١.سوال:-اگر امام کی غیر موجودگی میں داڈھی کاٹنے والے نے نماز پڑھای تو داڈھی والے کی نماز ہوگی یا نہی؟

الجواب وبالله التوفيق=
واضح رہے کہ داڑھی آنے کے بعد کٹوانے یا منڈوانا یا ایک مشت سے کم رکھنا گناہِ کبیرہ اور حرام ہے، داڑھی منڈوانا یا کتروانافسق ہے۔ جو شخص داڑھی کاٹ کر ایک مشت سے کم کرے یا مونڈے ایسے شخص کو امام بنانا مکروہِ تحریمی ہے، اگرتوبہ کرلے تو پھر جب تک داڑھی ایک مشت نہ ہو جائے اس وقت تك وہ شخص امامت کا اہل نہیں ہے۔
لہذا صورت مسؤلہ میں داڑھی والے حضرات کی نماز درست ہو جائے گی، تاہم بہتر یہی ہے کہ کوئی داڑھی والا ہی نماز پڑھائے -فقط

عن ابي هريرة رضي اللّه عنه ان رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم قال صلوا خلف كل بر وفاجر (سنن دارقطنی ٤٤/٢)

صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة. (الدرالمختار ٤١٨/٢)

علماء دین اس سلسلہ میں کیا فرماتے ھے کہ بریلوی کہ پیچھے نماز پڑھنا کیسا ھے .کیا اعادہ ضروری ھے .اگر ہاں تو اس بندہ کے بارے میں کیا مسلہ ھے جسنے لاتعداد مرتبہ بریلوی امام کی اقتداء میں نماز پڑھی .؟

الجواب وباللہ التوفیق

واضح رہے کہ بریلوی امام کے عقائد اگر حدِ کفر تک نہیں ہے، تو اسکے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے اور اگر حدِ کفر کو پہنچ گیے تو بغیر تجدید ایمان کے اسکے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں ہے ، نیز جن صاحب ان امام کے پیچھے نماز پڑھی ہے ان کی نماز شرعاً درست ہے اسکے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے،
البتہ بہتر یہی ہے کہ حنفی امام کے پیچھے نماز ادا کی جاے کیونکہ بریلوی عالم کی امامت مکروہ تحریمی ہے، فقط_
( مستفاد از: فتاوی قاسمیہ ٥٢٠/٦)_(فتاوی محمودیہ٩٦/٢)

عن ابي هريرة رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال صلوا خلف كل بر وفاجر(سنن دارقطنی٤٤/٢)

وتجوز الصلاۃ خلف كل بر وفاجر(شرح عقائد/١٥٩)

١. ایک بچہ کا عقیقہ والے دن نام رکھا گیا اب تین سال بعد نام کے معنی اچھے نہ ہونے کی وجہ سے اس نام کو تبدیل کیا جارہا ہے، تو کیا تبدیل کرسکتے ہیں؟؟

الجواب وبالله التوفيق:
والدین کو اولاد کے لیے اچھے نام کا انتخاب کرنا چاہئے، البتہ اگر کسی وجہ سے ایسا نام رکھ دیا گیا ہو جو معناً اچھا نہ تو اسے تبدیل کرسکتے ہیں۔

عن عائشة أن النبى صلى الله عليه وسلم: كان يغير الإسم القبيح. (سنن الترمذي/أبواب الأدب/باب ما جاء في تغيير الأسماء، ١١١/٢، ط: الأشرفية ديوبند)

کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئ ایسی حدیث بھی ہے جس میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ جس کی نماز قضاء ہوئ ہو اور تعداد معلوم نہ ہو تو وہ شخص رمضان کے آخری جمعہ کو چار رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ۱۵مرتبہ سورہ کوثر اور ۴مرتبہ آہۃ الکرسی پڑھے تو اسکی اگر سات سو ۷۰۰نماز بھی قضاء ہو تو یہ اسکے لئے کفارہ بن جائےگی ؟؟؟

الجواب وبالله التوفيق:
مروجہ قضائے عمری بدعت ہے، نہ قرآن میں اس کا ثبوت ہے اور نہ حدیث میں اس بارے میں کوئی روایت ہے، نہ صحابہ کے آثار ہیں ،نہ ہی تابعین ،تبع تابعین اور بزرگان دین کے عمل میں اس کا کہیں کوئی تذکرہ ہے اور ائمہ ار بعہ کے مذہب کی معتبر کتابوں میں بھی اس کا کوئی ذکر اور نام و نشان نہیں ہے۔
اس بارے میں جو روایت پیش کی جاتی ہے، وہ موضوع, من گھڑت ہے۔

مستفاد از:
فتاویٰ محمودیہ، ٢٩٦/٨،ط: ادارۃ الفاروق
کفایت المفتی، ٢٣٢/٤، ط: ادارۃ الفاروق

حدیث من قضیٰ صلٰوۃ من الفرائض فی آخر جمعۃ من رمضان کان جابرًا لکل صلٰوۃٍ فائتۃٍ فی عمرہٖ الٰی سبعین سنۃً باطل قطعًا لانہٗ مناقضِ للاجماع علٰی ان شیئًا من العبادات لایقوم مقام فائتۃٍ سنواتٍ اھ۔ (الموضوعات الکبیر:ص:356، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

من صلى في آخر جمعة من رمضان الخمس الصلوات المفروضة في اليوم والليلة قضت عنه ما أخل به من صلاة سنته.هذا: موضوع لا إشكال فيه ۔ (الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ،ص:54،ط:دارالکتب العلمیۃ)

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: عورت کے لیے پیتل کی انگوٹھی پہننا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب و بالله التوفيق
عورتوں کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا بالاتفاق جائز ہے ۔۔ اور دوسری دھات یعنی لوہے ،پیتل وغیرہ کی پہننا مکروہ ہے ۔۔
کتاب النوازل ۔۔ جِلد/۱۶-۴۶۱

قال العلامة التمرتاشي : ولا يتختم بغيرها كحجر وذهب وحديد وصفر .(تنوير الابصار ) و قال ابن عابدين تحت قوله :(فيحرم بغيرها ) وفي الجوهرة . والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجال والنساء. (شامي . كتاب الحظر و الاباحة .جلد٩/٥١٨

١.سوال:-سنن مؤکدہ میں تحیۃ المسجد یا کسی بھی نفل نماز کی نیت کرسکتے ہیں کیا ؟؟؟

الجواب و بالله التوفيق
مسجد میں داخل ہونے کے بعد آپ فوراً جو بھی نماز پڑھیں خواہ فرض ہو سنت ہو یا نفل اُس کے ضمن میں تحيتہ المسجد ادا ہو جاتی ہے ۔۔ اور بہتر ہے کہ باقاعدہ دل میں نیت کر لے ۔۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں نفل یا سنت نماز میں تحیتہ المسجد کی نیت کر سکتے ہیں ۔۔
کتاب المسائل/1-496
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 18):

"(ويسن تحية) رب (المسجد، وهي ركعتان، وأداء الفرض) أو غيره، وكذا دخوله بنية فرض أو اقتداء (ينوب عنها) بلا نية. قال في النهر : وينوب عنها كل صلاة صلاها عند الدخول فرضا كانت أو سنة ..(شامي زكريا /٢_٤٥٩) أحسن الفتاوى/٣-٤٨١

کیا کلیجی کو آپ صلی اللہ علیہِ وسلم نے ناپسند فرمایا اور کیا کبھی آپ نے کلیجی کھائی ہے رہنمائی فرمائیں۔

