سوال:-مسجد کی وہ اشیاء جو استعمال کے قابل نہی ہوں جیسے چٹای وغیرہ انکا کیا کریں جلاے یا دفنایں یا کوڑے میں ڈال دیں؟

الجواب وباللہ التوفیق مسجد کی وقف اشیاء خواہ وہ پرانی ہی کیوں نہ ہوں مسجد کی مملوکہ ہیں، ان کو ضائع کرنا صحیح نہیں ہے، ان پرانی اشیاء کو بیچ کر رقم مسجد ہی کے استعمال میں لانا چاہیے، وقف اشیاء کا تلف کرنا جائز نہیں

وذکر أبو اللیث في نوازله: حصیر المسجد إذا صار خلقاً واستغنی أهل المسجد عنه وقد طرحه إنسان إن کان الطارح حیاً فهو له وإن کان میتاً ولم یدع له وارثاً أرجو أن لا بأس بأن یدفع أهل المسجد إلی فقیر أو ینتفعوا به في شراء حصیر آخر للمسجد. والمختار أنه لایجوز لهم أن یفعلوا ذلک بغیر أمر القاضي، کذافي محیط السرخسي". ( الفتاویٰ الهندیة، /الباب الحادي عشر في المسجد وما یتعلق به/ ٤٢٨/٢/ ط: بيروت ) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم

سونا (Gold) کا بونڈ خریدنا کیسا ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کے آربی آئی مشتری کے نام ایک سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے موجودہ قیمت کے لحاظ سے، پھر ایک طے شدہ مدت کے بعد اسے مارکیٹ ویلو کے اعتبار سے آپ فروخت کرسکتے ہیں واضح رہے کہ آپ سونے کو اپنے قبضے میں نہیں لے سکتے ہیں ۔ کیا اس طرح سونے کا بونڈ خریدنا جائز ہے جواب عنایت فرمائیں جزاکم اللہ خیرا

الجواب وبالله التوفيق: واضح رہے کہ “بونڈ” سے مراد وہ قرضہ ہے جو کسی حکومت یا کمپنی کی طرف سے اس شرط پر دیا جائے کہ قرض دار اس قرضے کو سود کی ایک خاص مقدار کے ساتھ ادا کرے گا۔ معلوم ہوا کہ بونڈ لینا ایک سودی معاملہ ہے جس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں؛ لہذا مذکورہ صورت میں سونے کا بونڈ خریدنا شرعاً جائز نہیں ہے۔مستفاد از: (فتاوى دار العلوم زكريا، ٣٧٩/٥، ط: الأشرفية ديوبند) (تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا، ١٣٠/٢، ط: بیت العمار کراچی)

\(١): وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا. (سورة البقرة، الآية: ٢٧٥)

السند (Bonds) في الاصطلاح المعاصر وثيقة يصدرها المديون لمقرضه اعترافا منه بأنه استقرض من حاملها مبلغا معلوما يلتزم بأدائه في وقت معلوم.... إن هذه السندات كلها ربوية من أصلها، حيث إن المقروض يلتزم فيها بأداء مبلغ القرض وزيادة، فلا يخفى حرمة تداولها لأنها تؤدي إلى تعامل ربوي حرام. (بحوث في قضايا فقهية معاصرة/البحث الرابع عشر: بيع الدين والأوراق المالية وبدائلها الشرعية، ٢٣/٢، ط: قطر) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

١.سوال:-ایک شخص گاڑی خرید کر انکو رینٹ پر دیتاہے پہر اسی حاصل شدہ رقم کو سال مکمل ہونے سے قبل سے پہر دوسری گاڑی خریدتا ہے پہر اسکو رینٹ پر دیتا ہے کیا پوری سال کی انکم کی زکاہ ادا کریگا یا موجودہ رقم کی

الجواب وباللہ التوفیق صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص ٦ تولہ سونا اور دونوں چاندی کی انگوٹھیوں کی قیمت ایک ساتھ جوڑ لے ، چنانچہ یہ مجموعی قیمت اگر آج کے زمانہ میں چاندی کے نصاب (٦١٢ گرام ٣٦٠ ملی گرام) کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوجائے گی،

