سوال:-ماء مطلق اور ماء مقید کس پانی کو کہا جاتا ہے اور ان دونوں کا کیا حکم بتفصیل بیان کریں؟

الجواب:-ماء مطلق وہ پانی ہے جس پانی کے ساتھ کوئی چیز شامل نہ ہو مثلا دریا اور نہر یا چشمہ کا پانی وغیرہ، اس کا حکم وہ پانی خود پاک ہے اور پاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو- ماء مقید جس کو عام محاورے میں پانی نہ کہتے ہوں اگرچہ پانی کی طرح بہنے والا ہو جیسے گلاب ،پھل سے نچوڑا ہوا پانی مثلا تربوز وغیرہ اسی طرح پانی سے اس کا حکم وضو اور غسل درست نہیں ہے-

يرفع الحدث مطلقا بماء مطلق هو ما يتبادر عند الا طلاق كماء سماء...... ولا يعصير نيات أي: معتصر من شجر او ثمر لأنه مقيد....(شامي: ٣٥٧/١-٣٦١،باب المياه،اشرفيه ديوبند)

والطهارة من الاحداث جائزة بماء السماء والاودية والعيون وماء البحار ولا تجوز الطهارة بماء اعتصر من الشجر والثمر ولا بماء غلب عليه وغيره....(انوار القدوري:٥٥/١-٥٦،كتاب الطهارة،دار الاشاعت کراچی)

الطهارة من الاحداث جائزة بماء السماء.... ولا يجوز بماء الناس من الشجر والثمر... ولا يجوز بماء غلب عليه غيره.... وان تغير بالطبخ بعد ما خلط به غيره لا يجوز التوضى به...(اشرف الهدايه:١٣٢/١،كتاب الطهارة، دار الاشاعت کراچی)

سوال:-پانی کے کتنے قسمیں ہیں اور کیا کیا ہے اور حکم مدلل بیان کریں؟

الجواب:-پانی کی پانچ قسمیں ہیں(١) طاہر مطہر: یعنی وہ پانی جو خود بھی پاک ہو اور پاک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو جیسے ماء مطلق(٢) طاہر مطہر مکروہ: جیسے وہ قلیل پانی جس میں پالتو بلی کھلی مرغی وغیرہ منہ ڈال دیں اس کا حکم یہ ہے اگر غیر مکروہ پانی موجود ہو تو اس پانی کو استعمال کرنا مکروہ تنزیحی ہے اور اگر اس کے علاوہ پانی نہیں ہے تو استعمال کرنا کوئی حرج نہیں (٣) طاہر غیر مطہر: یعنی وہ پانی جو بذات خود پاک ہو ؛لیکن وہ حدث کو پاک کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اور اس کا حکم دوبارہ وضو اور غسل معتبر نہ ہو جیسے ماء مستعمل لیکن ما مستعمل سے نجاست حقیقہ زائل کی جاسکتی ہے مثلا ناپاک کپڑا دھویا جا سکتا ہے(٤) نجس: یعنی وہ پانی جس میں کوئی نجاست مل گئی ہو اس کے حکم اسے کوئی طہارت حاصل نہیں ہوتا ہے جیسے وضو غسل وغیرہ(٥) مشکوک پانی: وہ پانی جس میں گدھے یا خچر نے منہ ڈالا ہو اس کا حکم یہ ہے کہ دیگر پاک پانی رہتے ہوئے ا س سے وضو وغیرہ نہ کرے اور اگر دیگر پانی موجود نہ ہو تو اس سے وضو کرلے، لیکن بعد میں تیمم بھی کرے –

أما المياه على خمسة اقسام: طاهر مطهر غير مكروه: وهو الماء المطلق. وطاهر مطهر مكروه: فهو ما شرب منه الهرة ونحوه وكان قليلا. وطاهر غير مطهر: وهو ما استعمل لرفع حدث او لقوبة الخ. والرابع ماء نجس: وهو الذي حلت فيه نجاسة الخ. والخامس ماء مشكوك في طهوريته: وهو ما شرب منه حمار او بغل(مراقي الفلاح: ١١/٨) فلو كان الماء مستعملا كفى في ازالة النجاسات على المفتي به (حاشية شرح وقاية:١٢٢/١،الدر المختار: ٣٧/١،شامی:٣٥٣/١ زكريا ديوبند ،کراچی:٢٠١/١)

