سوال:-عمرہ میں تین ارکان ہیں: (1)طواف(2) سعی(3)حلق ان تینوں کے درمیان میں ترتیب واجب ہے جب طواف کا اعادہ کیا جا رہا ہے اور سعی کا اعادہ نہ کیا جائے تو بظاہر ترتیب واجب نہیں رہی تو جن عبارتوں میں اعادہ سعی کی ضرورت نہیں کہا ہے اس میں مسئلے کی کیا حل ہے؟

الجواب:-جن فقہاء نے اعادہ سعی کو غیر ضروری قرار دیا ہے ان کے نزدیک اصل طواف معتد بہ طواف اول ہی ہے جس کو حالت حدث میں کیا گیا ہے اور طواف باقی طواف اول کے لیے جابر ہے لہذا طواف سعی حلق میں کوئی فرق نہ ائے گا۔

بخلاف ما إذا لم بعد فإنه لا يوجد انفساخ الأول والجواب منع الحصر بل الطواف الثاني معتد به جابرا كالدم والاول معتد به في حق الفرض وهذا اسهل من الفسخ خصوصا وهو نقصان لسبب الحدث الأصغر (فتح القدير: ٥٢/٣،زكريا ديوبند)

انما الشرط في السعي أن يأتي على اثر طواف معتد به وطواف المحدث بهذه الصفة معتد به الاتري أنه يتحلل به(البحر العميق: ١١٣٤/٢)

أن المعتبر الأول والثاني جابر له فلا تجب اعادة السعي(حاشية ابن عابدين:٢٣٣/٧)

٦.سوال:-رمی کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:-رمی کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب حجاز اکرام مینا پہنچیں گے تو پہلے اور دوسرے جمرہ کو چھوڑ کر سیدھا تیسرے جمرہ یعنی جمرہ عقبہ کے پاس جا کر اس سے الگ الگ سات کنکریاں ماری جائے ١٠ ذی الحجہ کو رمي كا مسنون وقت طلوع افتاب سے لے کر زوال تک ہیں پھر زوال سے مغرب تک مباح وقت ہے گیارویں اربارویں ذوالحجہ کو تینوں جمرات کو ترتیب سے الگ الگ سات کنکریاں ماری جائے ان دونوں میں رامی کرنے کا مسنون وقت زوال افتاب سے غروب افتاب تک ہے اور غروب افتاب سے صبح صادق تک مکروہ وقت ہے افضل یہ ہے کہ رمی کرتے وقت اس طرح کھڑا ہو کر منی کی وادی دائے جانب اور مکہ معظمہ پائے جانب ہو اور جمرہ سامنے ہو اور رامی دائیں ہاتھ سے کرنا مسنون ہے کنکری کو انگوٹھیوں اور شہادت کی انگلی سے پکڑ کر ماننا مستحب ہے رامی کرنے والا جمرات سے پانچ ہاتھ کے فاصلے پر کھڑا ہو اسے کم فاصلہ مکروہ ہے اور ہر کنکری مرد وقت تکبیر کہے یا کوئی تسبیح پڑھے۔

ثم ياتي ثمرة العقبة قبل الزوال فيرميها بسبع حسيات في بطن الوادي من اسفل الى اعلى مثل حصيات الخذف ويكبر مع كل حصاة... (الهنديه: ٢٩٥/١ كتاب المناسك، باب الخامس،اشرفيه ديوبند)

ثم ياتي ثمرة العقبة فيرمى من بطن الوادي سبعا ويكبر مع كل حساة ولا يقدم بعدها في المشهور(قاضيخان:١٨١/٧ كتاب الحج، اشرفيه ديوبند)

وبعد الزوال الثاني النحر رمي الجمار الثلاث ويبدا استنانا بما يلي مسجد الخيف ثم بما يليه الوسطى ثم بالعقبة سبعا سبعا...(شامي: ٥٤٠/٣-٥٤١،كتاب الحج زكريا ديوبند)

