سوال:-اگر سات شرکا میں سے کسی شریک کا روپیہ سود کا ہو تو ایسی صورت میں قربانی کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-قربانی میں اگر کوئی ایک شریک ایسا ہو جس کا روپیہ سود یا امدانی صرف حرام ہو جو سب کو پتہ ہے تو کسی کا بھی قربانی درست نہیں ہوگی لیکن اگر باقی شرکاء کو اس ایک شریک کی امدانی کا بالکل پتہ نہیں تو اس صورت میں چونکہ وہ لوگ بے قصور ہیں اس لئے باقی کی قربانی درست ہو جائے گی۔

وان كان الشريك ستة نصرانيا او مريد اللحم لم يجز عن واحد منهم لانه الاراقة لا تتجزا--//شامي،ج٩،ص:٤٧٢،كتاب الاضحية، زكريا،ديوبند

كل الربو او كاسب الحرام ابدي اليه او اضافة وغالب ماله حرام لا يقبل ولا ياكل ولم يخبره عن ذلك المال اصله حلال ورثه او استقرضه--//الهنديه،ج:٥,ص،٣٤٣, كتاب الكراهيه ,زكريا, دوبند

عن ابي هريره قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ايها الناس ان الله الطيب لا يقبل الا طيبا،وان الله عمر المؤمنين لما امر به المرسلين وقال يا ايها الرسول كلوا من الطيبات واعملوا الصالحا اني بما تعملون عليم--//مسلم ٢/,٧٠٣

سوال:-جس جانور کے سینگ اگنے سے پہلے داغ دی گئی ہو تاکہ سنگ نہ اگے تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے یا نہیں؟

جواب:-جس جانور کے سینگ نہ ہو گئے ہو اس کی قربانی مطلقا دوست ہے خواہ اس کے نہ اگنے کی وجہ کچھ اور بھی ہو۔فقط واللہ اعلم

ويضحي بالجماء التي لاقرن لها خلقه وكذلك العظماء التي ذهب بعد قرنها بااكسراء غيرها --//سامي،ج:٩،ص:٤٦٧،كتاب الاضحية ،زكريا،ديوبند

ويضحي بالجماء التي لا قرن لها خلقة لان القرن لا يتعلق به مقصود وكذا مكسور القرن--//البحر الرائق ،ج:٨،ص:٣٣٣،كتاب الاضحية ،زكريا،ديوبند

ويجوز بالجماء التي لا قرن لها وكذا مسكورة القرن--//هنديه،ج:٥، ص:٣٤٣ كتاب الاضحية ،زكريا،ديوبند،/وكذا في مجمع الانهر

سوال:-اگر کسی جانور کے کان یا کسی اور جگہ ادھار کارڈ لگا ہوا ہو تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے یا نہیں؟

جواب:-اگر کان  پر یا کسی جگہ اب ہر کارڈ لگا ہوا ہو تو ایسے جانور کی قربانی کرنا درست ہے کیونکہ اس سے جانور میں کچھ کمی نہیں اتا۔فقط واللہ اعلم

ومن المشايخ من يذكر لهذا الفصل اصلا ويقول كل عيب يزيل منفعه على الكمال او الجمال على الكمال يمنع الضحية ،واما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع--//هنديه،ج:٥، ص:٣٤٥،كتاب الاضحية ،زكريا،دىوبند

والاصل ان العيب الفاحش مانع... واليسير من العيب غير مانع لان الحيوان فلما ينجو من العيب هل يسير فاليسير ما اثر له في لحمها--//المبسوط،ج:١٢، ص:٢٦ كتاب الاضحية

(ومقطوع اكثر الاخ) في المدائع: الله ذهب بعض الاذنين او الاية او الذنب ابو العين.... ان كان قصيرا يمنعه وان كان يسيرا لا يمنع--//شامي،ج:٩ ،ص:٥٣٦ كتاب الاضحية ،زكريا،دوبند

٦.سوال:-رات کے وقت قربانی کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب:-رات میں قربانی کرنا شرعا جائز ہے البتہ کراہت ضرور ہے جبکہ روشنی کا انتظام نہ ہو اور اگر انتظام ہو تو مکروہ نہیں ہے. واللہ اعلم

ويجوز في نهارها وليالها بعد الضلوع الفجر من اليوم النهر الى غروب الشمس من اليوم الثاني عشر والا انه يكره الذبح في الليل--//الهنديه،ج:٥،ص:٢٤٠ باب الثالث كتاب الاضحية ،زكريا،ديوبند

