الجواب: قاموس الفقہ میں ہے کہ تہجد کی نماز سب سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام نے ادا فرمائی اور فرضیت نماز سے پہلے اس کے حکم کے سلسلے میں مشہور یہ ہے کہ وہ فرض تھا پھر ایک سال کے بعد اس کی فرضیت ختم ہو گئی اس کے بعد سے اب تک اس کا حکم مستحب ہے-
نماز
سوال:-دنیا کے اندر پنجگانہ نمازوں میں سے کس نے کون سی نماز پہلے ادا کی؟
الجواب:-فجر کی نماز حضرت ادم علیہ السلام نے صبح ہونے کے شکر پہلی بار ادا کی کیونکہ آپ علیہ السلام نے جنت میں کبھی رات نہیں دیکھی تھی،ظہر کی نماز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان محفوظ رہنے کی خوشی میں پہلی بار ادا کی،عصر کی نماز حضرت عزیر علیہ السلام نے سو سال بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کے بعد پہلی مرتبہ ادا فرمائی،مغرب کی نماز حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی توبہ کے قبول ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ادا فرمائی آپ نے چار کی نیت کی تھی لیکن توبہ قبول ہونے پر تین رکعت پر سلام پھیر دیا عشاء کی نماز پہلی مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمائی اس لیے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پسندیدہ نماز ہے-
حدثني القاسم بن جعفر.... يقول: إن ادم عليه السلام لما تيب عليه عند الفجر صلى ركعتين فصارت الصبح، وفدي اسحاق عند الظهر فصلى ابراهيم عليه السلام اربعا فصارت الظهر وبعث عزير فقيل له: كم لبثت؟ فقال يوما فراى الشمس فقال او بعض يوم فصلى اربع ركعات فصارت العصر وقد قيل غفر لعزير عليه السلام ،وغفر لداود عليه السلام عند المغرب فقام فصلى اربع ركعات فجهد وجلس في الثالثة فصارت المغرب ثلاثا و أول من صلى العشاء الاخرة نبينا صلى الله عليه......(شرح معاني الاثار: ١٧٥/١،رقم الحديث: ١٠٤٦)
عن ابي هريرة رضي الله تعالى عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ارايتم لو أن نهرا بباب احدكم بغسل فيه كل يوم خمسا، ما تقول: ذلك يبقي من درنه قالوا: لا يبقي من درنه شيئا قال: فذلك مثل الصلوات الخمس يمحو الله به الخطايا.....(صحيح البخاري: ،رقم الحديث: ٥٠٢٨)
سوال:-نماز کی فرضیت کب اور کہاں پر ہوئی ہے اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو راجح قول کی بھی وضاحت کریں؟
الجواب:-نماز کا حکم ابتداء اسلام میں آگیا تھا تاہم پانچ وقتہ نماز کی فرضیت معراج کے موقع پر ہوئی لیکن واقعہ معراج کی تاریخ کی تعیین میں مؤرخین کا اختلاف ہے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ ربیع الاول کے مہینے میں پیش آیا اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ایک واقعہ ربیع الثانی کے مہینے میں پیش آیا معتمد قول یہ ہے کہ ہجرت سے ایک سال پہلے رجب کے مہینے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے اور دن کے متعلق مشہور ہے کہ 27 تاریخ کو رونما ہوا لیکن محققین کے نزدیک یہ تعیلین درست نہیں ہے خلاصہ یہ ہوا کہ راجح قول کے مطابق پانچ نمازوں کی فرضیت 12 نبوی کو ہوئی ہے-
قوله: فرضيت الاسراء الخ نقله أيضا الشيخ اسماعيل في الاحكام..... انهم اختلفوا في اي سنة كان الاسراء بعد اتفاقهم على انه كان بعد البعثة.... ثم اختلفوا في اي الشهور كان فجزم.... وقيل في ربيع الآخر.... وقيل في شوال وجزم الحافظ عبد الغني القديى في سيرته بانه ليلة السابع والعشرين من رجب....(شامي: ٤/٢،كتاب الصلاة،زكريا ديوبند)
وكان فرض الصلوات الخمس ليلة المعراج وهي ليلة السبت لسبع عشرة ليلة خلت من رمضان.... قيل الاسراء صلاتين....(البحر الرائق: ٤٢٤/١،كتاب الصلاة، المكتبة التهانوية ديوبند)
