سوال:-اولاد کو والدین سے پہلے حج کرنا درست ہے یا نہیں اگر درست ہے تو کیوں اگر نہیں تو کیوں؟

جواب:-اولاد کا والدین سے پہلے حج کرنا درست ہے وجہ یہ ہے اگر والدین صاحب استطاعت ہو تو ان کو خود حج میں جانا لازم ہے اور اگر اولاد پر حج فرض ہے والدین پر فرض نہیں تو بیٹا حج پر جا سکتا ہے اگر استطاعت ہو تو والدین کو بھی ساتھ لے جانا بڑے ثواب ہے۔فقط واللہ اعلم ۔

ان القدرة على الزاد والراحلة لابد فيها من المال دون الاباحة والعارية(شامي: ٤٦٠/٣،كتاب الحج زكريا ديوبند)

ومنها القدرة على الزاد والراحلهة بطريق الملك او الاجارة دون الامارة والاباحه سواء كانت الاحة من جهة من لا منه له عليه الوالدين المولودين او من غيرهم كالاجانب...(هنديه: ٢١٧/١ كتاب المناسك ،زكريا ديوبند

سوال:-طواف زیارت کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا شرعا کیسا ہے نیز اگر کوئی شخص عصر کے بعد طواف مکمل کرے تو یہ دو رکعت ادا کرنا اسی وقت شرعا درست ہے یا نہیں یا ضروری ہے اگر درست اور ضروری ہو تو کیوں جبکہ عصر کی نماز پڑھنا منع ہے کوئی نماز اگر درست نہ ہو تو کیوں ؟ مدلل بیان کریں؟

جواب:-طواف زیارت کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اگر کسی نے دو رکعت ادا نہیں کی ہو تو اس کا طواف ادا ہو گیا البتہ نوافل کو چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا اور کوئی شخص عصر کے بعد طواف مکمل کرے تو وہ بھی دو رکعت نہ پڑھے کیونکہ عصر کے بعد کسی قسم کی نوافل ادا کرنا درست نہیں ہے بلکہ مغرب کی فرض نماز کے بعد سنتوں سے پہلے طواف کی دو رکعت ادا کر لے۔فقط واللہ اعلم

ولو طاف اسابيع فعليه لكل اسبوع ركعتان على حدة...... ويكره تاخيرها عن الطواف الا وقت مكروه اي لان الموالات سنة ولو طافه بعد العصر يصلي المغرب ثم ركعتي التواف ثم سنة المغرب (بحر الرائق ٣٥٦/٢ باب الاحرام)

صلاه ركعتين لكل اسبوع من اي طواف كان فلو تركها هل عليه دم قيل نعم فيوصي به(در مختار مع رد مختار: ٥٤١/٣ كتاب الاحج الاشرفه ديوبند)

ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة بعد الصبح حتى تشرق الشمس وبعد العصر حتى تغرب (صاحب بخاري: ١٢٠/١ رقم الحديث: ٥٨١)

١.سوال:-اقسام حج میں سے کون سی قسم افضل ہے اور کیوں؟

جواب:-حج کی اقسام میں سے حج قران افضل ہے وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حج ادا کیا ہے یعنی ہمارے نزدیک صحیح دلائل کی رو سے حج تمتع افضل ہے کیونکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ قران کیا تھا مگر اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا جو بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی ہے وہ اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا (صحیح بخاری:٧٢٢٩،. ابو داؤد:١٧٨٤)

التمتع افضل من الافراد والقران افضل من الكل (قاضيخان:١٨٥/٧ كتاب الحج زكريا ديوبند)

باب القران وهو افضل لحديث واتاني الليله ات من ربي وانا بالعقيق وقال يا ال محمد اهله الحج والعمرة معا(شامي: ٦٣١/٣-٦٣٣ كتاب الحج، اشرفيه ديوبند)

القران افضل من التمتع والافراد وصفته القران اي يهل بالعمرة والحج معا من الميقات.....(هدايه: ٢٧٩/١ كتاب الحج، رحمانيه)

سوال:-اگر کوئی شخص ممنوعات احرام میں سے کسی ممنوع چیز کا ارتکاب کریں تو شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں ممنوعات احرام میں سے کسی ممنوع چیز کو بھول کر کرے تو وہ شرعا اس پر کوئی چیز نہیں ہوتا اور اگر ممنوعات حرام میں سے کسی چیز کا مکمل ارتکاب کرے بلا کسی عذر کے تو اس صورت میں ایک دم واجب ہوتا ہے اور اگر کسی ممنوع چیز مکمل طور پر نہ کرے بلکہ ناقص کرے تو اس صورت میں جزاء کے طور پر صدقہ واجب ہو جاتا ہے-فقط واللہ عالم۔

وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَٰكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا(سوره احزاب:٥)

