جواب:-اگر کوئی شخص دوران عمرہ کوئی جنایت کر لے تو دیکھا جائے گا کب جنات کی اگر جنایت طواف عمرہ کے چار چکروں سے پہلے کیا تو عمرہ فاسد ہو گیا اور بعد میں فضاء کرنا لازم ہوگا اور فاسد کے وجہ سے دم بھی واجب ہوتا ہے اور اگر چار چکروں کے بعد جنات کی تو عمرہ فاسد نہ ہوگا البتہ دم واجب ہوگا. فقط واللہ اعلم ۔
حج
سوال:-عمرہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
جواب:-عمرہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو گھر میں پہلے اپ غسل کر کے احرام باندھ لے اور دونوں کاندھے ڈاپتے ہوئے دو رکعت نفل ادا کریں پھر اگر میقات پر احرام باندھا ہو تو وہیں سے تلبیہ پڑھیں اور پڑھتے رہے اور بیت اللہ میں داخل ہوتے ہوئے اگر فرض نماز کی جماعت کا وقت نہ ہو تو سب سے پہلے طواف کرے مطاف میں داخل ہوتے ہوئے اضطباع کرے اور طواف حجر اسود سے شروع کریں شروع کرنے سے پہلے طواف کی نیت کرے پھر دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر تکبیر و تہلیل کہے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر حجر اسود کو بوسہ دے کیا ہاتھ لگا کر چوم لے یا صرف ہاتھ سے اشارہ کر دے پھر رمل کے ساتھ کعبہ کا سات چکر لگائے دوران طواف اللہ کی زیادہ تسبیح بیان کرے ہر چکر پر رکن یمانی کی استلام کرے رکنی یمانی اور حجر اسود پر دعا پڑھیں : “ربنا اتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار”طواف کے بعد مقام ابراہیم دو رکعت نماز پڑھے برائے طواف پھر اب زمزم سیر ہو کر پیے پھر حضرت سواد کے استلام کر کے سائی کے لیے صفا کا رخ کرے صفا پر چڑھ کر قبلہ رخ ہو کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں پھر تین مرتبہ لا الہ الا اللہ وحدہ الاخ۔دعا پڑھیں پھر صفا اور مروہ کا سات چکر لگائے اس کے بعد بال کتروائی یا منڈھوائے اور احرام کھول دے
واما اذا أريد به الاكمال الوصف وعليه ما نقله في البحر من ان الصحابه فسرت الا تمام بان يحرم بهما من رويده اهله...... قوله: حلق او تقصير... قوله وغير ما واجب اراد بالغير من المذكورات هنا وذلك اقل عشوات الطواف والصعيد والحلق والتقصير والا فلها سنن محرمات من غير المذكور هنا فافهم(شامي :٥٤٥/٣-٥٤٦ كتاب الحجر اشرفيه ديوبند)
وصفتها ان يحرم بها من ميقاتها كلاحرام الحج فاذا ادخل مكة ... بدا بالمسجد من باب السلام ثم بدايا احجر الاسود واذا استلمه قطع الطابعة وطاف برمل واصطباع كالحج وصل ركعتين ثم خرج السعي على فرده وسعي كالحج الا انه لا يبلى فيه ولم يذكروا العوده الى اسلام الحجر الاسود في خصوص العمرة فلعله لعدم روايته هنا (غنية الناسك:٣٢٠ في كيفية اداء العمرة)
سوال:-دم کسے کہتے ہیں اس کا شرعا کیا حکم ہے؟
جواب:-دم جو کفارہ کے طور پر جو ایک بکری 🐐 (اس میں بکرا دنبہ بھیڑ شامل ہے اور گائے بیل بھینس اور اونٹ🐫 کا ساتواں حصہ کی بقدر قربانی دیا جاتا ہے اس کو دم کہتے ہیں اس دم کا شرعا حکم حدود حرم میں ذبح کرنا ضروری ہے اگر حدود حرم سے باہر ذبح کیا تو کفارہ اداء نہ ہوگا اور دم جنایت کا گوشت خود مالک کے لیے کھانا درست نہیں بلکہ وہ فقراء ہی کا حق ہے۔فقط واللہ اعلم
