الجواب:- پانچ وقتہ نمازوں اور جمہ کی نماز کے لیے اذان دینا سنت مؤکدہ ہے ان کے وقت میں نوافل و عیدین ،کسوف اور خسوف وغیرہ کے لیے اذان مشروع نہیں ہے اور اذان وقت سے پہلے دینا ممنوع ہے اگر دے دیا تو لوٹانا ضروری ہے۔
نماز
سوال:- اذان کا شرعا کیا حکم ہے؟
الجواب:-اذان شعار اسلام میں سے ہے اس لیے اس کو سنت موکدہ و قریب من الواجب فرما دیا ہے البتہ بعض علماء نے حضرت امام محمد رحمہ اللہ کے قول لو اجتمع اهل بلد على تركه قاتلناهم عليه…. اور حضرت امام ابو یوسف کے قول يحبسون ويضربون کی وجہ سے واجب قرار دیا ہے لیکن عام علماء نے اذان کو کو سنت قرار دیا ہے اسی طرح اقامت کا حال ہے-
هو سنة للرجال في مكان عال مؤكدة هي كالواجب في لحوق الاثم.... قوله:،للرجال اما النسا هوء فيكره لهن الاذان وكذا الاقامة....(در المختار مع الشامي: ٤٨/١-٤٩،كتاب الصلاة باب الاذان،زكريا ديوبند)
الفصل الاول في صفته واحوال المؤذن الاذان سنة لاداء المكتوبات بالجماعة.... وقيل: إنه واجب والصحيح انه سنة مؤكدة....(الهنديه: ١١٠/١،كتاب الصلاة،باب الثاني في الاذان،زكريا ديوبند)/
الاذان سنة مؤكدة هو قول عامة مشائخنا وقال بعض مشائخنا واجب لقول محمد: لو اجتمع اهل بلد على تركه....(الهدايه: ٨٤/١،كتاب الصلاة،زمزم ديوبند)
سوال:-ظہر کا آخر وقت اور عصر کا اول وقت کیا ہے؟ اگر ان دونوں وقتوں کے بارے میں اختلاف ہو تو اس کی وضاحت کرنے کے بعد راجح قول بھی بیان کریں نیز یہ بھی بتائے کہ ان دونوں وقتوں کے درمیان کوئی وقت بیکار یا فاضل ہے یا نہیں یا اس میں بھی کوئی اختلاف ہے ہر صورت تسلی بخش جواب تحریر کریں؟
الجواب:-ظہر کا آخر وقت اور عصر کا اول وقت کے سلسلے میں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ظہر کا آخر وقت جب کہ سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ اس سے دو چند ہو گیا تو ظہر کا وقت ختم ہو کر عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور حضرات صاحبین نے فرمایا کہ جب سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا تو ظہر کا وقت ختم ہو کر عصر کا وقت شروع ہو جاتے ہیں پہلا قول یعنی حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول راجح ہے اور محتاج بھی ہے علامہ شامی رحمہ اللہ اور صاحب بدائع وغیرہ نے اس کی وضع صراحت فرمائی ہے نیز ان دونوں وقتوں کے درمیان جو وقت ہے وہ وقت مہمل ہے علامہ شامی رحمہ اللہ اور صاحب حاشیہ طحطاوی نے اس کی صراحت فرمائی ہے-
ووقت الظهر من زواله اي ميل ذكاء ان كبد السماء الى بلوغ الظل مثليه وعنده مثله وهو قولهما وزفر والائمه الثلاثة.... ووقت العصر منه إلى قبيل الغروب فلو غربت ثم عادت هل يعدد الوقت....(در المختار: ١٤/١-١٦،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)
ووقت الظهر: من الزوال إلى بلوغ الظل مثليه سوي الفئ..... ووقت العصر: من صيرورة الظل مثليه غير فيء الزوال إلى غروب الشمس....(الهنديه: ١٠٧/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)
واخر وقتها عند ابي حنيفة اذا صار ظل كل شئ مثليه سوي في الزوال وقالا إذا صار الظل مثله....(هدايه: ٧٧/١،كتاب الصلاة،ط: زمزم ديوبند)
سوال:-اوقات مکروہ کتنے ہیں ؟