٧.سوال:-سعی کا طریقہ کیا ہے؟مرد اور عورت دونوں کے رمل اور سعی کے طریقہ میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟

جواب:-طواف سے فارغ ہو کر حجرہ سواد کی استلام کر کے باب الصفا کے مسجد سے باہر نکلے اس کے بعد سب سے پہلے صفا پر چڑھے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعائیں مانگے اور تکبیر اور تحلیل پڑھ کر سائی شروع کریں جب ہرے کھمبے کے پاس پہنچ جائے تو تو دوڑنے کے قریب تیز چلے جب مروا پر پہنچ جائے گا تو ایک چکر مکمل ہو جائے گا پھر اسی طرح مروا سے صفا پر ائے گا تو دوسرا چکر پورا ہو جائے گا ایسے ہی ساتھ چکر مروا پر جا کر پورے ہو جائے گی اور اخر میں قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اللہ تعالی سے مراد مانگے اور تدبیر و تحلیل اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور اپنے لیے خصوصی دعا کرتے رہے نیز رمل مردوں کے ساتھ خاص ہے عورتوں کے حق میں نہ رمل مسنون ہے اور نہ ہی سعی ۔فقط واللہ اعلم

ان اراد السعي واستلم الحجر وكبر وحلل وخرج من باب الصفا ندبا فصعد الصفا بحيث يري الكعبة مستقبل البيت و كبر و صلي على النبي صلى الله عليه وسلم ورفع يديه و داعا بما شاء ثم ماشي الصفا والمروة (در المختار مع شامي:٥١٣/٣-٥١٥،كتاب الحج زكريا ديوبند)

ثم يخرج الى الصفا من اي باب شاء ويسعي بين الصفا والمروة(قاضيخان:١٧٨/٧-١٧٩،كتاب الحج، اشرفيه ديوبند)

ثم إذا أراد اي يسعي بين الصفا والمروة عاد الى الحجر الاسود فاستلمه إن استطاع(الهنديه: ٢٩٠/١ كتاب المناسك، باب الخامس ،اشرفيه ديوبند)

الله عالم

٠.سوال:-کعبۃ اللہ پر پہلی نظر کہاں سے اور کس طرح ڈالنا چاہیے؟

جواب:-کعبۃ اللہ پر پہلی نظر مسجد حرام سے اس طرح ڈالنا چاہیے کہ مسجد حرام میں داخل ہونے کے بعد جیسے ہی بیت اللہ شریف پر پہلی نظر پڑھے تو تلبیہ اور تکبیر اور کلمہ پڑھتے ہوئے ہاتھ اٹھائے اور نہایت عاجزی کے ساتھ دعا یا جو چاہے اپنی زبان سے دعا مانگنی چاہیے کیونکہ یہ دعا کی قبولیت کا بہترین وقت ہے۔فقط واللہ عالم۔

بذكر الله تعالى كيف بدا له تضرعا وان تبرك بالمنقول منها عن النبي صلى الله عليه وسلم وعن السلف من الصحابة والتابعين..(غنية الناسك:٩٧)

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فمن دخل البيت دخل في حسنة وخرج من سيئة وخرج مغفورا له (السنن الكبرى للبيهقه:١٥٨/٥)

ان ابن عباس رضي الله تعالى عنه قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل الله كل يوم مئاة وعشرين ومثله رحمه ستون منها للطوافين و اربعون للعاكفين حول البيت وعشرون منها للناظرين الى البيت(المعجم الكبير للتبراني:١٠٢/١١)

٠.سوال:-حج بدل کسے کہتے ہیں اور اس کے شرعی حکم کیا ہے؟

جواب:-عاقل بالغ اور مکلف ادمی کا کسی شرعی معذور شخص کی جانب سے اس کے حکم سے ارکان حج ادا کرنے کو حج بدل کہتے ہیں اور اس کے شرعی حکم یہ ہے کہ حج بدل کا پورا خرچ امیر پر لازم ہے اور حج بدل کرنے والا امیر کے گھر سے یا اس کے وطن سے حج کے لیے سفر حج شروع کرے گا اور امیر کی طرف سے حج کی نیت کرے گا۔فقط واللہ اعلم۔

