سوال:-کس حوض یا تالاب کا پانی ماء جاری کی حکم میں ہے اور کس کا پانی ماء جاری کا حکم میں نہیں مدلل مفصل بیان کریں؟

الجواب:-بڑے حوض یا تالاب کا پانی ماء جاری کا حکم میں ہے جس میں دہ در دہ سے زیادہ پانی ہو یا اس کے برابر ہو اور جس حوض یا تالاب میں دہ در دہ سے کم پانی ہو وہ ماء جاری کا حکم میں نہیں ہے اسی طرح وہ حوض اور تالاب جس میں ایک جانب سے پانی آرہا ہو اور دوسرے جانب سے نکل رہے ہو وہ بھی ماء جاری کی حکم میں ہے-

والقدير العظيم لا تيحرك احد طرفية فتحريك الطوف الآخر..... كالماء الجاري(اشرف الهداية:١٤٢/١،كتاب الطهارة، دار الاشاعت کراچی)

او بما دائم فيه نجس ان لم يكن عشرا في عشر والا فهو كالجاري.... اي وان يكن عشرا في عشر فهو كالجاري (البحر الرائق:١٣٦/١-١٥٠،كتاب الطهارة،المكتبة التهانوية ديوبند)

وكذا يجوز بركد كثير كذلك اي: وقع في نجس لم يرى أثره.... الماء النجس إذا دخل الحوض الكبير لا ينجس الحوض... وقد ذكر عبارة ان النصاب في مسالة الماء الجاري....(شامي: ٣٧٥/١،كتاب الطهارة، اشرفية ديوبند)

سوال:-اگر کسی ٹنکی میں چھوٹا بچہ گر جائے یا چلا جائے تو پانی کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-اگر بچہ کے بدن پر پہلے سے کوئی نجاست نہ ہو وہ بچہ ٹنکی کے اندر داخل ہو گیا یا چلا گیا تو ٹنکی ناپاک نہ ہوگا (یعنی اگر حوض چھوٹا ہو تو ماء مستعمال ہو سکتا ہے) اگر بچہ اس کے اندر کوئی نجاست نکال دے یعنی پیشاب پاخانہ کر دے تو ناپاک ہو جائے گا-

فالادمي الطاهر إذا دخل في البئر لطلب الدلو او للتبرد وليس على أعضائه نجاسة وخرج منها حبا وهذا جواب ظاهر الرواية(الفتاوى التاتارخانية :٣١٣/١،كتاب الطهارة، فصل الرابع في المياه التي يجوز الوضوء بها ،مكتبة زكريا ديوبند)

وان كان في البئر فالواقع فيه لا يخلو من ان يكون حيوانا او غيره من النجاسات.... وان لم يكن نجس العين، فان كان ادميا ليس على بدنه نجاسة حقيقية ولا حكمية ..... ظاهر الرواية (بدائع الصنائع :٢٢٢/١،كتاب الصلاة احكام الابار،اشرفية ديوبند)

سوال:-کیا حوض اور ٹنکی کا پانی ماء جاری کی حکم میں ہیں یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے اگر ہے تو مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:-جس حوض اور ٹنکی میں مثلا گلہری گری ہے اس ٹنکی کے دونوں جانب کے نل کھول دیے جائیں یعنی ایک جس سے پانی اتا ہے اور دوسرا جس سے پانی باہر نکلتا ہے تو وہ نہر جاری کے حکم میں نہیں ہوگی اس لیے نہیں ہوگی کہ ٹنکی میں جو پانی اتا ہے وہ تسلسل کے ساتھ نہیں نکلتا بلکہ ٹنکی میں کچھ دیر ٹھہر کر نکلتا ہے کیونکہ جاری ہونے کے لیے تسلسل ضروری ہے- اگر پانی آکر نہ روکے تسلسل چلتے رہے تو جاری کی حکم میں ہے ورنہ نہیں-

رايت في شرح سيدي عبد الغني في مسالة خزانة الحمام التي اخبر ابو يوسف برواية فأرة فيها قال: فيه اسارة إلى ان ماء الخزانة إذا كان يدخل من اعلاها ويخرج من انبوب في اسفلها فليس بجار....(شامي:٣٣٨/١،كتاب الطهارة ،باب المياه،زكريا ديوبند)

(قوله: والا فهو كالجاري) أي وان يكن عشرا في عشر فهو كالجاري فلا يتنجس إلا إذا تغير احد اوصافه(البحر الرائق: ١٥٠/١،كتاب الطهارة)

اذا كان الحوض صغيرا يدخل فيه الماء من جانب ويخرج من جانب يجوز الوضوء فيه (الهندية:٦٩/١،كتاب الطهارة زكريا ديوبند)

