سوال:-ہندوستانی زمینیں زمین دارہ ختم ہونے کے بعد عشر والی رہی یا نہیں ان کی پیداوار پر اشر ہے یا نہیں؟

الجواب باللہ التوفیق: ـ ہندوستان کی زمینوں پر عشر خراج کا حکم منتبق نہیں ہوتا اس لیے کہ اس کی امدانی پر پیداوار کی زکوۃ کے احکام جاری نہ ہوں گے البتہ جن احوال میں جن اصول و ضوابط کے مطابق زکوۃ واجب ہوتی ہے ان میں باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے پیداوار کو فروخت کرنے کے بعد اس کی امدانی میں سال گزرنے پر زکوۃ واجب ہوگی یعنی چالیسواں حصہ بطور زکوۃ کے واجب ہوگا تاہم اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے عشر کے حساب سے واللہ ادا کر دے تو یقینا خوشی کی بات ہوگی(۔الاستفاد کتاب النوازل٢٢٨/٧)

عن علي رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال فاذا كانت لك مئاتا درهم وحال عليه الحول ففيها خمس دراهم(سنان أبي داود:٢٢١/١)

وسبب افتراضها ملك حساب حول تام فارغ من دبن له مطالب من جهة العباد و فارغ من حاجة الاصلية(تنوير الايصار على حضر المختار:١٧٤/٣_١٧٨)

ما وجد في دار الحرب فين ارضها ليست ارض من خراج او عشر(شامي باب الركاز:٢٥٧/٣)

سوال:-زید نے عمرو کے پاس 15 تولہ سونا گروی میں رکھا ہے 15 تولہ سونا گروی میں رکھ کل 10 لاکھ روپے کا قرض لے رکھا ہے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زید کے اوپر زکوۃ واجب ہے یا نہیں جو عمرو نے زید کو دس لاکھ روپے قرض دے رکھا ہے اور عمرو نے زید کے جو 15 تولہ سونا گروی رکھا ہے اس پر زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں؟

الجواب:-زکوۃ کی ادائیگی کے لیے مال پر قبضہ اور ملک تام ضروری ہے اس ضابطہ کی رویے زید اور عمرو دونوں میں سے کسی پر بھی زکوۃ واجب نہیں نہ ہوگی زید پر تو زکوۃ اس لیے واجب نہ ہوگی کہ زید عمرو کے پاس جو 15 تولہ سونا گروی رکھا ہے اس پر زید کی ملکیت تو ہے لیکن قبضہ نہیں ہے اور عمرو کے دس لاکھ کی زکوۃ اس لیے نہیں کہ اس پر اس کی ملکیت تو ہے لیکن قبضہ نہیں ہے لہذا دین ضعیف یا دین متوسط کے درجہ میں ہونے کی وجہ سے کسی کے بھی زکوۃ واجب نہ ہوگی –

ومنها ملك التام وهو ما جتمع فيه الملك واليد واما اذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض او وحد اليد دون الملك (إلى قوله) ولا على الراهن اذا كان الرهن هي المرتهن(هندية جديد:٢٣٣/١،زكريا ديوبند)

زکوٰۃ کی رقم کو تملیک کرانے کے بعد اس سے مدرسہ کی رسید بنوا سکتے ہیں یا نہیں ؟

لجواب و باللہ التوفیق: تملیک کرانے کے بعد اس رقم سے مدرسے کی رسید چھپوانے کی گنجائش ہے ،لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حیلہ تملیک کی اجازت ہر جگہ نہیں ہوتی۔

والحيلة له أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ثواب الصدقة ولذلك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة . (هنديه ، كتاب الحيل زكريا دیو بند ٦ / ٣٩٢ ، جديد زكريا ٣٩٥/٦ ، وهكذا في الشامي، كتاب الزكاة، باب المصرف زكريا ٢٩٣/٣، کراچی ٢/ ٣٤٥ ) فقط واللہ ااعلم۔

١.سوال:-زکوۃ کا مال خرچ کرنے کے لیے کن چیزوں پر حیلہ تملیک اختیار کرنا درست ہے اور کن چیزوں پر حیلہ تملیک اختیار کرنا درست نہیں ہے بوضاحت تحریر کریں؟