کذا فی الدر المختار يُضَمُّ (الذَّهَبُ إلَى الْفِضَّةِ) وَعَكْسُهُ بِجَامِعِ الثَّمَنِيَّةِ (قِيمَةً) کذا فی الشامیہ أَيْ مِنْ جِهَةِ الْقِيمَةِ، فَمَنْ لَهُ مِائَةُ دِرْهَمٍ وَخَمْسَةُ مَثَاقِيلَ قِيمَتُهَا مِائَةٌ عَلَيْهِ زَكَاتُهَا (رد المحتار/ باب زكاة المال/ ٢٣٤/٣،ط: زكريا) كتبه: محمد انس اختر قاسمی ہردوئی

ردوئی سے بریلی ١٠٠ کلو میٹر سے اوپر ہے ہردوئی کا رہنے والا بریلی سے واپسی کررہاہے ظہر کی نماز پڑھ کر ٢ بجے بریلی سے روانہ ہوا اور رات میں ٩ بجے ہردوئی پہنچا تو اب اس کی نمازوں کا کیا حکم ہے عصر اور عشاء پوری پڑھے گا یا آدھی پڑھے گا؟؟

الجواب وباللہ التوفیق مذکورہ شخص کی اگر عصر نماز دوران سفر چھوٹ گئی ہے تو گھر واپس آکر اس کی تو دو رکعت قضاء پڑھے گا،کیونکہ حالت سفر میں قضاء ہوئی ہے ، البتہ عشاء کے وقت میں ہی وہ گھر واپس آگیا ہے، تو عشاء کی نماز اس کے ذمہ چار رکعت فرض ہوگئ ہے ، خواہ ادا پڑھے یا قضاء، بہرحال چار رکعت ہی پڑھنا پڑی گی،

كذا فى الدر المختار (وَالْمُعْتَبَرُ فِي تَغْيِيرِ الْفَرْضِ آخِرُ الْوَقْتِ) وَهُوَ قَدْرُ مَا يَسَعُ التَّحْرِيمَةَ (فَإِنْ كَانَ) الْمُكَلَّفُ، فِي السَّبَبِيَّةِ عِنْدَ عَدَمِ الْأَدَاءِ قَبْلَهُ،

فى الشامية (قَوْلُهُ وَالْمُعْتَبَرُ فِي تَغْيِيرِ الْفَرْضِ) أَيْ مِنْ قَصْرٍ إلَى إتْمَامٍ وَبِالْعَكْسِ (قَوْلُهُ وَهُوَ) أَيْ آخِرُ الْوَقْتِ قَدْرُ مَا يَسَعُ التَّحْرِيمَةَ كَذَا فِي الشُّرُنْبُلَالِيَّة وَالْبَحْرِ وَالنَّهْرِ، وَاَلَّذِي فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ تَفْسِيرُهُ بِمَا لَا يَبْقَى مِنْهُ قَدْرُ مَا يَسَعُ التَّحْرِيمَةَ وَعِنْدَ زُفَرَ بِمَا لَا يَسَعُ فِيهِ أَدَاءُ الصَّلَاةِ (قَوْلُهُ وَجَبَ رَكْعَتَانِ) أَيْ وَإِنْ كَانَ فِي أَوَّلِهِ مُقِيمًا وَقَوْلُهُ: وَإِلَّا فَأَرْبَعٌ أَيْ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي آخِرِهِ مُسَافِرًا بِأَنْ كَانَ مُقِيمًا فِي آخِرِهِ فَالْوَاجِبُ أَرْبَعٌ، (رد المحتار على الدر المختار/كتاب الصلاة/باب صلاة المسافر/٦١٣/٢، ط: بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم،

شوہر کا انتقال ہو گیا ہے‌ اور بیوی خود ہاٹ کی مریض ہے تو اس کو اطلاع فوراً دینے میں اندیشہ ہے عدم برداشت کا تو اس صورت کا حکم مطلوب ہے

