سوال:-پانی پر ماء مستعمل کا حکم کب لگیگا مدلل بیان کریں؟

الجواب:-ماء مستعمل کا حکم اس وقت لگے گا جس وقت عضوء سے استعمل ہو کر جدا ہوتے ہی ماء مستعمل کا حکم لگ جاتا ہے اور یہی صحیح قول ہے-

ومتى يصير الماء مستعملا الصحيح انه كما زال عن العضو صار مستعملا...(اشرف الهداية:١٥١/١،كتاب الطهارة،دار الاشاعت كراچی)

ويصير الماء مستعملا بجرد انفصاله عن الجسد (نور الايضاح:٢٧-٢٨،كتاب الطهارة،مجلس المدينة العلمية)

فالصحيح انه كما زائل العضو صار مستعمل هكذا في الهداية(هندية:٧٥/١،كتاب الطهارة، زكريا ديوبند )

سوال:-ماء مستعمل کا شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو اس کی وضاحت کرتے ہوئے صحیح قول کی نشان دہی کریں؟

الجواب:-ماء مستعمل کا شرعا حکم یہ ہے کہ وہ پاک نہیں اس میں اختلاف یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ وشافعی رحمہ اللہ کے نزدیک پاک بھی ہے اور پاک کرتے بھی ہے اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک پاک ہے لیکن پاک کرنے والا نہیں ہے یہی ایک روایت امام صاحب کے ہے اور شیخین کے نزدیک ناپاک ہے لیکن صحیح قول امام محمد کے ہے کہ طاہر وغیرہ مطہر اس پر فتوی ہے-

قال الماء المستعمل لا يطهر الأحداث خلافا لمالك والشافعي....الخ(اشرف الهداية:١٤٧/١،كتاب الطهارة،دار الاشاعت كراچی)

وهو الطاهر.... وحكمه انه ليس بطهور....(شامي: ٣٩٠/١-٣٩١،كتاب الطهارة،اشرفية ديوبند)

اتفق اصحابنا رحمه الله: ان الماء المستعمل ليس بطهور حتى لا يجوز التوضو به واختلافوا في طهارته، قال محمد رحمه الله :هوطاهر وهو رواية عن ابي حنيفة رحمه الله وعليه الفتوى(هندية: ٧٥/١،كتاب الطهارة،زكريا ديوبند)

سوال:-لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے ماء مستعمل کسے کہتے ہیں وضاحت کریں؟

الجواب:-لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے ماء مستعمل وہ ہے کہ جس سے حدث کو زائل کیا گیا ہو یا بدن میں استعمال کیا گیا ہو اور عضو سے علاحدہ ہوتے ہی اس کو مستعمل کا حکم دے دیا جائے گا اس سے پہلے اس کو مستعمل نہیں کہا جائے گا-

الماء المستعمل ما ازيل به حدث او استعمل في البدن على وجه القربة ومتى يصير الماء مستعملا الصحيح انه كما زال عن العضو صار مستعملا(هداية:٢٢/١)

الماء المستعمل: كل ما ازيل به الحدث واستعمل في البدن على وجه اتقرب(التعريفات الفقهية:٢٦٩، تهانوى ديوبند)

المستعمل: كل ما ازيل به الحدث او استعمل في البدن على وجه القربة(الباب في شرح الكتاب:٢٣/١،مكتبة العكمية،بيروت وكذا)

سوال:-اگر اعضاء وضو میں سے کسی اعضاء پر معمولی زخم کی وجہ سے پٹی باندھ دی جائے تو مسح کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-واقعتا اگر زخم کی وجہ سے اعضاء وضو پر پٹی باندھا ہوا ہو اس کو کھولنے پر زخم بڑھ جائے یا بعد میں لگا نہیں سکتا ہے تو اس پر شرعا مسح کر سکتا ہے اور اگر زخم معمولی ہو اور پٹی کھولنے سے کوئی نقصان بھی نہ ہو تو اس کو کھولنا ضروری ہے کھل کر دھونا ضروری ہے اس پر مسح نہیں چلے گا-