الجواب وبالله التوفيق:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کلیجی کو ناپسند نہیں فرمایا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کلیجی کھانا ثابت ہے۔

عن ابن بريدة، عن أبيه قال: كان رسول الله صلى عليه وسلم إذا كان يوم الفطر لم يخرج حتى يأكل شيأ وإذا كان الأضحى لم يأكل شيأ حتى يرجع وكان إذا رجع أكل من كبد أضحيته. (السنن الكبرى للبيهقي/كتاب صلاة العيدين/باب من أكل يوم النحر قبل الصلاة، ٤٠١/٣، دار الكتب العلمية بيروت)

عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أحلت لنا ميتتان ودمان، الميتتان: الحوت والجراد، والدمان: الكبد والطحال. (مرفات المفاتيح/كتاب الصيد والذبائح/باب ما يحل أكله وما يحرم، ٥٧/٨، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

ٹیک یا سہارا لگاکر نماز پڑھ نے سے نماز درست ہوجائیں گی یانہیں ؟ مدلّل جواب مرحمت فرمائیں؟

الجواب وبالله التوفيق»
واضح رہے کہ بلاعذر ٹیک لگاکر فرض نماز ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے، البتہ ضرورت یا عذر مثلاً بیماری یا چکر وغیرہ کی وجہ سے ٹیک لگائی جائے تو منع نہیں ہے، اور نفل نماز بلاعذر ٹیک لگاکر ادا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے، اور اگر عذر ہو مثلاً تھکاوٹ وغیرہ ہو تو بلاکراہت جائز ہے -فقط

(وللمتطوع) أي: المتنفل (أن يتكىء على شيء) أي شيء كان كعصاً ونحوها (إن أعيا) أي: تعب وقد جاء لازمًا ومتعديًا يقال: أعيا الرجل في المشي إذا تعب وأعياه الله والمراد اللازم، قيد بالإعياء لأن الاتكاء بدونه مكروه وقيل: لا يكره لأن القعود بغير عذر لا يكره فالاتكاء أولى وعندهما لما لم يجز القعود كره الاتكاء إلا أن الأصح ما قال فخر الإسلام: إنه يكره الاتكاء بلا عذر دون القعود لجواز أن يعد الاتكاء إساءة أدب دون القعود إذا كان على هيئة لا تعد إساءة أدب.(الدر المختار مع رد المحتار ١٠٢/٢)

أخرج ابن أبي شیبۃ عن الحسن أنہ کان یکرہ أن یعتمد الرجل علی الحائط في صلاۃ المکتوبۃ إلا من علۃ، ولم یر بہ في التطوع بأساً۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ / باب في الرجل یعتمد علی الحائط وہو یصلي ۳؍۵۵۱)

١.سوال:-گھر پر پیتل کے برتن ہیں کچھ برتن استعمال ہوتے ہیں اور کچھ برتن کئی سال سے ایسے ہی رکھے ہوۓ ہیں؟؟ تو اب ان میں سے کن برتنوں پر زکوٰۃ واجب ہے رہنمائی فرمائیں۔

الجواب وبالله التوفیق
صورت مسئولہ میں کسی بھی برتن پر شرعاً زکوٰۃ واجب نہیں، کیونکہ برتن وغیرہ حوایج اصلیہ میں داخل ہے –فقط
(مستفاد از: فتاویٰ قاسمیہ ٢٧٦/١٠)

 

وليس في دوري السكنى و ثياب البدن واثاث المنزل ودواب الركوب وعبيد الخدمة و سلاح الاستعمال زكوة لأنها مشغولة بالحاجة الأصلية وليست بنامية اصلا ً(الهداية١٨٦/١)

وبهذا الشرط خرجت الثياب التي لا تراد لتجارة سواء صاحبها كان محتاجا أو لآ و اثاث المنزل والحوانيت والعقاراة وا الكتب لاهلها أو غير اهلها (الموسوعة الفقہیہ٢٤١/٢٣)

ومنها فراغ المال... و كذا طعام اهله وما يتجمل به من الاواني إذ لم يكن من الذهب والفضة(فتاوی عالمگیری ١٧٣/١)

سوال یہ ہے کہ ایک کمپنی ہے جس کے سامان کا ہم کو پرچار کرنا ہوگا اگر وہ سامان کوئی ہم سے خریدتا ہے تو ہمیں اس میں سے 80%کیا ایسا کرنا درست ہے دوسری بات ایک کورس ہوتا ہے جس میں کمپنی اپنے کام کو بتاتی ہے اگر ہم کسی کو اس کمپنی میں جوڑ دے تو اس میں بھی 80% ملے گا تو کیا ایسا کرنا درست ہے ؟

اسمہ تعالیٰ
الجواب وباللہ التوفیق:
سائل سے زبانی معلوم ہوا کہ پہلی صورت میں صرف وہ کمپنی کا پرچار کرنے پر اجرت اور عوض لے رہا ہے اسی کے مطابق جواب لکھا جا رہا ہے تو ایسی صورت میں اس کے لیے کمپنی کا پرچار کرنے پر اجرت لینا درست ہوگا بشرط کہ عرفا یا حقیقتا اجرت کا تعین ہو چکا ہو۔
(۲), کمپنی سے کسی شخص کو جوڑنے پر متعینہ کمیشن لینا درست ہے؛ لیکن اس کے بعد جو ممبر بنیں گے تو ان کے عمل پر پہلے والے شخص کے لیے اجرت لینا درست نہ ہوگا ؛ کیوں کہ اُس میں پہلے والے شخص کا براہ راست کوئی عمل دخل نہیں ہے اور اُن کا پہلے شخص کی ممبری سے وابستہ ہونا محض ایک دلالت اور رہنمائی ہے، جس پر کسی اجرت کا استحقاق نہیں ہوتا۔

وفي البزازية والولو الجية: رجل ضل له شيء فقال من دلني على كذا فله كذا فهو على وجهين : إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر. وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه إن دللتني على كذا فلك كذا، إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء. (رد المحتار، كتاب الإجارة / باب فسخ الإجارة ١٣٠/٩ زكريا)

الاجرۃ انما تكون بمقابلۃ العمل . (رد المحتار ۳۰۷/۴،كتاب النكاح ، باب المهر، زكريا) فقط والله سبحانه وتعالى اعلم

ایک شخص کی ٹرک سے ٹکر ہوگئی وہ بہت زخمی ہوگیا اسپتال میں بھرتی کیا گیا تقریباً دو گھنٹے زندہ رہا اور پھر اس کا انتقال ہوگیا اور اسپتال میں کافی رقم خرچ ہوئی جو اس کے بھائی نے خرچ کی ، تو اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس کے بھائی کو یہ پیسے اس کے ترکہ سے ملیں گے یا نہیں ملیں گے ؟

الجواب وبالله التوفيق:
بھائی نے علاج پر جو رقم خرچ کی ہے وہ بطورِ قرض تھی یا بطورِ امداد؟ بھائی سے اس کی تحقیق کی جائے، اگر بطورِ قرض تھی تو اسے ترکہ سے وصول کیا جائے گا، اور اگر بطورِ تعاون تھی تو اسے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس حسنِ سلوک كا بدلہ آخرت میں ملے گا، ان شاءاللہ۔

(١): سلمان بن عامر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم: الصدقة على المسكين صدقة، وعلى ذوي الرحم ثنتان: صدفة، وصلة. (الترغيب والترهيب من الحديث الشريف/كتاب الصدقات/الصدقة على المسكين صدقة وعلى القريب صدقتان، ٣٧/٢، ط: دار إحياء التراث العربي)