ولو طيب المحرم بعد الشارب او بعض اللحية كان عليه صدقة ولو طيب ولو طيب عضوا كاملا كلراس..... عليه دم(قاضيخان:١٧٦/٧ كتاب الحج، زكريا ديوبند)

جزاوي جنايات اما دم حتما اذا ارتكب المحظور كاملا بلا عذر او صدقه حتما اذا ارتكب المحظور ناقصا (غنية الناسك:٢٣٨)

سوال:-طواف کی کتنی قسمیں ہیں اور کیا نام ہے ان کا درجہ کیا ہے؟

جواب:-طواف کے ساتھ اس میں ہے -1. طواف تحیہ یہ مستحب ہے، 2. طواف قدوم یہ مسنون ہے، 3. طواف زیارت یہ طواف ہر حاجی پر واجب ہے، 4. اللہ حافظ صدر اس کا درجہ واجب کا ہے، 5. طواف عمرہ جو شخص عمرہ کا احرام باندھ کر مسجد حرام میں ائے اس پر طواف عمرہ ضروری ہے، 6. طواف نظر اس کی ادائیگی واجب ہے، 7. طواف ننطوع یہ طواف نفل ہے۔

اذا دخل مكة بدا بالمسجد...... ثم يبدا بالتعافي لانه تحية البيت...... والطواف بالبيت طواف القدومي ويسن..... والضعف بالبيت نفلا ماشيا بلا رمل وسعى....... ثم توفى لزيارتي يوما من ايام النحل..... ثم طفى للصدر اي الوداع..... خطافه وسعى وتحلل اى: بافعال العمرة (شامى:٥٧٣/٣-٦٢٨-كتاب الحج اشرافه ديوبند)

طوافذ زيارت الركن تواف الحج وهو ركن لا يتم الحج الا به (الدر المنتقي:٢٨١/١)

وهو مستحب لكل من دخل المسجد محرما كان او حلالا وطواف العمرة وهو ركن فيها (غنية المناسك:١٠٩)(وكذا في البحر الرائق)

١. سوال:-حج تمتع کے افعل کیا ہیں ترتیب سے بیان کریں؟

جواب:-حج تمتع یہ ہے کہ سب سے پہلے عمرہ کا احرام باندھنا ہے ،عمرہ کا طواف کرنا ہے، رمل کرنا ہے عمرہ کی سعی کرنا،سر منڈانا یا کترانا،پھر حج کا احرام باندھنا ہے قیام منی (از ظہر ٨/ذو الحجہ تا فجر٩/ذوالحجہ)،وقوف عرفہ (٩/ذی الحجہ) پھر وقوف مزدلفہ (١٠/ذوالحجہ) پھر اخری جمرہ کی رمی (١٠/ذوالحجہ) فی القربانی کرنا،سر منڈانا یہ کترانا پھر طواف زیارت پھر حج کی راہ میں کرنا ہے تینوں جمرات کی رمی (١١-١٢/ذو الحجہ) اخر میں منی میں شب گزاری (١١-١٢ ذوالحجہ)

والتمتع عندنا من ياتي باعمال العمرة على الحج الثالثه اي يطوف اكثر طوافها في عشر الحج ثم ياتي بالحج ويحج من عامه ذلك قبل ان يلم باهله بيتهما الماما صحيحا الآخر (قاضيخان:١٨٥/٧ كتاب الحج مكتبة زكريا دوبند)

والتمتع ما ياتي باعمال العمرة في اشهر الحج او يطوف اكثر طوافها في اشهر الحج ثم يحرم بالحج ويحجه من عامه ذلك قبل اي يلم باهله بينهما الماما صحيحا (الهنديه: ٣٠٢/١،كتاب المناسك زكريا ديوبند)

لاول: ايه فضل العمرة كله او اكثره في شهر الحج، الثاني: اي يقدم احرام العمره على الحج، الثالث: اي طفل العمره كله او اكثره قبل احرام الحج ، الرابع: عدم افساد العمرة،الخامس: عدم الامام الماما صحيحا كما ياتي،السابع: ان يكون التوافق العمرة كله او اكثره والحج في السفر احد الآخر (در مختار: ٥٦٢/٣،مكتبة زكريا ديوبند)

سوال:-حج قران کسے کہتے ہیں اس کے افعال کیا کیا ہے ترتیب سے بیان کریں؟

جواب:-کرن اصطلاح میں حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ کر ایک ساتھ حج اور عمرہ کرنے کو کہتے ہیں،اور اس کے افعال یہ ہے کہ حج کے مہنو میں میقات پر پہنچ کر یا اس سے پہلے غسل و غیرت سے فارغ ہو کر احرام کے کپڑے پہن کر دو رکعت نماز پڑھ کر سلام کے بعد سر کھولنا اور قبلہ رخ بیٹھ کر دل میں حج اور عمرہ دونوں کے احرام کی نیت کرنا اور زبان سے کہنا “اللهم اني اريد الحج والعمرة الآخر..”جب مکہ مکرمہ مجھے تو اول عمرہ کا طواف سائی وغیرہ کر کے عمرہ پوری کرے پھر مکہ میں ہی قیام کرے اس کے بعد اٹھیں تاریخ کو منی جائے اور نویں کو عرفات جائے، منی عرفات اور مزدلفہ کے احکام میں قران اور افراد میں کچھ فرق نہیں ہے لہذا سب افعال اسی طرح کرے جس طرح مفرد کرتا ہے پھر دسویں تاریخ کو منی ا کر جمرہ اخری کی رانی کرے پھر قران کے شکریہ میں قربانی کرے پھر سر کے بال منڈائے یا کٹوائے اور طواف زیارت کریں آخر میں طواف وداع کرے-فقط واللہ اعلم