افسره ابن مالك بالشاة، وعشره في البحر الى سره بقوله: ان سبع البدنة لا يكفي في هذا الباب (شامي: ٥٧٢/٣ كتاب الحج، باب الجنايات، زكريا ديوبند)
وحيث ما اطلق الدم فالمراد الشاة الاخ(غنية الناسك: ٢٤٠-مراقي الفلاح:٧٤١)
سوال:-اگر کوئی شخص سعودی کے اندر ملازمت کر رہا ہوں تو وہ اسی جگہ سے دوسروں کے لیے عمرہ کر سکتا ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے وضاحت کرے؟
جواب:-اگر وہ شخص حرم کے اندر رہتا ہو تو حدود حرم سے باہر جا کر عمرہ کا احرام باندھنا ضروری ہے اور اگر وہ شخص حدود حرام سے باہر حل میں رہتا ہے تو وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کر سکتا ہے اس لیے کہ عمرہ کا احرام حل سے باندھنا ضروری ہے اگر اسے حالت میں ہو تو دوسروں کے لیے عمرہ کر سکتا ہے۔فقط واللہ اعلم۔
والميقات لمن في مكة يعني من بداخل الحرام للحج الحرم والعمرة الحل (در المختار مع شامي:٤٨٤/٣ كتاب الحج، زكريا ديوبند)
وليس لاهل المكة ولا لاهل المواقيت تمتع ولا قرا ن...... ومن كان داخلا للمواقيت فهو بمنزلة المكي..... انما لهم ان يؤدوا العمرة أو الحج. (تاتارخانية: ٦٢٠/٣ كتاب الحج، الفصل:٩ زكريا ديوبند)
وقت المكي للحرام بالحج الحرم، والعمرة الحل ويخرج الذي يريد العمرة الا الحل من اي جانب شاء والتنعيم أو فضل(الهنديه: ٢٨٥/١ كتاب المناسك ،الباب الثاني في المواقيت،اشرفيه ديوبند)
١.سوال:-عمرہ کی فضیلت اور اہمیت بیان کریں ؟
جواب:-عمرہ کی فضیلت میں سے چند فضیلت یہ ہے ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ درمیانی عرصہ کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج و عمرہ بوڑھے کمزور اور عورت کے حق میں جہاد کے درجے میں ہے یعنی ان لوگوں کو حج عمرہ کرنے سے جہاد کا ثواب ملتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پدر پہ حج اور عمرہ ہے کیا کرو اس لیے کہ یہ دونوں نیک عمل فقر فاقہ اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے اور سونے چاندی کہ کھوٹ کو ختم کر دیتی ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔فقط واللہ اعلم۔
ان ابي هريرة رضي الله تعالى عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: العمرة الى العمرة كفارة ولما بينهما والحج المبرور ليس له جزاء الا الجنة (صحيح بخاري: رقم الحديث: ١٧٧٣)
ان عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: تابعوا بين الحج والعمرة فان المتابعة بينهما تنفي الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد(سنن ابن ماجه:٢٨٨٧ حديث)
انا ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحجة المبرورة ليس لها جزاء الا الجنة العمرة الى العمرة كفارة لما بينهما (سنن نسائ:٢٦٢٤)
سوال:-دوسروں کی طرف سے عمرہ کرنا شرعا درست ہے یا نہیں اگر درست ہے تو کوئی شرط ہے یا نہیں؟