فلو وهب لذي رحم محرم منه لا يرجع لحديث الحاكم مرفوعاً "إذا كانت الهبة لذي رحم محرم لم يرجع فيها". (البحر الرائق/كتاب الهبة/باب الرجوع في الهبة، ٥٠٠/٧، ط: دار الكتب العلمية بيروت

ثم تقدم ديونه التي لها مطالب من جهة العباد. (الدر المختار مع رد المحتار/كتاب الفرائض، ٤٩٤/١٠، ط: دار عالم الكتب الرياض)

نیم کے پتوں میں پکے ہوئے پانی سے وضو کرنا درست ہے یا نہیں ؟

الجواب وباللہ التوفیق:
نیم کے پتوں سے پکے ہوئے پانی کی رقت و سیلان اگر علی حالہ باقی رہے جیسا کہ عامہ ایسا ہی ہوتا ہے تو ایسے پانی سے وضوکرنا درست ہے اگر چہ پانی کا رنگ مزہ بدل جائے، ورنہ نہیں۔

وكذا الوطبخ بالماء ما يقصد به المبالغة في التنظيف كالسدر والحرض وان تغير لونه ولكن لم تذهب رفته یجوز به التوضوء. (فتاوی خانیة علی ہامش الفتاوى الهندية قدیم ١ / ١٦ كتاب الطهاره الباب الثالث في المياه ،فصل فيما لا يجوز به التوضوء. ) فقط والله سبحانه وتعالى اعلم۔

١.سوال:کسی سے ناراضگی ہو یا بول چال بند ہو جایے تو اسکو منانے کی حد کیا ہے…؟

الجواب وبالله التوفيق:
حدیث شریف میں ہے کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلق کی اجازت نہیں ۔۔ الا یہ کہ کوئی شرعی وجہ ہو ۔۔
اور اس میں بھی بہتر اور افضل شخص اُس کو کہا گیا ہے جو ابتداء بالسلام کرے ۔۔ اور یہ بات بھی مذكور ہے کہ اگر وہ اُس سے ملا اور تینوں مرتبہ سلام کیا اور اُس نے جواب نہیں دیا ۔۔ تو اِبتدا با السلام والا ماخوذ نہ ہوگا ۔۔
باقی آپ جائز کوشش کرتے رہیں منانے کہ اگر مان جائیں تو فبہا و نعمت ۔ اور پیٹھ پیچھے دعاء بھی کرتے رہیں اُن کے لئے۔ واللہ اعلم بالصواب

عن عائشة رضي الله عنها، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يكون أي لا يجوز لمسلم أن يهجر مسلماً فوق ثلاث أي ثلاثة أيام، فإذا لقيه سلم عليه ثلاث مرار كل ذلك لا يرد عليه السلام، فقد باء أي رجع الذي لا يرد السلام بإثمه أي بإثم المسلم. (بذل المجهود/كتاب الأدب/باب: في هجرة الرجل أخاه، ٣٢١/١٣، ط: دار البشائر الإسلامية)

سوال :- ایک شخص نے صدقہ کے لیے کچھ رقم صدقہ کی نیت سے الگ نکال کر رکھ دی، پھر ایک شخص کو وہ رقم بطورِ قرض دیدی اور اس سے کہا کہ غریب کو یہ رقم دھیرے دھیرے دیتے رہنا تو شرعاً اس کا کیا حکم ہے ؟ کیا صدقہ کے لیے الگ رکھی ہوئی رقم کو بطورِ قرض کسی کو دے سکتے ہیں؟

الجواب وبالله التوفيق:
ذکر کردہ صورت میں صدقہ کے لیے الگ رکھی ہوئی رقم کس شخص کو بطورِ قرض دینا جائز ہے۔

لا يشترط الدفع من عين مال الزكاة، ولذا لو أمر غيره بالدفع عنه جاز. (شامي/كتاب الزكاة/مطلب: في زكاة ثمن المبيع وفاء، ١٨٩/٣، ط: دار عالم الكتب الرياض)

ولم يشترط أيضا الدفع من عين مال الزكاة لما قدمناه من أنه لو أمر إنسانا بالدفع عنه أجزأه. (البحر الرائق/كتاب الزكاة، ٣٧٠/٢، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

سوال :- کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسٔلہ ذیل کے بارے میں ایک شخص روزآنہ کتتوں کو بسکٹ کہلاتا ہے ایک مولانا صاحب سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کی کتتوں کو کہلانے سے بہتر کسی غریب کی مدت کرنا ہے

لجواب وباللہ التوفیق
انسان چوں کہ اشرف المخلوقات ہے،اس لیے اس پر صرف کرنا زیادہ افضل ہے، نیز انسان مکلف بھی ہے، یعنی اس کے اعمال پر اجر و ثواب بھی مرتب ہوتاہے، اس اعتبار سے بھی اس پر خرچ کرنے میں زیادہ اجر ہوگا؛ کیوں کہ انسان پر خرچ کرنے کے ثواب کے ساتھ ساتھ، جس پر خرچ کیا گیا اسکو اس وجہ سے جو تقویت حاصل ہوئی، اور اس کی مدد سے جو نیک عمل کیا اس میں صارف کی بھی شرکت ہوگی- اور غالباً یہی مولوی صاحب کی بات کا مقصد بھی ہے،

البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی جانور یا پرندے کو بھوکا دیکھنے کے باوجود اس کو کھانا یا چارہ نہ کھلایا جائے، بھوکے جانوروں یا پرندوں کو کھانا کھلانا بھی بڑے ثواب کا کام ہے۔ ایک بدکار عورت کی مغفرت صرف اس لیے ہوئی کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا،
اسلیے آپ اگر امداد کا جذبہ رکھتے ہیں تو آپ ترجیح انسانوں کو دیں اور اللہ تعالی نے آپ کو زیادہ نوازا ہے تو آپ جانوروں پر بھی خرچ کر سکتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا فرمان ہے کہ ہمارے لیے جانوروں میں بھی اجر ہے فقط

عن أبي هريرة أن رسول الله ﷺ قال: بينما رجل يمشي بطريق اشتد عليه العطش، فوجد بئرًا فنزل فيها فشرب، ثم خرج فإذا كلب يلهث يأكل الثرى من العطش، فقال الرجل: لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي كان قد بلغ مني، فنزل البئر، فملأ خفه ماء ثم أمسكه بفيه حتى رقي، فسقى الكلب، فشكر الله له، فغفر له قالوا: يا رسول الله، إن لنا في البهائم أجرًا؟ فقال: في كل كبد رطبة أجر. (بخاری شریف-كتاب أحاديث الأنبياء، باب حديث الغار (٤/ ١٧٣) رقم: (٣٤٦٧) _کذا فی مسلم ، كتاب السلام، باب فضل ساقي البهائم المحترمة وإطعامها (٤/ ١٧٧١)، رقم: (٢٢٤٥)

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: أفضل الصدقة أن تشبع كبدا جائعا. رواه البيهقي في شعب الإيمان۔ (سنن أبي داود٥٢٦/١)

سوال :-ایک شخص نے خواب دیکھا جس کی وجہ یوں محسوس کیا کہ احتلام ہوگیا پر بیدار ہونے کے کچھ علامت ظاہر نہیں ہوئی لیکن تھوڑی دیر کے بعد ایک دو قطرہ کچھ نکلا تو اس صورت میں کیا حکم ہے ؟

بسم اللّه الرحمن الرحيم
الجواب وبالله التوفيق
صورت مسئولہ میں شخص مذکور پر غسل واجب ہے، کیونکہ منی کا اپنے مستقر سے شہوت کے ساتھ جدا ہونے سے غسل واجب ہوجاتا ہے اگرچہ خروج کے وقت شہوت نہ پایٔ جا رہی ہو، اور سوال سے واضح ہو رہا ہے کہ مذکورہ صورت یہی ہے- (مستفاد از: کتاب المسائل١٧٢/١)

