کیا بکرے کی اوچھڑی کھانا مکروہ ہے ؟؟؟

الجواب و باللہ التوفیق: حلال جانوروں کے سات اعضاء کا کھانا صحیح نہیں ہے اور حضرات فقہاء نے جن سات اعضا کو شمار فرمایا ہے ان میں اوجھڑی شامل نہیں ہے لہذا بکرے کی اوجڑی کا کھانا حلال ہے چنانچہ فتاوی رحیمیہ میں ہے: (سوال (۱۲۵) ہمارے یہاں ایک شخص یہ کہتاہے کہ بکرے کی اوجھڑی کھانا حرام ہے اور اپنی اس بات کو ایک عالم کی طرف منسوب کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ آپ لوگ اوجھڑی کو حلال کہتے ہو یہ صحیح نہیں ہے ۔ آپ وضاحت فرمائیں کہ اوجھڑی کھانا حلال ہے یا حرام؟ بینوا توجروا۔ (الجواب ) فقہاء نے جانور کی سات چیزوں کو حرام قرار دیا ہے ان سات چیزوں میں اوجھڑی شامل نہیں ہے، لہذا اسے حلال کہا جائے گا، جو اسے حرام قرار دیتے ہیں وہ دلیل پیش کریں۔ (فتاویٰ رحیمیہ۸۱/۱۰)

عن مجاهد، أن النبي صلى الله عليه وسلم كره من الشاة سبعًا : الدم المسفوح، والذكر والأنثيين، والقبل والغدة، والمثانة، والمرارة. (مراسيل أبوداؤد ، ۱۹ اعلاء السنن، کراچی۱۳۰/۱۷ ، عباس احمد الباز، مكة المكرمه١٤٤/١٧ ، مصنف عبد الرزاق ٥٣٥/٤ ، رقم: ٨٧٧١)

وأما بيان ما يحرم أكله من أجزاء الحيوان سبعة : الدم المسفوح والذكر والأنثيان، والقبل والغدة، والمثانة، والمرارة (هندية اتحاد ۵ / ٣٣٥) فقط واللہ اعلم۔

سوال:-قربانی کے جانور کو قربان کرتے وقت اس کے منہ میں چھلہ وغیرہ ڈالنا اور اس سے یہ تصور کرنا کی اس سے بیماری میں شفاء ملے گی اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ؟

الجواب وبالله التوفيق: جانور ذبح کرتے وقت اس کے منہ میں چھلہ وغیرہ ڈال کر یہ تصور کرنا کہ اس سے بیماری میں شفا ملے گی، شرعاً اس کی کوئی اصل نہیں ہے؛ بلکہ اس طرح کے توہمات سے کلی اجتناب کیا جائے۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر، وفر من المجذوم كما تفر من الأسد". (مرقاة المفاتيح/كتاب الطب والرقى،/باب الفال والطيرة، ٣٩٣/٨، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

من أعتقد أن شيأ سوى الله ينفع أو يضر بالاستقلال، فقد أشرك جليا. (مرقاة المفاتيح/كتاب الطب والرقى/باب الفال والطيرة، ٣٩٨/٨، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

سوال:-اگر کسی شخص پر قربانی واجب ہو اور کسی وجہ سے ایام قربانی میں نہ کر سکے تو شرعا کیا حکم ہے ؟

الجواب:-اگر کسی سخص پر قربانی واجب ہو اور کسی وجہ سے ایام قربانی میں قربانی نہ کر سکے تو تو اسکے لئے ضروری ہے کہ جانور کو صدقہ کر دے اور اگر بیچ دیا تو اس کی قیمت کو صدقہ کر دے -فقط و الله اعلم –//قاضیخان ج:٩،ص:٢٤٨ زکریا 

اشتري شاة ليضحي فلم يفعل حتي مضت ايام النحر تصدق بها حية ولا يجوز الاكل منها فأن باعها تصدق بثمنها فأن ذبحها وتصدق بلحمها--//الہندیہ ج:٥،ص:٣٤٢ زکریا

اذا اوجب شاةبعينها او اشتراها ليضخي بها فمضت ايام النهر قبا أن يذبحها تصدق بها حيةولا يأكا من لحمها --//شامی ،ج:٩،ص:٥٣٢ زکریا

سوال:-اگر کوئی غريب قربانی کی نیت سے جانور خریدے تو اس کو بدل سکتے ہے یا نہیں ؟

الجواب:-اگر کوئی غريب قربانی کی نیت سے جانور خریدے تو اس پر قربانی واجب ہو جاتا ہے اس کو بدل نہیں سکتا -واللہ  اعلم 