جواب:-عمرہ دوسروں کی طرف سے کرنا درست ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ اور اس میں شرط ہے۔جس کی طرف سے عمرہ کرنا ہو احرام باندھتے وقت اس کی طرف سے احرام باندھنے کی نیت کرے اور تلبیہ بھی اسی کی طرف سے پڑھیں اور دوسرے یہ ہے کہ عمرہ اپنی طرف سے ادا کرے اور اس کا ثواب دوسرے کو ہدیہ کر دے۔فقط واللہ اعلم
الاصل وان كل من اتى بعبادة ماله جعل صوابها لغيره وان نواها عند الفعل لنفسه لظاهر الادلة...(قوله بعبادة ما) اي سواء كانت صلاه او قراءة هكذا او طوافا او حجا او عمرة او غير ذلك من زيارة القبور الانبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والاولياء والصالحين وتكفين الموتى... وبحيث ايضا ان الظاهر النوم لا فرق بين اي نبي به عند الفعل وللغير ان يفعله لنفسه ثم يجعل ثوابه لغيره الاطلاق كلامهم (شامي: ١٠/٤ باب الحج عن الغير،زكريا ديوبند)
والاصل في هذا الباب: ان الانسان له ان يجعل ثوابه عمله لغيره صلاه كان اوصوما او صدقه او غيرها كالحج ،والقراءة القران ،ولازكار ،والزيارة قبور الانبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء ،والاولياء ،والصالحين، وتكفين الموتى وجميع الواي البر...(الهنديه: ٣٢١/١ باب الرابع عشره في الحج عن الغير،زكريا ديوبند )
عن ابي رازين رجل من بني عامر انه قال: يا رسول الله ان ابي شيخ خبير لا يستطيع الحج والعمرة ولا الظعن ،قال: احج ان ابيك وعتمر(ابو داؤد:١٨١٠)
١.سوال:-حج بدل درست ہونے کے لیے کتنی شرائط ہیں اور کیا کیا ہے؟
جواب:-حج بدل کے لیے چند شرائط ہیں۔۔(1). آمر کا اسے حج کرنے کے لیے صراحتاً حکم دینا ،البتہ وارث کا اپنے مورث کی طرف سے بلا امر حج کرنا بھی معتبر ہے،(2). احرام باندھتے وقت مامور کا آمر کی طرف سے حج کی نیت کرنا،(3). مامور کا آمر کی طرف سے خود حج کرنا،دوسرے سے نہ کروانا،(4). اگر میت نے حج بدل کی وصیت میں کسی خاص شخص کو متعین کیا ہو تو اسی متعین شخص کا عرض کرنا ضروری ہے الا یہ ہے کہ کوئی معقول عذر ہو (5). اکثر سفر حج میں آمر کا مال خرچ کرنا،(6). اکثر سفر سوار ہو کر کرنا لہذا اگر پیدل سفر کیا تو آمر کی طرف سے حج درست نہیں ہو گا ،(7). آمر کی وطن سے سفر شروع کرنا،(8). حج کو فاسد نہ کرنا کیونکہ اگر حج بدل کو فاسد کر دیا تو یہ حج آمر کی طرف سے نہ ہو کر مامور کی طرف سے ہوگا ،(9). آمر کے حکم کی مخالفت نہ کرنا مثلا اس نے حج افراد کا حکم دیا ہے اور معمور نے اپنی مرضی سے حج قران یا حج تمتع کر لیا تو یہ حج آمر کی طرف سے نہیں ہوگا البتہ اگر خود آمر یا وصی حج تمتع یا قران کی اجازت دے تو اس کی گنجائش ہے(10). ایک سفر میں ایک ہے حج کا احرام باندھنا لہذا اگر معمور نے آمر کے احرام کے بعد اپنی حج کا بھی احرام باندھ لیا تو آمر کا حج ادا نہ ہوگا،(11). ایک احرام میں دو شخصوں کے نیت نہ کرنا لہذا اگر مثلا دو ادمیوں نے مامور کو حج بدل کا حکم دیا اور اس نے اس سفر میں دونوں امرو کی طرف سے نیت کر لی تو ان آمروں میں سے کسی کی طرف سے بھی حج ادا نہیں ہوگا(12). حج کا فوت نہ کرنا۔فقط واللہ اعلم ۔