الحج الفرض تقبل النية عند العجز فقط لكن بشرط دوام العجز إلى الموت ويشرط النية الحج عنه ويشرط الامر(در المختار مع شامي:١٤/٤ زكريا ديوبند)

فقال بعضهم: ان أصل يقع عن المخرج هي وبذلك تشهد الأخبار الوارده في الناب منها حديث الخصمية المتقدم فانها قالت: افاحج عنه وقال صلى الله عليه وسلم :نعم. (بحر العميق: ٢٢٥٢/٤-٢٢٥٣ المكتبه المكيه)

٦٦.سوال:-میقات کسے کہتے ہیں اور اس کا حکم کیا ہے؟

جواب:-میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ پر جانے والے لوگ احرام باندھتے ہیں یا جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہوتا ہے اور میقات کا حکم یہ ہے کہ میقات سے احرام باندھنا ضروری ہے۔فقط واللہ اعلم۔

والميقات: اي المواضيع التي لا يجاوزها مريد مكة الا محرما (شامي: ٤٧٨/٣-٤٧٩،كتاب الحج، زكريا دوبند)

الميقات التي لا يجاوز ان يجاوزها الانسان الا محرما (الهنديه: ٢٨٥/١ باب ثاني في المواقيت، كتاب المناسك، زكريا دوبند)

المواقيت التي لا تجاوزها الانسان الا محرما (اشرف الهدايه: ١٩٩/٣)

٣.سوال :-جمرہ عقبہ کے اندر پتھر مارنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:-دائیں ہاتھ سے پتھروں کو ایک ایک کر کے مارا جائے اور افضل یہ ہے کہ پتھر مارتے وقت اس طرح کھڑا ہو کے منی کی وادی دائے جانب ہو اور مکہ معظمہ بائیں جانب ہو اور جمرہ سامنے ہو مارتے وقت طہارت کے ساتھ ہو رمی سے پہلے دعا پڑھنا (اللہم هذه حصياتى الآخر..) اور کنکریاں مارتے وقت الله اكبر اللهم أدخر عني الآخر..) پڑھیں اور رمی کھڑے ہو کر کرنا اور پتھروں کو انگلیوں کے سروں سے مارا جائے۔فقط واللہ اعلم۔

واجمع العلماء على انه من حيث رماها جاز، سواء استقبلها عن يمينه او يساره الآخر.. ويجعل مكة على يساره ومنى على يمينه واستقبل الجمرة الآخر..... واذا فرغ من الرمي لا يقف من الدعاء عند هذه الجمرة الى ايام كلها بل ينصرف داعيا (غنية الناسك :١٧١-١٧٢)

يجعل مكة على يساره ومنى على يمينه واستقبل الجمرة الآخر... يرمي يبدا وايد بيده اليمينى( بحرالعميق: ١٦٦٨/٣-١٦٢٢ كتاب الحج)

ورمي جمرة العقبة من بطن الوادي أي بأن تجعل الكعبة عن يسارك ومنى عن يمينك .... سبعيا أي: سبع مرات يسبع حصيات الو رماها دفعه واحدة كان عن واحده..... أي برؤوس الاصابع... مكبره لكل حصاة.. الله اكبر (سامي: ٦٠٦/٣-٦٠٧ اشرفيه ديوبند)

١.سوال:-عمرہ کے ارکان کتنے ہیں اور کیا کیا ہیں؟

جواب:-عمرہ کا رکن اعظم بیت اللہ شریف کا طواف ہے اور اس طواف میں کم از کم چار چکر فرض ہے باقہ واجب ہے بعض فقہا نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو بھی عمرہ کا رکن قرار دیا ہے لیکن اکثر فقہا کے نزدیک یہ سعی فرض نہیں بلکہ واجب ہے اور اسی طرح بعض اصحاب کہتے ہیں کہ احرام بھی عمرہ کی رکن ہے لیکن اصح قول کے مطابق یہ رکن نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