و اما الذي يجب علي الفقير دون الغني فالمشتري الاضحية -//الہندیہ ج:٥،ص:٣٣٦ زکریا

و اما الذي يجب علي الفقير دون الغني فالمشتري الاضحية أذا كان المشتري فقيرا بان اشتري فقير شاة ينوي أن يضحي بها --//بداءع،ج:٥،ص:٦٢ کتاب الاضحيه ،زکریا

سوال:-ایک شخص جو کہ صاحب نصاب تھا اس نے قربانی کے ایام سے قبل قربانی کی نیت سے جانور خریدا پھر یہ قربانی کے ایام میں غریب ہوگیا تو کیا اس شخص پر قربانی کرنا ضروری ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق

 اگر یہ شخص پہلے صاحب نصاب تھا اور اسنے قربانی کی نیت سے جانور بھی خرید لیا لیکن کسی سبب سے بعد میں ایام نحر سے پہلے پہلے غریب ہوگیا اور بارہ ذالحجہ کے غروب تک غریب ہی رہا تو اس شخص سے قربانی ساقط ہو جائگی

وسببھا الوقت وھو ایام النحر ..... والمعتبر آخر وقتھا للفقیر وضدہ .....فلو کان غنیا فی اول الایام فقیرا فی آخرھا لا تجب علیہ شامی 9/ 453- 462 ط. زکریا دیوبند

وان افتقر بعد الشراء لھا قبل مضی ایام النحر سقطت عنہ غنیہ ذوی الاحکام للشرنبلالی علی درد الاحکام 268 ط. کتاب خانہ آرام باغ کراچی

قال جماعۃ من العلماء فان اشتراھا للاضحیۃ فقد تعینت الشاۃ للاضحیۃ حتی لو کان الفقیر اوجب علی نفسہ اضحیۃ لا تجوز بھذہ ھندیہ (5/ 369 )

سوال:-بکرے کی پوچھ باقی ہے چوٹ لگنے کی وجہ سے لٹک گئی ہے اور حرکت کرنا بھی بند ہے تو ایسی صورت میں قربانی ہوگی کہ نہیں؟

الجواب و بالله التوفيق صورت مسئولہ بکرے کی قربانی جائز نہیں ۔

كل عيب يزيل المنفعة على الكمال، أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع. (المحيط البرهاني ٦/‏٩٣ — برهان الدين ابن مازه البخاري (ت ٦١٦) عالمكيري /٥/٢٩٩

سوال:-اگر کوئی شخص نفل قربانی کرے تو ایک قربانی میں کوئی ادمی شریک ہوا کر سکتا ہے یا نہیں یا اس میں اختلاف ہے بیان کریں؟

الجواب:-اگر کوئی شخص نفل قربانی کریں اور وہ بڑے جانور ہو اور اسی جانور میں کسی اور شخص کو شریک کرنا چاہے تو اس کی دو صورتیں ہیں پہلا خریدتے وقت مزید افراد بھی شریک کرنے کی نیت کی تھی ایسی صورت میں مزید افراد کو شریک کرنا جائز ہے دوسرا خریدتے وقت مزید افراد کو شریک کرنے کی نیت نہیں کی تھی اور غیر صاحب نصاب شخص کے قربانی کی نیت سے جانور خریدنے سے وہ اس پر قربانی کے لیے لازم ہو گیا لہذا اب کسی اور شریک نہیں کیا جا سکتا اگر شریک کر لیا تو باقی حصوں کی رقم صدقہ کرنا لازم ہوگا ۔واللہ اعلم۔

ذبح مشتراه لها بلا نية الاضحية جازت التفاء النية عند الشراء--//الہندیہ ج:٥،ص:٢٩٤ زکریا

ولو اشترى بقره يريد اي ضحي بها ثم اشرك فيها ستة يكره ويجز بهم لانه بمنزله سبع شاة حكما الا ان يريد حين استراها ان يشركهم فيها فلا يكره....... وان كان فقيرا معسرا فقد اوجب بشراء فلا يجوز ان يشرك فيها وكذا لو اشرك فيها ستة بعد ما اوجبها عن نفسه لم يسعه لانه اوجبها كلما الله تعالى وان اشرك يا زيضين سته اسبعها--//هنديه،ج:٥,ص:٣٠٥, كتاب الاضحية زكريا,ديوبند