ففرض الغسل عند خروج مني منفصل عن مقره بشهوة فان لم يخرج من رأس الذكر بها (فتاویٰ ھندیہ١٤/١) _ (کذافی المحیط البرھانی ٢٢٩/١)

اسباب الغسل ثلاثة: الجنابة والحيض والنفاس(فتاویٰ تاتارخانیہ ٢٢٨/١) فقط- والله أعلم بالصواب

١.سوال:بینک سے لون لیکر کاروبار کرنا جاٸز ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق
واضح رہے کہ بینک سےلون لے کر جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے، جس کا لینا دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے،چوں کہ کسی بھی بینک سے لون لینے کی صورت میں سود کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے کسی بھی بینک سے لون لینا، خاص کر عام حالات میں ہرگز جائز نہیں ہے، لہذا اگر لون لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور سے غیر سودی قرضہ حاصل کر یں، نیز اگر کاروبار کرنا ہےتو اپنی طاقت اور استعداد کے بقدر جو کاروبار کرسکتے ہیں وہ کریں،چھوٹے پیمانے سے ہی کام شروع کردیں فقط_ واللہ أعلم باالصواب
(مستفاد: کتاب النوازل٢٠٣/١١__فتاوی قاسمیہ ٣١/٢١)

عن جابررضى الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آ كل ‌الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء." ( مشكاة المصابيح ،باب الربوا، ص: 243، ط: قدیم)

والثاني انه معلوم ان ربا الجاهلية انما كان قرضا مؤجلا بزيادة مشروطة فكانت الزياده بطلا من الأجل فابطله الله وحرمه (أحكام القران للجصاص- تحت آية انما الخمر والميسر والانصاب..467/1)

وهو ربا اهل الجاهلية، وهو القرض المشروط فيه الأجل وزياده مال على المستقرض(أحكام القران للجصاص، سورة البقره ٥٦٩/١)

سوال :- قارون ایمان میں داخل ہوا تھا یا نہیں؟

الجواب وباللہ التوفیق
قارون حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں ایک شخص تھا اور حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کا رشتہ دار تھا البتہ رشتہ دارری کیا تھی اس میں حضرات مفسرین کا اختلاف ہے، اور وہ پہلے مومن شخص تھا اور تورات کا حافظ تھا لیکن پھر بعد میں اس نے کفر اختیار کیا اور روایات، آیات، احادیث ، اور جزئیات کی روشنی میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا انتقال کفر پر ہوا ہے حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ضمنا اس کے کفر کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔
بیان القران ۱۲۱/۲میں ہے اور قران مجید میں ایک جگہ اس قدر آیا ہے فكلا اخذنا بذنبه آگے اس کی تعمیل میں فرمایا ہے اور ومنهم من خسفنا به الارض اور ذنب عام ہے ممکن ہے کہ یہی ذنب مذکور ہو یا اس کے سوا اور بھی ہو اور سب سے بڑھ کر کفر کرنا اور ایمان نہ لانا ذنب ہے شاید یہ پہلے ہی ایمان نہ لایا ہو جیسا کہ سورہ مومن میں آیت ولقد ارسلنا موسى باياتنا وسلطان مبين الى فرعون وهامان وقارون فقالوا ساحر كذاب .الاخ سے بظاہریہی معلوم ہوتا ہے ۔

جزئیات ملاحظہ فرمائیں:

قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَا مَنَ وَ لَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَ مَا كَانُوا سَبِقِيْنَ - فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَ مِنْهُمْ مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَّنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ . (سورۂ عنکبوت ۳۹-۴۰)

وله تعالى : ﴿وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ قال الكسائي : إن شئت كان محمولاً على عاد، وكان فيه ما فيه، وإن شئت كان على فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وصد قارون وهامان ، وقيل : أي وأهلكنا هؤلاء بعد أن جاءتهم الرسل (فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ) عن الحق وعن عبادة الله . ﴿وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ) أي فائتين . وقيل : سابقين في الكفر بل قدسبقهم للكفر قرون كثيرة فأهلكناهم. (الجامع لاحكام القران ۳۴۴/۱۳،دار احياء التراث العربي)

﴿وَيَكانهُ لَا يُفْلِحُ الكَفِرُونَ ) ، يعنون أنه كان كافراً، ولا يفلح الكافرون عند الله، لا في الدنيا ولا في الآخرة. (تفسیر ابنِ کثیر زکریا ۳۷/۵، سورۂ قصص تحت رقم الآیۃ ۸۳

امام ابوحنیفہ رحمہ نے کسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث روایت کی ہے ؟

الجواب وباللہ التوفیق:
بعض محدثین مثلا امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ نے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کسی بھی صحابی سے رؤیت اور ملاقات کا انکار کیا ہے لیکن اکثر محدثین نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی چند صحابہ کرام سے ملاقات اور رویت کو ثابت مانا ہے(کہ امام ابو حنیفہ تابعی ہیں) اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل اور شواہد کی بنیاد پر صحابہ کرام سے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے روایت نقل کرنے کو ثابت کیا ہے اگرچہ بعض محدثین نے اس کا انکار کیا ہے لیکن علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل اور شواہد کی بنیاد پر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ کئی صحابہ سے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مروی روایات ہیں چنانچہ چند احادیث بطور دلیل کے ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:

قد ألف الإمام أبو معشر عبد الكريم بن عبد الصمد الطبري المقري الشافعي جزء فيما رواه الإمام أبو حنيفة عن الصحابة ذكر فيه : قال أبو حنيفة لقيت من أصحاب رسول الله ﷺ سبعة : 1 - أنس بن مالك،۲ - وعبد الله بن جزء الزبيدي - وجابر بن عبد الله ، ٤ - ومعقل بن يسار، ه - ووائلة بن الأسقع، ٦ - وعائشة بنت عجرد، رضي الله عنهم. ثم روى له عن أنس ثلاث أحاديث وعن ابن جزء حديثاً، وعن واثلة حديثين، وعن جابر حديثاً، وعن عبد الله بن أنس حديثاً، وعن عائشة بنت عجرد حديثاً، وروي له أيضاً عن عبدالله بن أبي أوفى حديثاً. ( تبييض الصحيفة بمناقب ابي حنيفه۳۳، ذكر من ادركه من الصحابه رضي الله عنهم، دار الكتب العلميه بيروت)

احادیث ملاحظہ فرمائیں: (١) دع ما يريبك الى ما لا يريبك. (٢) لا تظهر الشماته لاخيك فيعافيه الله ويبتليك. ثم قال أبو معشر أنا أبو عبد الله حدثنا إبراهيم حدثنا أبو بكر الحنفي، حدثنا أبو سعيد الحسين بن أحمد ثنا علي بن أحمد بن الحسين البصري ثنا أحمد بن عبد الله بن حرام ثنا اسماعيل بن حرام ثنا المظفر بن منهل ثنا موسى بن عيسى بن المنذر الحمصي ثنا أبي ثنا اسماعيل بن عياش عن أبي حنيفة عن واثلة بن الأسقع أن رسول الله ﷺ قال : دع ما يريبك إلى ما لا يريبك . وبه عن واثلة عن النبي ﷺ قال : لا تظهر الشمائة لأخيك فيعافيه الله ويبتليك .

