سوال:-روزہ کی حالت میں انجکشن گلوکوز اور خون چڑھانے سے روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟

الجواب:-روزہ کی حالت میں انجکشن گلوکوز اور خون چڑھانے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا اس لیے کہ انجیکشن اور گلوکوز وغیرہ جو دوا خون وغیرہ بدن کے اندر پہنچائی جاتی ہے وہ اصل اور معتاد راستے سے نہیں پہنچائی جاتی بلکہ رگوں سے پہنچائی جاتی ہے اور روزہ فاسد ہونے کے لیے بدن کے راستوں سے معدن یا دماغ تک کسی چیز کا پہنچنا ضروری ہے-(فتاوی قاسمیہ:٤٨٠/١١)(فتاوى محموديه: ١٧٣/١٥-١٨٠)

وما يدخل من فسام البدن من الدهن لا يفطر هكذا في شرح الجمع (كتاب الهندية:٢٦٦/١،زكريا ديوبند)

قوله: أو أدهن أو احتجم أو اكتحل أو قبل أي لا يفطر لأن الادهان غير مناف للصوم لعدم وحود المفطر صورة ومعنى، والداخل من المام لا من المالك فلاينا فيه كما لو اغتسل بالماء البارد ووحد برده في كيده(البحر الرائق: ٤٧٦/٢،زكريا ديوبند)

أو أدهن أو اكتحل او احتجم وان وحد طعمه في حلقه... لم يفطر في الشامي قال فى الشهر: لأن الموجود في حلقه أثر داخل من المام الذي هو خلل البدن والمفطر انما هو الداخل من المنافذ للاتفاق على أن من اغتسل في داء فوحد برده في باطنه أنه لا يفطر(شامي: ٣٦٦/٣-٣٦٧،زكريا ديوبند)

سوال:-تراویح کی نماز میں قرآن دیکھ کر امامت کرنا کیسا ہے کیا قرآن دیکھ کر امامت کرنے سے نماز فاسد ہو جائے گی یا باقی رہے گی؟ کس کے نزدیک جائز ہے اور جائز نہیں بڑی کتابوں کا حوالہ نقل کریں؟

الجواب:-تراویح کی نماز میں قرآن کریم دیکھ کر امامت کرنے کی صورت میں نماز فاسد ہو جائے گی امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس لیے کہ یہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہو جاتی ہے امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا جائز ہے جب کہ حضرات صاحبین، امام مالک ،امام حسن بصری وعنہم کے نزدیک مکروہ ہے(المستناد فتاوی قاسمیہ:٣٧٢/٨-٣٧٤)

وان قرا المصلى القرآن من المصحف او من المحراب تفسد صلاته عند ابي حنيفة إلى قوله وعند الشافعي لا يكره أيضاً (غنية المتملي:ص:٤٤٧)

ذهب ابو حنيفة إلى أنه ليس للمصلى أن يقرأ من المصحف فإن قرا بالنظر في المصحف فسدت صلاته مطلقا اي قليلا كان ما قراءة او كثيرا اماما كان او منفردا.... وذهب الصاحبان الى تجويز القراءة للمصلى من المصحف مع الكراهة لما في ذلك من التشه باهل الكتاب.... وذهب المالكية إلا أنه يكره للمصلى القراءة من المصحف في فرض أو نفل لكثيرة الشغل بذلك....(الموسوعة الفقهية:١٢/٣٨)

سوال:- روزہ کی حالت میں ایک شخص کا پتے کا آپریشن ہوا اور آپریشن کے ذریعہ سے پتا کو نکال دیا گیا تو کیا اس کی وجہ سے اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا یا باقی رہے گا؟

الجواب:-روزہ کی حالت میں پتا کا آپریشن جائز ہے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ روزہ معدہ میں کسی چیز کے جانے سے ٹوٹتا ہے اور آپریشن میں کوئی چیز معدہ میں نہیں جاتی-

واكثر المشائخ يعتبرو الوصول إلى الجوف في الجائفة والامة إن عرف أن اليابس وصل إلى الجوف يفسد صومه بالاتفاق، وان لم يعرف أن الرطب لا يصل إلى الجوف لا يفسد.(فتاوى تاتارخانية:٣٧٩/٣،رقم: ٤٦٢٩)

وفي الرواء الجائفة والامة أكثر المشايخ على أن العبرة للوصول إلى الجوف او الدماغ لكونه رطبا او يابسا.(هندية:٢٠٤/١،زكريا؛شامي: ٣٧٦/٣،زكريا)

سوال:- مسجد کبیر اور مسجد صغیر کسے کہتے ہیں نیز صغیر اور کبیر کے اعتبار سے نمازی کے سامنے سے گزرنے میں کوئی فرق ہے یا نہیں اگر ہو تو اس کی بھی وضاحت کریں ؟