الجواب بعون الملک الوھاب= واضح رہے کہ ایسے حالات میں شریعت اور حکمت دونوں اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ اطلاع دینے میں نرمی اور حکمت سے کام لیا جائے، تاکہ صدمے سے ان کی صحت پر شدید منفی اثر نہ پڑے۔ اس معاملے میں درج ذیل نکات کو مدنظر رکھنا چاہیے، کسی قریبی اور ہمدرد شخص کے ذریعے اطلاع دینا، خبر دینے کے لیے ایسا شخص منتخب کیا جائے جو بیوی کے لیے انتہائی قریبی اور ہمدرد ہو، جیسے اولاد، بہن بھائی، یا والدین۔ اور وہ شخص نرمی اور تسلی کے ساتھ بات کرے تاکہ خاتون پر زیادہ بوجھ نہ پڑے روحانی اور جذباتی سہارا دینا: صدمے کے وقت دینی اور روحانی پہلو کو مضبوط کیا جائے، جیسے کہ صبر کی تلقین، اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی یاد دہانی، اور دعا و تسلی کے ذریعے حوصلہ دینا۔ اگر اندیشہ ہو کہ بیوی خبر سن کر شدید صدمے میں جا سکتی ہے، تو فوراً بتانے کے بجائے مناسب وقت اور طریقہ اختیار کرنا بہتر ہوگا۔ شریعت میں اس بات کی اجازت ہے کہ کسی کی جان اور صحت کے تحفظ کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جو نقصان سے بچا سکے۔ >

> وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا "اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔(النساء:٢٩)

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب کسی بیمار یا ضعیف انسان کو ایسی خبر دی جائے جو اس کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے، تو حکمت اور تدریج کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔" (زاد المعاد، جلد ٢، صفحہ ٣٣٤) > "لَا يُخِيفُ الْمُسْلِمُ الْمُسْلِمَ" "کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو خوفزدہ نہ کرے۔" (سنن أبي داود: 5004)

نبی کریم ﷺ کا عمومی طریقہ تھا کہ لوگوں کو مشکل باتیں حکمت اور نرمی سے سمجھائی جائیں، تاکہ وہ ان کو برداشت کر سکیں۔ > ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ "اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔(النحل)

کسی غیر مسلم کے بیمار ہونے پر اس کے نام سے صدقہ کر سکتے ہیں یا نہیں جس طرح ہم صدقہ سے علاج کرتے ہیں؟

الجواب بعون الملك الوهاب واضح رہے کہ صدقہ نافلہ کا مقصود جس طرح گناہ معاف ہونا ہے وغیرہ، اسی طرح صدقہ سے علاج معالجہ بھی کیا جاتا ہے، نیز غیر مسلم کے لیے صحت یابی کی دعا کرنا درست ہے،لہذا صورت مسؤلہ میں غیر مسلم کی جانب سے صدقہ نکالنا درست ہے، البتہ اس صدقہ سے صرف دنیاوی فائدہ ہوگا اخروی کوئی فائدہ نہ ہوگا، نیز بہتر ہوگا کہ صدقہ کرنے کے بعد غیر مسلم شخص کو اطلاع بھی کی جائے تاکہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو _ فقط – واللّه ورسوله أعلم بالصّواب

عن علي رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بادروا بالصدقه فان البلاء لا يتخطاها (مشکوة شریف/باب فضل الصدقه)__ (بیھقی - رقم٣٣٥٣)

ایک شخص غیر مسلم کی دکان پر گیا اس نے کچھ سامان خریدا جب دکاندار نے سامان دیا تو اس نے کہا جزاک اللہ بعد میں اس کے دوست نے کہا ارے یار جزاک اللہ تو مسلمان سے کہا جاتاہے آپ نے تو دکان والے سے کہ دیا، معلوم یہ کرنا ہے کیا غیر مسلم سے بھی جزاک اللہ کہ سکتے ہیں ؟