أقول : الحديث الأول : متنه صحيح ورد من رواية جمع من الصحابة وقد صححه الترمذي وابن حبان والحاكم والضياء من حديث الحسن بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه . والحديث الثاني: أخرجه الترمذي من وجه آخر عن واثلة وحسنه وله شاهد من حديث ابن عباس. (تبييض الصحيفة بمناقب ابي حنيفۃ ۳۶-۳۷،ذكر من ادركه من الصحابه رضي الله عنهم ، دار الكتب العلميه بيروت)

سوال : کیا دکان کا بیمہ کرانا جائز ھے؟

لجواب وبالله التوفیق-
واضح رہے کہ لائف انشورنس کے مقابلے میں املاک کے انشورنس میں سود بالکل نہیں ہوتا اس لیے کہ جمع کی جانے والی رقم میں سے کوئی رقم مدت پر واپس نہیں ملتی ہے، اور نہ ہی اس پر اضافہ ملتا ہے، البتہ صرف شبہ قمار ہے کہ اگر خدانخواستہ ہلاک ہو جائے گا تو پورے نقصان کی تلافی کی جاتی ہے، اور عموم بلویٰ اور حالات کے تقاضے کی وجہ سے شبہِ قمار کی خرابی برداشت کر کے اموال کے بیما کی گنجائش قرار دی گیٔ ہے فقط – والله أعلم باالصواب(فتاویٰ قاسمیہ ٤٧٢/٢٠)

حدیث شریف میں ہے- عن جابررضى الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا،و مؤكله، و كاتبه، وشاهديه، وقال هم سواء(صحیح مسلم٢٧/٢) (کذا فی سنن أبی داؤد٤٧٣/٢)

گھر میں کئی قرآن کریم رکھے ہوۓ ہیں تو کیا ان سب میں پڑھنا ضروری ہے ؟؟

الجواب وبالله التوفيق:
جو قرآن کریم گھر میں رکھے ہوۓ ہیں، اور ان میں

 کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تو ان میں بھی کبھی کبھار تلاوت کرلی جائے تو بہتر ہے اور اگر ان میں تلاوت نہ کی جائے محض برکت کے لیے رکھے ہوۓ ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

(١): رجل أمسك المصحف في بيته، ولا يقرأ، إن نوى الخير، والبركة لا يأثم ويرجى له الثواب. (الأشباه والنظائر/القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها، ٢٣/١، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

ایک شخص ہے جو بیماری آفتوں میں مبتلا رہتا ہے اکثر اس کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ لگا رہتا ہے دنیا کی پریشانیوں سے تنگ آکر موت کی تمنا کرتا رہتا ہے تو کیا ایسے شخص کے لیے احادیث میں کوئی دعاء ہے اگر ہو تو برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

الجواب وبالله التوفيق:
اگر کوئی شخص دنیا اور اس کی تکلیفوں سے اکتا جائے تو موت کی تمنا نہ کرے، اور نہ ہی موت کی دعا مانگے، البتہ یہ دعا پڑھے:
اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي.

عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا يتمنين أحدكم الموت من ضر أصابه، فإن كان لا بد فاعلا فليقل: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي. (صحيح البخاري/كتاب المرضى/باب نهي تمنى المرض الموت، ١٢١/٧، ط: مصر)

ایک شخص اکثر بیمار رہتا ہے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ اس شخص کے نام کو تبدیل کردیا جائے تو وہ شخص صحیح ہوجائے گا تو اس کا شرعاً کیا حکم ہے ؟ کہیں یہ شرک تو نہیں ہورہا ہے ؟؟

الجواب وبالله التوفيق:
جو نام خلافِ شرع ہو اس کو تبدیل کرنا حدیث شریف سے ثابت ہے۔ شریعت کے موافق جو نام ہو اس کو جسمانی امراض کے علاج کے لیے بدلنا ثابت نہیں۔

عن عائشة أن النبى صلى الله عليه وسلم: كان يغير الإسم القبيح. (سنن الترمذي/أبواب الأدب/باب ما جاء في تغيير الأسماء، ١١١/٢، ط: الأشرفية ديوبند)

عن سهل بن سعد قال: أتى بالمنذر بن أبي أسيد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حين ولد، فوضعه على فخذه وأبو اسيد جالس فقال: فلها النبي صلى الله عليه وسلم بشئ بين يديه، فأمر أبو أسيد بابنه، فاحتمل من عند النبي صلى الله عليه وسلم، فأقلبوه فاشتاق النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: أين الصبي؟ قال أبو أسيد أقلبناه يا رسول الله قال ما اسمه؟ قال: فلان، قال: لا ولكن اسمه المنذر، فسماه يومئذ المنذر.

عشاء کے وقت ایک ٩ سال کا بچہ کڈنیپ ہوگیا کس نے غصب کرلیا پولیس میں رپورٹ کرائی گئ پولیس نے پوری کوشش کی اور کڈنیپر کو پکڑ لیا لیکن بچہ کڈنیپر کے پاس نہیں تھا اس نے کہا وہ کس وقت بھاگ گیا مجھے نہیں پتہ تو شریعت کڈنیپر کے بارے میں کیا حکم دیتی ہے ؟ اسے مارا جائے اس سے پیسے لیے جائیں جو بھی شریعت حکم دیتی ہے واضح فرمائیں۔

الجواب وبالله التوفيق:
اگر کوئی شخص کسی کا بچہ غصب کرلے پھر وہ بچہ غاصب کے پاس سے بھی غائب ہوجائے ایسی صورت میں غاصب کو قید کردیا جائے گا یہاں تکہ بچہ واپس آجائے یا اس بات کا علم ہوجائے کہ بچہ فوت ہوچکا ہے؛ لہذا ذکر کردہ صورت میں کڈنیپر کو نہ مارا جائے گا اور نہ ہی اس سے پیسے لیے جائیں گے بلکہ اسے قید کردیا جائے گا جب تکہ بچہ واپس نہ آجائے یا اس کے فوت ہونے کا علم نہ ہوجائے۔

رجل غصب صبيا حرا فغاب الصبي عن يده فإن الغاصب يحبس حتى يجيئ بالصبي أو يعلم أنه مات. (الفتاوى التاتارخانية/كتاب الجنايات/الفصل: ١٣/المسائل التي تتعلق بالصبيان، ٢١٩/١٩، ط: زكريا)

(الأشباه والنظائر/الفن الثالث: الجمع والفرق/أحكام الصبيان، ص: ٢٦٦، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله تعالى أعلم.