جواب:-زکوۃ فقراء اور مساکین کا حق ہے اور یہ فقراء عام ضرورت مند بھی ہو سکتے ہیں اور مدارس کے طلباء بھی لہذا قرائن اور حالت دیکھتے ہوئے جہاں ضرورت مند زیادہ ہو وہاں خرچ کرنا زیادہ ثواب ہوگا یعنی دونوں ممکن ہیں مثلا اپ کے پڑوسی یا قریبی رشتہ دار ضرورت مند ہو تو ان کو دینے سے دوگنا ثواب ملے گا ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی کا اسی طرح مدارس میں قرض کرنے سے زکوۃ کے ساتھ ساتھ علوم دینیہ کے نشر اشاعت کا بھی ثواب ملتا ہے۔فقط واللہ اعلم

الدفع الى من عله الدين اولى من دفع الى فقير ،وكذا في المضمرات....(الهنديه: ٢٥٠/١ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

والحيلة ان يعطي المديون زكاته ثم ياخذها عن دينه ولو امتنع المديون مديده واخذها لكونه لا ظفر بجنسه حقه فان مانعه دفعه القاضي....(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:٧١٥-٧١٦،كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)

وحيلة الجواز ان يعطي مديونه الفقير زكاته ثم ياخذها عن دينه ولو امتنع مديون مد يده واخذها لكونه ظفر بجنس حقه فان مانعه...(رد المختار: ١٩٠/٣-١٩١ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

سوال:-ہحلہ تملیک کی کتنی صورتیں ہیں اور وہ کیا کیا ہے مفصل بیان کریں؟

جواب:- حیلہ تملیک کی کئی صورتیں ہیں اور ان میں سے چند یہ ہے کہ (1). فقیر کو زکوۃ کے مال کا بالکلہ مالک بنا دیا جائے پھر اس سے کہا جائے کہ فلاں جگہ پر خرچ کی ضرورت ہے تم اپنی طرف سے وہاں خرچ کر دو تو اگر وہ برضا و رغبت اس جگہ کا خرچ کر دے تو اس عمل کا اسے ثواب ملے گا اور زکوۃ بھی ادا ہو جائے گی۔(2). فقیر سے کہا جائے کہ تم اپنی طور پر قرض لے کر فلاں ضرورت میں قرض کر دو اور خرچ کے بعد فقیر کے قرض کی ادائیگی زکوۃ کے رقم سے کر دی جائے تو ایسی صورت میں بلا شبہ زکوۃ ادا ہو جائے گی (3). مدرسہ کا جتنا ماہنا خرچ بشمول مد تعلیم و تنخواہ مدرسین اتا ہو اس کو طلبہ کی تعداد پر تقسیم کر دے تو جو حاصل ائے اتنی رقم پر طالب علم پر بطور فیس مقرر کر دی جائے اور ہر مہینے فیس کے بقدر رقم بطور وظیفہ طلب علم کو دے کر اس سے بطور فیس لے لی جائے توفیق کی شکل میں جو رقم واپس ائے گی اس کو مدرسے کی ہر طرح کی ضرورت میں خرچ کرنا جائز رہے گا.

والحيلة لمن اراد ذلك ان يتصدق ينوي الزكاة على فقير ثم يامر بعد ذلك بالصرف الى هذه الاجوه فيكون لصاحب المال ثواب الصدقة ولذلك الفقير ثواب هذا الصرف...(تاتارخانية:٢٠٨/٣،كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

والدفع الى من عليه الدين اولى من دفع الى فقير....(الهنديه: ٢٥٠/١ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

وفي جامع الفتوى: لا يسعه ذلك وكل حيلة يحتال بها الوجل ليتخلص بها عن حرام او ليتوصل بها الى حلال فهي حسنة.....(تاتارخانية:٣٠١/٣ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

سوال:-مال مستفی کسے کہتے ہیں اور اس کے اندر زکوۃ کا شرعا کیا حکم ہے اگر کوئی اختلاف ہو تو اختلافی ائمہ مدلل بیان کریں؟