لتاسع: وجود العذر قبل الاحجاج فلو احد جاء صحح ثم عجز لا يجزيه العاشر: ان يحج راكبا فلو حج ماشيا ولو بامره ضمن النفقة،(رد المختار،باب الحج عن الغير:١٧/٤ زكريا ديوبند)
منها: ان يكون المحجوج ان عاجزا عن الاداء بنفقة له مال.... ومنها: ان يحج راكبا حتى لو امره بالحج فحج ماشيا،يضمن النفقة ويحج عنه راكبا ثم الصحيح من المذهب فيمن حج عن غيره : الاصل الحج يقع عن المحجوج عنه ولهذا لا يسقط به الفرض عن المامور وهو الحج(الهنديه: ٣٢١/١،باب الربيع عشر: في الحج عن الغير،زكريا ديوبند)
وفي الزخيرة: ثم انما يسقط فرض الحج عن الانسان باحجاج غيره اذا كان يحج وقت الاداء عاجزا عن الاداء بنفسه ،... مات اما اذا زال عجزه بعد ذلك فلا يسقط عنه حج الفرض(بدائع الصنائع:٤٥٥/٢،نعيميه ديوبند)
سوال:-حج بدل کرنے والا اگر اپنی طرف سے حج کی نیت کر لے تو شرعا کیا حکم ہے؟
جواب:-حج بدل کرنے والا اپنی طرف سے حج کی نیت کر لے تو حج ادا نہیں ہوگا بلکہ جو حج بدل کرا رہا ہے اس کی جانب سے ادا ہوگا شرط یہ ہے کہ وہ آمر کی جانب سے حج ادا کرنے کی نیت کرے۔فقط واللہ عالم
ويشرط نية الحج عنه اي: من الأمر...(شامي: ١٨/٤ كتاب الحج اشرفيه ديوبند)
ويقع الحج بمفروض عن الامر على الظاهر من المذهب(در مختار مع شامي،كتاب الحج: ٢٠/٤ زكريا ديوبند)
سوال:-حج بدل کرنے والا اقسام حج میں سے کون سا حج کریں ؟
جواب:-حج بدل میں اصل یہ ہے کہ معمور کا حج میقاتی ہو یعنی وہ میقات سے حج کے احرام باندھے اور یہ بات حج افراد اور حج قران میں تو پائی جاتی ہے لیکن حج تمتع میں نہیں پائی جاتی اسی لیے بہت سے کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ حج بدل میں افراد یا قران ہی کا ہونا چاہیے حج تمتع سے حج بدل معتبر نہ ہوگا البتہ حج قران کے لیے آمر کی طرف سے اجازت ضروری ہے۔فقط واللہ اعلم
قالوا قيل بالقران لان في التمتع يسير مخالفا بالاجماع وانما العمرة عن الامر لانه امر بالانفاق في سفر الحج وقد اتفق في سفر العمرة لانه امر بحجه ميقاتيه وقد اتى بحجة مكية(البحر العميق: ٣١٢٣/٤)
قال الشيخ ابو بكر محمد بن الفضل رحمه الله تعالى اذا امر غيره بأن يحج عنه ينبغي ان يفوض الامر الى المامور فيقول: حج عني بهذا كيف شئت ان شئت حجة؟ وان شئت حجة وعمرة ،وان شئت قرانا والباقي في المال مني لك وصية كيلا يضيق الامر على الحاج ولا يجب عليه رد ما فصل الى الورثة(قاضيخان:٣٠٧/١)
١.سوال:-کیا حجر اسعد کا بوسہ لینا پتھروں کو چومنا نہیں ہے اگر ہے تو پھر حجر اسود کا بوسہ کیوں لیتے ہیں اور اگر نہیں ہے تو کیوں مدلل بیان کریں؟
جواب:-بوسہ لینا پتھروں کو چومنا نہیں ہے کیونکہ حجر اسود کو بوسہ لینا یہ محبت کی طور پر لیا جاتا ہے نہ کہ عبادت کے طور پر ۔فقط واللہ اعلم
عمر بن الخطاب يقبل الحجر ويقول اني لاقبلك واني لا اعلم انك الحجر لا تزرع ولا تنفع ولولا أني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبليك(سنن ابن ماجه:٢٩٤٢)