جواب:-اوقات مکروہ تین ہیں ان اوقات میں نماز پڑھنا متلقا ممنوع ہے خواہ وہ نماز فرض ہو یا نفل ادا ہو یا قضا البتہ ان اوقات میں پڑھی گئی نفل نماز کراہت تحریمہ کے ساتھ ادا ہو جائے گی اور اگر فرض یا واجب نماز پڑھی تو اس کا اعادہ لازم ہے سوائے وقتی نماز عصر کے کہ مکروہ کراہت کے ساتھ ادا ہو جائے گی لیکن ایسا کرنا گناہ ہے اوقات ممنوعہ درج ذیل ہیں (1) عین طلوع شمس سے لے کر سورج ایک نیزہ بلند ہونے تک (2) نصف النہار یعنی استوائے شمس کے وقت جب سورج دوپہر کے وقت بالکل سر پر آ جائے (3) عصر کے بعد سورج زرد پڑ جانے کے بعد سے کہ سورج غروب ہو جانے تک سوائے اس دین کی عصر کی نماز، مذکورہ اوقات کے علاوہ دو اوقات مزید ایسے ہے جن میں نفل نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے جبکہ فرائض کی قضا پڑھ سکتے ہیں(1) صبح صادق سے طلوع افتاب (2) عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد سے غروب تک-
فصل في الاوقات التي تكره فيها الصلوة -لا تجور الصلاة عند طلوع الشمس ولا عند قيامها في الظهيرة ولا عند غروبها لحديث عقبة بن عامر قال ثلاثة اوقات نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نصلي وان نقبر فيها موتانا.... ويكره ان يتنفل بعد الفجر حتى تطلع الشمس وبعد العصر حتى تغرب.... ولا باس بأن يصلي في هذين الوقتين الفائت....(الهداية:٨١/١-٨٣،كتاب الصلاة،ط: زمزم بوك ،ديوبند)
وكره تحريما صلاة مطلقا ولو قضاء او واجبة او نفلا او على جنازة وسجدة تلاوة وسهو.... فنية مع شدوق.... والستواء وغروب الا عصر يومه وينعقد نفل بشروع فيها بكراهة التحريم لا ينعقد الفرطر.....(الدر المختار مع الشامي: ٣٠/٢-٣٤،كتاب الصلاة،ط: زكريا ديوبند)
لا تحوز الصلاة اي المفروضة والوجبة.... عند طلوع الشمس ولا عند قيامها في الظهيرة ولا عند غروبها..... الا عصر يومه عند غروب الشمس ويكره ان يتنفل بعد صلاة الفجر حتى تطلع الشمس وبعد صلاه العصر حتى تغرب الشمس ولا باس بأن يصلي في هذين الوقتين الفواتت.....(اللباب: ٩٧/١،كتاب الصلاة،ط: اشرفيه ديوبند)
سوال:- شفق ابیض اور شفق احمر کسے کہتے ہیں ؟اگر اس سلسلے میں کوئی اختلاف ہو تو اس کو بھی مدلل بیان کریں؟
الجواب:- آفتاب غروب ہو جانے کے بعد آسمان میں سرخی پچھم کی سمت میں ہوتی ہے اس کو شفق احمر کہتے ہیں پھر اس سرخی کے بعد اس کی جگہ سفیدی آتی ہے تو اس کو شفق ابیض کہتے ہیں پھر کچھ دیر بعد وہ بھی غائب ہو جاتی ہے اور شفق کی تعیین میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ شفق وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد افق پر آتی ہے یہی قول صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ،معاذ رضی اللہ تعالی عنہ انس رضی اللہ تعالی عنہ، ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔اور حضرات صاحبین نے فرمایا کہ اس سرخی کا نام شفق ہے جو افتاب غروب ہو جانے کے بعد آسمان میں پچھم کی سمت میں ظاہر ہوتی ہے اور یہی قول امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے، صاحبین کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول الشفق الاحمر اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دلیل وہ حدیث ہے جس کو حضرت ابو ہریرہ نے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مغرب کا آخری وقت جب کہ افق سیاہ پڑ جاتا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ سیاہی افق پر سفیدی کے بعد ہی آتی ہے اور صاحبین نے جو حدیث پیش کی ہے وہ موقوف ہے اس لیے یہ حدیث قابل استدلال نہیں ہوگی-
الشفق: هي الحمرة في الافق من الغروب الى العشاء الآخرة.... هذا قال ابو حنيفة هو البياض الذي بعد الحمرة بعد غروب الشمس....(قواعد الفقه:٢٠٨ باب الشين، مكتبة تهانوية ديوبند