أصل وجوب الصلاة كان في مكة في أول الاسلام لوجود الايات المكية التي نزلت في بداية الرسالة تحت عليها واما الصلوات الخمس باصلوات المعهودة فانها فردت ليلة الاسراء والمعراج......(الموسوعة الفقهية :٥٢/٢٧-٥٣، ط: بيروت)
سوال:-صلاۃ کے لغوی اور شرعی معنی تحریر کریں؟
الجواب:-صلاۃ کے لغوی معنی ہے دعا اور شرعی- افعال مخصوصہ اور ارکان معلومہ کو کہتے ہیں-
وهي لغة الدعاء..... ورود الشرع بالاركان المخصوصة فنقلت شرعا الى الافعال المعلومة..... مجاز لغوي في الاركان المخصوصة (در المختار مع الشامي:٣/٢-٤،كتاب الصلاة ،زكريا ديوبند)
هي لغه الدعاء وشرعا الافعال المخصوصة من القيام والقراءة.....(البحر الرائق: ٤٢٣/١،كتاب الصلاة ،المكتبة التهانوية ديوبند)
وهي لغة الدعاء وشرعا الافعال المعلومة....(مجمع الانهر:١٠٢/٢،كتاب الصلاة ،فقه الامة ديوبند)
کیا مقتدی امام سے پہلے التحیات کے بعد سلام پھیر سکتا ہے کسی عذر کی بنا پر
الجواب وباللہ التوفیق
اگر مقتدی نے بلا کسی عذر کے امام سے پہلے سلام پھیر دیا تو یہ مکروہ تحریمی ہے البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے امام سے پہلے سلام پھیرا تو پھر مکروہ نہیں ہے تاہم نماز دونوں صورتوں میں درست ہو جائیگی اعادہ واجب نہیں ہے
ولو اتم قبل امامہ فتکلم جاز وکرہ قولہ:لو اتمہ ) ای لو اتم المؤتم التشہد بان اسرع فیہ وفرغ منہ قبل اتمام امامہ فاتی بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام او کلام او قیام جاز ای صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الارکان ۔۔۔۔۔۔۔ وانما کرہ للمؤتم ذلک لترکہ متابعۃ الامام بلا عذر فلو بہ کخوف حدث او خروج وقت جمعۃ او مرور مار بین یدیہ فلا کراھۃ شامی 1 / 525 ف
نماز کی حالت میں موبائل جیب سے نکال کر گھنٹی بند کرنے کا کیا حکم ہے
الجواب وباللہ التوفیق
نماز سے پہلے ہی موبائل کی گھنٹی اہتمام سے بند کردینی چاہیے؛ تاکہ نماز میں خلل نہ ہو، لیکن اگر گھنٹی بند کرنا بھول گیا اور نماز میں گھنٹی بجنے لگی تو ایک ہاتھ جیب میں ڈال کر گھنٹی کو بند کردے، موبائل نکالنا اور اسے دیکھنا درست نہیں ہے، نماز کے دوران ایک ہاتھ سے موبائل نکال کر مختصر وقت میں اسکرین دیکھنے اور گھنٹی بند کردینے سےنماز فاسد تو نہیں ہوتی، البتہ نماز میں کراہت آجاتی ہے۔ لیکن اگر دونوں ہاتھوں سے موبائل پکڑا، یا ایک ہاتھ سے ایسے انداز میں پکڑ کر اسکرین کو دیکھا کہ دور سے دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ شخص نماز نہیں پڑھ رہا ہے تو نماز فاسد ہوجائے گی؛ کیوں کہ یہ عملِ کثیر ہے، اور نماز کے دوران عملِ کثیر کا ارتکاب کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔عملِ کثیر کی تعریف میں فقہاءِ کرام کے متعدد اقوال ہیں، مفتیٰ بہ اور راجح قول یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرنا کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہوجائے کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا، جس کام کی ایسی کیفیت نہ ہو وہ عملِ قلیل ہے اور عملِ قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اور عموماً موبائل کی گھنٹی عملِ قلیل سے بند کی جاسکتی ہے، لہٰذا اپنی اور دوسروں کی نماز کو خلل سے بچانے کے لیے موبائل کی گھنٹی بند کردینی چاہیے۔
يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لإصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لايشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها) وإن شك أنه فيها أم لا فقليل، (الفتاوى الشاميه،/باب ما يفسد الصلاة،/٣٨٥/٢، ط: بيروت ) مستفاد: فتاوى بنوري ٹاؤن
کیا قضا نماز کی ادائیگی کی جماعت کے ساتھ کوی شکل ہے
باسمه سبحانه وتعالیٰ