عن عمر انه جاء إلى الحجر فقبله،فقال اني اعلم انك حجر لا تنفع ولا تضر الآخ...(ابو داؤد:١٨٧٣،كتاب الحج)
١.سوال:-ہندوستان والوں کے لیے موجودہ وقت میں میقات کیا ہے ؟
جواب:-ہندوستان والوں کے لیے حج اور عمرہ کو جانے والے بزریہ بحری راستہ تو یہ یلملم یہ ہے البتہ ہوائی سفر میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہوائی جہاز کون سا راستہ اختیار کرے اگر وہ سمندر کے اوپر سے سفر کرتے ہوئے یمن سے گزرتے ہوئے جدہ جاتے ہیں تو ہندوستان کے لیے میقات یلملم ہوگا اگر ہندوستانی جہاز خلیجِ عمان سے ہوکر دبئی سے گزرکر یا خلیجِ فارس سے ہوکر بحرین سے گزر کر پھر ریاض سے ہوتاہوا جدہ جاتاہے تو ان کا میقات بھی ’قرن المنازل‘‘ اور اس کی محاذات ہوگا۔
واعلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جعل الحج والعمرة مواقيت وهي خمسة في حديث عيشة رضي الله تعالى عنها ذو الحليفة لاهل المدينة والجحفة لاهل الشام والقرن ولهل النجد ويلملم لاهل اليمن عراق(تاتارخانية: ٥٤٩/٣ زكريا ديوبند)
يلملم: اهل اليمن وتهامه والهند الآخر (فقه العبارات على مذهب الحنفي: ١٨٢/١)
يلملم ميقات اهل اليمن واهل الهندي والصين(عمدة الكلام من كلام خير الانام صلى الله عليه وسلم:١٤٩/١ كتاب الحج، دار تفافته العربية)
سوال:-اگر کوئی حاجی احرام باندھے بغیر میقات سے نکل جائے تو شرعا کیا حکم ہے؟
جواب:-اگر میقات سے حاجی احرام باندھے بغیر گزر جائے تو اس پر حج یا عمرہ کی ادائیگی واجب ہو گا اور احرام باندھنے کے لیے میقات کی طرف لوٹنا واجب ہے اگر نہ لوٹے تو گنہگار ہوگا اور دم بھی لازم ہوگا پھر اگر وہ واپس جا کر میقات احرام باندھ لے تو دم ساقط ہو جائے گا۔فقط واللہ عالم
ومن دخل اي من اهل الاافاق مكة او الحرم بغير احرام فعليه احد منسكين اي من الحج والعمرة ،وكذا عليه المحاوزة او العود(دره مختار: ٦٢٦/٣، ومثاله في البحر العميق: ٦١٨/٣)
ومن جاوزه ميقاته غير محرم ثم اتى ميقاتا آخر فاحرم منه اجزاه ..... ولا يجوز الافاق يدخل مكة بغير احرام ،نوى النسك أولا ولو دخل وعليه حجة او عمرة(الهنديه: ٢٨٥/١ باب الثاني، كتاب المناسك، زكريا دوبند)
افاقي مسلم مكلف اراد الدخول مكة او الحرام ولو لتجاره او سياحه وجاوز آخر مواقيته غير محرم ثم احرمه او لم يحرم ثم لزمه دم وعليه العود الى ميقاته الذي تجاوز الآخر (غنية الناسك :٦٠،ومساله في الهندية:٢٥٣/١)
سوال:-احرام گھر سے باندھنا افضل ہے یا میقات پر جا کر باندھنا افضل ہے ؟
جواب:-اگر ممنوعات احرام سے بچنے کا یقین ہو تو گھر سے احرام باندھنا افضل ہے اور نہ میقات پر باندھنا چاہیے۔فقط واللہ اعلم ۔
فان قدم الاحرام على هذه المواقيت جاز وهو الفضل اذا امن مواقعة محظورات والا في التاخير الى الميقات افضل ...(الهنديه: ٢٨٥/١ كتاب المناسك زكريا ديوبند)
والافضل الافاقي: ان يحرم من ديورة أهله ويكره ان يحرم بالحج قبل اشهر الحج(قاضيخان:١٧٤/٧ كتاب الحج زكريا ديوبند)
الافضل تقديم عليها لان اتمام الحج .... انما يكون افصل اذا كان يملك نفسه ان لا يقع في محظور (اشرف الهدايه: ٣٠٢/٣ كتاب الحج دار الاساعات)