اذا اشترى بدنة لمتعة مثلا لم يشترط فيها سته بعدما اوجبها لنفسه ناصية لا يسعه لانه لما اوجبها صر الاكل واجبا..... فان فعل وعليه ان يتصدق بالثمن مؤنبه اي شركه فيها ستة اجزاته--//شامي،ج:٩,ص:٤٥٩, كتاب الاضحية

سوال:-قربانی کی جانور ذبح کرتےوقت تمام شرکاء کے نام لینا ضروری ہے ؟

الجواب:-ضروری نہیں ہے البتہ ذبح کرتے وقت سب کے خیال دل میں رکھے اور نیت سب کی طرف سے کرے اور اگر سب کا نام لیوے تو بہت اچھا ہے مگر ضروری نہیں ہے -و الله اعلم –//بداءع ،ج:٤،ص:٢٠٩ زکریا 

وندب ... أن يذبح يده أن علم ذالك والا يعلمه شهدها بنفسه ,ويأمر غيره الذبح كي لا يجلها ميتة--//شامی ،ج:٩،ص:٥٤٢ اشرفیہ

ذبح مشتراه لها بلا نية الاضحية جازت التفاء النية عند الشراء--//الہندیہ ج:٥،ص:٢٩٤ زکریا

سوال:-شرکاء میں سے اگر ایک غیر مسلم ہو اور وہ بھی تقریب الہی کی نیت سے قربانی میں شریک ہوا ہو تو ایسی صورت میں قربانی درست ہوگی یا نہیں؟

جواب:-اگر شرکاء میں سے ایک غیر مسلم ہو اگرچہ وہ تقریبا الہی کی نیت سے قربانی کرے تو کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی وجہ یہ ہے کہ غیر مسلم سے تقریب الہی ثابت نہیں ہے اس لیے کہ وہ اہل ہی نہیں ہے اس لیے مسلمان ہونا شرط ہے اس کے بغیر عمل صحیح نہ ہوگا۔

ولو كان احد الشركاء كتابيا او غير كتابي وهو يريد اللحمه او يريد القربة في دينه لم يدوس لهم عندنا لان الكفر لا يتحقق منه الغربة فكانت نيته ملحقه بالحم فكان يريد اللحم--//هنديه،ج:٥,ص:٣٥١, كتاب الاضحية، زكريا ،دوبند

وان كان شريك الستة نصرانيا الى اخ). وكذا اذا كان عبد او مدبرا يريد الاضحية لان نيته باطلة لانه ليس من اهل القربة فكان نصيبه لحما فمنعا للجواز اصلا--//شامي،ج:٩،ص:٤٧٢،كتاب الاضحية، زكريا،دوبند

وان كان شريك الستة ومريد اللحم لم تجوز عند واحد منهم وجه الفراقي ان البقر تجوز عن سبعة بشرط قصد الاكل القربة--//بحر الرايق،ج:٨،ص:٢٠٢, كتاب الاضحيه

سوال:-اگر دو ادمی مل کر ایک بڑا جانور قربانی کرنا چاہے تو شرعا دوست ہے یا نہیں اگر درست ہو تو کیوں؟

جواب:-بڑے جانور میں زیادہ سے زیادہ سات ادمی شریک ہو سکتے ہیں کم چاہے جتنے بھی ہو دو ادمی ہو یا چار ہو وغیرہ اگر بڑے جانور میں سات ادمی شریک ہونا جائز ہے تو دو ادمی بدرجہ اولی جائز ہوگا۔

ولا شك في جوازي بدنة وبقرة انا اقل من سبعة بان اشتراك اسناني او ثلاثة او اربعة او خمسة او ستة في بدنة او بقرة لانه لما جاز السبع فالزيادة اولى--//بداءع صناءع،ج:٦,ص:٣٠٤, كتاب الاضحيه دار الكتاب العلمية بيروت

والبقر والبعير يدزي عن سبعة اذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى والتقدير بالسبع يمنع الزياده ولا يمنع النقصان--//هنديه٫ج:٥,ص:٣٥١, كتاب الاضحية، زكريا،ديوبند

تدوس عن ستة او خمسة او ثلاثة ذكره محمد رحمه الله في الاصل لانه لما جاز عن السبعة فعمن دونهم اولى--//الهدايه٫ج:٤,ص:٣٥٦, كتاب الاضحية دار الاحياء وكذا في طبيان الحقائق