والقران لغة: الجمع بين شيئين وشرعا: اي رفع صوته بالتلبية بحجة وعمرة معا حقيقة او حكما بان يحرم بالعمره اولا ثم بالحج قبل اي توفى لها اربعة اصواط او عكسه....... والمراد به النية اذا النية بقلبه تكفي كالصلاة. بعد الصلاه ة: اللهم اني اريد الحج والعمرة الآخر.. ويستحب تقدم العمرة في النكر لتقدمها في الفعل،طواف للعمره اولا وجوبا حتى لو نواه للحجي لا يقع الا لها (دره مختار مع رد مختار: ٥٥٣/٣ كتاب الحج-زكريا ديوبند)

القران وهو ان يجمع بين احرام العمرة والحج ....... وهو ان يهل الافاق بهما معا في الميقات او قبله وهو الافضل... استحباب تقديم العمرة على الحج في النية والتربية طواف القدومي للقران والرمل فيه السعي بعده ثم يتوفى لقدومه ويضطبع فيه ايضا ويرمل... وحكم من طافين العمره والحج ثم سعي سعين(فتاوى هنديه:٣٠١/١ كتاب المناسك اشرفيه ديوبند) وكذا في غنية الناسك:٣٢٤/١-٣٢٨ كتاب المناسك اشرفيه ديوبند )

سوال:-حج افراد کسے کہتے ہیں اور اس کے افعال کیا ہیں ترتیب وار بیان کریں؟

جواب:-صرف حج کے احرام باندھنے کو حج افراد کہتے ہیں اور اس کے افعال یہ ہے کہ حج کا احرام طواف قدوم قیام منی از ظہر ٨/ذو الحجہ تا ٩/ذوالحجہ،وقوف عرفہ٩/ذوالحجہ،حروف مزدلفہ ١٠/ذوالحجہ،رمل ،سعی،تینوں جمرات کی رمی ،منی میں شب گزاری،طواف و وداع بوقت واپسی۔

وقال المفرد بالحج بلسانه مطابقا لجنانه اللهم انا اريد الحجه الآخر المشفته وطول مدته ثم لبي دير صلاته ناويا بها بالتلبية الحج...(در مختار مع رد مختار: ٤٨٩/٣-٥٠٦ كتاب الحج زكريا ديوبند)

فصل: في كيفية اداء الحج المحرم بالحج اذا القى محظوراته احرامه و قدم مكه فدخلها ليلا او نهارا لا يضر المستحب ان يدخلها نهرا..(قاضيخان: ١٧٨/٧-١٨٤ كتاب المناسك اشرفيه ديوبند)

ويستحب: ان يغتسله للدخول المكه واي دخلها نهارا فاذا دخل المكه ابدا بالمسجد بعد ما حط اثقاله،ومنها احرام الحج: قالوا ينبغي ان يكون محرما بالحج عند عدي الصلاتين المراد بالحج اذا انى بتواف القدوم وافضل اي يسعي بعده ولكن يسعي بعد طواف زيارتة ..... ثم يرجع الى منى فان كان معه نسك ذبحه وان لم يكن فلا يضره لانه مفرد بالحد ثم يحلق راسه او يقصر ويحلق افضل..طواف زيارة (الهندية:٢٨٩/١-٢٩٥ كتاب المناسك اشرفيه ديوبند)

١.سوال:-اشھر حج اور ایام حج کتنے ہیں اور کیا کیا ہے ہر ایک کی وضاحت کریں؟

جواب:-اشھر حج تین ہیں.. شوال، ذو القعدہ، ذو الحجہ ۔اور ایام حج ٨ ذو الحجہ سے لے کے ١٢ ذو الحجہ تک۔

والاشهر الحج: شوال،و ذو القعده،وعشرون من ذو الحجة(قاضيخان:١٧٣/٣-مكتبه زكريا ديوبند)

ايام الحج ما لابد منه خمسة يوم عرفة وايام النحر والتشريق(مجمع الانهر:٣٩٠/١ كتاب الحج)

واما وقته فاشهر معلومات والاشهر المعلومات شوال زوالقده وعشر الحجة(الہندیہ -/١٨٨/٣--كتاب المناسك)