المياه على خمسة اقسام: طاهر مطهر غير مكروه :وهو الماء المطلق،وطاهر مطهر مكروه: وهو ما شربت منه الهرة ونحوها وكان قليلا ،وطاهر غير مطهر: وهو ما استعمل لرفع حدث.... والرابع ماء نجس: وهو الذي حلت فيه نجاسة وكان راكدا قليلا.... والخامس ماء مشكوك في طهوريته: وهو ما شرب منه حمار او بغل. (نور الايضاح:١٠-١٢،كتاب الطهارة،اقسام المياه،مكتبة البشري،کراچی باکستان)

سوال:-استنجا کے اندر کم سے کم کتنے ڈھیلے کا ضروری ہے یا اس میں کوئی اختلاف ہے اگر ہے تو وضاحت کے بعد صحیح قول کا نشان دہی کریں؟

الجواب:-استنجا کے اندر ہمارے نزدیک کوئی عدد متعین نہیں ہے بلکہ مقصود صاف کرنا ہے لیکن امام شافعی کے نزدیک تین کا عدد ہونا ضروری ہے ان کے دلیل حضرت سلمان کی روایت ہے یعنی ہم میں سے کوئی تین پتھروں سے کم سے استنجا نہ کرے اور ہمارے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک طویل حدیث ہے جو شخص پتھر سے استنجا کرے اس کو چاہیے کہ طاق عدد اختیار کرے جس نےکیا بہتر ہے اور جس نے نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں ان کے دلیل کا جواب یہ ہے حدیث میں صیغہ امر آیا ہے ،وہ استحباب پر محمول ہے کیونکہ عام طور سے تین پتھروں سے صفائی ہو جاتی ہے یہ مطلب نہیں کہ تین پتھر واجب ہے اور صحیح قول امام صاحب رحمہ اللہ کے ہے

نهانا ان يستنجي احدنا باقل من ثلاثة احجار(ترمذى:١٠/١)

من استجمر فليوتر من فعل فقد احس ومن لا فلا حرج (طحطاوي:٩٢/١)

قوله: وما سنن فيه اي في الاستنجاء لما قدمنا من ان المقصود انما هو الانقاء وشرط الشافعي الثلاثا.....(البحر الرائق: ٤١٨/١ باب الانجاس،تهانوى ديوبند)

(لإنه المقصود) اي: لا نقاء هوالمقصود من الاستنجاء....ان الأمر للوجوب كما قال الإمام الشافعي.....(شامي:٦٠٢/١،كتاب الطهارة اشرفية ديوبند)

سوال:-ٹیشو پیپر سے استنجا کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-بحالت ایسے کاغذ سے استنجا درست ہے اور جائز ہے اور مستنجی کی امامت درست اور جائز ہے-(مستفاد: فتاوی دارالعلوم:٣٧٩/١)

وكذا ورق الكتابة لصقالته وتقومه وله احترام ايضا لكونه اية لكتابة العلم، وكذا.... لا يجوز بما كتب عليه شيء من العلم والمحترم.... اما غير المحترم كفلسفة وتوراة وانجيل...... ونقل.... ومفاده الحرمة بالمكتوب مطلقا،واذ كانت العلة في الأبيض كونه ايه لكتابة كما كرناه يؤخذ منها عدم الكراهة فيما لا يصلح لها اذ كان قاليا للنجاسة غير متقوم كما قد مناه(شامي: ٥٥٢/١،كتاب الطهارة بابا الانجاس زكريا ديوبند)

قوله: (سنن الاستنجاء بنحو حجر منق) واشار بقوله منق إلى ان المقصود هو الانقاء.... واراد بنحو الحجر ما كان فينا طاهرة مزيلة لا قيمة له كالمدر....(البحر الرائق: ٤١٨/١، كتاب الطهارة،تهانوي ديوبند)