الجواب وباللّٰه التوفیق:
نماز قضا کرنا کبیرہ گناہ ہے اگر کسی سخت مجبوری کی وجہ سے چند لوگوں کی ایک ہی وقت کی نماز قضا ہو جائے تو وہ لوگ قضاء نماز باجماعت ادا کرسکتے ہیں،البتہ لوگوں کے سامنے قضا نماز کی جماعت کرنے سے بچنا چاہیے…
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قفل من غزوة خيبر سار ليلة حتى إذا ادركه الكرى عرس وقال لبلال: اكلا لنا الليل. فصلى بلال ما قدر له ونام رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه فلما تقارب الفجر استند بلال إلى راحلته موجه الفجر فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلى راحلته فلم يستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا بلال ولا احد من اصحابه حتى ضربتهم الشمس فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اولهم استيقاظا ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «اي بلال» فقال بلال اخذ بنفسي الذي اخذ بنفسك قال: «اقتادوا» فاقتادوا رواحلهم شيئا ثم توضا رسول الله صلى الله عليه وسلم وامر بلالا فاقام الصلاة فصلى بهم الصبح فلما قضى الصلاة قال: من نسي الصلاة فليصلها إذا ذكرها فإن الله قال:واقم الصلاة لذكري (مشکوۃ المصابیح:کتاب الصلوۃ:ج/١ ص/٦٦)
وينبغي الا يطلع غيره على قضائه لان التاخير معصية فلا يظهرها (شامی زکریا: كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت:ج/٢ ص/٥٣٩) واللّٰه اعلم بالصواب
٢٤.سوال:-امام اگر قعدہ اخیرہ کرنے کے بعد پانچویں رکعت کے لئے کھارے ہو جائے تو مقتدیوں کو کیا کرنا چاہیے نیز مسبوق بھی اگر امام کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو مسبوق کی نماز فاسد ہوگی یا نہیں ؟
الجواب و باللہ التوفیق :-مذکورہ صورت میں امام اگر پانچویں رکعت کے لئے کھڑا۔ ہو جائے تو مقتدی امام کے ساتھ کھڑا نہی ہونگے بلکہ مقتدی بیٹھے بیٹھے امام کو لقمہ دینگے پھر بھی اگر امام صاحب نہ لوٹے تو مقتدی امام کا انتظار کرینگے اگر امام پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے لوٹ اے تو مقتدی سلام پھیرنے میں امام کا انتظار کریگا اور اگر امام پاچنویں رکعت کا سجدہ مکمل کر لیا تو مقتدی تنہا سلام پھیرے گا اور اس صورت میں مسبوق کو امام کے اقتدہ نہی کرنا چاہیے بلکہ مسبوق اپنے نماز پورے کرنے میں لگ جائے اگر مسبوق امام کی اقتدا کی تو نماز فصید ہو جائے گی اس لئے کہ اسنے ایسی حالت میں امام کی اقتدا کی جب اسے تنہا نماز پڑھنی چاہیے تھی البتہ اگر امام قعدہ اخیر نہی کیا بلکہ سیدھے پاچنویں رکعت کے لیتے کھڑا ہو گیا تو امام کو لقمہ دیا جاےگا اگر لقمہ دینے کے باوجود نہ لوٹے تو سبھی لوگ امام کے ساتھ کھڑے ہو جاینگے اب اگر پانچوے رکعت کے سجدے سے پہلے امام قعدہ کی طرف لوٹ آئے تو سبھی لوگ امام کے ساتھ قعدہ کرینگے اور امام سلام پھیرنے کے بعد مسبوق اپنے نماز پورا کریگا اور اگر امام پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو سبھی کا فرض باطل ہو جائے گا اور یہ نماز سبھی کے حق میں نفل بن جاےگا –//شامی ج:٢،ص:٥٥٣ ،٣٥٠ زکریا
(١) إن قعد في الرابعة ثم قام عاد وسلّم ولو سلّم قائما صحّ ثم الأصح إن القوم ينتظرونه فإن عاد يتبعوه وإن سجد للخامسه سلموا لإنه تم فرضه....(الدر المختار مع الشامي) 2/553.ط زكريا
(٢) ولو قام إمامه للخامسة فتابعه إن بعد القعود تفسد وإلا لا أيْ وإن لم يقعد وتابعه المسبوق لا تفسد صلاته لأن ما قام إليه الإمام على شرف الرفض ولعدم تمام الصلاة فإن قيّدها بسجده انقلبت صلاته نفلا فإن ضم إليها سادسة ينبغي للمسبوق أن يتابعه ثم يقضي ما سبق به وتكون به نافلة كالإمام....(الدر المختار مع الشامي) 2/350.ط زكريا
