الجواب و باللہ التوفیق :-بالا عذر اس طرح نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور کراہت کے ساتھ پچھلے صف والوں کی نماز ہو جاےگی –//شامی ج:٢،ص:٣١٢ زکریا –//حاشیہ الطحطاوى ص:٣٦١-٣٦٢ –//مجمع الانھر ج:١،ص:١٨٨
نماز
سوال:-مسافر مقیم امام کے پیچھے چار رکعت والی نماز میں اقتدہ کرے اور کسی وجہ سے امام کی نماز فاسد ہو جائے پھر مسفیر اسی نماز کو تنہا پڑھے تو وہ اتمام کریگا یا قصر کریگا ؟
الجواب و باللہ التوفیق :-مذکورہ صورت میں جب مسافر تنہا نماز پڑھےگا تو قصر کریگا اور اگر نفل نماز کی اقتدہ کی تھی تو اکمال کریگا –//شامی ج:٢ ص:٦١٢ زکریا –//الہندیہ ج:١،ص:٢٢ زکریا التاتارخانیہ ج:٢،ص:٥١٤ زکریا
(١) وأما اقتداء المسافر بالمقيم فيصح في الوقت ويتم سواء بقي الوقت أو خرج قبل إتمامها لتغير فرزه بالتبعية لاتصال المغير البسب وهو الوقت ولو أفسده صلى ركعتين لزوال المغير بخلاف ما له اقتدى به متنفلا حيث يصلي أربعا إذا أفسده...(الدر المختار مع الشامي) 2/612.ط زكريا
(۲) وإن اقتدى مسافر بمقيم أتم أربعا وإن أفسده يصلي ركعتين بخلاف ما له اقتدى به بنيه النفل ثم أفسد حيث يلزم الأربع...(الهندية الجديدة)1/202.ط زكريا
(٣) الفتاوى التاتارخانيه.2/514.ط زكريا
٢١.سوال :-مسبوق اگر امام کے ساتھ سلام پھر دے تو اسکی نماز ہوگی یا نہی اور اس پر سجدہ سہو کب لازم ہوگا ؟
اگر باجماعت نماز میں امام سجدہ سہو کرے تو مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو تو کرے گا؛ لیکن سجدہ سہو کے سلام میں امام کی پیروی نہیں کرے گا۔ اور اگر مسبوق نے جان بوجھ کر( یعنی یہ جانتے ہوئے سلام پھیرے کہ ابھی اس کی ایک یا چند رکعتیں باقی) امام کے ساتھ سجدہ سہو کا سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی، اسے از سر نو نماز پڑھنی ہوگی
اگر مسبوق نے امام کے ساتھ سجدہ سہو کا سلام بھول کر یا سہواً پھیرا یعنی: یہ سمجھا کہ میں مسبوق نہیں ہوں، میری نماز بھی مکمل ہورہی ہے تو اس میں تین صورتیں ہیں:
(١)پہلی صورت : مسبوق نے بھول کر امام کے السلام کہنے کے بعد السلام کہا اور اس کے بعد یاد آیا تو وہ آخر میں سجدہ سہو کرے گا۔
(٢)دوسری صورت: مسبوق نے بھول کر ٹھیک امام کے ساتھ السلام کہا تو سجدہ سہو واجب نہ ہوگا؛ البتہ یہ صورت عام طور پر پائی نہیں جاتی یا اس کا جاننا مشکل ہے ؛ اس لیے جب تک یقین کے ساتھ اس کا علم نہ ہو ، سجدہ سہو ضرور کرے۔
(٣)تیسری صورت:مسبوق نے بھول کر امام سے پہلے سلام پھیرا، اس کا حکم یہ ہے کہ اس صورت میں مسبوق کی نماز پر کوئی فرق نہیں آئے گا اور نہ ہی آخر نماز میں اس پر سجدہ سہو واجب ہوگا
والمسبوق یسجد مع إمامہ“: قید بالسجود؛ لأنہ لا یتابعہ فی السلام ؛ بل یسجد معہ ویتشھد، فإذا سلم الإمام قام إلی القضاء، فإن سلم فإن کان عامداً فسدت وإلا لا، ولا سجود علیہ إن سلم سھواً قبل الإمام أو معہ، وإن سلم بعد لزمہ لکونہ حینئذ منفرداً، بحر، وأراد بالمعیة المقارنة، وھو نادر الوقوع، شرح المنیة، وفیہ: ولو سلم علی ظن أن علیہ أن یسلم فھو سلام عمد یمنع البناء۔ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب سجود السھو،٥٤٦/٢۔٥٤٧، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ثم قال: فعلی ھذا یراد بالمعیة حقیقتھا، وھو نادر الوقوع اھ، قلت: یشیر إلی أن الغالب لزوم السجود؛ لأن الأغلب عدم المعیة، وھذا مما یغفل کثیر من الناس فلیتنبہ لہ (المصدر السابق، کتاب الصلاة، آخر باب الإمامة ، ۲:۳۵۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