سوال:-اگر کوئی شخص حج کے لیے روپے جمع کر رکھے ہو اور حج کے وقت انے سے پہلے وہ روپے ختم ہو جائے یا ہلاک ہو جائے تو ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-اگر کوئی حج کے لیے روپے جمع کرے اور حج کے وقت کے انے سے پہلے ہی روپی ختم یا ہلاک ہو جائے تو ایسی صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر اس پر حج فرض ہوا ہے تو استطاعت ختم ہونے کے بعد اس کے ذمے سے حج کی فرضیت شرعا ساقط نہیں ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری زندگی حج کی فرضیت کو ادا کرنے کی کوشش کریں پھر اگر ادا نہ ہو پائے تو مرتے وقت حج کرنے کی وصیت کر کے جائیں۔فقط واللہ اعلم

وكذلك لو لم يحج حتى افتقر تقرر وجوبه دينا في ذمنه بالاتفاق ولا يسقط عنه بالفقر (الهنديه: ٢١٨/١ كتاب المناسك زكريا ديوبند)

ولا يسقط الحج وصدقة الفطر بهلاك المال لوجوبهما يفدرة ممكنة وهي القدره على الزاد والراحلة وملك النصاب(شامي: ٥٢٢/٩-٥٢٣)

فلو لم يحج حتى مات وعليه الايصاءبه وكذلك لو لم يحج حتى افتقر واجوبه دينا في ذمته ولا يسقط عنه بالفقر (غنية المناسك:٣٣ اداره القران)

سوال:- احرام کیا ہے اور اس کو باندھنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:-احرام کے لغوی معنی ہے حرام کرنا، کیونکہ احرام کی حالت میں بعض حلال کام بھی حرام ہو جاتے ہیں اصطلاح میں حد یا عمرہ کی نیت سے مکہ شہر میں مقام میقات سے پہلے صرف دو چادروں سے جسم کو ڈھانپ لینے کو احرام کہتے ہیں،اور احرام باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ناخن تراش بغل اور ناف کے نیچے کے بال صاف کر لیں بلکہ پیچھے کے بال بھی صاف کر لیں مسواک کرے،خوب اچھی طرح مل کر غسل کر لے جس اور احرام کے چادروں پر خوشبو لگائے پھر مرد سلا ہوا کپڑا اتار کر بغیر سلائی ہوئی ایک چادر بند ناف کے اوپر سے باندھے اور ایک چادر کندھوں سے ووٹ لیں سر ننگا رکھے اور دونوں بازوں ڈھانپ لے خواتین اپنے کپڑوں میں ہی احرام کی نیت کرے البتہ خواتین ایک چادر اپنے ہاتھ سے سر کے اوپر تھوڑا اگے رکھیں اور چہرے میں نہ لگے تاکہ پردہ کی طرح کام کرے،اور احرام کی کپڑوں میں گاڑی خوشبو نہ لگائے جس سے اس کا اثر بعد تک باقی رہے۔فقط واللہ اعلم

الاحرام شرعا: الدخول في حرمات مقصوصه أي التنرامها غير انه لا يلتحق الشرعا الا بالنيه مع الذكر والمراد بالذكر التلبية ونحوها (شامي: ٤٨٥/٣, مكتبة زكريا ديوبند)

وهو لغة مصدر احرم اذا ادخل في حرمة ورجل حرام اي: محرما كذا في الصحاح وشرعا : الدخول في حرمة مقصوصة اي الآخر (حاشيه ابن عابدين: ٥٥٥/٣ مكتب اشرفيه ديوبند)

واما الثوب فلا يجوز ان يتطيب بما تبقي عينه بعد الحرام الأخ والاولى ان لا تطيب ثوبه (غن ية المناسك :٧٠)

سوال:-حج کی کتنی قسمیں ہیں ہر ایک کی صورت اور حکم تحریر کریں؟

جواب:-حج کی تین قسمیں ہیں۔ (1)حج افراد:-اس نے میقات سے صرف حج کا احرام باندھا جاتا ہے اور ارکان حج کی ادائیگی کے بعد ہی احرام کھولتا ہے اور حج کے بعد عمرہ کرنے سے افراد پر کوئی اثر نہیں پڑتا،(2). حج تمتع:-اس میں آفاقی شخص اشہر حج میں اپنی میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھا کرتے ہیں اور عمرہ کر کے احرام کھول دیتا ہے پھر حج کا احرام الگ سے بلند کر حج کیا جاتا ہے (3). حج قران:-اس کا مطلب ہے کہ افاقی شخص حج کے مہینوں میں ایک ساتھ حقیقتا یا حکما عمرہ کی اور حج کے احرام کی نیت کرے اور مکہ معظمہ ا کر عمرہ کرنے کے بعد احرام ہی کی حالت میں رہے اور حج کی مناسک کی ادائیگی کے بعد حلال ہو-فقط واللہ اعلم