جواب:-مال مستفاد وہ مال ہے جو دوران سال نصاب سے زائد حاصل ہو اور اس کے تین صورتیں ہیں(1). نصاب پہلے سے موجود ہو پھر دوران سال اسی نصاب سے دوسرا عمل حاصل ہو تو بالاتفاق ان میں حولان حول شرط نہیں ہے بلکہ سابقہ مال کے ساتھ زکوۃ نکالی جائے گی۔(2). پہلے نصاب موجود ہو پھر دوران سال میں خلاف جنس مال حاصل ہو تو بالاتفاق ان کے لیے حولان حول شرط ہے۔(3) پہلے نصاب موجود ہو پھر اس کا ہم جنس مال حاصل ہو مثلا وراثت ہبہ وغیرہ اس میں اختلاف ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کیا نزدیک ان میں حولان حول شرط نہیں ہے بلکہ سابقہ مال کے ساتھ اس کا حساب کیا جائے اور زکوۃ دی جائے امام شافعی رحمہ اللہ وہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک مستقل حولان حول شرط ہے امام مالک رحمہ اللہ سوائم میں حنفہہ کے ساتھ اور دوسرے مال میں شوافیہ کے ساتھ ہے

قال ومن كان له نصاب فاستفاد في اثناء الحول من جنسي ضمه اليه وذكرة به وقال الشافعي: لا يضم لانه اصل في حق المالك..(هدايه: ٢٠٩/٢, كتاب الزكاة زمزم بوك ديوبند)

ويضم مستفاد من جنس نصاب اليه في حوله وحكمة ونقصان النصاب في اثناء الحول لا يضر....(مجمع الانهر:٣٠٧/١ مكتبة فقيه الامة ديوبند

١.سوال:-اگر زکوۃ کا مال کسی غریب طالب علم کو دے کر اس سے یہ کہا جائے کہ مدرسے کا مال ہے یا مدرسہ کے اندر ضروریات ہے کوئی انتظام نہیں ہے لہذا اس کو مدرسہ میں جمع کر دو اور وہ جمع کر دے اس طرح سے تملیک ہو جائے گی یا نہیں یا ان میں کوئی تفصیل ہے؟

جواب:-صورت مسئلہ میں اگر وہ طالب علم برضا و رغبت مدرسے میں کر دے تو اس طالب علم کو اس عمل کا ثواب بھی ملے گا اور اس زکوۃ دینے والے کا زکوۃ ادا ہو جائے گا اور تملیک بھی ہو جائے گی ہاں یہ حیلہ تملیک صرف ضرورت کے وقت ہی کیا جائے۔فقط واللہ اعلم۔

ويشترط ان يكون الصرف تمليكا لا اباحة كما مر لا يصرف الى بناء نحو مسجد كبناء القناطر...(رد المختار: ٢٩١/٣ كتاب الزكاة باب المصرف زكريا ديوبند)

لا يجوز الزكاة الا بقبض الفقراء...(تاتارخانية:٢٠٦/٣ كتاب الزكاة ط: زكريا ديوبند)

وانفع للمسلمين بتعليم .... التصدق على العالمين الفقير افضله اي من الجاهل الفقير.... والابصل صرفها الاقرب والاقرب من كل ذي رحم محرم منه ثم جيرانه......(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:٧٢٢،كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

سوال:-زکوۃ کا مال مدارس میں دینا زیادہ بہتر ہے یا غریبوں کو یا حالت کے اعتبار سے دونوں ممکن ہیں یا ان میں کوئی تفصیل ہے بیان کریں؟

جواب:-زکوۃ فقراء اور مساکین کا حق ہے اور یہ فقراء عام ضرورت مند بھی ہو سکتے ہیں اور مدارس کے طلباء بھی لہذا قرائن اور حالت دیکھتے ہوئے جہاں ضرورت مند زیادہ ہو وہاں خرچ کرنا زیادہ ثواب ہوگا یعنی دونوں ممکن ہیں مثلا اپ کے پڑوسی یا قریبی رشتہ دار ضرورت مند ہو تو ان کو دینے سے دوگنا ثواب ملے گا ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی کا اسی طرح مدارس میں قرض کرنے سے زکوۃ کے ساتھ ساتھ علوم دینیہ کے نشر اشاعت کا بھی ثواب ملتا ہے۔فقط واللہ اعلم

انما صدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفه قلوبهم (صورة التوبة: الآية:٦)

سليمان بن عامر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ان الصدقة على المسكين صدقة وعلى ذي رحم اثنتان وصدقة وصلة....(سنن الترمذي:١٤٢/١،رقم الحديث: ٦٥٣)