کیا قبرستان جانے سے پہلے اپنے گھر میں دورکعت نماز پڑھنا مستحب ہے؟

الجواب وبالله التوفيق:
جب کس کا قبرستان جانے کا ارادہ ہو تو اس کے لیے اپنے گھر میں دورکعت نماز پڑھنا مستحب ہے۔

وإذا أراد زيارة القبور يستحب له أن يصلي في بيته ركعتين. (الفتاوى الهندية/كتاب الكراهية/باب زيارة القبور، ٤٢٩/٥، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

یک شخص نے فون پر نشے کی حالت میں اپنی بیوی کے بھائی سے کہا کہ میں نے تمہاری بہن کو طلاق دے دی تم اسے میرے گھر مت لانا اور بھائی نے دو مرتبہ طلاق کا لفظ سننے کے بعد فون کاٹ دیا تو سورۃ مذکورہ میں کون سی طلاق واقع ہوگی اور کتنی واقع ہونگی جبکہ احتمال یہ بھی ہے کہ اس نے تیسری مرتبہ بھی لفظ طلاق بول دیا ہو

الجواب وباللہ التوفیق
یہ بات واضح رہے کہ فون پر اور حالت نشے میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے لہذا صورت مسئولہ میں چونکہ بھائی نے دو مرتبہ طلاق کا لفظ سنا ہے تو ایسی صورت میں بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہو چکی ہیں عدت کے دوران رجعت کرنے کی گنجائش ہے ، اور تیسری مرتبہ کے بارے میں احتمال ہے تو اس بارے میں شوہر سے ہی معلوم کر لیا جائے اگر تیسری طلاق دینے کا علم ہو جائے تو تینوں طلاق واقع ہو جائیں گی ، اور اگر علم نہ ہو تو دو ہی طلاق واقع ہوں گی۔

عن عبد الله بن مقسم قال : سمعت سليمان بن يسار، يقول: إن رجلا من آل البختري طلق امرأته وهو سكران ، فضربه عمر الحد وأجاز عليه طلاقه . (سنن سعيد بن منصور، باب ماجاء في طلاق ، دار الكتب العلمية بيروت ١ / ٢٧٠، رقم: ١١٠٦)

إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية، أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها. ( هداية، زكريا قديم ١ / ٤٧٠ ، جديد ٥٣٣/١ ، هداية اشرفيه ديوبند ٣٩٤/٢) فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

جب کسی مسلمان کے انتقال کی خبر سنے تو إنا لله وانا اليه راجعون کے علاوہ کسی اور دعاء کا پڑھنا حدیث سے ثابت ہے ؟؟

الجواب وباللہ التوفیق :
کسی کے انتقال کی خبر سن کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انا للہ وانا الیہ راجعون کے ساتھ ساتھ میں درج ذیل دعائے بھی پڑھنا ثابت ہے جو احادیث کی کتابوں میں مذکور ہیں۔

(١)اللهم اغفر لابي سلمة وارفع درجته في المهديين، واخلفه فيه عقبه في الغابرين ، واغفر لنا وله يا رب العالمين، وافسح له في قبره ونور له فيه. (٢)اللهم اغفر لي وله واعقبني منه عقبة حسنة. (٣) انا لله وانا اليه راجعون اللهم اجرني في مصيبتي واخلف لي خيرا منها.

وحدثنا أبو بكرين ابي شيبة قال نا ابو اسامة عن سعد بن سعيد، قال أخبرني عمر بن كثير بن افلح قال سمعت ابن سفينة، يحدث انه سمع ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم تقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:ما من عبد تصيبه مصيبة فيقول انا لله وانا اليه راجعون اللهم اجرني في مصيبتي وأخلف لي خيرا منها الا آجره الله في مصيبة واخلف له خيرا منها قالت قلما توفى ابو سلمة قلت كما امر نى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخلف الله لي خيرا منه رسول الله صلى الله عليه سلم . (الصحيح المسلم٣٠٠/١، كتاب الجنائز، فصل في استرجاع عند المصائب كلها وقول اللهم اجرني في مصيبتي واخلف لي خيرا منها، رقم:٩١٩)

١.سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: کیا حدیث میں دوسرے کے برے عمل سے بیزاری کی کوئی دعا مذکور ہے ؟؟ اگر کوئی دعاء ہو تو برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

لجواب و باللہ التوفیق
کسی کے عمل سے بیزاری کا اظہار کرتے وقت درج ذیل دعا پڑھنا ثابت ہے:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ فُلَانُ .
(صحیح بخاری ۹۳۸/۲، كتاب الدعوات، باب رفع الايدي في الدعاء، رقم:۶۳۴۱)
ترجمہ : اے اللہ ! میں تیری بارگاہ میں فلاں کے عمل سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔

نوٹ : فلاں کی جگہ جس کے عمل سے براءت کی جارہی ہے ، اس کا نام لیا جائے۔
فقط والله سبحانه وتعالى اعلم۔

ہمارے معاشرے میں اور خواص میں بھی جب جمائی لیتے ہیں تو جمائی لیتے وقت لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتے ہیں تو کیا یہ پڑھنا کہیں سے ثابت ہے ؟

الجواب وباللہ التوفیق:
جمائی آتے وقت حدیث میں حتی الامکان منہ کو بند رکھنے کا حکم ہے لیکن خاص اس وقت لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنا کسی روایت میں ثابت نہیں ہے۔
(مستفاد: نخبۃ المسائل ۲۹۴/۴)

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله ص عليه وسلم: إذا تثائب أحدكم فليمسك بيده على فمه فإن الشيطان يدخل. (صحيح مسلم، كتاب الزهد والرقائق / باب تشميت العاطس وكراهية التثاؤب ٤١٣/٢ رقم: ٢٩٩٥ المكتبة الأشرفية ديوبند) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلے ذیل کے بارے میں ہم نے اپنے علماء کرام سے سنا ہے کہ عورتوں کو جنت میں ان کے شوہر ملیں گے تو اگر کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اور بیوی دوسری جگہ نکاح کر لے تو اس عورت کو کون سا شوہر ملے گا ۔

الجواب و باللہ التوفیق :
اس کے متعلق حضرات علماء کرام کے دو قول ہیں: ایک یہ ہے کہ اخیر شوہر کو ملے گی، دوسرا یہ ہے کہ اس کو اختیار دیا جائے گا جس کو چاہے پسند کر لے، اور بعض علماء کرام نے فرمایا کہ جس شوہر نے زندگی میں اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہوگا اس کو ملے گی۔
(فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۶۹۱/۱ )

اختلف الناس فى المرأة إذا كان لها زوجان فى الدنيا لأيهما تكون في الآخرة؟ قال بعضهم : تكون لأخرهما، وقال بعضهم: تخير ، فتختار أيهما شاءت، وقدجاء في الأثر ما يؤيد قول كلا الفريقين: أما من قال : هي لآخر هما فقد ذهب إلى ماروى عن معاوية ابن أبي سفيان أنه خطب أم الدرداء، فأتت وقالت: سمعت أبا الدرداء يحدث عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أنه قال : المرأة لآخر زوجها في الآخرة وقال (أي أبو الدرداء): إني أردتتكون زوجتي في الآخرة، فلا تتزوجى بعدى. وأما من قال بأنها تخير، فذهب إلى ماروى عن أم حبيبة رضى الله تعالى عنها زوج النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أنها سألت النبي صلى الله تعالى عليه وسلم فقالت: يارسول الله ! المرأة منا ربما يكون لها زوجان، لأيهما تكون في الآخرة ؟ قال : " تخير فتختار أحسنهما خلقاً معها ثم قال صلى الله تعالى عليه وسلم: "ذهب حسن الخلق بخيرى الدنيا والآخرة الخ. (بستان فقيه بالليث السمر قندي رحمه الله ٢٤٨،باب اذا كان لها زوجان، مطبع فاروق دهلي، وكذا في احكام النساء ٤١١،الباب السابع بعد المأة في ذكر رد المرأة الى زوجها في الجنه اذا لم تتزوج بعده، وزاره الاوقاف والشؤون الاسلامية، قطر بحوالہ فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۶۹۲/۱ ) فقط والله سبحانہ و تعالی اعلم.