والقارن هو ان يجمع بين امراي الحج كل عمرة من الميقات وشرعا ان يهل اي يرفع صوته بالتلبيه بحجة وعمرة معا حقيقة وحكما(الهنديه: ٢٣٧/١--وكذا در مختار: ٥٥٤/٣ مكتبة زكريا ديوبند)

القرن افصل مطلقا ثم التمتع ثم الافراد وهو ان يهل(مجمع النهر:٤٢٣/١ كتاب الحج)

https://maslakedeoband.in/wp-content/uploads/2024/12/Untitled-design-3.mp4

سوال:-اگر کسی کے پاس اس قدر زمین ہو جس سے فروخت کر کے حج پر قادر ہو ایسے آدمی پر حج فرض ہے یا نہیں؟

جواب:-اگر وہ شخص اتنی زمین بیچ دے جس سے اس کو اتنا مال مل جائے کہ وہ حج کر سکے اور اس کے پاس اتنی زمین باقی بھی رہ جائے جن سے وہ زندگی گزر سکے تو اس پر حج فرض ہوگا اور زمین باقی نہ رہے تو حج فرض نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

قال الامام قاضي خان رحمة الله وان كان صاحب ضيعة ان كان له من الزياع ما لو باع مقدار ما بقي لزاده و راحلته ذاهبا وجائيا ونفقة عياله واولاده ويبقي له من الضيعة قدر ما يعيش بعلة الباقي يفترض عليه الحج --(خانيه على هامش الهنديه/٢٨٢/١-كتاب المناسك

وان كان له من الضياع ما لو باع مقدار ما بقي لزاده وراحلته ذاهبا وجائيا ونفقه عياله واولاده ويبقي له من الضيعه قدر ما يعيش بخلة الباقي يفترض عليه الحج (قاضي خان: ١٧٣/٧ كتاب الحج زكريا دوبند)

سوال:-حج مقبول اور حج مبرور دونوں ایک ہیں یا الگ الگ ہے مفصل بیان کریں؟

جواب:-حج مقبول اور حج مبرور دونوں ایک ہی ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مبرور مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں یہاں مبرور کا معنی مقبول ہی ہے البتہ علماء نے اس کی مختلف تعریفات کی ہیں (1) حج مبرور وہ حج ہے جس میں گناہ سے بچا جائے (2) وہ حج جس میں ریاکاری اور شہوت نام اور نمود سے پرہیز ہو (3) حج مبرور جس کے بعد حاجی مرتے وقت تک گناہوں سے بچے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کامقولہ ہے کہ حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ ادمی حج کر کے جب واپس ائے تو دنیا سے بے رغبت ہو اور اخرت کی طرف رغبت کرنے والا ہو۔

ن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الحجه والمبرورة ليس لها جزاء الا الجنة(سنن النسائيه ٢/٢ كتاب المناسك-

انا عايشه رضي الله تعالى عنها قالت يا رسول الله ترى الجهاد افضل العمل افلا نجاهد؟لا لكن افضل الجهاد حج مبرور (بخاري -١٥٢٠/١)

سوال: سفر حج پر روانگی سے پہلے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟

جواب:-سفر حج سے پہلے چند چیزوں کا کیا رکھنا چاہیے ان میں سے بعض یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اپنی سب گناہوں کی توبہ کرے اگر اپنے اوپر کسی کا مالی یا جانی حق ہو تو اسے ادا کرے یا معاف کرائیں اور اگر اہل حقوق وفات پا گئے تو ان کے لیے دعا اور استغفار کریں والدین کی رضامندی سے سفر کریں اپنے پاس کسی امانت یا عاریت کی چیز ہو تو وہ مالک کو واپس کرے استخارہ کرکے سفر کا اغاز کرے تاکہ ہر ہر قدم پر اللہ تعالی کی مدد شامل حال ہو بہتر ہے کہ کسی نیک رفیق سفر کو ساتھ لے لے جو دینی اور دنیاوی اعتبار سے اس کا معاون ہو حج کے ضروری مسائل و مناسک سیکھ کر سفر شروع کریں یا کسی موقع پر عالم کے قافلہ میں شامل ہو کر سفر کرے زبان کو غیر ضروری باتوں سے محفوظ رکھے جمعرات کے روز سفر کا آغاز مسنون ہے۔فقط واللہ اعلم

ثم يبدا بالتوبه واخلاص النية ورد المظالم، ويجتهد في تحصيل نفقة حلال، ويكره الخروج الى الحج اذا كره احد ابويه وهو محتاج الى خدمته ويكره الخروج الحج-----الاخ(فتح القدير--٤١٢/٢،كتاب الحج دار الكتاب العلميه)

ولمن اراد الحجه مهمات ينبغي الاعتناء بها والبراية بالتوبه بشروطها من دار المظالم الى اهلها عند الإمكان وقصاما قصر في فعله من العبادات ولندم على تفريطه في ذلك......... اذا اراد الابن ان يخرج الى الحج ولا ابوه كاره لذلك ان كان الاب مستغنيا عن خذ منه ولا باس به وان كان معتدا يكره وكذا الأم --(البحر الرائق --/٥٤٠/٢/كتاب الحج الاشوفيه ديوبند)