مصرف الزكاة هو فقير.... عن طالب العلم يجوز له الزكاة ولو غنيا اذا فرغ نفسه لا فاده العلم .... والتصدق على العالم الفقير افضل عين جاهل الفقير....(دور المختار مع شامي: ٢٨٣/٣-٣٠٤،كتاب الزكاة زكريا دوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص زکوۃ ادا نہ کرے تو اس کا وبال کیا ہے نیز اگر کوئی شخص کچھ دنوں کی زکوۃ ادا کرے اور کچھ دنوں کی زکوۃ ادا نہ کرے یا کچھ مالوں کی زکوۃ ادا کرے اور کچھ مالوں کی زکوۃ ادا نہ کرے تو ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-صورت مسئلہ میں قرآن و حدیث میں اس کا وبال زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے بہت وعیدیں آئی ہے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے یعنی جو لوگ زکوۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو ان کے مال کو جہنم کی اگ میں گرم کر کے اس سے اس کی پیشانیوں پہلوؤں اور پٹھوں کو داغا جائے گا دوسری جگہ ارشاد ہے یعنی ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا مسلم شریف میں ہے یعنی ایسی شخص کے لیے اگ کی چٹائی بچھائی جائے گی اور اس سے ایسے شخص کے پہلو پیشانی اور سینہ کو داغا جائے گا۔فقط واللہ اعلم

والذين يكنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله.... الآية (سورة التوبه: رقم الآية:٣٤-٣٥)

سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة.. الآخ (سورة ال عمران: رقم الآية:١٨٠)

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من صاحب ذهب ولا فضة ولا يودي منها حقها الا اذا كان يوم القيامة صفحت له ضياع من نار فاحمي عليها في نار جهنم ويكوي بها جنبه وجبينه و ظهره....(مسلم شريف: ٦٨٠/٢ كتاب الزكاة باب اثم مانع الزكاة)

سوال:-اگر کسی ادمی کے پاس کئی بیگہے زمین ہو لیکن وہ سب زمین خالی ہو اور اس ادمی کے پاس زمین کے علاوہ کوئی مال اور رقم نہ ہو تو ایسے ادمی پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں ان زمینوں پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟

جواب:-سورۃ مسئلہ میں ایسے ادمی پر زکوۃ واجب نہیں ہے رہی بات زمینوں کی کہ اگر وہ زمین تجارت کی نیت سے نہ خریدا ہو یا کچھ بھی نیت نہ کی ہو تو ایسی زمین پر زکوۃ واجب نہیں ہے کیونکہ زمین مال نامی نہیں ہے اور اگر تجارت کی نیت سے خریدا ہو کہ اس سے نفع کمائے گا تو ایسی زمین اگر نصاب کے بقدر ہو تو ہر سال اس کی حساب کر کے کل کا ڈھائی فیصد بطور زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔فقط واللہ اعلم

ومنها : كون النصاب ناميا حقيقية في التوالد والتناسل والتجارة .....: ان ينوي عنده عقد التجارة ان يكون المملوك للتجارة سواء كان ذلك على العقد شراء او ايجارة...(الهنديه: ٢٣٥/١ كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)

هو نوعان: الحقيقي والتقديري ،فالحقيقي: الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات والتقديريى تمكنه من الزيادة....(شامي: ١٧٩/٣،كتاب الزكاة، زكريا ديوبند)

ومنها: كون المالي ناميا لانه معنى الزكاة وهو النماء لا يحصل الا من المال النامى..... بدائع الصنائع:٩١/٢،كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)

سوال:-اگر کسی ادمی کے پاس کئی مکان ہو اور وہ صرف ایک مکن میں رہتا ہو باقی مکان کی ضرورت نہ ہو تو اس مکان پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟

جواب:-سورۃ مسئلہ میں اس مکان پر زکوۃ واجب نہیں ہے کیونکہ زکوۃ ان مالوں پر واجب ہوتی ہے جو مال نامی ہو یا سونا چاندی ہو وغیرہ اور مکان مال نامی میں سے نہیں ہے اس لیے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

ومنها كون النصاب ناميا حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة او تقديرا....(الهنديه: ٢٣٥/١، كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

منها: كون المال ناميا لأن معنى الزكاة وهو النماء لا يحصل الا من المال النامى....(بدائع الصنائع:٩١/٢ ،كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)