قوله: إلى غروب الشفق الأحمر وقيل هو الابياض الذي بعد الحمرة وهو قول الصديق والصديقة وانس ومعاذ... وهو رواية عن الامام وبها قالا لقول ابن عمر: الشفق الحمرة وهو مروى عن أكابر الصحابة....(حاشية الطحطاوي:١٧٧/١-١٧٨،كتاب الصلاة،ط: اشرفيه ديوبند)
ثم الشفق هو البياض الذي في الافق بعد الحمرة عند الى حنيفة وعندهما هو الحمرة وهو رواية عن ابي حنيفة وهو قول الشافعي لقوله عليه السلام الشفق الحمرة و ابي حنيفة قوله عليه السلام و آخر وقت المغرب إذا سود الافق وما رواه موقوف.....(الهداية:٧٨/١-٧٩،كتاب الصلاة،ط: المكتبة التهانوية ديوبند)
سوال:-نماز کے اندر مستحب اوقات کو مفصل مدلل بیان کریں؟
الجواب:-فجر کی نماز میں اسفار کرنا مستحب ہے؛کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فجر کی نماز اسفار میں پڑھو اس لیے کہ وہ ثواب کے اعتبار سے اعظم ہے اور ظہر کو گرمی کے موسم میں ٹھنڈک میں لانا اور سردی کے موسم میں مقدم کرنا مستحب ہے؛کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معلوم تھا کہ جب ٹھنڈک کا زمانہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کو جلدی ادا کرتے اور جب گرمی زیادہ ہوتی تو ٹھنڈک میں ادا کرتے اور عصر کو مؤخر کرنا مستحب ہے کیونکہ اس تاخیر میں نوافل کی زیارت کا موقع ہے کیونکہ عصر کے بعد نوافل مکروہ ہیں گرمی اور سردی میں جب تک کہ سورج متغیر نہ ہو اور مغرب کی نماز میں جلدی کرنا مستحب ہے کیونکہ اس کو تاخیر کرنے میں یہود کے ساتھ مشابہت کی وجہ مکروہ ہے اور عشاء کو مؤخر کرنا مستحب ہے تہائی رات سے پہلے تک کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری امت پر شفقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنے کا حکم دیتا یہ مستحب ہونے کی دلیل ہے-
ويستحب لرجل الابتدائ في الفجر بالاسفار والختم به وهو المختار..... وتاخير ظهر الصيف ... مطلقا.. وجمعه الزهري اصلا واستحبابا..... وتاخير عصر صيفا وشتاء... ما لم يتغير ذكاء.... وتاخير عشاء الى ثلث الليل... فين اخرها الى ما حساب على النصف واخر العصر الى اصفرار ..... والمغرب الى اشتباك النجوم.... كره.... تحريما الا بعذر كسفر وتاخير الوتر الى اخر الليل لواثق بالانتباه... والمستحب تعديل ظهور شتاء وعصر و عشاء يوم غنم وتعجيل مغرب مطلقا۔(رد المختار:٢٤/٢--٢٩, كتاب الصلاة زكريا ديوبند)
ويستحب الاسفار بالفجر... الابراد بالظهر بالصيف... وتقديمها في الشتاء... وتاخير العصر ما لم تتغير الشمس.... وتعدي وتعجيل المغرب مطلقا... وتاخير العشاء الى ما قبل ثلث الليل..(اللباب:-٧٣/١-٧٤ كتاب الصلاة الاشرفية ديوبند)
سوال:-ہر نمازوں کی ابتدائی اور انتہائی وقت مدلل بیان کریں؟
جواب:-فجر کا اول وقت جب کہ فجر ثانی طلوع ہو اور اخری وقت سورج طلوع ہونے تک،ظہر کا اول وقت زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور اخری وقت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ ہے کہ جب سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ اس کے دو چند ہو گیا تو ظہر کا وقت ختم ہو کر عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے یہی روایت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے اور صاحبان کے نزدیک جب سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا تو ظہر کا وقت ختم ہو گیا، عصر کا اول وقت جبکہ ظہر کا وقت نکل جائے اور اخری وقت جب تک کہ افتاب گروپ نہ ہو اور مغرب کا اول وقت جب کہ افتاب غروب ہو جائے اور اخری وقت جب تک کہ شفق غائب نہ ہو جائے،عشاء کا اول وقت جب کہ شفق غائب ہو جائے اور اخری وقت جب تک کہ فجر طلوع نہ ہو۔فقط اللہ اعلم۔