٢٣.سوال:-اگر کوئی شخص سو رہا ہو تو نماز کے وقت اسے بیدار کرنا ضروری ہے یا نہی ؟نیز سونے والا شخص اگر بیدار ہوکر طلوع شمس کے وقت فجر پڑھنے لگے یا غروب کے وقت نماز پڑھنے لگے تو اسے نماز پڑھنے سے منع کیا جاےگا یا نہیں؟
الجواب و باللہ توفیق :-اگر وقت سے پہلے سو رہا ہو تو اسے بیدار کرنا ضروری نہی اس لئے کہ خود سونے والے پر بیدار ہونا لازم نہی اور اگر سوتے ہوئے وقت نکال جائے تو گناہ گار نہی ہوگا البتہ اگر وقت داخل ہونے کے بعد سو رہا ہو تو بیدار کرنا لازم ہے تا کہ قضاء کرنے کے گناہ سے بچ سکے البتہ بہتر یہی ہے کہ دونوں سورتوں میں بیدار کر دیا جائے تا کہ سونے والوں کو پورا ثواب مل سکے ،طلوع شمس کے وقت یا غروب کے وقت اگر عام آدمی کبھی کبھار نماز پڑھے تو اس کو منع نہی کیا جاےگا اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ پھر نماز ہی نہ پڑھے جس کی وجہ سے وہ ترک صلات کا مرتکب بن کر گناہ گار ہوگا جبکہ اس وقت نماز پڑھنے سے ائمہ ثلاث کے نزدیک اسکی نماز ہو جاےگی اور احناف کے بھی بعض مشائخ نے لکھا ہے کہ ان اوقات میں فرائض پڑھنا تو ممنوع ہے لیکن اگر کوئی پڑھ لے تو ادا ہو جاےگی اس لئے بالکل ترک کرنے کے مقابلے ادا کر لینا بہتر ہے –//شامی ج:٢،ص:١٣ زکریا –//الہندیہ ج:١،ص:١٠٨ زکریا –//محیط البرھانی ج:١،ص:٢٧٦
(۱) لا يجب انتباه النائم في أول الوقت ويجب إذا ضاق. قلت لكن فيه نظر لتصريحهم بأنه لا يجب الأداء على النائم اتفاقا فكيف يجب عليه الانتباه...... وسنذكر في الأيمان أنه لو حلف أنه ما أخر صلاة عن وقتها وقد نام فقضاها قيل لا يحنث واستظهر الباقاني لكن في البزازية: الصحيح أنه إن كان نام قبل دخول وانتبه بعده لا يحنث وإن كان نام بعد دخوله حنث فهذا يقتضي أنه بنومه قبل الوقت لا يكون مؤخرا وعليه فلا ياْثم وإذا لم ياثم لا يجب انتباهه. إذ لو وجب لكان مؤخرا لها وآثما. بخلاف ما إذا نام بعد دخول الوقت ويمكن حمل ما في البيري عليه......(الدر المختار مع الشامي) 2/13.ط زكريا
(۲) ثلاث ساعاة لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازه ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاب إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن تغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه أداؤه عند غروب....(الهندية الجديدة)1/108.ط زكريا (۳) المحيط البرهاني.1/276 .ط زكريا
سوال:-کیا مقتدی امام سے آگے آگےقرآن کریم پڑھ سکتا ہے يا نہیں ؟
الجواب وبالله التوفيق:
صورت مسئولہ میں مقتدی کا قرآن کریم کی مطلقا نہ اگے نہ بعد میں اور نہ ساتھ ساتھ کسی بھی طرح تلاوت کرنا جائز نہیں۔
وَاِذَا قُرِئ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَه وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُم تُرْحَمُوْنَ. (سورة الأعراف، الآية: ٢٠٤)
عن أبي موسى الأشعري(في حديث طويل) أن رسول الله صلى عليه وسلم خطبنا، فبين لنا سنتنا، وعلمنا صلاتنا، فقال: إذا صليتم فأقيموا صفوفكم، ثم ليؤمكم أحدكم، فإذا كبر فكبروا، وفي رواية: وإذا قرأ فانصتوا. (مسلم شريف/كتاب الصلاة/باب التشهد في الصلوات، ١٧٤/١، رقم الحديث: ٤٠٣، ط: النسخة الهندية)
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى عليه وسلم: إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا قرأ فانصتوا. (طحاوي شريف/كتاب الصلاة، ١٢٨/١، رقم الحديث: ١٢٥٧، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.
کیا نابالغ بچوں پر سجدہ تلاوت کرنا واجب ہے؟؟
الجواب وبالله التوفيق:
مسؤلہ صورت میں نابالغ بچوں پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔مستفاد از:
(مسائل سجدۂ تلاوت، ص: ٤٦، ط: مجلس احیاء سنت، ہردوئی)