هو نوعان: حقيقي وتقديري ،فالحقيقي: الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات والتقديريى تمكنه من الزيادة...(شامي: ١٧٩/٣،كتاب الزكاة ط: زكريا ديوبند)

سوال:-مدارس اور مکاتب میں زکوۃ کا مال دینا شرعا درست ہے یا نہیں ؟تفصیل کے ساتھ بیان کریں؟

جواب:-زکوۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک شرط ہے اور زکوۃ کے مصارف بھی متعین ہیں لہذا جن مدارس اور مکاتب میں زکوۃ کے مصارف نہ ہو تو اس کے لیے زکوۃ فطرہ وغیرہ وصول کرنا جائز نہیں ہے اس طرح کی رقومات مساجد وغیرہ کے کسی کام میں بھی لگانا درست نہیں ہے اور جن مدارس و مکاتب میں زکوۃ کے مصارف ہو تو پھر ان کے لیے زکوۃ وغیرہ کا مال لینا درست ہے۔فقط واللہ اعلم

ويشترط ان يكون الصرف تمليكا لا اباحة كما مره لا يصرف الى بناء نحو مسجد ولا الى كفن ميت وقضاء الدين واما الدين...(رد المختار: ٢٩١/٣،كتاب الزكاة، باب المصرف،زكريا ديوبند)

ولا يجوز ان يبني بالزكاة المسجد،و كذا القناطر والسقات والاصلاح الطرقات وكري الانهار.....(الهنديه: ٢٥٠/١ كتاب الزكاة، زكريا ديوبند)

مصرف الزكاة وفقير وهو من له ادنى شيء ومسكين ..... وعامل فيعطي بقدر عمله...(در المختار مع شامي:٢٨٣/٣-٢٩٠ كتاب الزكاة زكريا ديوبند

١.سوال:-سوال:-ہندوستانی زمین عشری ہے یا خراجی یا اس میں اختلاف ہے اگر اختلاف ہو تو جملہ اختلافی اقوال کو نقل کر کے بعد راجہ قول بھی بیان کریں؟

جواب:-اس مسئلہ میں زمین عشری اور خراجی کی بارے میں اکابرین کا اختلاف ہے حضرت مولانا مفتی محمود حسین گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں موجودہ حالت میں جبکہ زمین ملک سرکاری ہے تو نہ وہ عشری ہے اور نہ ہی خراجی ہے یعنی یہاں زمیندار کے افضہ میں جو سمین چھوڑی گئی ہے وہ گویا کہ حکومت نے اپنے قبضہ میں لے کر اسے یا بلا معاوضہ دی ہے لہذا اس کی حیثیت غیر مسلم کی عطا کردہ جاگیر جیسی ہو گئی ہے نیز بعض فقہی جزئیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دارالحرب کی زمینوں اور سرکاری ملکیت والی زمینوں میں عشر و خراج کچھ واجب نہیں ہوتا اس کے برخلاف حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کے رائی کا خلاصہ یہ ہے کہ اس خاص صورت میں حکومت کا تصرف اصل زمین داروں کی زمین میں مالکانہ نہیں بلکہ منتظمانہ ہے لہذا اس تصرف سے اس کے عشری ہونے کی حیثیت ختم نہیں ہوگی ان کی پیداوار میں دستور عشر واجب ہوگا اس دور کے بہت سے علماء و مفتیان نے دوسرے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے ایسے زمینوں میں جو عرصہ دراز سے برابر مسلمانوں کی ملکیت میں چلے ا رہی ہے اس میں وہ شروع واجب قرار دیا ہے اور راج قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی زمین عشری یا خراجی نہیں ہے (کتاب النوازل:٢٣١/٧) (فتاوى محموديہ٣٢٤/١٤)(فتاوی قاسمیہ:٣٤٣/١١) (فتاوی دارالعلوم دیوبند:٢١١/٦-٢١٢)(امداد الاحکام:٣٧/٢-٣٨)

ويحتمل ان يكون احترازا عما وجد في دار الحرب فان عرضها ليست ارض خراج او عشر.....(در المختار مع شامي: ٢٥٧/٣ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

وهذا نوع ثالث يعني لا عشرية ولا خراجية من الاراضي تسعى عرض المملكة مو اراضي الجوز....(حاشيه ابن عابدين ٢٩٤/٦ زكريا ديوبند)