سردی کے موسم میں لحاف وغیرہ ناپاک ہوجائے تو صرف تر کپڑے سے پوچھ دینے سے پاک ہوجائے گا ؟ واضح رہے کہ اگر دھل دیا جاۓ تو خشک ہونے میں وقت لگتا ھو؟

الجواب و باللہ التوفیق:
لحاف میں چونکہ نجاست کو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے تو اس پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ کے بعد اتنی دیر چھوڑ دیا جائے کہ ٹیکنا بند ہو جائے ، نچوڑنا دشوار ہو تو نچوڑ نا ضروری نہیں ہے جیسا کہ ایسا ہی ہوتا ہے ، لیکن محض پوچھنے سے پاک نہیں ہوگا۔ اور اگر بار بار ناپاک ہونے کا خدشہ ہے تو لحالحاف کے نیچے چادر لگا لی جائے اس کی وجہ سے لحاف ناپاک نہیں ہوگا۔

وقدر بغسل و عصر ثلاثاً فيما ينعصر و بتثليث جفاف أي انقطاع تقاطر في غيره أي غير منعصر ( تنوير مع الدر ) وقال الشامي : قوله أي غير منعصر أي بأن تعذر عصرہ کا لحذف أو لعسر کا لبياظ أفاده في شرح المنية ( در مختار مع الشامی : ۵۴۱/۱ کتاب الطهارة، باب الانجاس، مطلب في حكم الوشم ، زکریا)

و ما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات، والتجفيف في كل مرة لأن للتجفيف أثراً في استخراج النجاسة، وحد التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس. الفتاوی الہندیۃ القدیمۃ۴۲/۱، کتاب الطہارۃ ، الباب السابع في النجاسة، الفصل الأول في تطهير الانجاس)

قوله وبتثليث الجفاف فيما لا ينعصر اى ما لا ينعصر فطهارته غسله ثلاثا وتجفيفه في كل مرة لان للتجفيف اثراً في استخراج النجاسة وهو ان يتركه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس . (البحر الرائق: ۲۳۸/۱، کوئٹہ) فقط اللہ سبحانہ و تعالی اعلم۔

ایک شخص کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا بیوی میکے چلی گئی بیوی اور اس کے گھر والے طلاق کا مطالبہ کر رہی تھے جبکہ شوہر طلاق دینا نہیں چاہ رہا تھا بالآخر دونوں جانب سے پنچایت بیٹھی اور طلاق نامہ لکھا گیا وکیل نے شوہر کے اور گواہوں کے بھی دستخط کرائے شوہر نے زبردستی فور میلٹی پوری کرنے کے لیے طلاق نامے پر دستخط کیے مگر شوہر راضی نہیں تھا لیکن وکیل نے دستخط کرانے کے ساتھ ساتھ زبانی بھی شوہر سے اس تحریر کو پڑھوایا، تو کیا ایسی صورت میں طلاق واقع ہو جائے گی جبکہ شوہر نے بخوشی دستخط نہیں کیے بلکہ اپنے آپ کو پریشانیوں سے بچانے کے لیے دستخط کیے ہیں لیکن بعد میں تحریر پڑھی ہے۔ برائے کرم جلد از جلد جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔

الجواب وباللہ التوفیق:
سوالنامہ سے واضح ہے کہ صورت مسئولہ میں شوہر نے جو طلاق نامے پر دستخط کیے ہیں وہ بدرجہ مجبوری اور اکراہ کی صورت میں کیے ہیں اور اکراہ کی صورت میں دستخط کرنے سے بیوی کے اوپر کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے جیسا کہ شامی کی عبارت سے واضح ہے ہوتی ہے۔
قال الشامي وفي البحر : أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته، فكتب لا تطلق.
(الدر مع الرد:۴۴۰/۴ كتاب الطلاق ، مطلب في الاكراه على التوكيل بالطلاق والنكاح والعتاق زکریا )
نیز اس نے جو تحریر بعد میں اپنی زبان سے پڑھی ہے تو اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اس لیے کہ یہاں پر اس کا مقصود طلاق دینا نہیں تھا بلکہ صرف تحریر کی نقل و حکایت مقصودتھی جیسا کہ سوال نامہ سے واضح ہے۔ اور اشباہ کی عبارت سے واضح ہے۔
(مستفاد:چند اہم عصری مسائل۲۵۶/۱)

ولو كتبت امرأتي طالق ، أو أنت طالق وقالت له اقرأ على فقرأ عليها لم يقع عليها لعدم قصده باللفظ (الأشباه والنظائر ۸۸/۱، القاعدة الاولى :لا ثواب الا بالنية، المكتبه اليوسفيه ديوبند الهند) فقط والله سبحانه وتعالى اعلم۔

0سوال:-ایک شخص نے قسم کھاٸی کہ ساری رات نہیں سوٶں گا پھر آدھی رات میں نیند ایسا غالب ہوا کہ غیر اختیاری سوگیا۔اب کفارہ ادا کرے گا یا نہیں۔باحوالہ جواب چاہٸے ؟

                                                             :الجواب وباللہ التوفیق 
جب اس نے قسم کھائی کہ وہ پوری رات نہیں سوئے گا لیکن بغیر کسی اختیار کے پھر رات کے کسی پہر میں سو گیا تو اس کی وجہ سے وہ حانث نہیں ہوگا اور اس کے اوپر کفارہ بھی واجب نہیں ہوگا  جیسا کہ درج ذیل عبارت سے مستفاد ہوتا ہے۔ 

إذا حلف " لا ينام حتى يقرأ كذا وكذا “ فنام جالسا ، وفى الخانية : من غير قصد ، قبل أن يقرأ ما سمى : لا يحنث. (الفتاوى التاتار خانیہ٢٠٨/٦، کتاب الایمان، الفصل ١٢: الحلف علی الافعال ، رقم:٩٢٠٩)

إذا حلف لا ينام حتى يقرأ كذا وكذا، فنام جالساً قبل أن يقرأ ما سمى، لا يحنث ؛ لأن النوم جالساً غير مراد من هذا اليمين عادة؛ لأنه لا يمكن الاحتراز عنه فلا يقع الحنث به . المحيط البرهاني كتاب الايمان والنذور الفصل الثاني عشر الحلف على الاإذا حلف " لا ينام حتىفعال ، رقم:٧٤٩٥) . فقط والله سبحانه وتعالى اعلم.

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مسجد میں گمشدہ چیز اور جنازہ وغیرہ کا اعلان کرنے کا حکم؟

                  باسمہ تعالیٰ
الجواب وبالله التوفیق : مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ جوچیز اندورن مسجد گم ہو جائے تو اس کا علان اس شرط کے سا تھ جائز ہے، کہ شور و شغب نہ ہو اور نمازیوں کو خلل نہ ہو، اور اگر بیرون مسجد کم ہوگئی ہے تو حدود مسجد سے باہر دروازہ پر کھڑے ہو کر اعلان کرنا جائز ہے، اندرون مسجد ممنوع ہے۔ (مستفاد: فتاوی محمودیه قدیم ۲۵۳/۱۵، جدید ڈابھیل ۲۱۱/۱۵، قاسمیہ ۴۶۳/۱۸)
(۲)اور جنازے کا اعلان بوقت ضرورت مسجد میں کرنا جائز ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ جب نجاشی کی خبر اللہ کے رسول کو پہنچی تو آپ اس وقت مسجد میں موجود تھے اور آپ نے اس کا اعلان کیا 

(مستفاد: دار الافتاء بنوری ٹاؤن کراچی فتویٰ نمبر:144205201497) وأما إنشاد الضالة فله صورتان إحداهما إن ضل شيئي في خارج المسجد وينشده في المسجد لاجتماع الناس فهو أقبح وأشنع وأما لو ضل في المسجد فيجوز الإنشاد بلا شغب الخ. (العرف الشذى على هامش الترمذي ،ابواب الصلواة، باب كراهية البيع والشراء انشاد الضالة في المسجد ۸۰/۱)

