مسئلہ یہ ہے کہ عقیقہ کے گوشت کا مصرف کیا ہے ؟ کیا عقیقہ کے گوشت سے ولیمہ کیا جا سکتا ہے ؟ ہمارے شادیوں میں پیسے دینے کا رواج ہوتا ہے ۔ یعنی شادی کی دعوت کھانے والا زید کچھ پیسے شادی والے گھر یعنی بکر کو دیتا ہے ، اور یہ بطورِ قرض کے تصور کیا جاتا ہے ۔ یعنی آئندہ زید کے گھر میں شادی ہو تو بکر بھی دعوت کھانے کا پیسہ دے گا ۔ ورنہ یہ معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اور یہ ہر شادی میں نہیں ہوتا ہے ۔ تو دریافت طلب امر یہ ہے کیا اس طرح کے پیسے وصول کئے جانے والی شادیوں میں عقیقہ کا گوشت ولیمہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے ؟

الجواب وبالله التوفيق: عقیقہ کے گوشت سے ولیمہ کی تقریب جائز اور درست ہے؛ البتہ مروجہ طریقے پر لینا دینا ممنوع ہے۔

لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي. (البحر الرائق/كتاب الحدود، ٦٨/٥، ط: زكريا ديوبند)

ويطعم من شاء من غني وفقير (مجمع الأنهر/كتاب الأضحية، ١٧٣/٤، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

حكم العقيقة بعد ذبحها حكم الأضحية من حيث التصرف فيها عند أهل العلم.... قال الحسن البصري: يصنع بالعقيقة ما يصنع بالأضحية. (المفصل في الأحكام العقيقة/المبحث الثاني عشر: التصرف في العقيقة، ص: ١٠٧، ط: جامعة القدس فلسطين) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

عورت کے یہاں بکری نے دو بچے دیے اس نے کہا میں ایک سے عقیقہ کروں گی اور ایک سے قربانی کروں گی کچھ سال بعد وہ کافی قرضدار بھی ہوگئی تو کیا اسے عقیقہ اور قربانی دونوں کرنا ہوں گے ؟؟

الجواب وبالله التوفيق: صورتِ مسؤلہ میں عورت کا یہ کہنا کہ ” میں ایک سے عقیقہ کروں گی اور ایک سے قربانی کروں گی” اس کی وجہ سے قربانی اور عقیقہ واجب نہیں ہوں گے؛ اس لیے کہ یہ محض ارادہ اور وعدہ ہے، نذر یا یمین کے الفاظ نہیں ہیں۔

فركن النذر: هو الصيغة الدالة عليه، وهو قوله: لله علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة ونحو ذلك. (بدائع الصنائع/كتاب النذر، ٣٣٣/٦، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فاليمين في الشريعة عبارة عن عقد قوي به عزم الحالف على الفعل أو الترك كذا في الكفاية. (الفتاوى الهندية/كتاب الأيمان/الباب الأول: في تفسيرها شرعاً وركنها وشرطها وحكمها، ٥٧/٢، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

ایک شخص نے بکری کے بچہ اس نیت سے خریدے کہ ان کا عقیقہ کریں گے اب وہ بچے بڑے ہوگیے ہیں اب وہ سوچ رہے ہیں کہ بعد میں عقیقہ کریں گے تو کیا ان بچوں کو بیچ سکتے ہیں ؟؟

الجواب وبا الله التوفیق عقیقہ کرنا مستحب ہے نہ کہ واجب لھذا عقیقہ کا جانور متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا ہے پس صورت مسؤلہ میں عقیقہ کی نیت سے خریدے ہوۓ جانور کو بیچنا درست ہے مستفاد فتاوی محمودیہ قدیم ۱۱/۳۵۰ جدید ڈھابیل ۱۷/ ۵۲۹

العقیقۃ......مباحۃ لا سنۃ ولا واجبۃ..... ھذا یشیر الی الاباحۃ فیمنع کونھا سنۃ فتاوی عالمگیر کتاب الکراھیۃ الباب الثانی والعشرون. زکریا قدیم ۵/ ۳۶۲. جدید ۵ / ۴۱۸ اعلاء السنن ۱۷/ ۱۲۴ مکتبہ دار الکتب العلمیہ بیروت فقط و اللہ اعلم با الصواب

سوال:-اگر کوئی شخص عقیقہ کے گوشت کو تقسیم نہ کرے بلکہ دعوت کر کے لوگوں کو کھلا دے تو یہ شرعا درست ہے یا نہیں؟

جواب:-عقیقہ کے گوشت کو تقسیم نہ کر کے دعوت کر کے لوگوں کو کھلانا شرعا درست ہے البتہ عقیقہ کے گوشت کا وہی حکم ہے جو قربانی کے گوشت کا ہے یعنی اس کا ہدیہ کرنا خیرات کرنا یا خود کھانا دوسروں کو دعوت کر کے کھلانا سب جائز ہے-فقط واللہ اعلم