وقت صلاه الفجر..... من اول طلوع الفجر الثاني... الى قبيل طلوع ذكاء۔۔۔۔ووقت الزهري من زواله... الى بلوغ الذلي مثليه.... ووقت العصر منه الى قبيل الغروب..... وبوطي المغرب منه الى غروب الشفق وهو الحمرة.... ووقت العشاء والوتر منه إلى الصبح ولا.....(رد المختار:١٢/٢-١٨ كتاب الصلاة زكريا ديوبند)
ووقت الفجر: من الصبح الصادق... ووقت الظهر: من الزوال الى بلوغ الظل مثليه سوي الفيىء كذا في " الكافي"..... من سرورة الظل مثليه غير فيء الزوال الى غروب الشمس هكذا..... ووقت المغرب: من هو الى غيبوبة الشفوق وهو الحمرة عندهما .... ووقت العشاء والوتر: من غيوب الشفق الى الصبح كذا......( الهندية:١٠٧/١-١٠٨،كتاب الصلاة زكريا ديوبند)
سوال:- پنجگانہ نماز میں سے ہر نماز کی ابتدائی اور انتہائی وقت مدلل بیان کریں؟
الجواب:-فجر کا اول وقت جب کہ فجر ثانی طلوع ہو اور آخری وقت سورج طلوع ہونے تک،ظہر کا وقت زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور آخری وقت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ جب سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ اس کے دو چند ہو گیا ہو تو ظہر کا وقت ختم ہو کر عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے یہی روایت امام اعظم رحمہ اللہ کا مذہب ہے اور صاحبین کے نزدیک جب سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا تو ظہر کا وقت ختم ہو گیا، عصر کا اول وقت جبکہ ظہر کا وقت نکل جائے اور آخری وقت جب تک کہ افتاب غروب نہ ہو اور مغرب کا اول وقت جب کہ افتاب غروب ہو جائے اور آخری وقت جب تک کہ شفق غائب نہ ہو جائے ،عشاء کا اول وقت جب کہ شفق غائب ہو جائے اور آخری وقت جب تک کہ فجر طلوع نہ ہو –
وقت صلاة الفجر.... من اول طلوع الفجر الثاني.... إلى قبيل طلوع ذكاء..... و وقت الظهر من زواله.... إلى طلوع الظل مثليه.... هوي في الزوال.... و وقت العصر منه إلى قبيل الغروب..... و وقت المغرب منه إلى غروب الشفق وهو الحمرة..... و وقت العشاء والوتر منه إلى الصبح ولا.....(در المختار: ١٢/٢-١٨،كتاب الصلاة ،زكريا ديوبند)
وقت الفجر: من الصبح الصادق.... و وقت الظهر: من الزوال الى بلوغ الظل مثليه.... ووقت العصر: من صيرورة الظل مثليه غير فيء الزوال الى غروب الشمس هكذا.... ووقت المغرب: منه إلى غيبوبت الشفق وهو الحمرة عندهما.... ووقت العشاء والوتر: من غروب الشفق إلى الصبح كذا في....(بافتاوى الهندية:١٠٧/١-١٠٨،كتاب الصلاة،زكريا ديوبند)
سوال:-کیا اس امت سے پہلے کسی دوسری امت پر کوئی نماز فرض تھی یا نہیں اگر کوئی نماز فرض تھی تو وہ کیا ہے؟
الجواب:- قرآن کریم اور احادیث مبارک کی واضح تصریحات ہیں کہ پہلے امتوں پر نماز فرض تھی جیسے بنی اسرائیل پر دو وقت کی نمازیں فرض تھیں دو رکعتیں صبح اور دو رکعتیں شام ،باقیہ امتوں کا حال خدا جانے-
ذهب جماعة إلى انه لم يكن قبل الاسراء صلاة مفروضة....وذهب الحربي إلى ان الصلاة كانت مفروضة ركعتين بالغداء وركعتين بالعشي....(فتح الباري: ٥٥٤/١)
وقد قيل: إن أول ذلك الفرض: ركعتان بالغداء وركعتان بالعشي....(تفسير الطبري: ٥٠١/٣)
وسبح بحمد ربك طلوع الشمس وقبل الغروب (ق:٣٩) وقد كان هذا قبل ان تفرض الصلوات الخمس ليلة الاسراء وهذه الآية مكية(تفسير ابن كثير: ٥٣٨/٣)
سوال:-نماز کا سبب کیا ہے؟
الجواب:- وجوب نماز کا سبب وقت کا ہونا اور دخول وقت کا یقین ہونا لہذا وقت داخل ہونے سے پہلے نماز صحیح نہیں ہوگی اور وقت نکلنے کے بعد نماز قضا ہو جائے گی-