ومن أحكامه أنه لو سلم مع الإمام ساهيا أو قبله لا يلزمه سجود السهو لأنه مقتد وإن سلم بعده لزمه وإن سلم مع الإمام على ظن أن عليه السلام مع السلام فهو سلام عمد فتفسد...(البحر الرائق)1/662.ط : زكريا
سوال:قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے انگلیاں کلائی پر پھیلا کر رکھنی چاہیے یا سمٹ کر نیز سجدہ میں انگلیاں پھیلا کر رکھنی چاہئے یا سمٹ کر اسی طرح قعدہ میں انگلیاں کس طرح رکھنی چاہیے ؟
الجواب و باللہ التوفیق :-قیام کی حالت میں ہاتھ ناندھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ کی باطنی حصّے کو بائیں ہاتھ کی ظاہری حصّے پر رکھے اور خنصر اور ابہام سے کلائی کو پکڑے باقی انگلیوں کو کلائی پر اپنی حالت پر چھوڑ دے اسی طرح قعدے کے حالت میں انگلیا اپنی حالت پر رکھی جائے نیز سجھوں میں انگلیا سمٹ کر رکھی جائے –//الہندیہ ج:١،ص:١٣١ زکریا –//المحیط البرہانی ج:١ ص:٢٩١
(١) لا يفرج أصابعه كل التفريج في حاله الصلاة ولا يضم كل الضم إلا في موضعين في حالة الركوع يفرج كل التفريج ....وفي حالة السجود يضم كل الضم....(المحيط البرهاني) 1/291
ويضع باطن كفه اليمنى على ظاهر كفه اليسرى وياخذ الرسغ بالخنصر والإبهام ويرسل الباقي على الذراع... ويعتمد بيديه على ركبته ويفرج بين أصابعه ولا يندب إلى التفريج إلا في هذه الحالة ولا إلى الضم إلا في حالة السجود...(الهندية الجديدة)1/131،ط زكريا
سوال:اگر مقتدی امام کے ساتھ رکوع نہ کر سکے بلکے امام کے رکوع کے اٹھنے کے بعد رکوع کر لے تو مقتدی کی وہ رکعت شمار ہوگی یا نہیں ؟
الجواب و باللہ التوفیق:-اگر مقتدی امام کے ساتھ رکوع نہ کر سکے بلکہ امام رکوع سے فارگ ہونے کے بعد رکوع کر کے امام کے ساتھ شامل ہو جائے تو مقتدی کی وہ رکعت بالاتفاق شمار ہوگی یعنی مقتدی اس رکعت کو پانے والا ہوگا اس پر سجدہ سہو لازم نہ ہوگا –//شامی ج:٢،ص:٥١٦ زکریا –// بداءع،ج:١،ص:٥٦٢ زکریا –//البنایہ ج:٢،ص:٥٧٨ اشرفیہ
(١) إذا انتهى إلى الإمام وهو قائم يكبر ولم يركع معه حتى رفع الامام راسه من الركوع ثم ركع أنه يدرك الركعة بالاجماع....(البناية شرح الهداية)2/578،ط اشرفية
(٢) بخلاف ما لو أدركه في القيام ولم يركع معه فإنه يصير مدركا لها فيكون لاحقا فياتي بها قبل الفراغ أي أنه ياتي بها قبل متابعة الإمام فيما بعدها حتى لو تابع الإمام ثم أتى بعد فراغ إمامه بما فاتته صح وأثم لترك واجب الترتيب...(الدر المختار مع الشامي) 2/516،ط زكريا
سوال:-ایک شخص نے دوران سفر نماز پڑھی مگر وہ فاسد ہو گئی گھر پہنچ کر دوبارہ پڑھنا ہو تو اس صورت میں اکمال کریگا یا قصر ہی ادا کریگا ؟
الجواب و باللہ التوفیق :-اگر گھر پہنچ کر مذکورہ فاسد نماز کو وقت کے اندر پڑھتا ہو تو اکمال کریگا اور اگر وقت کے -بعد پڑھتا ہے تو قصر کریگا فقط والله اعلم
(2) وإذا قضى في حال سفره صلاة فائتة في حال الإقامة صلى أربعا وإن قضى في حال إقامته صلاة فائتة في السفر صلى ركعتين....(التاتارخانية)2/523،ط زكريا
