراد وہ لاٹھی یا چھڑی وغیرہ ہے جو نمازی نماز پڑھنے کی وقت اپنے سامنے کھڑا کر دیتا ہے سترہ کی کم از کم مقدار یہ ہے کہ ایک ذراع لمبی اور انگلی کے بقدر موٹی لکڑی وغیرہ ہو اور نمازی کا اپنے سامنے سترہ گاڑنا شرعا مستحب ہے-

هي في الأصل ما بسترة به مطلقا ثم غلب على ما يصنب قدام المصلى قهستاني ويستحب له اي مدبر الصلاة بغرز بسترة..... وان تكون طول زراع فصاعدا.... في غلظ الاصيح....(حاشية الطحطاوي على المراقي الفلاح: شي سي ٣٦٥-٣٦٦،كتاب الصلاة،اشرفيه ديوبند)

و يغرز ندبا بدائع الإمام وكذا المنفرد في الصحراء ولحوها سترة بقدر ذارع طولا وغلظ اصبع لتبد وللناظر بقدبه دون ثلاثة ازرع على حذاء احد حاجبيه.... ولا يكفي الموضع ولا الخط.... ويدفعه....(رد المختار: ٤٠١/٢-٤٠٣،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

وينبغي لمن يصلى في الصحراء ان يتخذ امامة سترة طولها زراع وغلظها غلظ الاصبح ويقرض من السترة ويجعلها على حاجبه الايمن او الايسره والايمن افضل....(بالفتاوى الهندية:١٦٣/١،كتاب الصلاة،زكريا ديوبند)

سوال:- مسجد یا غیر مسجد کے اندر نمازی کے سامنے سے گزرنا شرعا کیسا ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو اس کی بھی وضاحت کریں؟

الجواب:-مسجد کبیر اور صحرار میں نمازی کے سامنے سے یعنی موضع سجود کے وراء سے گزرنا جائز ہے موضع سجود کی تغیر میں مختلف اقوال ملتے ہیں بعض نے نظر المصلی جب مصلی اپنے سجدہ کی جگہ دیکھ رہے ہو بعض نے دو صف بعض نے تین صف وغیرہ سے تعبیر کی ہے اور اگر چھوٹی مسجد یا چھوٹا کمرہ ہو تو مصلی کے سامنے سے گزرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ مکان واحد کے حکم میں ہے-

المراد من المسجد ههنا موضع السجود فإن المرور في موضع السجود بوجب الاثم وفي تفسير موضع السجود تفصيل فاعلم ان الصلاة ان كانت في المسجد الصغير فالمرور امام المصلى حيث كان يوجب الاثم....(شرح الوقاية:١٦٦/١،كتاب الصلاة ،مكتبه: تبرائس ديوبند)

اختبار شمس الائمة السرخسي وشيخ الاسلام وقاضيخان قال فخر الاسلام: اذا صلى راميا يبصره ابي موضع سجوده....(هدايه: ١٤٠/١،كتاب الصلاة ،زمزم ديوبند)