سوال:-زمین کی پیداوار میں زکوۃ واجب ہے یا نہیں اگر واجیب ہو تو کس پیداوار پر واجب ہے اور کس پیداوار پر واجب نہیں ہے تفصیل کے ساتھ بیان کریں؟

جواب:-زمین کی پیداوار پر زکوۃ واجب ہے لیکن اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر زمین عشری ہو یعنی اکثر حصہ میں قدرتی بارش، ندی، چشمہ وغیرہ سے سے رب کی جائے تو اس میں کل پیداوار کا دسواں حصہ واجب ہوتا ہے اگر وہ زمین مصنوعی آبی اور رسائی کے آلات و وسائل مثلا ٹیپ ویل یا خریدے ہوئے پانی سے سیرا کی جائے تو اس میں نصف و عشر (یعنی کل پیداوار کا بیسواں حصہ) واجب ہوتا ہے۔

فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب ..... ويجب العشره عند ابي حنيفه رحمه الله في كل ما تخرجه الارض من: الحنطة والشعير...(الهنديه: ٢٤٧/١ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

وتعجب فيه مسقي سماء اي مطر وسيح كنهر بلا شرط مصاب راجع لكل وبلا شرط بقاء وحولان حول..... نحو حطب وقصب... نصفه في مسقي غرب..... بلا رفع مؤن كلف الذرع وبلا اخراج البذر...(الدر المختار:٢٦٥/٣-٢٦٩ كتاب الزكاة باب العشر)

قال ابو حنيفه في قليل ما اخرجه الارض وكثيره العشر سواء يسقي سيحا او سقته السماء الا القصب والحطب والحشيش وقال لا يجب العشر الا فيما له ثمرة باقية....(هدايه: ١/٢١٧/١-٢١٨ كتاب زكاة زمزم بوك ،ديوبند)

ایک شخص کے پاس ٩ 🐃 ہیں وہ اسے پالتا ہے ایک جگہ ہے وہیں چارہ وغیرہ کھلاتا ہے تو اس پر کس طرح زکوٰۃ واجب ہوگی؟؟

الجواب وبالله التوفيق: گائے بھینس میں زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ وہ سال کا اکثر حصہ جنگل میں چر کر گزارا کرتے ہوں، اور مذکورہ صورت میں انہیں گھر پر چارہ کھلایا جاتا ہے؛ لہذا زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔

(١): هي التي تكتفي بالرعي في أكثر السنة. وتحته في هامشه: قيد بالأكثر لإفادة أنه لو علفها نصف الحول فإنها لا تكون سائمة فلا زكاة فيها. (البحر الرائق/كتاب الزكاة/باب صدقة السوائم، ٣٧٢/٢، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

١.سوال:-زکوۃ اور صدقات کا مال غیر مسلم کو دینا شرعا درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے؟

جواب:-زکوۃ کا مال غیر مسلم کو دینا شرعا درست نہیں ہے خواہ وہ کتنا ہی حاجت مند کیوں نہ ہو کیونکہ زکوۃ اور صدقات یہ مسلمان غرباء کا حق ہے غیر مسلم کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی البتہ نفلی صدقہ دے سکتا ہے۔فقط واللہ اعلم ۔

واما الحرب المسامن فلا يجوز دفع الزكاة والصدقة الواجبتة اليه بالاجماع ويجوز صرف التطوع اليه ..(الهنديه: ٢٥٠/١ كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)

وسكت عن المؤلفة فلو بهم... اما بزوال العلة او نسخ لقوله الصلاة والسلام لماذا في اخر الامر: خذها من اغنيائهم وردها في فقرائهم...(در المختار مع شامي:٢٨٧/٣-٢٨٩ كتاب الزكاة، زكريا ديوبند)

ومنها: ان يكون مسلما فلا يجوز صرف الزكاة الى الكافرين بلا خلاف لحديث معاذ خذها من اغنيائهم وردها في فقراهم أمر بوضع الزكاة في فقرائهم من يؤخذ من اغنيائهم وهم المسلمون فلا يجوز وضعها في غيرهم...(بدائع الصنائع:١٦١/٢ كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)