وسبيلها في الاكل والهدية والصدقة سبيل الاضحية الا انها تطبخ...... وين طبخها ودعا الخوانه فاكلوا فحسن(اوجز المسالك-،٢٢١/٩

وهي شاة تصلح الاضحية تذبح للذكر والانثى سواء فرق لحمها تيا طبخه.... واتخاذ دعوه اولا--//عطر المختار،٤٨٥/٩ كتاب الاضحية دار الكتاب العلمية

انه يستحب الاكل منها تصدق كما في الاضحية..... يصيح بالعقيقة ما يصنع بالاضحية...... وفي قوله ياكل اهل العقيقة ويهدونها--//ايلاء السنن،١٤٠/١٧ فضيلة ذبح الشاة في العقيقة دار الكتاب العلمية

سوال:-اگر کوئی شخص عقیقہ میں ایک سال ایک بکرا یا ایک حصہ کرے اور دوسرے سال دوسرا بکرا یا دوسرا حصہ کرے تو شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-اگر کوئی شخص عقیقہ میں ایک سال ایک بکرا اور حصہ کرے اور دوسرا سال دوسرا بکرا یا دوسرا حصہ کرے تو ایسا کرنا شرم درست ہے کوئی ممانعت نہیں ہے البتہ یہ مستحب کہ حکم نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

البريده ان النبي صلى الله عليه وسلم قال العقيقه لسبع او رابع عشره او احدى وعشرين رواه الطبراني في الصغير والاؤسط الى آخ --//اعلاء السنن,١١٨/١٧ كتاب الزائع مکتبہ ارادہ القرآن

يستحب لمن ولد له وولد ان يسميه يوم اسبوعه ويحلق راسه ثم يعيق عند الحلق عقيقة اباحه ما في الجامع المحبوبى او تطوعا على ما في شرح الطحاوي--//در مختار ٣٣٦/٦ كتاب الاضحيه مكتبة دار الفكر

سوال:-عقیقہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟1

جواب:-عقیقہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بچے کی جانب سے پوری دو بکرے اور بچی کی جانب سے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا (سنن ترمذی:١٥١٣،سنن ابن ماجه:٣١٦٣) میں موجود ہے بچے کی پیدائش کے ساتھ ہوئے دن اس کا عقیقہ کرنا بہتر ہے لڑکا ہو تو دو بکرے یا دو بکریاں اور اگر لڑکی ہو تو ایک بکرا ذبح کرنا ہے یہی مسنون ہے اور اسی دن بچے کا نام رکھا جائے۔فقط واللہ اعلم

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الغلام مرتهن بعقيقة يذبح عنه يوم السابع ويسمي ويلحق راسه--//ترمزي ٢٧٨/١ ابواب الاضاحي

عن اهل العلم يستحبون ان يذبح عن الغلام العقيقه يوم السابع فان لم يتهبا يوم السابع فيقوم الرابع عشرفان لم يتهبا عق عنه يوم احدى وعشرين وقالوا لا يجزي في العقيقة من الشاة الا ما يجزي في الاضحية --//ترمزي،٢٧٨/١ باب من العقيقة مكتبة قديمي

عن سمرة بن جندب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كل غلام رهين بعقيقة تذبح عنه يوم السابعه ويحلق راسه وسمي-٣٧٢/٤ كتاب العقيقة مكتبة موسة

سوال:-عقیقہ کی گوشت کا شرعا کے حکم ہے؟

جواب:-عقیقہ کی گوشت کا شرعا وہی حکم ہے جو قربانی کے گوشت کا ہے البتہ فرق اتنا ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے برائے استحباب لیکن عقیقہ کا گوشت تین ن حصے میں تقسیم کرنا کوئی ضروری نہیں۔

والافضل ان يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث زياره لاقرباء واصدقائه ويدخل الثلث ولو حبس الكد جاز لان القربه في الاراقة والتصديق باللحم تطوع--//در المختار،٤٧٢/٩ كتاب الاضحية دار الفكر

وكذا لو اراد بعضهم العقيقه عن ولد قد ولد له من قبل لان ذلك جهة والقربة بالشكر على نعمه الولد--//رد المختار،٤٧٢/٩ كتاب الاضحية ،زكريا،دوبند

سوال:-عقیقہ کے اندر لڑکا اور لڑکی دونوں کےحصوں میں کوئی فرق ہے؟

جواب:-عقیقہ کے اندر لڑکا اور لڑکی کے حصوں میں فرق ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا اور عقیقہ کے جانور میں مذکر اور مونث میں کوئی فرق نہیں ہے (اگر کوئی شخص لڑکے کے لیے دو بکریوں پر قادر نہ ہو تو ایک بکرا سے بھی عقیقہ کر سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔فقد واللہ اعلم

ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امرهم عن الغلام شاتان مكافاتان وعن الحجارة شاة --//جامع الترمذي،٤٧٤/١ مكتبة التحاد ديوبند

عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة--//مشكوة المصابيح،٣٦٢/١

من احب ان ينسك عن واحده فلينسك عنه عن الغلام شاتان مكافاتان وعن الجارية شاة--//سنن النسائي حديث نمبر ٤٢١٧ كتاب العقيقة

مسنون
مسنون
مسنون
مسنون

سوال:-عقیقہ کے لغوي اور شرعی معنی کیا ہے؟

جواب:-عقیقہ کے لوگوں کی معنی ہے کاٹنا اور شرعی معنی ہے بچے کی پیدائش پر شکرانہ طور پر جو قربانی کی جاتی ہے اس سے عقیقہ کہتے ہیں۔واللہ اعلم

العقيقة في الاصطلاحي ما يذكي عن المولد شكر الله تعالى بنية وشرائط مخصوصة--//الموسوعة الفقهيه،ج٣،ص٢٧٦

سوال:-عقیقہ کا شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-عقیقہ  شرعی طور پر مستحب ہے نو مولد بچہ بچی کی جانب سے اس کی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتا ہے وہ عقیقہ ہے اور عقیقہ کرنا سنت ہے اور صحابہ کرام سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے

عن سموره بن جندب رضي الله تعالى عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال كل غلام رهينه بعقيقته تذبح عنه يوم سابعه ويلحق ويسمى--//سنن ابو داؤد

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم انما نسالك احدنا يولد له قال من احب ان ينسك عن واحده فلينسك عنه عن الغلام شاتان مكافاتان وعن الجارية شاة آخ --//سنن نسائی:٤٢١٧

عن امر كرز كعبة قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول عن الغلام الشاتان مكافتان وعن الجارية شاه--//مسند محمد بن حنبل،ج:٦،ص:٤٢٢

مردہ بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا درست ہے یا نہیں اگر اس میں کوئی اختلاف ہے تو وضاحت کریں؟

.جواب:-سورۃ مسئلہ میں عقیقہ کرنا درست نہیں ہے اور یہی صحیح قول ہے کیونکہ جب بچہ فوت ہو گیا تو اس کو بلاؤ اور مصیبتوں سے بچانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر بھی اگر اس کی طرف سے بکرا وغیرہ ذبح کرے اور غریب دوست احباب رشتہ داروں کو گوشت تقسیم کر دے صدقہ نافلہ کا ثواب ملے گا یہ عقیقہ نہ ہوگا البتہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح زندوں کی طرف سے عقیقہ کرنا مستحب ہے اسی طرح مردوں کی طرف سے بھی عقیقہ کرنا مستحب ہے حضرات حسن بصری اور مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کی طرف سے عقیقہ کرنا مستحب نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

ويستحب لمن ولد له ولد ان يسمعه يوم الاسبوعه ثم يعق عنه الحق عقيقة اباحة او تطوعا--//شامي, ٤٨٥/٩ كتاب الاضحية زكريا دوبند

وانما اخذ اصحابنا الحنيفة في ذلك يقول الجمهور وقالوا بالاستحباب العقيقه--//اعلا السنن١١٣/١٧ دار الكتاب العلميه بيروت

حديث ثمرة بن جندب رضي الله تعالى عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الغلام مرتحن بعقيقته يذبح عنه يوم السابع وفي روايه كل غلام رهينه بعقيقته يذبع عنه يوم السابع ويحلقه ويسمي قال الشافعي رحمه الله مات المولد قبل السابع استحبب العقيقه عنه كما تستحب عن الحي وقال الحسن بصري ومالك رحمه الله لا تستحي بالعقيقه عنه--//الموسوعة الفقهيه,٢٧٦/٣ باب العقيقه

بالغ ہونے کے بعد عقیقہ کرنا درست ہے یا نہیں اگر درست ہو تو بلوغ کے وقت استحباب کی فضیلت حاصل ہوئی یا نہیں مدلل بیان کریں؟

جواب:-سورت مسند میں عقیقہ کرنا تو درست ہے البتہ استحباب کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی کیونکہ مستحب وقت ساتویں دن چودھویں یا اکیسویں دن ہے اس کے بعد استحباب کی فضیلت باقی نہیں رہتی ہے۔فقط واللہ اعلم

ويستحب لمن ولد له ولد ان يسمعه يوم اسبوعه ثم يعق عنه الحلق عقيقة اباحه او فطوعا--// شامي،ج:٩،ص٤٨٥،كتاب الاضحية ،زكريا،دوبند

عن سمره قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الغلام مرتهم بعقيقته يذبح عنه يوم السابع وسمي ويحلق راسه-والعمل على هذا عند اهل العلم يستحبون ان يذبح عن الغلام العقيقة يوم السابع فان لم ينهيا يوم السابع فيوم الرابع عشره فان لم الى آخ --//سنن الترمذي, ١٨١/٣ رقم الحديث: ١٥٢٢ باب من العقيقة

انما اخذ اصحابنا الحنيفة في ذلك يقول الجمهور قالوا باستحباب العقيقة --/الملاء سنن:١١٣/١٧ باب العقيقة ،دار الكتاب العلميه بيروت