ن النبي صلى الله عليه وسلم ايام منى كلها منحر.... ان الذبيحة يجوز ليلا هو اختار اصحابنا المتاخرين وقول الشافعي واسحاق وابي حنيفة واصحابه لان الليل زمن يصيح فيه راى فاشبعه النهار--//بضائع الصناءع،ج:٦،ص:٢٨٦ كتاب الاضحية دار الكتاب العلمية بيروت

سوال:-اگر پانچ ادمی مل کر روپیے جمع کرے اور پھر اس روپیے سے ایک حصہ خرید کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے قربانی دے تو یہ قربانی درست ہوگی یا نہیں اگر درست ہو تو کیوں اگر نہیں تو کیوں وضاحت کرے؟

الجواب:-سات ادمیوں سے زیادہ کی شرکت بڑے جانور میں جائز نہیں ہے پس ایک حصہ جو پانچ ادمی مل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خرید کر قربانی کرنا چاہے تو یہ صورت جائز نہ ہوگی البتہ ایک حصہ میں چند شر کا اپنی اپنی رقم کا مالک اپنے میں سے کسی ایک ادمی کو ذبح کر کے مالک بنا دے اور وہ اپنے قبضہ میں رقم لے کر ایک حصہ لے کر قربانی کر دے تو یہ صورت جائز ہے اگرچہ قربانی ایک ہی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہوگے مگر اپنے اپنے رقم ہبہ کرنے والے ثواب سے محروم نہیں ہونگے ۔

واذ مات احد السبعه المشركين في البدنة وقال الورثة ذبحوا عنه وعنكم صح عن الاكل استحسانا لقصد القربه من الاكل--//شامي،ج:٩,ص:٥٣٩, كتاب الاضحيه،اشرفيه،ديوبند

ولو كانت البدنة بين اثنين نصفين تجوز في الاضح لانه لما جاز ثلاثه الاسباع نصف السبع تبعا له--//الهدايه, ج:٤,ص:١٥٩, كتاب الاضحيه البشرى

لانه لما جاز ثلاثة الاسباع اجازه نصف السبع تبعا له لانه ذلك النصف... وان لم يصو اضحية لكنه صوره قربه تبعا للاضحية--//البنايه شرح الهدايه،ج:١١,ص:٢٠, كتاب الاضحية

سوال:-ایک شخص سعودی رہتا ہے اور اس نے اپنی طرف سے قربانی کرنے کے لیے ہندوستان میں ایک شخص کو وکیل بنایا جبکہ ہندوستان میں قربانی کا تیسرا دن تھا اور سعودی میں قربانی کے ایام ختم ہو چکی ہے؟

جواب:-صحت قربانی کے لیے مقام قربانی ایام نحر کا پایا جانا ضروری ہے اور سورۃ مسئلہ یہ ہے کہ وہ شخص جو سعودی عرب میں رہتا ہے اس کی قربانی یہاں ہندوستان میں تیسرے دن اور ایام نحر موجود ہے اس لیے تیسرے دن قربانی کرنا درست ہے۔فقط واللہ اعلم

وان كان الرجل في مصري آخر فكتب اليهم ليضحوا عنه ورؤيا نبي يوسف انه يعتبر مكان الاضحية --//الهنديه،ج:٥،ص:٣٤٢،زكريا دوبند

والمعتبر مكان الاضحية لا مكان المضحى--//بزازيه،ج:٣،ص:١٥٦ زكريا،دوبند

وان كان الرجل في مصر واهله مصر آخر فكتب اليهم ليضحوا عنه--//بدائع،ج:٤،ص:٢١٢،زكريا دوبند

اگر کسی جانور کی پشت پر علامت کے طور پر لوہا یا داگ دیا جائے تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے یا نہیں؟

جواب:-اگر کسی جانور کی پشت پر علامت کے طور پر نوحہ یاد دیا جائے تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے بشرط کہ داغ اتنا زیادہ نہ ہو کہ دیکھنے میں خراب معلوم ہوتا ہو نیز اس کا اثر دماغ تک نہ پہنچا ہو تو اس کی قربانی درست ہے۔فقط واللہ اعلم

وما صفته: فهو ان يكون سليما من العيوب الفاحشة--//هنديه،ج:٥, ص:٣٤٣ كتاب الاضحية ،زكريا،ديوبند

ثما الاصل ان العيوب الفاحش مانع...... فليسير ما لا اثر له في لحمها--//مبسوط،ج:١٢,ص:٢٦ كتاب الاضحية

ومن المشايخ من يذكر في هذا الفصل مثلا ويقول كل عيب يزيل المنفعة على الكمال او الجمال على الكمال يمنع الاضحية وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع--//المحيط البرهاني،ج:٦, ص٩٣ كتاب الاضحية كذا في الهنديه،ج:٥,ص:٣٤٥ كتاب الاضحية ،زكريا،دوبند