(1) والقضاء يحكي أي يشابه الأداء سفرا وحضرا أي فلو فاتته صلاة السفر وقضاها في الحضر يقضيها مقصوره كما لو أداها وكذا فاتته الحضر تقضي في السفر تامة.... (الدر المختار مع الشامي) 2/618، ط زكريا
.سوال :دوران تلاوت آذان ہونے لگے تو آذان کے جواب دینے کا کیا حکم ہے ؟تلاوت جاری رکھنی چاہیے یا موقوف کر دینی چاہیے نیز آذان کے وقت بیت الخلا جانے کا کیا حکم ہے ؟
الجواب و باللہ التوفیق :اگر مسجد میں تلاوت کر رہا ہو تو تلاوت جاری رکھنی چاہیے یہی افضل ہے البتہ تلاوت موقوف کر کے جواب دینے کا بھی اجازت ہے اور اگر گھر میں تلاوت کر رہا ہو اور اس کی مسجد کی آذان ہو رہا ہو تو تلاوت موقوف کر کے آذان کا جواب دینا چاہیے اور اگر دوسرے مسجد کی آذان ہو تو تلاوت جاری رکھنی چاہیے ،—آذان کے وقت بیت الخلا جانے کا حکم یہ ہے کہ اگر سخت تقاضا ہو تو جانے میں کوئی حرض نہی اس لئے کہ جماعت شروع ہو نے کے بعد سخت تقاضہ کے حالت میں بیت الخلا جانے کا حکم ہے تو آذان کے وقت بدرجہ اولى بیت الخلا جانے میں کوئی حرض نہی ،اور اگر معمولی تقاضہ ہو تو بیت الخلا نہی جانا چاہیے آذان کاجواب دینا چاہیے –
رجل في مسجد يقرأ القران فسمع الأذان فإن كان هذا الرجل في المسجد يمضي على قراءته ولا يجيب المؤذن وإن كان في منزله فان لم يكن هذا أذان منزله لا يجيب المؤذن ويمصي في قلاءته وإن كان هذا أذان مسجده يقطع القرآن ويجيب المؤذن (التاتارخانية)2/154،ط.زکریا
ولو كان في المسجد حين سمعه ليس عليه الإجابه ولو كان خارجه أجاب بالمشي إليه بالقدم ولو أجاب باللسان لابد لا يكون مجيبا وهذا بناء على أن الإجابة المطلوبة بقدمه لا بلسانه فيقطع قراءة القرآن ولطان يقرأ بمنزله ويجيب لو أذان مسجده ولو بمسجد لا لانه أجاب بالحضور .....(الدر المختار مع الشامي)2/68 ..ط زكريا
سوال :-اقامت کے وقت امام اور مقتدیوں کو کب کھڑا ہونا چاہیے شروع اقامت سے کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے ؟
اگر امام پہلے سے ہی مصلے کے قریب موجود ہو تو بہتر یہ ہے کہ شروع اقامت سے کھڑے ہو کر صف سیدھی کرنے میں مشغول ہو جائے البتہ اگر شروع اقامت میں کوئی کھڑا نہ ہو تو اس کی بھی اجازت ہے البتہ حي الفلاح تک کھڑا ہو ہی جانا چاہیے اس کے بعد بیٹھے نہیں رہنا چاہیے
اور اگر امام صفوں کی طرف سے آئے تو جس صف پر پہنچے اس صف کے مقتدی کھڑے ہوتے جائے اور اگر سامنے کی طرف سے آئے تو امام کو دیکھتے ہی کھڑے ہو جائے
(1)والقيام لإمام ومؤتم حين قيل حي على الصلاه إن كان الامام بقرب المحراب والا فيقوم كل صف ينتهي إليه الإمام على الأظهر وإن دخل من القدام قاموا حين يقع بصرهم عليه إلا إذا قام الامام بنفسه في مسجد فلا يقفوا حتى يتم أقامته وإن كان خارجه قام كل صف ينتهي إليه.....(الدر المختار مع الشامي)2/177، ط زكريا
(2)إن كان المؤذن غير الإمام وكان القوم مع الإمام في المسجد فإنه يقوم الإمام والمؤتم إذا قال حي على الفلاح عند علمائنا الثلاثة وهو الصحيح فأما إذا كان الامام خارج المسجد فإن دخل من قبل الصفوف فكلما جاوز صفا قام ذلك الصف وإن كان الإمام دخل المسجد من قدامهم يقومون كما كما رأوْ الإمام.....(الهنديةالجديدة)1/14، ط زكريا