الجواب وبالله التوفيق = واضح رہے کہ کسی غیر مسلم کے لیئے دعا کرنا اور اس کو دعایٔہ جملہ کہنا درست نہیں ہے، اور جزاک اللّه یہ بھی دعایٔہ جملہ ہے، لہذا کسی غیر مسلم کو جزاک اللّه کہنا درست نہیں ہے، البتہ اسکی ہدایت کے لیے دعا کرنا اور ھداك الله جیسے جملہ کہنا بہتر ہے، فقط

اعلم أنه لا يجوز ‌أن ‌يدعى ‌له بالمغفرة وما أشبهها مما لا يکون للكفار، لكن يجوز أن يدعى بالهداية وصحة البدن والعافية وشبه ذلك. روينا في كتاب ابن السني عن أنس رضي الله عنه قال: استسقى النبي (صلى الله عليه وسلم) فسقاه يهودي، فقال له النبي (صلى الله عليه وسلم): ” جملك الله ” فما رأى الشيب حتى مات.(الأذكار للنووی/٣١٧_بیروت)

ایک شخص کا معمول ٢٠ رجب کو زکوٰۃ نکالنے کا ہے، اس نے ٢٠ تاریخ کو حساب لگا لیا تھا، ابھی زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی ٢٦ رجب تک تک اس کے پاس مزید مال آگیا تو اس مزید مال کی زکوٰۃ بھی اِسی سال ادا کرنی ہوگی؟

الجواب وبالله التوفيق: ذکر کردہ صورت میں بیس تاریخ کے بعد جو مال میں اضافہ ہوا ہے، اس کو سالِ گزشتہ کی زکوٰۃ میں نہیں جوڑا جائے گا؛ بلکہ اگلے سال مقررہ تاریخ میں جو مال موجود ہوگا اسی کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔

عن ابن عمر قال: من استفاد مالا فلا زكاة عليه حتى يحول عليه الحول. (المصنف لعبد الرزاق/كتاب الزكاة/باب لا صدقة في مال حتى يحول عليه الحول، ٧٧/٤، ط: المجلس العلمي)

فإن استفاد بعد حولان الحول فإنه لا يضم ويستأنف له حول آخر بالاتفاق، هكذا في شرح الطحاوي. (الفتاوى الهندية/كتاب الزكاة/الباب الأول في تفسيرها وصفتها، ١٩٣/١، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله تعالى أعلم.

١.سوال :-مفتیان کرام کی خدمت میں سوال عرض ہے کہ ، ہندوراشٹر گان (جن گڑمن آدھی نایک جیا ہے)گانا کیسا ہے جب کہ اسمیں بھارت بھاگیے ودھاتا اور جیا ہے جیا ہے جیسے الفاظ ہے

الجواب و باللہ التوفیق: مروجہ قومی ترانہ میں “بھارت بھاگیہ ودھاتا” کے دو معنی کئے گئے ہیں (1)اللہ کی طرف ۔ اس معنی کے اعتبار سے درست ہے (2)خود بھارت کی طرف ۔ یہ معنی کے اعتبار سے درست نہیں ہے ۔اس لئے پہلے معنی مراد لئے جائے ۔لیکن بعض علماء کا کہنا ہے کہ مروجہ قومی ترانہ میں شرک خفی پایا جاتا اس لئے بہتر یہ ہے کہ پڑھنے میں احتیاط کیا جائے ۔کوئی دوسرا قومی ترانہ پڑھ لیا جائے ۔ واللہ اعلم بالصواب

قوله تعالى "يأيها اللذين آمنوا لا تقولوا راعنا".....الثانية: في هذه الاية دليلان: أحدهما على تجنب الألفاظ المحتملة التي فيها التعريض للتنقيض والغض. (تفسير القرطبي/سورة البقرة/تحت الآية: ١٠٤، ٥٧/٣، ط: بيروت)

والشرك يكون بمعنى اعتقاد أن الله تعالى شانه شريكا، أما في الألوهية أو في الربوية. (روح المعاني/سورة النساء/تحت الآية: ٤٨، ٥٠/٣، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