سوال:-صدقات کسے کہتے ہیں اور اس کی کتنی قسمیں ہیں ہر ایک کا حکم تحریر کرے؟

جواب:-اللہ تعالی کی رضا کے حصول کے لیے جو مال غرباء و مساکین کو دیا جاتا ہے یا خیر کے کسی کام میں خرچ کیا جاتا ہے اسے صدقہ کہتے ہیں اور صدقہ کی تین قسمیں ہیں-(1) فرض جیسے: زکوۃ (2) ۔واجب جیسے: نظر صدقہ فطر اور قربانی وغیرہ. (3) نفلی صدقات جیسے: عام طور پر خیرات کرنا، فرض واجب صدقات کو ادا کرنا ضروری ہے اور نفلی صدقہ ادا کرنا ضروری تو نہیں ہے البتہ یہ عمل افضل اور بہتر ہے لہذا نفلی صدقہ کرنا بھی چاہیے۔فقط واللہ اعلم

ان رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكاة الفطر من رمضان على كل نفس من المسلمين حر او عبد او رجل او امرأة صغير او كبير...(مسلم شريف: ٦٧٨/٢ كتاب الزكاة رقم الحديث:٩٨٤)

صدقه الفطر واجبه على حر المسلم اذا كان مالكا لمقدار النصاب فاضلا المسكنة وثيابه واساسه وسلاحه .. واما وجوبها فالقول عليه الصلاه والسلام في خطبته ادوا عن كل حر و عبد صغير او كبير...(هدايه: ٢٢٥/١،كتاب الزكاة زمزم بوك ،ديوبند)

الصدقة: محركة هي العطايه التي تبتغي بها المثوبة من الله تعالى والهبه هي التي تبتغي منها التودر .....(قواعد الفقه:٣٤٨ باب الصاد ط: دار الكتاب ديوبند)

سوال:-مال ضمار کسے کہتے ہیں اور اس کا شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-مال ضمار اس مال کو کہتے ہیں جو گم ہونے کے بعد اس کے واپس ملنے کی امید نہ ہو اور مال ضمار پر زکوۃ واجب نہیں ہے مثلا بگوڑا غلام وغیرہ۔فقط واللہ اعلم

فلا تجب الزكاة في المال الضمار عندنا خلافا لهما وتفسير مال الضمر: وهو كله معلم غير مقدور الانتفاع مع قيام اصل الملك العبد الابق والضال، والمال المفقود.....(بدائع الصنائع:٨٨/٢،كتاب الزكاة: اشرفيه ديوبند)

المال الضمر: راجع الضمار وهو المال الذي لا يرجع عوده..(قوائد الفقه:٤٥٨،باب الميم.ط: دار الكتاب ديوبند)

ومال الضمار كل مال يبقى اصله في ملكه لكن الزوال عن بره زوالا لا يرجى عوده..... والاصل فيه اثر على رضا الله عنه: لا زكاة في مال الضمار..(المحيط البرهاني: ٣٠٩/٣ كتاب الزكاة ط: بيروت)

١.سوال:-اگر کسی کے داماد غریب ہو تو اس کو زکوۃ کا مال دینا شرعا درست ہے یا نہیں؟

جواب:-اپنے غریب داماد کو زکوۃ کا مال دینا شرعا درست ہے کیونکہ داماد اصول اور میں سے نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ داماد دینے سے بیٹی کو دینا ثابت نہیں ہوتا بشرط کہ داماد میں وہ تمام شرائط موجود ہو جو زکوۃ وصول کرنے کے لیے ہے ۔فقط واللہ اعلم

ويجوز دفع الزكاة الى من سوى الوالدين والمولودين من الاقارب من الأخوة والاخوات وغيرهم لانقطاع منافع الاملاك بينهم.... بدائع الصنائع:١٦٢/٢ كتاب الزكاة, اشرفيه ديوبند)

والافضل صرفها للاقرب والاقرب من كل زي رحم محرم منه ثم جيرانه ثم لاهل محلته ثم لاهل حدفته...(حاشية التحطاوي:٧٢٢ كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)

ويجوز دفعها لزوجه ابنه وزوج ابيه.....(تاتارخانية:٣٤٥/٢ كتاب الزكاة بيروت)

سوال:-اگر کوئی شخص بیٹی کی شادی کے لیے یا حج کرنے کے لیے بینک میں پیسہ جمع کرے تو اس پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟

جواب:-بیٹی کی شادی کے لیے جمع شدہ رقم اگر نصاب تک پہنچ جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہے اور حج کے لیے جمع شدہ رقم صرف الگ کی ہو اب تک جمع نہ کی ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہے اگر بقدر نصاب ہو۔فقط واللہ اعلم

ومنها: كون المالي فاضلا عن الحاجة الاصلية لان به يتحقق الغني ومعنى النعمة وهو التنعم.....(بدائع الصنائع:٩١/٢ كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)

وكل دين لا مطالب له من جهة العباد كديون الله تعالى من النزور والكفارات وصدقة الفطر وجوب الحج لا يمنع ...(الهنديه: ٢٣٥/١ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

اذا امسكه لينفق كل ما يحتاج به فحال الحول وقد بقي معه منه نصاب فانه يزكي ذلك الباقي وان كان قصده الانفاق منهم ايضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه الى حوائجه الاصلية وقت حولان الحول....(الدر المختار مع شامي: ٢٦٢/٢ كتاب الزكاة سعيد)

سوال:-اگر عورت کے پاس زیورات ہو تو ان پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں اگر واجب ہے تو شوہر پر واجب ہے یا بیوی پر بتفصیل بیان کریں؟

جواب:-اگر عورت کے پاس جمعرات ہو اور وہ بقدر نصاب ہو تو ان سے اور رات پر زکوۃ واجب ہے اور عورت کے زیارت کے زکوۃ عورت ہی پر واجب ہے اس لیے کہ جو شخص مالک نصاب ہوتا ہے اس پر ہی زکوۃ واجب ہوتا ہے۔فقط واللہ اعلم

وسببه اي سبب افتراضها ملك نصاب حولى تام...(در مختار مع شامي: ١٧٤/٣ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

فرضت على حر مسلم مكلف مالك للنصاب من نقد ولو تبرا او حليا او انية۔۔۔۔۔(حاشیة الطحطاوي على مراقي الفلاح: ٧١٣-٧١٤،اشرفيه ديوبند)

١.سوال:-اگر کوئی شخص پلاٹ کا کاروبار کر رہا ہوں تو اس پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟

جواب:-سورۃ مسئلہ میں اگر وہ نصاب کے بقدر ہو تو ہر سال ان کی موجودہ قیمت کا حساب کر کے کل کا ڈھائی فیصد بطور زکوۃ ادا کرنا شرعا لازم ہوگا اور اگر پلاٹ کرایہ پردی ہو تو اس کی مالیت پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی البتہ اگر حاصل ہونے والے کرایہ بقدر نصاب ہو اور وہ جمع بھی ہو تو اس پر زکوۃ واجب اور ضروری ہے اگر خرچ ہوتا ہو تو زکوۃ لازم نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

ومنها: قانون النسب نامين حقيقه بالتوالد والتناسل والتجارة... فصريح عند عقد التجارة ان يكون المملوك للتجارة سواء كان...(الهنديه: ٢٣٥/١ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

هو نوعان حقيقي وتقديري: الحقيقي الزياده بالتوالد والتناسل والتجارة والتقديرى تمكنه من الزيادة....(شامي: ١٧٩/٣ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

ومنها: كون المال ناميا لان معنى الزكاة وهو النماء لا يحصل الا من مال النامي... بدائع الصنائع:٩١/٢ كتاب الزكاة ،اشرفيه ديوبند)

سوال:-اگر کوئی نابالغ مالدار ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟

جواب:-زکوۃ عبادت محض ہے اور نابالغ بچہ عبادت محضہ کا مخاطب نہیں ہے لہذا نہ بڑی بچہ پر زکوۃ والد نہیں ہے۔

قوله عقله والبلوغ فلا تجب على المجنون والصبي لانها عباده محضة وليس مخاطبه بها وايجاب النفقات والغرامات لكونها من حقوق العباد...(رد المختار مع شامي: ١٧٣/٣ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

ومنها البلوغ عندنا فلا تجبوا على الصبي وهو قول على وابن عباس فانها قال لا تجب للزكاة على الصبي حتى تجب عليه الصلاة (بدائع الصنائع :٧٩/٢ كتاب الزكاة اشرفىه ديوبند)

قوله مكلف البالغ عاقل فلا سكتوا على الصبي وقال المؤلف في الحاشية..(حاشية الطحطاوي:٧١٤ كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)