قال الشيخ وأما إنشاد الضالة فله صورتان : إحداهما : وهي اقبح وأشنع بأن يضل شيئى خارج المسجد ثم ينشده في المسجدلأجل اجتماع الناس، والثانية: أن يضل في المسجد نفسه فينشده فیه وهذا يجوز إذا كان من غير لغط وشغب. (معارف السنن اشرفيه۳۱۳/۳) وقد استدل محمد رحمه الله تعالى في «موطئه» أن مُصَلَّى الجنائز في عهد النبي صلى الله عليه وسلم كان يجنب المسجد. فهذا دليل قوي على أن صلاةالجنازةينبغي أن تكون خارج المسجد، حتى أَنَّ النبي صلى الله عليه وسلملما بلغه نعي النجاشي خرج إلى خارج المسجد ولم يصل فيه". (شرح النووي على مسلم مشکول 369/3) فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: زید کے پیر میں پھوڑا تھا زید فجر کی سنت گھر سے پڑھ کر نکلا اور اس پھوڑے سے خون نکلا اور بہ گیا زید نے مسجد میں وضو کیا اور جماعت میں شریک ہوگیا نماز مکمل کی اور اس پھوڑے سے جماعت کے دوران خون نکل آیا تھا تو اب شرعاً کیا حکم ہے ؟ کیا زید کو شرعاً معذور مانتے ہوئے نماز درست ہوجائے گی یا نماز کا اعادہ کرنا ہوگا ؟

الجواب وباللہ التوفیق:
سوالنامہ سے واضح ہے کہ خروج دم کا دورانیہ نماز کے مکمل وقت کو گھیرے ہوئے نہیں ہیں لہذا نماز میں خون نکلنے کی وجہ سے وضو اور نماز دونوں باطل ہو جائیں گے اور نماز کا اعادہ کرنا ہوگا ،مصلی اس سلسلے میں معذور شمار نہیں ہوگا۔

المعاني الناقضة للوضوء. الدم والقيح إذا خرجا من البدن فتجاوزا إلى موضع يلحقه حكم التطهير .... لأن خروج النجاسة مؤثر في زوال الطهارة الخ. (الهداية / كتاب الطهارة ٢٤/١ مكتبه بلال ديوبند)

ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان (الدر المختار، كتاب الطهارة / مطلب نواقض الوضوء ٢٦٢/١ زكريا)

ما ينقض خروجه الطهارة يكون نجسا في نفسه. (رسائل ابن عابدين / رسالة: الفوائد المخصصة بأحكام كي الحمصة ٥٥/١ سهيل اكيلمي لاهور)

مسجد سے اعلان کرتے وقت جو سلام کیا جاتا ہے اس کا جواب دینا بھی واجب ہے۔۔۔؟

الجواب وباللہ التوفیق :
اگر کوئی شخص کسی مجمع کو سلام کرے تو سننے والوں میں سے کسی ایک فرد پر سلام کا جواب دینا واجب ہے، اگر کوئی ایک شخص بھی جواب نہ دے تو وہ تمام لوگ گنہگار ہوں گے، لہذا ایسی صورت میں اگر مسجد کے مائک سے سلام کا اعلان ہو تو جہاں تک مائک کی آواز پہنچے اور جو حضرات اس سلام کو سنے ان میں سے کسی ایک فرد پر سلام کا جواب دینا واجب ہوگا ،اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ کیسے معلوم ہو کہ کس نے جواب دیا ہے اور کس نے نہیں تو ایسی صورت میں جو بھی سنے اس کو سلام کا جواب دینے کی کوشش کرنی چاہیے کوئی نہ کوئی ایک فرد سلام کا جواب دینے والا ہو جائے گا اور وہ تمام لوگ اس کی وجہ سے ذمے سے بری ہو جائیں گے۔ جیسا کہ درج ذیل عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔

لو دخل شخص مجلسًا فإن كان الجمع قليلاً يعمهم سلام واحد فسلم كفاه، فإن زاد فخصص بعضهم فلا بأس ويكفي أن يرد منهم واحد، فإن زاد فلابأس، وإن كانوا كثيرًا بحيث لا ينتشر فيهم فيبتدئ أول دخوله إذا شاهدهم وتتأدى سنة السلام في حق جميع من يسمعه، ويجب على من سمعه الرد على الكفاية. (فتح الباري ١٤/١١-١٥ رياض)

قال الفقيه أبو الليث : إذا دخل جماعة على قوم، فإن تركوا السلام فكلهم آثمون في ذلك، وإن سلم واحد منهم جاز عنهم جميعا، وإن تركوا الجواب فكلهم آثمون، وإن ردّ واحد منهم أجزأهم. (تكملة فتح الملهم ٢٤٣/٤ المكتبة الأشرفيةدیوبند) فقط واللہ تعالی اعلم ۔

ایمان والے حضرات بھی دیوالی میں بہت سے لوگ گوشت لیتے ہیں اور اس دن ہڈیوں کو چھت پر ڈال دیتے ہیں پھر صبح پھینکتے ہیں دھولا ہوا پانی دیواروں پر چھڑک تے ہیں جس دن غیر مسلم چراغ روشن کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے وضاحت فرمادیں ؟

الجواب باللہ التوفیق :سوال میں جن اعمال کا تذکرہ کیا گیا ہے تو ان کو مسلمان اس لیے کرتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس عمل کی وجہ سے گھروں میں جادو، ٹونا ، آسیب وغیرہ کے اثرات نہ ہوں تو ایسے اعمال کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے بظاہر یہ برادران وطن کے فاسد عقائد و توہمات میں شامل ہیں ، اس لیے مسلمانوں کو ایسی مشکوک باتوں سے احتراز کرنا چاہیے۔
( مستفاد: نخبۃ المسائل۶۲/۱)

عن أبي هريرة رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر الخ. (صحيح البخاري ٨٥٠/٢ رقم: ٥٤٨٨)

قال عبد الله بن أبي بكر حسبت أنه صلى الله عليه وسلم قال: والناس في مبيتهم لا تبقين في رقبة بعير قلادة من وتر ولا قلادة إلا قطعت، قال مالك أرى أن ذلك من أجل العين. (سنن أبي داؤد، كتاب الجهاد / باب في تقليد الخيل بالأوتار ٣٤٦/١ رقم: (٢٥٥٢)

کیا فرماتے میں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: Happy diwali / کا اسٹیٹس لگانا شرعاً کیسا ہے ؟

الجواب وباللہ التوفیق:

دیوالی کا تہوار ایک مذہبی تہوار ہے جو ہندو مذہب کے ماننے والے مناتے ہیں، اور اس میں مخصوص عقائد اور عبادات شامل ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے، ایسے تہواروں میں شرکت کرنا یا ان سے متعلق کسی طرح کا تاثر دینا، جیسے کہ “Happy Diwali” کا اسٹیٹس لگانا، مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں سمجھا جاتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دینِ اسلام میں غیر اسلامی عبادات اور عقائد کی ترویج یا اس سے وابستگی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے تاکہ دین کی اصل روح اور شناخت برقرار رہے۔ اسی لیے مسلمان ایسے اسٹیٹس یا پیغامات سے اجتناب کریں۔

 

عَنِ اِبْنِ عُمَرَ ‏-رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُمَا‏- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ ‏- صلى الله عليه وسلم ‏-{ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ, فَهُوَ مِنْهُمْ } أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ, (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: 4031) قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ: “وَأَمَّا التَّشَبُّهُ بِهِمْ فِي أَعْيَادِهِمْ فَهُوَ أَقْبَحُ مِمَّا ذُكِرَ” (اقتضاء الصراط المستقيم، جزء 1،)

قسم
قسم