فلاحرام شرط ومعظم الطواف ركن وغيرها واجب.. (غنية الناسك: ٣١٦/١)،كذا في الهنديه: واما ركنها الطواف(٣٢١/١٠ زكريا ديوبند)

فالاحرام الشرط ،معظم الطواف ركن، وغيرهما واجب والمختار،وشر بقوله "هو والمختار"الى ما في التحفت حيث جعل السعي ركنا كالطواف قال في شرح اللباب: وهو غير مشهور في المذهب(شامي: ٣٧٦/٣ كتاب الحج، زكريا ديوبند)

واما الاحرام فقال بعض اصحابنا وهو ركن في العمرة : قال: والاصح وانه ليس بركن بل هو شرط لصحة الاداءها اما ركنها.... والركن فيه أربعة اشراط كما تقدم في الطواف(البحر العميق: ٢٠٢١/٤)

سوال: حج اور عمرہ کے جنایت میں سے کسی جنایت کا ارتکاب کر لیں تو شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-اگر وہ بالقصد بلا عذر جرم جنایت کر لیں تو کفارہ بھی واجب ہے یعنی دم لازم ہے اور گنہگار ہوگا اور اگر کسی عذر کی بنا پر جنات کرے تو کفارہ کافی ہے جرم میں کفارہ بہرحال لازم ہے یاد سے ہو یا بھول چوک سے ہو لیکن جان بوجھ کر جنایت کا ارتکاب کرے تو محض کفارہ سے کافی نہیں ہوگا بلکہ توبہ بھی کرنا پڑے گا۔فقط واللہ اعلم

جزاوي جنايات اما دم حتما اذا ارتكب محظور كاملا بلا عذر-(غنية الناسك:٢٣٨ ومثله في شرح نقايه: ٢١٠)

بسبب الاحرام او الحرام وقد يجب بها دمان او دم او صام او صدقة ففصلها الواجب دم ولو ناسيا الاخ..(شامي: ٥٧١/٣-٥٧٢،كتاب الاحج، باب الجنايات زكريا ديوبند)

نوع :هوطيب محض معد للطيب به كالمسك والكافور ،والعنبر وغير ذلك،وتضرب به الكفاره على اي وجه استعمل حتى قالوا: لو دواى عنه بطيب تجب عليه الكفارة(الهنديه: ٣٠٤/١ كتاب المناسك باب الثامن: في الجنايات زكريا ديوبند)

سوال:-جنایت حج اور عمرہ میں صدقہ کا کیا مطلب ہے بہ وضاحت بیان کریں؟

جواب:-صدقہ عموما اس سے مراد ایک صدقہ فطر کی مقدار ہوتی ہے یعنی ایک صاع جو، کہجور، کشمش وغیرہ یا نصف صاع گہو یا اس کی قیمت لیکن یہ اصطلاح عام ہیں کیونکہ بعض صورتوں میں صدقہ کی مقدار اسے کم و بیش بھی ہوتی ہے۔فقط واللہ اعلم

ان كان اقل من ذلك فعليه صدقه وفسر الكرخي الصدقة هاهنا،فقال: نصف صاع من بر قال: وكذلك كل صدقة في الدوام غير مقدرة وتفسيرها هذا الا في قتل القمل والجراد(تاتارخانية:٥٧٤/٣،كتاب الحج الفصل الخامس زكريا ديوبند)

وكل صدقة في الاحرام غير مقدرة وهي نصف صاع من بر الا ما يجب بقتل القمل والجراد(شامي: ٥٧٢/٣ كتاب الحج،باب الجنايات زكريا ديوبند)

وحيث ما اطلق الصفقة في الجنايات الاحرام في النصف صاع من بر او صاع من غيره الا في الجزاء اللبس والطيب والحلق(غنية الناسك:٣٧٧،باب الجنايات)