سوال:-کن لوگوں کے لیے کون سی جگہ میقات ہے مفصل بیان کریں ؟
جواب:-میقات پانچ ہیں۔۔(1). ذو الحلیفہ: یہ اہل مدینہ اور وہاں سے گزرنے والوں کے لیے میقات ہے (2). جحفہ: اہل شام والوں کے لیے جحفہ ہے-(3). ذات العرق: یہ اہل عراق کے لیے میقات ہے۔(4). قرن المنازل: یہ نجد والوں کےلیے میقات ہے۔(5). یلملم: یہ اہل یمن کے لیے میقات ہے
ا خمسة كذا رومی فی الحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقت لاهل المدينه ذالحليفة لاهل الشامي الجحفة ولاهل النجد قرن ولاهل اليمن يلملم ولاهل العراق ذات عراق (بدائع :٢٧٠/٢ كتاب الحج زكريا دوبند)
علي بن عباس رضي الله تعالى عنه قال: مقتل رسول الله صلى الله عليه وسلم لاهل المدينة ذا الحليفة واهل الشامي الجحفة ،ولاهل النجد قرن المنازل، والاهل اليمن يلملم ،فهن لهن ولمن اتي عليهن من غيرهن لمن كان يريد الحج والعمرة فمن كان دونهن فمحلو من اهله وكذلك حتى اهل مكة يهلون منها(خاري شريف ٢٠٦)
عن انس بن مالك رضي الله تعالى عنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم وقت لاهل المدائن الاعقيق ولاهل البصرة ذات عرق ولاهل المدينة ذا الحليفة واهل الشام الجحفة (الطبراني في المعجم الكبير حديث:٧٦١،نجب الافكار:٣٨،حاشية انوار المناسك:٢٤١)
١.سوال:- کیا کوئی شخص ایام حج میں حرمین پہنچ جائے یا مکّہ ، مدینہ چلا جائے تو اس پر حج فرض ہوتا ہے یا نہیں؟
جواب:-کوئی شخص ایام حج میں حرمین پہنچ جائے تو اس پر حج فرض ہے بشرط کہ حج قریب ہو اور نہ اس پر فرض نہیں ہے یہ اس صورت میں ہے جبکہ یہ شخص فقیر ہو اور اگر مالدار ہو تو اس پر حج فرض ہے مطلقا خواہ حرمین پہنچے یا نہ پہنچے ۔فقط واللہ اعلم ۔
الفقير الافاقي اذا وصل الى ميقات فهوكالمكي (در المختار مع شامي: ٤٥٩/٣ كتاب الحج زكريا ديوبند)
فاذا بلغ مكة فهو يملك منافع بدنه فقد قدر على الحج بالمسمى وقيل زاد فوجب عليه الحج فاذا ارمي وقع عن حجة السلام (بدائع ٢٩٤/٢ كتاب الاحج الاشرفه ديوبند)
الفقير الافقى اذا وصل الى الميقات صارا كالمكي هل يجب عليه ان لم يقدر على الراحلة(غنية الناسك اشرفيه ديوبند)
١.سوال:-بینک یا کسی سے قرض لے کر حج کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب:-جب کسی کے پاس حج کرنے کے لیے حلال پیسہ موجود نہیں ہے تو شریعت نے سود پر قرض لے کر حج کو جائز پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ جب پیسہ وصول ہو جائے گا اس کے بعد آپ پر حج کو جانا لازم ہے مگر سودی قرض لے کر حج کرنا شرعا اجازت نہیں ہے کیونکہ بینک سود کے علاوہ قرض دے گا ہی نہیں۔فقط واللہ اعلم۔
رضي الله تعالى عنه قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم اكل الربا، وموكله، وكاتبه وشاهديه،قال: هم سواء (مسلم شريف ،باب لعن اكل الربا،نسخة الهنديه:٢٧/٢)
ان هريرة رضي الله تعالى عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ايها الناس ان الله لا يقبل الاطيبا الحديث (صحي مسلم الزكاة،بابو قبول الصدقة من الكتاب الطيب وتربيتهما نسخة الهنديه:١٢٧/١ بيت الافكار رقم: ١٠١٥)