سوال:- اگر کسی حوض میں ناپاکی گر جائے اور معلوم نہ ہو تو ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-اگر حوض میں ناپاکی گر جانے کا علم کسی کو نہیں ہوا جس دن معلوم ہو ناپاکی کا اس دن سے اس کو ناپاک قرار دیا جائے گا اور اس کے بعد جن لوگوں نے وضو کیا ہے ان کو اس وقت سے عبادت لوٹانی ہوگی (یعنی پہلے کی تمام عبادت صحیح پانی سے کی جائیں گی)(مستفاد عزیز الفتاوی :١٦٨/١)

قالا: من وقت العلم فلا يلزمهم شيء قبله، قيل: وبه يفتى وتحته في الشامية فلا يلزمهم اي اصحاب البئر شيء من اعادة الصلوة اوغسل ما اصابه مائها كما صرح به الزيلعي... وقوله: بأن قولهما قياس وقوله استحسان ما هو الاحوط في العبادات (شامي:٣٧٨/١،كتاب طهارة، باب المياه زكريا ديوبند,)

اما إذا لم يعلم وقت وقوعها القياس ان لا يجب عليه اعادة شيء من الصلوات ما لم يتقن أنه توضا منها وهو فيها سواء وحدها منتفخة متفسخة اولا..... وقال ان وجدها منتفخة متفسخة يعيد صلاة يوم وليلة(الفتاوى التاتارخانية:٣٢٥/١، الفصل الرابع: في المياه التي يجوز الوضوء بها، مكتبة زكريا ديوبند )

وان وجدوا في البئر فاره او غيرها ولا يدري متى وقعت ولم ينتفخ اعادوا صلوة يوم وليلة الخ.....(اشرف الهداية:١٦٩/١،كتاب الطهارة، دار الاساعت کراچی)

سوال:-اگر کسی ٹنکی میں کوئی پرندہ گر جائے تو شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-اکثر ٹنکی چھوٹا ہوتا ہے اگر پرندہ اس میں گر جائے تو دیکھا جائے گا کہ وہ پرندہ مرا ہے یا نہیں اگر مر گیا اور پھول کر پھٹ گیا تو سارا پانی نکلنا ہوگا اور تین دن تین رات کی نماز وغیرہ کا لوٹانا ضروری ہوگا پھر اگر گر کر فورا چلا گیا تو ناپاک نہیں منا جائے گا-

إذا وقعت نجاسة.... في بئر دون القدر الكثير على مامر او مات فيها حيوان دموي غير مائي لما مر وانتفخ او تمعط او تفسخ ولو تفسخة خارجها ثم وقع فيها.... ينزح كل مائها الذي كان فيها وقت الوقوع بعد اخراجه(شامي: ٣٦٦/١-٣٦٨،كتاب طهارة ،باب المياه،زكريا ديوبند)

وان كانت قد انتفخت او تفسخت اعادوا صلاة ثلاثة ايام ولياليها عند ابي حنيفة(هداية:٤٣/١،كتاب الطهارة فصل في البئر، اشرفية ديوبند)

وفي حاشية شرح الوقاية عن المجتبى: كان ركن الائمة الصباعي يفتى بقول أبي حنيفة فيما يتعلق بالصلاة وبقولهما في ما سواه يعني في غسل الثوب و البدن والاواني وغير ذلك مما وصل إليه ذلك الماء(حاشية شرح الوقاية:٨٥/١،كتاب الطهارة فصل في البئر)

سوال:-اگر حوض کے اندر کوئی ناپاکی گر جائے تو اس حوض کا شرعا کیا حکم ہے نیز اس کو پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

الجواب:-اگر حوض کے اندر کوئی ناپاکی گر جائے ایسے ناپاکی جیسے پانی کا ذائقہ رنگ بدل جائے تو شرعا ناپاک ہے اس کو صاف کرنا ہے پانی نکل کر اس سے وضو اور غسل جائز نہیں- اب رہی پاک کرنے کا طریقہ اس حوض کو ایک طرف پانی ڈالے اور دوسری طرف سے پانی نکالے اتنا نکالے جتنا پانی پہلے سے موجود تھا کم سے کم اتنا نکالے تو حوض پاک سمجھا جائے گا- چھوٹا اور بڑا حوض میں فرق ہے اگر چھوٹا حوض ہو تو پورا پانی نکلنا ہے اور بڑا حوض ہو تو جتنا پانی پہلے سے تھا کم سے کم اتنا پانی نکلنا ہے-