سوال:-اگر کوئی حاجی دوران سفر حج وفات پا جائے تو اب اس کا ذمہ ساقط ہو جائے گا یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے؟

جواب:-اگر کسی شخص پر حج فرض ہو گیا تھا اور اس نے بلا تاخیر حج کا سفر شروع کیا اور اتفاقا دوران حج وفات پا جائے تو اس کا ذمہ سے ساقط ہو جائے گا اس لیے کہ اللہ تعالی اس کی ذمہ عبادت اتنا ہی رکھا تھا تو اس کی طرف سے وصیت واجب نہیں ہے اور اگر حج فرض کئی سال پہلے ہوا تھا لیکن اس نے نہ تو حج کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی سفر کے لیے نکلا تھا یہاں تک کہ وفات کا وقت اگیا تو اس پر حج بدل کی وصیت لازم ہے (جو اس کے متروکہ تہائی مال سے پوری کی جائے گی) فقط واللہ اعلم

فلو لم يحج حتى مات فعليه الايصاءبه هذا لم يحج ولم يخرج الى الحج (فتح القدير ٤٢٣/٢ كتاب الحج)

رجل وافق مع النبي صلى الله عليه وسلم يعرفه اذ وقع عن راحلته فوقصته او قال فاقعثه فقال النبي صلى الله عليه وسلم اغسلوه بماء وصدر وكفنوه في ثوبين او قال ثوبيه ولا تحنطوه ولا تخمروا راسه فان الله يبعثه يوم القيامة يلبي (صحيح بخاري-١٨٤٩)

سوال:-سفر حج شروع کرنے کے وقت کیا کرنا چاہیے اور کن چیزوں سے بچنا چاہیے؟

جواب:-جمعرات کے روز سفر حج کا اغاز کرنا مسنون ہے جب سفر کا ارادہ ہو تو نہا دھو کے وضو کر کے اپنے گھر میں دو رکعت نماز سفر کی نیت سے پڑھے اور اس طرح گھر سے نکلے گویا دنیا چھوڑ کر جا رہا ہے دوران سفر ذکر اور دعا کی کثرت کرے کیونکہ مسافر کی دعا قبول ہوتی ہے سفر میں غصہ گرمی سے اجتناب کرے اور نرم روئی اور حسن خلق کا مظاہرہ کریں سفر میں اکیلے رہنے سے بچے البتہ رفقاء کے ساتھ رہنے کا اہتمام کرے کیونکہ اکیلے ہونے کی وجہ سے بسا اوقات بہت پریشانی اٹھانی پڑتی ہے اور اشیاء ممنوعہ یہ ہے کہ فسق و جدال یعنی جھگڑا سے بچنا چاہیے سلے ہوئے کپڑے ٹوپی پگڑی وغیرہ کو پہننے سے پرہیز کرنا جماع سے دور رہنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم

ومسنونها ان يصلي ركعتين ويدع بالدعاء المعروف وبجردي سفره عن التجارة والرياء والسمعة والفخر وركوب الجمل افضل ولا يسعي خلفه ولا يماكسي في شراء الادوات و يودع اهله وراخوانه ويستحلهم ويطلب دعائهم ويستحب ان يجعل خروجه يوم الخمس (فتح القدير ٤١٢-٤١٣/٢ كتاب المناسك دار الكتاب العلمية)

ويستحب ان يجعل خروجه يوم الخمس اقتداء به عليه السلام ويودع اهله واخوانه ويستحلم ويطلب دعائهم ....... و يخرج خروج خارج من الدنيا ويصلي ركعتين قبل ان يخرج من بيته وكذا بعد الرجوع الى بيته (الهنديه-/٣٠٠/٣ كتاب المناسك مكتبه الاتحاد ديوبند)

سوال:-سفر حج پر روانگی کے وقت اور اس سے واپسی کے وقت دعا کرنا شرعا کیسا ہے؟

جواب:-حجاج کرام کا سفر حج کو جانے سے پہلے یا سفر حج سے واپسی پر دعوت کرنا اور اس دعوت کو ضروری سمجھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ائمہ مستحدین اور سلف صالحین سے بھی ثابت نہیں ہے سلف و خلف کیتری کا مسنونہ کے خلاف ایک نئے طریقہ کا ایجاد کرنا ہے جو فریضہ حج کو ادائیگی کے لیے رکاوٹ ہے ان سے گریز کرنا ہر حاجی اور ہر مسلمان پر لازم ہے اس سے پتہ چلتا ہے شرعا ممنوع ہے

انا عبد الله بن عمر رضي الله تعالى عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا لقيت الحاج فسلم عليه وصافحه مره ان يستغفرلك قبل ان يدخل بيته فانه مغفور له (مسند امام احمد/٦٩/٢, رقم،٥٣٧١)