ایک مستری دکان پر کچھ سامان لینے کے لیے گیا مستری نے سامان کی قیمت معلوم کی تو صاحبِ دکان نے ١٠ روپے بتائی مستری نے کہا ٹھیک ہے لیکن میرے مالک( جس کے گھر مستری کام رہا ہے) کو ١٢ روپے بتانا، چنانچہ مالک آیا اس نے قیمت معلوم کی تو صاحبِ دکان نے ١٢ روپے بتائی چنانچہ مالک نے ١٢ روپے دیے اور چلا گیا اس کے بعد صاحبِ دکان نے باقی دوروپے مستری کو دیدیے، اب معلوم یہ کرنا ہے یہ معاملہ کرنا کیسا ہے اور اس میں کون کون گنہگار ہے ؟

الجواب وبالله التوفيق: ایسا کرنا درست نہیں ہے یہ دھوکہ اور ناجائز ہے۔

قال رسول الله صلى عليه وسلم: "من غش فليس منا". (سنن الترمذي/كتاب البيوع/باب ماجاء في كراهية الغش في البيوع، ٥٩٧/٣، رقم الحديث: ١٣١٥، ط: مصر)

ایک عورت کی شادی ہوئی ایک ادمی سے اور اس کے ہاں بچے پیدا ہوئے پھر شوہر کا انتقال ہو گیا اور اپنا اپنا حصہ بھی تقسیم کر دی گئی اب اس عورت کی دوسری شادی ہوتی ہے ایک دوسرے ادمی سے اور اس کے یہاں بھی بچے ہیں اب اگر پہلی شادی سے ہوا لڑکا انتقال کر گیا اپنے بالغ بچے چھوڑ کر تو اس حالت میں لڑکے کے انتقال کے بعد اپنی ماں جو کہ اب دوسرے کی شادی میں ہے اس کو بھی حصہ ملے گا یا نہیں

الجواب وبالله التوفيق: ذکر کردہ صورت میں مرحوم بیٹے کی ماں جو اب دوسرے کے نکاح میں ہے اس کو اپنے بیٹے کی جائیداد میں حصہ ملے گا۔

والثالثة الأم ولها ثلاثة أحوال: السدس مع الولد وولد الإبن أو اثنين من الأخوة والأخوات من أي جهة كانوا، والثلث عند عدم هؤلاء، وثلث ما يبقي بعد فرض الزوج والزوجة. (الفتاوى الهندية/كتاب الفرائض/الباب الثاني: في ذوي الفروض، ٥٠٠/٦، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

١.سوال:- ہمارے یہاں لوگ ایک وظیفہ پڑھتے ہیں ” شیخ عبدالقادر جیلانی شی للہ” معلوم یہ کرنا ہے کہ اس وظیفے کو پڑھا جاسکتا ہے؟؟

لجواب وبالله التوفيق: مذکورہ وظیفہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔ مستفاد از: (إمداد الفتاوى جديد مطول حاشية، ٢٤٩/١٠، ط: زكريا ديوبند)

ومن أضل ممن يدعو من دون الله من لا يستجيب له إلى يوم القيامة وهم عن دعائهم غافلون. (سورة الأحقاف، الآية: ٥)

أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح شيئ.....وقد عده أناس من العلماء شركا. (روح المعاني/سورة المائدة/تحت الآية: ٣٥، ٢٩٧/٣، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

اگر کسی کے پاس کوئی زمین ہے اور اس سے کوئی نفع بھی حاصل نہیں ہو رہا یعنی نہ اس سے کرایہ آرہا ہے نہ کوی پیداوار تو کیا ایسی زمین پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟

الجواب وبالله التوفيق: زمین جو اُس کے پاس ہے اگر خریدتے وقت بیچنے کی نیت سے خریدی ہے۔ تو اس کی مالیت پر زکوٰۃ واجب ہو گی ۔ اور اگر خریدتے وقت بیچنے کی نیت سے نہیں خریدی تھی تو اُس کی مالیت پر بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔

وليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة، وصلاح الاستعمال زكوة؛ لأنها مشغولة بحاجة الأصلية ليست بنامية. (شامي/كتاب الزكاة، ١٧٨/٣، ط: زكريا ديوبند)