سوال:-مردے کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے یا نہیں اگر درست ہے تو اس کا طریقہ کیا ہے؟

الجواب:-مردے کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے اور اس کی دو طریقہ ہے پہلا طریقہ میت کے نام پر ایک حصہ یا ایک چھوٹے جانور کی قربانی کی جائے اور دوسرا قربانی کرنے والے اپنی واجب قربانی کے علاوہ ایک اور حصہ قربانی کرے اور اس کا ثواب میت کو پہنچا دے دونوں طریقہ ہی صحیح ہے۔

اجازه نحير بن يحيى ومحمد بن سلمي ومحمد بن مقابل فيما يضحي عن الميت انه يضع به مثل ما يضع باضحيه نفسه من التصدق والاكل والاجر الميت والملك للذبح--//الهنديه,ج:٦,ص:٢٩٥, كتاب الاضحيه،زكريا،ديوبند

يسال عمن تضاحي عن الميت قال يصنع به كما يصنع باضحية يريد بك انه يتناول من لحمه كما يتناول من لحم الاضحية فقيل له اتسير عن الميت: قال الاجر للميت والملك للمزاحي--//تاتارخانه:ج:١٧,ص:٤٤٤, كتاب الاضحية، زكريا،ديوبند

تبرع بالاضحية ميت جاز له الاكل منها والحديث والصدقه لان الاجر للميت والملك للمضحي وهو المختار بخلاف ما لو كان بامر الميت حيث لا ياكل في المختار-//قاضي خان على الهنديه,ج٣,ص:٣٥٢, كتاب الاضحيه ,زكريا, ديوبند

سوال:-اگر بڑے جانور کے اندر واجب قربانی اور نفلی قربانی دینے والے دونوں طرح کے لوگ شریک ہو جائے تو شرعا درست ہو گی یا نہیں؟

جواب:-واجب او ر نفل قربانی دینے والے دونوں کے شرعا درست ہے وجھ یہ ہےکہ  سب کا  مقصد ایک ہے اور وہ قربت حاصل کرنے کی نیت سے کی ہے۔واللہ اعلم

وانما بعض الشركاء التطوع وبعضهم يريد الاضحية للعام الذي صار دنيا عليه وبعضهم الاضحية واجبة عامه ذلك جاز الكل--//هنديه،ج٥,ص:٣٥٢, كتاب الاضحية زكريا, دوبند

ولو ارادوا قربه الاضحية او غيرها من القربة اجزاهم سواء كانت القربة واجبة او تطوعا او اجيب على البعض دون البعض سواء اتفقت جهه القربة او اختلفت--//بضائع الصناءع،ج:٦,ص:٣٠٥-٣٠٦, كتاب الاضحية دار الكتاب العلمية بيروت

سوال:- اگر چند ادمی چھوٹے جانور میں یا بڑے جانور کے ایک حصے میں شریک ہو جائے تو یہ قربانی درست ہوگی یا نہیں اگر درست ہو تو کیوں اگر نہیں تو کیوں؟

الجواب :- درست نہیں ہوگی کیونکہ چھوٹے جانور میں ایک ہی ادمی شریک ہو سکتا ہے نہ ہی بڑے جانور کے ایک حصے میں شریک ہو سکتا ہے کیونکہ ایک ادمی ایک ہی حصہ میں شریک ہو سکتا ہے اگر ایک ادمی شریک ہو جائے تو ساتواں حصے سے کم ہو جائے گا جو کہ جائز نہیں ہے،ہاں اگر نفلی طور پر ثواب پہنچانے کے نیت سے اگر کوئی لوگ ایک جانور میں یا جانور کے کسی حصے میں شریک ہو جائے مشترکہ طور پر دو شرعا کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس حصے سے واجب کی ادائیگی مقصد نہیں بلکہ طلب ثواب ہے۔-فقط و الله اعلم

ويذبح عن كل واحد منهم شاة ويذبح بقرة او يذبح عن سبعة--// الهدايه،ج:٤,ص:٤٤٤, كتاب الاضحيه،امداديه،ديوبند

ولو لاحدهم اقل من سبع لم يجوز عن واحد (در المختار مع شامي،ج:٩,ص٥٢٥, كتاب الاضحيه،الشرفيه، ديوبند

ولا يجوز بعير واحد ولا بقره واحد انا اكثر من سبعة يجوز ذلك عن سبعة او اقل من ذلك--//بدائع ،ج:٥,ص:٣١٠