انا اعيش رضي الله تعالى عنها ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من احدث في امرنا هذا ما ليس منه،فهو رد (ابن ماجه شريف باب التعظيم حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم التغليظ على من عارضه النسخة الهندية:٣, دار السلام رقم: ١٤)

00سوال:-حج کے لغوی اور شرعی معنی تحریر کریں؟

جواب:-حج کے لغوی معنی عظیم چیز کا ارادہ کرنے کے ہیں اور شریعت اصطلاح میں خاص طریقے سے خاص وقت میں خاص شرائط کے ساتھ بیت اللہ کا ارادہ کرنے کو حج کہتے ہیں۔فقت واللہ اعلم

وهو لغة القصد الى معظم لا مطلق القصد وشرعا مكانه مخصوص في زمن مخصوص بفعل مخصوص--//شامي ٤٤٧/٣-٤٥٠, كتاب الحج زكريا ديوبند

والظاهر انه عصوا للافعال المقصوصة من الطواف الافرض والوقوف بعرفه في وقته محرما بنية الحج سابقا--//فتح القدير-٤١٥/٢ مكتبة زكريا،،--//البحر الرائق ,٥٣٧/٢, مكتبة زكريا

سوال :-صحت حج کے لیے کتنی شرطیں ہیں مفصل مدلل بیان کریں؟

جواب:-مسلمان ہونا عاقل ہونا بالغ ہونا ،زاد اور راحلہ پر قادر ہو،اور اپنے اھل و عیال کے لیے کے لیے اتنی مال چھوڑ کر جائے کہ واپس انے تک ان کے لیے کافی ہو تندرست ہو اور راستہ بھی محفوظ ہو یہ صحتصحت کے لیے شرطیں ہیں۔فقط واللہ اعلم ۔

الاسلام والعقل والبلوغ و الوقت والقدره على الزاد والقدره على الراحلة والعدم يكون حج فرضا--//البحر الرائق،٥٣٧/٢ كتاب الحج

وهي سبعه الاسلام والعلم بالوجوب لمن في الدار الحرب والبلوغ والعقل الحرية والاستطاعة الوقت--//شامي-٥٢١/٣-كتاب الحج اشرفيه ،دوبند

سوال:-حج زندگی میں کتنی مرتبہ فرض ہوتا ہے؟

جواب:-حج زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہوتا ہے-فقط واللہ اعلم

ولله على الناس حج البيت من استطاع اليه سبيلا--//سوره ال عمران: ٩٧

فقال يا رسول الله صلى الله عليه وسلم الحج في كل سنة او مرة او واحدة؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بل مرة واحدة ممن استطاع فتطوع--//سنن ابن ماجه: ٢٠٧, باب فرض الحج

سوال:-اگر کوئی عورت حج کرنے پر قادر ہو اور تمام اسباب موجود ہوں البتہ محروم کوئی موجود نہ ہو تو اس عورت پر حج کرنا فرض ہوگا یا نہیں؟

جواب:-اگر عورت حج کرنے پر قادر ہو اور تمام اسباب موجود ہوں البتہ محرم اس کے ساتھ نہ ہو تو اس عورت پر حج کرنا فرض تو ہے لیکن اس وقت تک ادا کرنا واجب نہیں ہوگا جب تک کسی محرم کو ساتھ نہ پائیں اور اس صورت میں وہ محرم کی انتظار کریں اگر مرنے سے قبل یعنی مرنے کے وقت تک محرم نہ ملے تو مرنے کے وقت کسی کو اپنا حج کرنے کی وصیت کر کے جائیں اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر عورت پر حج فرض ہے اور کسی محرم کو نہ پائے تو وہ معتمہ اور دیندار عورتوں کے ساتھ حج پر جائے گی جبکہ احناف کے نزدیک کسی بھی حالت میں بھی عورت بغیر محرم کے سفر نہیں کر سکتی جیسا کہ بہت سارے احادیث شریف میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں سفر کرے گا عورت تین دن کا اس کے ساتھ محرم ہو ایسا ہی اور حدیث میں وارد ہے کہ بغیر محرم کے عورت کو گھر سے نکلنے سے منع کیا گیا ہے۔فقط واللہ اعلم

والمحرم في حق المراه شرط شابه كانت او عجوزا اذا كانت بينهما وبين مكة مسيرة ثلاثة ايام وقال الشافي رحمه الله يجوز لها عن تخرج فيه رفقت معها نساء ثقاب واختلافوا في قول المحروم شرط الاجوب الآخر //--تاتارخانية/٤٣٤/٢) زكريا ديوبند

منها المحرم للمراة شابة كانت او عجوزا اذا كانت وبين مكة مسيرة ثلاثة ايام--(الهنديه-(٢١٩/١) مكتبة الاتحاد ديوبند