١.سوال:-اگر کوئی ظہر کی اذان سے پہلے چار رکعت سنتیں پڑھ لے تو اس کی سنتیں ہوجائیں گی یا دوبارہ پڑھنی ہوں گی ؟؟
الجواب وبالله التوفيق:
مسؤلہ صورت میں اگر ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد سنتیں پڑھی ہیں خواہ اذان سے پہلے ہی پڑھی ہوں تو جائز اور درست ہیں، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
مستفاد از: (فتاوى دار العلوم وقف ديوبند، ٣٧١/٦، ط: حجة الإسلام اكيدمي) (فتاوى قاسمية، ٢٠٣/٨، ط: الأشرفية ديوبند)
(١): سنن للفرائض، وخرج بالفرائض ما عداها، فلا أذان للوتر، ولا العيدين، ولا الجنائز، ولا للكسوف، والتراويح والسنن الرواتب. (البحر الرائق/كتاب الصلاة/باب الأذان، ٤٤٤/١، ط: زكريا ديوبند)
(٢): وإما الصلاة المسنونة فهي السنن المعهودة للصلوات المكتوبة........ أما الأول فوقت جملتها وقت المكتوبات؛ لأنها توابع للمكتوبات، فكانت تابعة لها في الوقت. (بدائع الصنائع/كتاب الصلاة/فصل: في الصلاة المسنونة، ٢٦٣/٣، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.
امام صاحب نے نماز میں سورۂ قارعة اس طرح پڑھی: القارعة ما القارعة اس کے بعد ایک آیت چھوڑدی پھر يوم يكون الناس كالفراش المبثوث وتكون الجبال كالعهن المنفوش پڑھ کر پھر ایک آیت چھوڑ دی پھر آخر میں امام صاحب نے سجدۂ سہو بھی کرلیا تو نماز کا کیا حکم ہے ؟ واضح فرمائیں۔
الجواب وبالله التوفیق:
صورت مسئولہ میں میں نماز درست ہوگئ اعادہ کی ضرورت نہیں۔
وان ترك كلمةمن آية فان لم يتغير المعنى كما قرأ وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وترك ذا...الى قوله.... او قرأ جزاء سيئة سيئة مثلها بترك سيئة الثانية لا تفسد الخ. (كبيري/كتاب الصلاه/باب ما يفسد الصلاوما يكره فيها/فصل في زلۃ القارى، ص: ٤٦١، ط: رحيميه دیوبند، قديم. ص: ٤٩٢، ط: سهيل اكيڈمي لاہور)
١.سوال:-اگر کسی شخص نے فجر کی فرض نماز پڑھنے کے بعد سنت پڑھی تو سنت کا کیا حکم ہے ادا ہوگی یا نہیں
الجواب و بالله التوفيق
فجر کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی سنت پڑھنا جائز نہیں ، البتہ سورج طلوع ہونے کے بعد مکروہ وقت ختم ہو جانے کے بعد فجر کی سنت اُس دن کے زوال تک قضاء کی جا سکتی ہے ۔۔
"(ولا يقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل، (قوله: ولا يقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لا يقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلا تقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 57): والله أعلم بالصواب
زید ظہر کی فرض پڑھ رہا تھا تنہا اس نے قعدہ اخیرہ میں درودشریف کے بعد یہ دعاء مانگی اللهم اغفرلي ولوالدي ولاستاذي تو کیا اس کی نماز فاسد ہوجائے گی یا نماز ہوجائے گی ؟؟
الجواب وباللّه التوفيق=
واضح رہے کہ نماز میں دعا مانگنا شرعاً ثابت ہے’خواہ وہ فرض ہو یا نفل ہو،
البتہ یہ ملحوظ رہے کہ ایسے الفاظ سے دعاء نہ مانگیں جو انسانی بات چیت کے مشابہ ہو، نیز بہتر یہ ہے کہ وہ دعائیں کی جاییٔں جو احادیث سے ثابت ہیں-
لھذا صورت مذکورہ میں نماز شرعاً درست ہے، نماز فاسد نہیں ہوگی- تاہم افضل یہی ہیکہ منقول دعائیں مانگی جاییٔں فقط