ومنها كون المال فاضلا عن الحاجة الأصلية....كثياب البذلة والمهنة والعلوفة والحمولة والعمولة من المواشي وعبيد الخدمة والمسكن والمراكب. (بدائل الصنائع/كتاب الزكاة، ٩١/٢، ط: زكريا ديوبند) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

ایک شخص نے دوسری شادی کرلی پہلی بیوی نے کہا تم نے شادی کیوں کی میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی چنانچہ بیوی اور اس کے گھر والوں نے کورٹ میں جاکر قانونی طورپر طلاق لے لی عورت نے طلاق نامہ پر دستخط کردیے لیکن شوہر بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا ہے کسی بھی حال میں نہ شوہر نے بیوی کو طلاق دی ہے اور نہ ہی شوہر نے طلاق نامہ پر دستخط کیے لیکن بیوی اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہے لہٰذا اس نے قانونی طور پر طلاق لےلی ہے، اس کے بعد اس نے دوسری جگہ نکاح بھی کرلیا ہے، عدت کے اندر ۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ذکر کردہ صورت میں طلاق ہوگئی یا نہیں ؟ نیز دوسری جگہ اس کا نکاح صحیح ہوگیا یا نہیں ؟؟

الجواب و بالله التوفيق صورت مسئولہ میں طلاق کے مسئلہ میں عدالت کا فیصلہ معتبر ہونے اور نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں ۔۔ پہلی صورت ۔۔ اگر کسی مسلمان عادل جج نے حدود شرع کی رعایت کرتے ہوئے طلاق کا فیصلہ بصورت مجبوری کیا تو اُس کا یہ فیصلہ طلاق صحیح ہوگا ۔ ورنہ نہیں ۔اور سوال نامہ سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ کوئی مجبوری نہیں تھی ۔ لہذا اگر مسلم جج نے بھی فیصلہ کیا تو معتبر نہیں ۔۔ دوسری صورت ۔ اگر فیصلہ کرنے والا غیر مسلم تھا تو ایسی صورت میں اُس کا فیصلہ معتبر نہ ہوگا اور طلاق واقع نہ ہوگی ۔۔ ۔ لہٰذا اب شوہر سے طلاق یا شرعی تفریق حاصل کئے بغیر دوسری جگہ نکاح کرنا درست نہیں ۔۔ (مستفاد از: ایضاح النوادر، ١٥١/٢)

ولن يجعل الله للكفرين على المؤمنين سبيلا. (سورة النساء، الآية: ١٤١)

لم ينفذ حكم الكافر على المسلم، وينفذ للمسلم على الذمي. (شامي/كتاب القضاء/باب التحكيم، ١٢٦/٨، ط: زكريا ديوبند)

لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره. (هندية/كتاب النكاح، ٢٨٠/١، ط: زكريا ديوبند)

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسلہ ذیل کے بارے میں قران مجید کے رکوع کے بارے میں دو قول منقول ہیں (1) 558 (2)540 دونوں قول میں سے کونسا قول اہل سنت والجماعت کے نزدیک راجح ہے تحقیق مطلوب ہے

الجواب وبالله التوفيق: “فتاویٰ عالمگیریہ” میں مشائخِ بخاری کے حوالے سے رکوعات کی تعداد ٥٤٠ ہی بیان کی گئی ہے، لیکن ہمارے یہاں مروجہ قرآن کریم کے نسخوں میں رکوعات کی تعداد ٥٥٨ پائی جاتی ہے، تو اس سلسلہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں “ہوسکتا ہے کہ رکوع کی علامت لگانے میں مختلف نسخوں میں کچھ اختلاف رہا ہو۔ مستفاد از: (علوم القران، ص: ١٩٨، ط: دار العلوم کراچی)

وحكي أن المشايخ رحمهم الله تعالى جعلوا القرآن على خمسمائة وأربعين ركوعا وأعلموا ذلك في المصاحف حتى يحصل الختم في ليلة السابع والعشرين. ( الفتاوى الهندية/كتاب الصلاة/الباب التاسع: في النوافل/فصل: في التراويح، ١٣٠/١، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