سوال:-ارکان حج کتنی ہے ؟ہر ایک کی وضاحت کریں؟

جواب :-حج کے کل تین رکنے ہیں(١) احرام، دل سے حج کی نیت کر کے مکمل تلبیہ پڑھنا (۲). وقوف عرفہ یعنی نويں ذی الحج کو زوال افتاب کے بعد سے لے کر دسویں ذیحجہ کی صبح صادق کے درمیان میدان عرفات میں ٹھہرنا چاہے کچھ دیر ہی کیوں نہ ہو(یہ رکنا اعظم ہے اگر کسی نے وقوف عرفہ نہ کیا اس کا حج ہی نہیں ہوگا چاہے دم ہی کیوں نہ دے دے (۳). طواف زیارت جو کہ عقوف عرفہ کے بعد کیا جاتا ہے جب تک حاجی طواف زیارت نہ کر لے حج مکمل نہیں ہوتا بیوی اس کے لیے نہیں ہوتی اس کا وقت دلہج کے سورج طلوع ہونے سے لے کر 12 ذلحج کا سورج گروپ ہونے تک ہے وقت مقررہ درمیان طواف نہ کرنے کی صورت میں دم لازم ہوتا ہے-فقط واللہ اعلم

الحج(فرضه) ثلاثة(الاحرام) وهو شرط ابتداون وله حكم الركن انتهاء حتى لم يدوس لفائت الحج استدامه ليقضي به من قابل و لوقوفي عرفته في اوانه سميت به لان ادم وحواء تعارفا فيما. ومعزمه طواف الزياره وهما ركنان (شامي: ٥٣٦/٣-٥٣٧, كتاب الحج اشرفيه, ديوبند

فضل ركن الحج(فصل) واما ركن الحج--احدهما الوقوف العرفة وهو الركن المصلي والثاني طواف الزيارة//--(بدائع )-١٢٥/٢ كتاب الحج

فنقول: ركن الحج شيئان: الوقوف العرفة وطواف الزياره---لان الوقوف يؤدي في حال قيام الاحرام من وجهه//-- (المحيط البرهاني) ٦٩٣/٢

سوال:-اگر کوئی شخص استطاعت سے پہلے حج کرے تو استطاعت کے بعد دوبارہ حج کرنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب:-اگر کوئی شخص استطاعت سے پہلے اگر فرض حج کی نیت سے احرام باندھ کر حج کر لے تو استطاعت کے بعد دوبارہ حج کرنا ضروری نہیں لیکن اگر نفل حج کی نیت سے احرام بندہ ہو تو استطاعت کے بعد اس پر حج فرض ہوگا اور اگر اس نے فرض اور نفل کی نیت کے بغیر مطلب نیت کر کے احرام باندھا تھا تب بھی استطاعت کے بعد اسی شخص پر دوبارہ حج کرنا ضروری نہیں ہوگا-فقت واللہ اعلم

ولو حج الفقير ثم استغنى لم يحج ثانيا لان الشرط الوجوب التمكن من الاصول الى موضع المكي وفي النوادر انه يحج ثانيا//--مجمع الانهار-٢٦٠/١-مكتبة دار الاحياء

ولو حج الفقير ماشيا فقط عنه حجة الاسلام حتى لو استغنى بعد ذلك لا يكرمه ثانيا//--البنايه شرح الهدايه--٤/١٤٤//مكتبة دار العلميه

ليفيد انه يتعين عليه ان لا ينوي نفلا على زعم انه لا يجب عليه لفقره فلو نواه نفلا لزمه الحج ثانيا//--الدر المختار-(٤٦٠/٢ مكتبة دار احياء والنوات العربي)

سوال:-حج کی فرضیت کب ہوئی اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرضیت سے قبل حج ادا کیا ہے یا نہیں اگر کیا ہے تو کتنی مرتبہ ؟

جواب:-راجح قول کے مطابق حج کی فرضیت نو ہجری میں ہوئی اس میں اختلاف ہے اپ علیہ الصلاۃ والسلام نے حج کی فرضیت سے قبل تین حج ادا کیے ہیں اور فرضیت حج کا حکم نازل ہونے کے بعد اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حج ادا کیے ہیں۔فقط واللہ اعلم

سنة تسع وانما اخره عليه الصلاه والسلام لعشر بغرز--//٥٣٦/٣ زكريا،

عن جابر بن عبد الله ان النبي صلى الله عليه وسلم حد ثلاث حج حجتين قبل ان بها مروجة بعدها ما هاجر ومعها عمرة//--جامع الترمذى،حديث نمبر: ٨١٥ كتاب الحج

ان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتمر اربع عمر كلهن في ذي القادة الى التي مع حجة عمرة من الحديدية او زمن الحديبية في ذي القعده وعمرة من العام مقبل في ذي القعدة وعمرة//-- مسلم،٤٠٩/١, حديث نمبر: ١٢٥٣

حج
حج