الجواب:-مسجد صغیر کی تحدید میں فقہاء کرام کے ما بین مختلف رائے پائی جاتی ہیں بعض حضرات نے تیس ذراعا کہا اور بعض نے چالیس ذراعا فرمایا اور یہی مختار قول ہے اور جو مسجد اس تحدید سے بڑی ہوگی وہ بڑی مسجد ہوگی ہاں صغیر و کبیر کے اعتبار سے نمازی کے سامنے سے گزرنے میں فرق ہے کبیر موضع سجود کے وراء سے گزرنا جائز ہے اور صغیر میں نمازی کے سامنے سے گزرنا جائز نہیں ہے احادیث میں اس کی بڑی وعید ائی ہے-

المسجد الصغير هو اقل من ستين ذراعا وقيل من اربعين وهو المختار كما في جامع الرموز عن الجواهر....(هامش شرح الوقاية:١٦٦/١،كتاب الصلاة،نبراس ديوبند)

ومنهم من قدره بمقدار صفين او ثلثة ومنهم من قدر بثلثة ازرع ومنهم من قدر باربعين....(هامش الهداية:١٤٠/١،كتاب الصلاة،زمزم ديوبند)

قال بعضهم قدر موضع السجود قال بعضهم مقدار صفين وقال بعضهم قدر ما يقع بصره على المار....(بدائع الصنائع :٥٠٩/١،كتاب الصلاة ،اشرفيه ديوبند)

سوال:- کیا ائمہ اربعہ میں سے کسی کے نزدیک 20 رکعت سے کم ادا کرنا مسنون ہے یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت مدلل بیان کریں؟

الجواب:-کسی امام کے نزدیک بیس رکعت سے کم تراویح ادا کرنا مسنون نہیں ہے پہلے کچھ اس میں اختلاف تھا مثلا امام مالک وغیرہ کے نزدیک چھتیس رکعتیں مسنون تھی لیکن بعد میں نماز ائمہ مجتہدین وغیرہ کا بیس رکعت پر اتفاق ہوا لہذا بیس رکعت ادا کرنے سے ہی سنت ادا ہو گئی ورنہ نہیں –

وهي عشرون ركعة هو قول الجمهور.... عليه عملا الناس شرقا وغربا....(الدر المختار مع الشامي: ٤٩٥/٢،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

وهي عشرون ركعة باجماع الصحابة رضي الله عنه بعشر تسلمات....(حاشية الطحطاوي على المراقي:٤١٤،كتاب الصلاة،اشرفية ديوبند)

وهي خمس ترويحات كل ترويحة اربع ركعة تسلمتين كذا في....ولو زاد خمس ترويحات بالجماعة يكره عندنا....(بالفتاوى الهندية:١٧٥/١،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

سوال:-اٹھ رکعت تراویح کا ثبوت حدیث میں ہے یا نہیں اگر ہے تو اس کا کیا جواب ہے؟

الجواب:- اٹھ رکعت تراویح کا ثبوت حدیث پاک سے نہیں ہے غیر مقلدین جس حدیث سے اٹھ رکعت تراویح کو ثابت کرتے ہیں محدثین کرام اس حدیث کا جواب دیتے ہیں کہ وہ حدیث تراویح کے متعلق نہیں ہے بلکہ تہجد کے متعلق ہے نیز اس حدیث میں رمضان غیر رمضان کی بات ہے حالانکہ غیر رمضان میں تراویح کی نماز نہیں ہوتی ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث تہجد کے متعلق ہے-

علي بن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر....(مصنف ابن ابي شيبة:٢٨٤/٢،رقم الحديث: ٧٧٧٤)

وهي عشرون ركعة هو قول الجمهور.... وعليه عمل الناس شرفا وغربا....(الدر المختار مع الشامي:٤٩٥/٢،كتاب الصلاة، زكريا ديوبند)

علم من هذه المسئلة ان التراويح عندنا عشرون ركعة....(بدائع الصنائع :٦٤٤/١،كتاب الصلاة ،اشرفية ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص 20 رکعت سے کم ادا کرے تو تراویح کی سنت ادا ہو جائے گی یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت مفصل مدلل جواب تحریر کریں؟

الجواب:-حنفیہ کے نزدیک سنت ہیں اور 20 رکعت سے کم ادا کرے تو تراویح کی سنت ادا نہ ہوگا جن لوگوں کی طبیعت میں ضد ہو ان کو کچھ نہ کہا جائے دعائے خیر کی جائے-