حوض صغير تنجس ماؤه فدخل الماء الطاهر فيه من جانب وسال ماء الحوض من جانب آخر..... يقول: لما سال ماء الحوض من الجانب الاخر يحكم بطهارة الحوض.... لا يحكم بطهارة الحوض حتى يخرج منه ثلاث مرات مثل ما كان في الحوض من الماء النجس.....(الفتاوى التاتارخانية:٣٠٧/١،كتاب الطهارة،الفصل الرابع في المياه التي يجوز الوضوء بها،زكريا ديوبند)

حوض صغير تنجس ماؤه فدخل الماء الطاهر فيه من جانب وسال ماء الحوض من جانب آخر كان الفقيه ابو جعفر رحمه الله يقول: كما سال ماء الحوض من الجانب الآخر يحكم بطهارة الحوض....(الهنديه: ٦٩/١،كتاب الطهارة، باب الثالث: في المياه، زكريا ديوبند)

امتلا الحوض النجس وخرج منه الماء الى الشط قدر ذراعين طهر إلا اذا خرج من النهر الذي دخل منه.... حوض صغير يدخل الماء من جانب ويخرج من جانب آخر....(بالفتاوى البزازية: ٧/١٠،كتاب الطهارة، زكريا ديوبند )

سوال:-پانی کب ناپاک ہوتا ہے؟

الجواب:-پانی ناپاک اس وقت ہوتا ہے جس وقت پانی کے اندر نجس مل جائے اور نجس مل جانے کی وجہ سے اس پانی کا ذائقہ یعنی اس پانی کی اصلیت بدل جائے اس کا رنگ بدل جائے وغیرہ اس وقت پانی ناپاک ہو جاتا ہے-

اختلف في مقدار البعد المانع من وصول نجاسة البالوعة الى البئر... وقال الحلواني: المعتبر الطعم او اللون او الريح فان لم يتغير جاز وإلا لا(شامي: ٣٨١/١،كتاب الطهارة،باب المياه زكريا ديوبند)

البعد بين البالوعة والبئر المانع من وصول النجاسة إلى البئر خمسة أذرع..... وقال الحلواني: المعتبر الطعم ا او اللون او الريح، فان لم يتغير جاز وإلا لا(فتح القدير: ١١١/١،كتاب الطهارة زكريا ديوبند )

أنه لا يتنجس ما لم يتغير طعمه او لونه او ريحه من النجاسة كذا في "المضمرات"وإذا القي في الماء الحاري شيء نجس كالجيفة والخمر لا يتنجس ما لم يتغير لونه او طعمه او ريحه...(الهنديه: ٦٨/١،باب ثالث في المياه، زكريا ديوبند)

سوال:-کون سا پانی پاک ہے اور کون سا پانی ناپاک ؟مفصل مدلل بیان کریں؟

الجواب:- آسمان کا پانی، وادیوں کا پانی، چشموں کا پانی، کنوؤں کےپانی اور دریاؤں کے پانی پاک ہے جب تک اس کا رنگ یا مزہ یا بو بدل نہ جائے،اسی طرح درخت یا پھل وغیرہ سے نچوڑا ہوا پانی بھی پاک ہے لیکن پاک کرنے والا نہیں ہے اور وہ پانی جس میں نجاست گر جائے اور ٹھہرا ہوا قلیل ہو اگرچہ نجاست ظاہر نہیں ہو،واضح رہے کہ قلیل پانی وہ ہے جو دہ در دہ سے کم ہو اور جب پانی قلیل نہ ہو بلکہ کثیر ہو اور نجاست کا اثر ظاہر ہو جائے ایسے پانی ناپاک ہے-

يرفع الحدث مطلقا بماء مطلق.... بماء سماء واودية وعيون وابار وبحار وثلح مذاب .... وينجس الماء القليل.... وحكم سائر الماتعات كالماء في الاصح .....(شامي: ٣٥٨/١-٣٦٨،باب المياه، اشرفيه ديوبند)

والطهارة من الاحداث جائزة بماء السماء والاودية والعيون والابار وماء البحار .... وكل ماء دائم إذا وقعت فيه نجاسة لم يجز الوضوء به قليلا....(انوار القدور ى:٥٥/١-٥٧،كتاب الطهاره دار الاشاعت کراچی)

والطهارة من الأحداث جائزة بماء السماء... لقوله تعالى: وانزلنا من السماء ماء طهورا وقوله عليه السلام :الماء طهور لا ينجسه شيء الا ما غير لونه او طعمه.... وكل ماء وقعت النجاسة فيه لم يجز الوضوء به قليلا كانت النجاسة او كثيراً....(اشرف الهدايه: ١٣٢/١-١٣٨،كتاب الطهارة، دار الاشاعت كراچی)