ويسن اي يستنجى بحجر منق الخ،ونحوه من كل طاهر مزيل بلا ضرور(مراقي الفلاح) كالمدر وهو طين.... والخلقة والبالية والجلد الممتهن(طحطاوي على المراقي: ٤٥)

سوال:-استنجا کے لیے پانی کا استعمال ضروری ہے یا اس میں کوئی تفصیل ہے اگر ہو تو مفصل بیان کریں؟

الجواب:-اگر مقام استنجا سے نجاست ایک درہم سے زائد تجاوز کر جائے تو پانی سے پاک کرنا واجب اور ضروری ہے ورنہ ضروری نہیں ڈھیلا پر اکتفاء کرنا کافی ہے لیکن صفائی کے لیے پانی استعمال بہتر ہے-

عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: نزلت هذه الآية في اهل قباء: قال: كانوا يستنجون بالماء، فنزلت فيهم هذه الآية (ابو داؤد ،باب الاستنجاء بالماء،النسخة الهندية:٧/١ دار السلام ،رقم:٤٤)

وغسل نجاسة المخرج.... إذا تجاوزت مخرجها يجب عند محمد رحمه الله عليه قل أو اكثر، وهو الأحوة،وعندهما يجب إذا تجاوز قدر الدرهم(عالمگیری:٥٠/١،الباب السابع الفصل الثالث في الاستنجاء ،زكريا ،قديم الجديد:١٠٥/١)

والافضل ان يجمع بينهما كذا في التبيين قيل: هو سنة في زماننا(هندية:٤٨/١،الباب السابع الفصل الثالث زكريا، قديم الحديد :١٠٤/١،الفتاوى التاتارخانية:٢١٢/١،كتاب الطهارة، الفصل الاول في الوضوء رقم ١٦٤)

سوال:-استنجاء کا مسنون طریقہ کیا ہے وضاحت بیان کریں؟

الجواب:-استنجاء کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے ڈھیلے سے استنجاء کیا جائے اس کے بعد پانی سے لیکن اگر کوئی شخص بڑا استنجاء ڈھیلے سے نہ کرے بلکہ پانی ہی سے کریں اور صفائی کا مکامل ہو جائے یہ بھی جائز ہے۔

والاستنجاء بالماء أفضل ان امكنه ذلك من غير كشف العورة وان احتاج إلى كشف العورة يستنجي بالحجر ولا يستنجي بالماء..... قيل هو سنة في زماننا، وقيل: على الاطلاق ،وهو الصحيح(بالفتاوى الهنديه:١٠٤/١،كتاب الطهارة، الفصل الثالث زكريا ديوبند)

(بمسنون فيه) بل مستحب(والغسل) بالماء إلى أن يقع في قلبه أنه طهر ما لم يكن موسوسا....(بعده) اي الحجر (بلا كشف عورة) عند احد،اما معه فيركه كما مر.... لا لو كشف لاغتسال او تغوط كما بحثه ابن الشحنة(سنة) مطلقا.....(شامي: ٥٤٨/١-٥٥٠،کتاب الطهارة باب الانجاس ،زكريا ديوبند)

والافضل في كل زمان الجمع بين استعمال الماء والحجر مرتبا فيمسح الخارج ثم يغتسل المخرج.... فكان الجمع سنة على الا طلاق في كل زمان وهو الصحيح وعليه الفتوى ويجوز: اى يصح ان يقتصر على الماء فقط(مراقي الفلاح: ٤٥،فصل في الاستنجاء قديمي)

سوال:-اگر کوئی شخص وضو اور غسل کرنے پر قادر نہ ہو تو شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-اگر کوئی شخص وضو اور غسل پر قادر نہ ہو تو تیمم کریں اور تیمم کر کے فرائض نوافل ادا کریں جیسے کوئی اعضاء تلف ہونے کے خطرہ ہو یا بیماری پڑ جانے کے خطرہ ہو وغیرہ وغیرہ تو تیمم کرے-

لو كان يجد الماء إلا أنه مريض بخاف إن استعمال الماء اشتد مرضه او ابطا برءه تيمم(هنديه: ٢٨/١،باب التيمم زكريا ديوبند)

قوله: أو لمرض يعني يجوز التيمم للمرض واطلقه....(البحر الرائق: ٢٤٥/١،باب التيمم،تهانوى ديوبند)