المسح على الجبير وخرفت القرحة كالغسل....يجوز ان شدها بلا وضوء.....(البحر الرائق: ٣٢٠/١-٣٢٥ كتاب الطهارة، تهانوي ديوبند)

ومن شرط جواز المسح على الجبيرة أيضا ان يكون المسح على عين الحرابة مما يضر بها...(بدائع الصنائع:٩٠/١ كتاب الطهارة زكريا ديوبند)

يجوز المسح على الجبائر وان شدها على غير وضوء....(اشرف الهداية:٢٢٢/١،كتاب الطهارة، دار الاشاعت كراچی)

سوال:-پٹی پر مسح کرنے کا شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو مفصل بیان کریں؟

الجواب:-کسی حصے پر پٹی بندھی ہوئی ہو اور اس کو اتارنا نقصان دہ ہو اور کھولنے کے بعد اس کو باندھنا مشکل ہو تو وضو یا فرض غسل کی حاجت ہونے کی صورت میں وہ شخص باقی اعضاء پر پانی ڈالے اور متاثرہ حصے پٹی کی جگہ پر پانی نہ ڈالے بلکہ اس پر مسح کر لے اگرچہ پٹی باندھتے وقت وضو نہ ہو اور اگر اس کے اوپر کوئی دوسری پٹی وغیرہ ہو تو اس پر بھی مسح کر سکتا ہے-

يجوز ان يصح مسحها ولو شدب بلا وضوء وغسل دفعا للحرج ويترك المسح كالغسل..... وإلا لا....(الدر المختار: ٥١٧/١ كتاب الطهارة، اشرفية ديوبند)

المسح على الجبير وخرقت والقرحة كالغسل.... يجوز ان شدها بلا وضوء....(البحر الرائق: ٣٢٠/١-٣٢٥ كتاب الطهارة، تهانوى ديوبند)

يجوز المسح على الجبائر وان شدها على غير وضوء....(اشرف الهداية:٢٢٢/١ كتاب الطهارة،دار الاساعت كراچی)

سوال:-نائلون کے موزوں پر مسح کرنا درست ہے یا نہیں اگر درست ہے تو کیوں یا اس میں کوئی اختلاف ہے تو ہر صورت تفصیل بیان کریں؟

الجواب:- آج موکل سوتی یا نائلون موزوں پر (یعنی جس میں پانی سرایت کر جاتا ہے) بالکل جائز نہیں، اس لیے کہ ان میں جواز کی شرائط نہیں پائی جاتی، چاہے انہیں وضو کے حالت میں پہنا ہو یا بے وضو پہنا ہو-

منها ما يكون من غزل وصوف ومنها ما يكون من غزل الخ. فالاول لا يجوز المسح عليه عندهم جميعا واما الثاني فان كان رقيقا لا يجوز المسح عليه بلا خلاف(المحيط البرهاني: ٣٤٤/١)

عن قتادة مرسلا عن سعيد بن المسيب انهما قالا: يمسح على الجوربين إذ كان صفيقين(المصنف لابن ابي شيبة:٢٧٦/٢،رقم: ١٩٨٨)

الجوربيه ولو من غزل او الشعر السخينين بحيث يمشي فرسخا اويثبت على الساق بنفسه ولا يرى ما تحته ولا يشف الا ان ينفذ الى الخف قدر الفرض(شامي: ٤٥١/١-٤٥٢،كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين ،زكريا ديوبند )

سوال:-مسح علی الخفین کے صحیح ہونے کا ثبوت قرآن و حدیث سے ثابت ہے یا نہیں اگر ہے تو مکامل مفصل بیان کریں؟

الجواب:-مسح علی خفین صحیح ہونے کا ثبوت قرآن و حدیث سے ثابت ہے قرآن پاک میں آیت وضو(يا ايها الذين امنوا اذا قمتم الى الصلاة) سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وضو میں پیرو کا دھونا ضروری ہے، لیکن صحیح احادیث سے شہرت کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شرائط کے ساتھ خفین پر مسح کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ خود عمل بھی فرمایا –