صاب نامی کا مالک ہونے اور حولان حول ہوجانے کے باوجود زکاۃ ادا نہیں کی پھر نصاب ہلاک ہوگیا تو کیا اس پر سابقہ زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا جیسے نماز وقت پر نہ ادا کرنے سے قضا لازم ہوتی ہے ؟

الجواب وبالله التوفيق: کسی شخص کے مال پر سال گزرنے کے بعد پورا مال ہلاک ہوجائے تو زکوٰۃ ساقط ہوجاتی ہے؛ البتہ اگر سارا مال ہلاک نہ ہو بلکہ کچھ مال ہلاک ہوا ہو تو ایسی صورت میں جتنا مال ہلاک ہوا ہے اسی کے بقدر زکوٰۃ معاف ہوگی اور مابقیہ پر بدستور زکوٰۃ واجب رہے گی۔

وإذا هلك المال بعد وجوب الزكاة سقطت عنه الزكاة، لتعلقها دون الذمة، وإذا هلك بعضه سقط حظه. (اللباب في شرح الكتاب/كتاب الزكاة/باب زكاة الخيل، ١٤٦/١، ط: المكتبة العلمية بيروت)

وذهب الحنفية إلى أن الزكاة تسقط بتلف المال بعد الحول سواء أتمكن من الأداء أم لا. وإن هلك بعض النصاب سقط من الواجب فيه بقدر ما هلك منه لتعلقها بالعين لا بالذمة. (الموسوعة الفقهية/المادة: تلف/تلف زكاة المال، ٢٦٨/١٣، ط: الكويت)

وإن هلك المال بعد وجوب الزكاة سقطت الزكاة........ وفي هلاك البعض يسقط بقدره اعتبارا له بالكل. وفي هامشه: أراد أنه إذا هلك كل النصاب كأن يسقط كل الواجب فكذلك إذا هلك بعض النصاب يسقط بعض الواجب اعتبارا للبعض بالكل. (البناية شرح الهداية/كتاب الزكاة/فصل: وليس في الفصلان والحملان والعجاجيل صدقة، ٣٦٣/٣، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله تعالى أعلم.

سوال: - قرآن وحدیث میں کہیں چاول کا ذکر ہے کیا؟

الجواب وبالله التوفيق: قرآن کریم اوراسی طرح صحیح احادیث میں چاول کا ذکر نہیں ملتا، البتہ چاول کے تعلق سے کچھ من گھڑت باتیں حدیث کے نام سے مشہور کردی گئیں ہیں مثلا: چاول کھانوں کا سردار ہے، چاول مجھ سے ہے، چاول میرے نور سے پیدا کیا گیا ہے، جس نے چالیس دن تک چاول کھائے اس کے دل سے زبان کے ذریعہ حکمت کا سرچشمہ پھوٹے گا وغیرہ۔ ان تمام باتوں کو حضرات محدثین نے من گھڑت قرار دیا ہے۔

أرز: فيه حديثان باطلان موضوعان على رسول الله صلى عليه وسلم، أحدهما: أنه"لو كان رجلا، لكان حليما" الثاني: "كل شيئ أخرجته الأرض ففيه داء وشفاء إلا الأرز، فإنه شفاء لا داء فيه" ذكرناهما تنبيها وتحذيرا من نسبتهما إليه صلى الله عليه وسلم. (زاد المعاد في هدي خير المعاد/تشبيه المؤمن به، ٢٦٢/٤، ط: مؤسسة الرسالة)

حديث: الأرز. ليس بثابت، ذكره ابن الديبع. (المصنوع في معرفة الحديث الموضوع، ص: ٥٦، رقم: ٢٧، ط: مؤسسة الرسالة) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