ومن عجز تيمم عن استعمال الماء المطلق الكافي لطهارته.... او لمرض....(شامي: ٤٤٠/١-٤٤٣،باب التيمم، اشرفيه ديوبند)

سوال:-دھوپ سے گرم ہونے والی پانی سے وضو اور غسل کرنا شرعا کیسا ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو اس کا بھی وضاحت کرے؟

الجواب:-جو پانی دھوپ سے گرم ہو جائے اس سے وضو اور غسل کرنا منع ہے-اس لیے منع ہے کہ اس میں برص یعنی سفید داگ کا مرض ہونے کا اندیشہ ہے پھر اگر اس پانی کے علاوہ کوئی اور پانی نہ ہو تو اس پانی کو ٹھنڈا کر کے کر سکتا ہے-

عن عمر قال لا يغتسل بالماء المشمس فإنه يورث البرص (بيهقي شريف: ١٠/١)

وبماء قصد تشميسه بلا كراهية وكراهية عند الشافعي طبية... واستعماله يخشى منه البرص كما صح عن عمر رضي الله عنه....(در المختار مع الشامي: ٣٢٤/١-٣٢٥،باب المياه زكريا ديوبند)

يكره الطهارة بالماء المشمس لقوله صلى الله عليه وسلم لعائشة رضي الله عنها حين سخنت الماء بالشمس( لا تفعلي يا حميراء لا تفعلي فانه يورث البرص)(مشكوة شريف:٥٢/١) هكذا الشامي:٣٢٤/١-٣٢٥ باب المياه، زكريا ديوبند)

سوال:-اب زمزم سے وضو اور غسل کرنا شرعا کیسا ہے؟

الجواب:-اب زمزم سے وضو اور غسل تبرکا کرنا شرعا جائز اور درست ہے اور خلاف ادب بھی نہیں۔ ہے لیکن اب زمزم سے استنجاء کرنا خلاف ادب اور مکروہ ہے

شرب من ماء زمزم (تحته في الشامي): ما سحابه وجهه وراسه وجسده صابا منه على جسده ان امكن (شامي: ٥٤٦/٣،كتاب الحج، زكريا ديوبند)

يجز الوضوء والغسل بماء زمزم عندنا من غير كراهة بل ثوابه أكثر.... ان كان على طهارة للتبرك، فلا ينبغي ان يغتسل به جنب ولا محدث ولا في مكان نجس ولا يستنجي به ولا يزال به نجاسة حقيقة وعن بعض العماء تحرير ذلك(حاشية الطحطاوي:٢٢،كتاب الطهارة،دار الكتاب ديوبند)

لا يكره الوضوء والاغتسال بماء زمزم (البناية:٣٦٦/١،كتاب الطهارة،باب الماء الذي يجوز به الوضوء مكتبه الشرفية ديوبند)

سوال:-وضو اور غسل کے لیے تیمم کا طریقہ ایک ہی ہے یا الگ الگ ہے یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:-وضو اور غسل کے لیے تیمم کا طریقہ ایک ہی ہے البتہ وضو کے لیے تیمم وضو کا نیت کریں اور غسل کے لیے تیمم غسل کا نیت کریں-

عن جابر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: التيمم ضربة للوجه وضربة لليدين الى المرفقين...(السنن الكبرى:٣١٩/١،رقم الحديث: ٩٩٨،كتاب الطهارة باب كيف التيمم)

والتيمم ضربتان يمسح باحدهما وجهه وبالاخرى يديه الى المرفقين لقوله عليه السلام: التيمم ضربتان ضربة للوجه وضربة لليدين (هدايه: ٤٨/١-٤٩،كتاب الطهاره باب التيمم،رحمانية ديوبند)

فقال: التيمم ضربتان ضربة للوجه وضربة لليدين الى المرفقين ،فقلت له: كيف هو فضرب بيديه على الأرض فاقبل بهما وادبر...... ثم مسح بذلك ظاهر الذراعين وباطنهما إلى المرفقين(بدائع الصنائع :١٦٧/١،كتاب الطهارة كيفية التيمم،اشرفية ديوبند)