بل انت نسيت بهذا امرتي وربي(بخاري شريف حديث: ١٩٦،مسلم شریف: ٤٠٦،المحيط البرهانى:٣٣٩/١)

عن جرير بن عبد الله رضي الله تعالى عنه قال: انه مسح على خفيه وقال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فعل ذلك :فقالوا الجرير: ابعد نزول سورة المائدة ؟عنوابه (وارجلكم) على قراءة النسب الدالة على فرضية الغسل فقل جرير رضي الله تعالى عنه وهل كان اسلامي الا بعد نزول سورة المائدة (المحيط البرهاني: ٣٣٩/١،كتاب الطهارات، الفصل السادس في المسح على الخفين ادارة القرآن ،کراچی)

وعد الحسن البصرى رضي الله تعالى عنه قال ادركت سبعين نفرا من الصحابة رضوان الله تعالى عليهم ،كلهم يرون المسح على الخفين(المحيط البرهاني: ٣٣٩/١، ادارة القرآن ،کراچی،جلس كبير:١٠٤)

سوال:- خفین کی کتنی قسمیں ہیں کس پر مسح درست ہے اور کس پر درست نہیں ہر ایک کی وضاحت کریں؟

الجواب:- خفین کی اولا دو قسمیں ہیں(١) ثخین ( دبیز موٹا)(٢). رقیق (پتلا, باریک) پھر ہر ایک کی تین قسمیں ہیں-مجلد، منعل ،سادہ، مجلد: وہ موزہ ہے جس کے اوپر نیچے پورے پیر پر چمڑا چڑھا دیا گیا ہو، منعل: وہ موزہ ہے جس کی صرف تلی پر یا تلی اور اوپر کے کناروں پر چمڑا چڑھا دیا گیا ہو، سادہ: اف موزہ ہے جس پر بالکل چمڑا نہ چڑھایا گیا ہو، ثخین مجلد،مجلد رقیق،ثخین منعل،ثخین سادہ،ان پر مسح درست ہے-رقیق سادہ ،رقیق منعل پر مسح درست نہیں ہے-

ويمسح على الجورب والمجلد: وهو الذي وضع الجلد على اعلاه واسفله.... والمنعل: وهو الذي وضع الجلد على أسفله كالنعل للقدم.... والثخين الذي ليس مجلد أولاً منعلا(الهنديه: ٨٥/١،الباب الخامس :في المسح على الخفين، زكريا ديوبند )

المنعلين: ما جعل على اسفله جلدة والمجلدين وفي الشامي المجلد: ما جعل الجلد على اعلاه واسفله(در المختار مع الشامي: ٤٥٢/١،كتاب الطهارة باب المسح على الخفين، زكريا ديوبند)

والخف الذي يجوز عليه المسح ما يكون صالحا لقطع المسافة والمشي المتابع عادة ويستر الكعبين ما تحتهما(فتاوى قاضيخان:٣٢/٧،كتاب الطهارة، زكريا ديوبند)

سوال:-مسح علی الخفین کا شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو اس کی بھی وضاحت کریں؟

الجواب:-اسلامی فرقوں میں سے صرف شیعہ اور خوارج مسح علی الخفین کو ناجائز کہتے ہیں اور اہل سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے اس لیے کہ مسح کے جواز کی روایات شہرت تواتر کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے جن کا انکار موجب کفر ہے-

ثبتت مشروعية المسح على الخفين بالسنة النبوية المطهرة(الموسوعة الفقهية:٢٦١/٣٧،مسح على الخفين كويت)

عن جعفر بن عمرو بن امية الضمري الاباه اخبره أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم يمسح على الخفين(بخاري شريف:٢٠٤)

ويروى عن شهر بن حوشب قال: رايت جبير بن عبد الله توضا ومسح على خفيه فقلت له في ذلك ،فقال رايت النبي صلى الله عليه وسلم توضا ومسح على خفيه فقلت له: أقبل المائدة ام بعد المائدة؟ فقال,: اسلمت الا بعد المائدة(تلمذي شريف:٩٤ )