الجواب و باللہ توفیق:- اگر بھینس قریب الولادت ہو تو اس کی قربانی مکرہ ہے اور اگر نہ ہو تو اس کی قربانی بلا کراہت جائز ہے ،اگر قربانی کے بعد بھینس کی پیٹ سے مرا ہوا بچہ نکلے تو اس کو کھانا جائز نہیں البتہ اگر زندہ بچہ نکلے تو اس کا گوشت کھایا جائے لیکن اگر ایام قربانی کے اندر ذبح نہ کیا جائے تو اسے صدقہ کرنا لازم ہے – فقط و الله اعلم–//} –//الہندیہ ج:٥ ص:٣٣١ زکریا –//ا
الجنين أذا خرج بعد ذبح أمه ان خرج حيا فذكى يحل وان مات قبل الذبح لا يوكل وان خرج ميتا فان لم يكن كامل الخلق لا يؤكل ايضا فى قولهم جميعا --//بداءع ،ج:٤،ص:١٥٩ زکریا
سوال:-اگر کوئی نابالغ مالدار ہو تو اس پر قربانی واجب ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے؟
الجواب:- اگر نابالغ مالدار ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے کیونکہ قربانی واجب ہونے کے لیے بالغ ہونا شرط ہے۔
قوله عن نفسه لانه اصل في الوجوب وقوله لا عن طفله يعني لا يستحب عليه عن اولادها الصغار لانه عبادة محضة--//بحر الرايق, ج:٤,ص:٣١٤, كتاب الاضحيه، زكريا،ديوبند
وفي الولد الصغير عن ابو حنيفة روايتان في ظاهر الروايه يستحب ولا يجب--//قاضي خان على هامش الهنديه،ج:٣,ص:٣٤٥
واما البلوغ والعقل فليسا من شرائط الوجوب في قولهما عند محمد من الشرايط حتى لا تجب الاضحية فيما لهما لو موسيرين--//شامي,ج,٩,ص:٥٢٥, كتاب الاضحية، اشرفيه،ديوبند
سوال:- اگر عورت کے پاس نصاب کے بقدر زیورات ہو اور اس کے علاوہ ایک بھی روپیہ نہ ہو تو ایسی صورت میں عورت پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں
الجواب:- یسی صورت میں عورت پر قربانی واجب ہوگی اگر اس کے پاس اس کے علاوہ ایک بھی روپیہ نہ ہو البتہ زیورات بیچ کر قربانی کریں یا کوئی انتظام کرے کیونکہ اس کے پاس صدقہ فطر کے بقدر زیورات ہے۔
وان شرط الوجوب منها وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر--//الفتاوى الهنديه،ج:٥,ص:٢٩٢, كتاب الاضحيه،زكريا،ديوبند
اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر والموسر من له ماءته درهم او عشرون دينارا--//در المختار،ج:٦,ص:٣١٦, كتاب الاضحيه
سوال:-ایک شہری شخص نے اپنا جانور قربانی کے لیے گاؤں بھیج دیا اور گاؤں والوں نے شہر میں نماز ہونے سے پہلے ہی قربانی کر دیا تو کیا اس کی قربانی درست ہوگی؟
الجواب:-اگر شہری شخص میں اپنا جانور گاؤں دیہات میں بھیج دیا ہو تو وہاں صبح صادق کے فورا بعد اس کی قربانی درست ہو جائے گی شہر کی نماز عید کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔
والمعتبر مكان الاضحيه فلو كانت في السوار والمضحى في المصر جازت قبل الصلاه--//ج:٩,ص:٤٦١, زكريا
و--بحر الرايق،ج:٩,ص٣٢١
سوال:-اگر پانچ ادمی مل کر روپیے جمع کرے اور پھر اس روپیے سے ایک حصہ خرید کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے قربانی دے تو یہ قربانی درست ہوگی یا نہیں اگر درست ہو تو کیوں اگر نہیں تو کیوں وضاحت کرے؟
الجواب:- سات ادمیوں سے زیادہ کی شرکت بڑے جانور میں جائز نہیں ہے پس ایک حصہ جو پانچ ادمی مل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خرید کر قربانی کرنا چاہے تو یہ صورت جائز نہ ہوگی البتہ ایک حصہ میں چند شر کا اپنی اپنی رقم کا مالک اپنے میں سے کسی ایک ادمی کو ذبح کر کے مالک بنا دے اور وہ اپنے قبضہ میں رقم لے کر ایک حصہ لے کر قربانی کر دے تو یہ صورت جائز ہے اگرچہ قربانی ایک ہی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہوگے مگر اپنے اپنے رقم ہبہ کرنے والے ثواب سے محروم نہیں ہونگے ۔