لا بمال حرام ولو حج به سقط عنه الفرض لكنه لا تقبل عنه حجته (غنية الناسك، قديم: ٨،جديد ٢١)
سوال:-چندہ لے کر حج کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب:-غریب کمزور لوگوں پر نہ حج فرض ہے نہ لازم اور نہ ہی اس کو حج میں بھیجنے کے لیے چندہ جمع کرنا شرعی طور پر جائز ہے یعنی چند کر کے حج کرنا شراب جائز نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم ۔
ولو وهب له مال لحج به قوله سواء كان الوهم ممن تعتبر منه كالاجانب اولا تعتبر كالابوين والمولودين(فتح القدير،كتاب الحج دار الفكر مصري قديم:٤١٠/٢)(زكريا ٤١٦/٢)
ولله على الناس حج البيت من استطاع اليه سبيلا ومن كفر فان الله غني عن العالمين (صوره ال عمران: ٩٧)
وقد اختلف في حج الفقير فقاله اصحابنا والشافعي: لا حج عليه (احكام القران ،باب فرض الحج:٢٥/٢)
سوال:-اگر کوئی شخص طواف زیارت کے بغیر وطن واپس آ جائے تو شرعا کیا حکم ہے؟
جواب:-اللہ حافظ زیارت حج کے دوسرا رکن ہے اسے ادا کیے بغیر حج مکمل نہیں ہوگا اور شریعت میں اس کا کوئی بدل نہیں لہذا جو شخص طواف زیارت نہیں کرے گا اس طرح کے ایام نحر شروع ہونے کے بعد کوئی طواف نہیں کیا تو جب تک خود جا کر طواف زیارت نہ کر لے اس کا طواف ادا نہیں ہوگا اور آخری عمر تک اس کی ادائیگی ذمہ میں قرض رہے گی اور جب تک طواف زیارت نہ کر لے اس وقت تک بیوی سے صحبت بوس و کنار اس کے لیے حرام ہے ہاں البتہ ایام نحر شروع ہونے کے بعد کوئی دوسرا طواف کیا تو یہ طواف طواف زیارت کے قائم مقام ہو جائے گا۔فقط واللہ اعلم ۔
وحل النساء اي : بعد الركن منه وهو منه .... ولو لم يطف اصلا لا يحل له النساء وان طلع ومضت سنون باجماع وكذا في الهنديه(شامي: ٦١٤/٣ طواف الزيارة اشرفيه ديوبند )
لو ترك طواف الزيارة كله او اكثر فهو محرم ابدا في حق النساء حتى يطوف فعليه حتما ان يعود لذلك الاحرام ويطوفه(غنية الناسك:٣٧٣)
سوال:-مال حرام سے حج کرنا درست ہے یا نہیں اگر درست نہ ہو تو پھر بھی کوئی مال حرام سے حج کر لے تو اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہو جائے گا یا نہیں اگر ساقط ہو جائے تو وہ گنہگار ہوگا یا نہیں اور وہ حج مقبول ہوگا یا نہیں ؟نیز کوئی ایسی متبادل صورت ہے کہ جس سے حج مقبول بھی ہو جائے اور مال حرام کا ارتکاب بھی لازم نہ آ ے؟
جواب:-اگر مال حرم سے حج کرنا درست نہیں ہے پھر بھی کوئی مالے حرم سے حج کر لے تو اس کے ذمہ سے فرضیت ساقت ہو جائے گا لیکن گنہگار ہوگا کیونکہ مال حرام سے حج کرنا حرام ہے اور اس سے حج مقبول نہیں ہوتا ہے اور ثواب بھی نہیں ملتا ہے اس شخص کو چاہیے کہ کسی سے قرض لے کر حج کرنے جائے اور واپسی کے بعد جائز طریقے سے حلال روزی کما کر اس سے قرض ادا کرے تو حج مقبول بھی ہو جائے گا اور گناہ کا ارتکاب بھی نہ ہوگا البتہ اگر مال حرام سے حج کر لیا تو بعد میں توبہ کر لے اور اگر کسی کا حق لے رکھا ہو تو اس کو واپس کر دے۔فقط واللہ اعلم ۔