وهي عشرون ركعة وقول الجمهور وعليه عمل الناس شرقا وغربا....(رد المختار مع الشامي: ٤٩٥/٢،كتاب الصلاة ،باب الوتر والنوافل،زكريا ديوبند)

عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي فيه شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة والوتر....(السنن الكبري للبيهقي: ٤٩٦/٢،كتاب الصلاة،باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان ادارة تاليفات،اشرفية،ملتان)

سوال:-تراویح کے اندر کتنی رکعت مسنون ہے اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو اختلاف اقوال کو نقل کرنے کے بعد صحیح قول کو بھی وضاحت کریں اور پھر وہ بتائے صحیح قول کا ثبوت حدیث سے ہے یا نہیں؟

الجواب:-تراویح میں کتنی رکعتیں ہیں اس سلسلے میں تین اقوال ملتے ہیں: (1) غیر مقلدین اور اصحاب ظواہر کے نزدیک تراویح کی نماز 8 رکعتیں ہیں (2) یزید بن مارون ابن قاسم ،مالک وغیرہ کے نزدیک تراویح کی نماز چھنتیس رکعتیں ہیں(3) ائمہ اربعہ اور جمہور علماء کے نزدیک نماز تراویح 20 رکعت ہیں اور یہی زیادہ صحیح اور راجح قول ہے اور اس کا ثبوت حدیث پاک میں ہے چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ طبرانی اور بیہقی میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت موجود ہے-

عن بن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي في رمضان عشرين ركعت والوتر....(مصنف ابن ابي شيبة:٢٨٤/٢،رقم الحديث: ٧٧٧٤)

واما قدرها فعشرون ركعة.... وهذا قول عامة العلماء وقال مالك في قول سنة وثلاثون ركعة وفي قول سنة وعشرون ركعة والصحيح قول العامة....(بدائع الصنائع: ٦٤٤/١،كتاب الصلاة ،اشرفية ديوبند)

قوله وهي عشرون ركعة هو قول الجمهور وعليه عمل الناس شرقا وغربا وعن مالك ست وثلاثون....(در المختار مع الشامي:٤٩٥/٢،كتاب الصلاة،باب الوتر والنوافل ،زكريا ديوبند)

سوال:-تراویح کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-رمضان المبارک میں عشاء کی نماز کے بعد تراویح کے 20 رکعت نماز 10 سلاموں سے پڑھنا مرد و عورت سب کے لیے سنت مؤکدہ ہے-

قال الله تعالى: فَاسْاَلُوْا اَهْلَ الِّذكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (سورۃ الانبیاء آیت:۷) القاعدۃ الثبتراويح كسنة مغرب وعشاء والجماعة فيها سنة على الكفاية في الاصح.... وكل ما شرع بجماعة فالمسجد فيه أفضل وهي عشرون ركعة....(رد المختار: ٤٩٥/٢،کتاب الصلاۃ،باب الوتر ونوافل ،زكريا ديوبند)انیۃ: الأمور بمقاصدھا الاشباہ والنظائر ص/ ۱۰۲

التراويح فإن وقتها بعد اداء العشاء فلا يبعتد بما اداء قبل العشاء وعندهما الوتر سنة العشاء كالتراويح.... (بالفتاوى الهندية:١٧٥/١،كتاب الصلاة ،زكريا ديوبند)

واما الذي هو سنن الصحابة فصلاة التراويح في ليالي رمضان.... وفي سننها.... اما صفتها فهي سنة.....(بدائع الصنائع:٦٤٤/١،كتاب الصلاة، صلاة التراويح،زكريا ديوبند)

اگر کسی شخص نے عید الفطر کو صدقۃ الفطر ادا نہیں کیا تو کیا ذمہ سے وجوب ساقط ہو جائے گا یا ادا کرنا لازم ہوگا ؟

باسمه سبحانه وتعالیٰ الجواب وباللّٰه التوفیق: عید کے دن عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا مستحب ہے البتہ اگر کسی نے عید کے دن ادا نہ کیا تو صدقۃ الفطر کی ادائگی اس کے ذمے واجب رہے گی اور جب بھی ادا کرے گا ادا ہو جائے گا….

قوله:وهو الصحيح هو ما عليه المتون بقولهم: وصح لو قدم أو أخر قوله: مطلق أي عن الوقت فتجب في مطلق الوقت وإنما يتعين بتعيينه فعلاً أو آخر العمر، ففي أي وقت أدى كان مؤدياً لا قاضياً كما في سائر الواجبات الموسعة غير أن المستحب قبل الخروج إلى المصلى؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: أغنوهم عن المسألة في هذا اليوم (شامی زکریا:کتاب الزکاۃ، باب صدقة الفطر:ج٣ ص/٣١٠-٣١١)