١ .سوال :-ایک عورت کے دو لڑکے ہیں اور لڑکی ہے اور لڑکی کی شادی ہو چکی ہے لیکن بہت غریب ہے شوہر کماتا نہیں اب ماں نے اس کے لئے کچھ پیسے جمع کئے ہیں اس طور پر کہ کچھ تو اپنی ملکیت میں سے اور کچھ اس طرح کہ بیٹے ماں کے پاس پیسے جمع کیا کرتے تھے تو ماں بیٹوں کی اجازت کے بغیر اس میں سے بھی نکال لیا کرتی تھی۔اب سوال یہ کہ کیا ماں نے جو پیسے بیٹوں کی اجازت کے بغیر نکالے ہیں اسے اپنی بیٹی کو دینا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب و بالله التوفيق:
سوال نامہ سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ بیٹے نے ماں کو اپنے مال کا مالک نہیں بنایا ۔ بلکہ اُس کے پاس بطور امانت رکھا ہے یا بغرض حفاظت ۔ لہٰذا ماں کا بیٹے کے مال میں میں سے بلا اجازت اپنی بیٹی کی ضرورت میں صرف کرنا جائز نہیں ۔۔ البتہ بھائی کو چاہیئے کہ وہ اپنے بہن کی ضرورت کا خیال رکھے ۔ ان شاء اللہ ۔ اجر عظیم کا مستحق ہوگا

فَلْیُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَه وَلْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّه. (سورة البقرة، رقم الآية: ۲۸۳)

وعن أنس رضي الله عنه قال: قلما خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: "لا ‌إيمان ‌لمن ‌لا ‌أمانة له ولا دين لمن لا عهد له". رواه البيهقي في شعب الإيمان". (کتاب الایمان/الفصل الثانی، ١٧/١، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

الأصل أنه لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا أذنه. (الموسوعة الفقهية/المادة: ضمان/حال تنفيذ إذن المالك وغيره، ٢٩٦/٢٨، ط: الكويت)

سوال :- فأمہ ھاویہ کی جگہ اگر ۔ فی عیشہ الراضیہ ۔ پڑھ دیا تو نماز فاسد ہو جائے گی ؟

الجواب وبالله التوفيق:
ذکر کردہ صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی۔

وإن اختلفا متباعدا نحو أن يختم آية الرحمة بآية العذاب، أو آية العذاب بآية الرحمة....فعلى قول أبي حنيفة ومحمد: تفسد صلاته. (الفتاوى التاتارخانية/كتاب الصلاة/الفصل الثاني: مسائل زلة القاري، ٩٦/٢، رقم: ١٨٤٣، ط: زكريا ديوبند)

إن كانت الكلمة الثانية في القرآن فهو على وجهين، إما إن كانت موافقة للأولى في المعنى، أو مخالفة، فإن كانت موافقة لا تفسد صلاته، وإن كانت مخالفة، قال عامة المشائخ تفسد صلاته وهو قول أبي حنيفة، ومحمد، وعن أبي يوسف فيه روايتان: والصحيح هو الفساد؛ لأنه أخبر بخلاف ما أخبر الله تعالى. (خانية على هامش الهندية/كتاب الصلاة/فصل: في قراءة القرآن خطأ في الأحكام المتعلقة بالقراءة، ١٥٢/١) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

ایک شخص نے زنا کیا ہے اسے پکڑلیا گیا ہے اب اس پر کیس بھی چل رہاہے تو کیا اس کے حق میں دعاء کرسکتے ہیں؟ یا نہیں کرسکتے؟ جو بھی حکم ہو ارشاد فرمائیں۔

الجواب وبالله التوفيق:
اگر زانی نے دعاء کرنے والے کے سامنے توبہ کرلی ہے تو اس کے حق میں دعاء کرسکتے ہیں، ورنہ نہیں۔

 مستفاد از:
(إمداد الفتاوى جديد مطول حاشيه، ١٧٩/٩، :ط زكريا ديوبند)

قال الله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان. (سورة المائدة، رقم الآية: ٢)

قال الله تعالى: ولا تأخذكم بهما رأفة في دين الله إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر. (سورة النور، رقم الآية: ٢)

عن أبي عبيدة بن عبد الله عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: التائب من الذنب كمن لا ذنب له. (ابن ماجة شريف/أبواب الزهد/باب ذكر التوبة، ص: ٣١٣، رقم الحديث: ٤٢٥٠، ط: دار السلام) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

١.سوال:-کیا فرماتے ہیں مفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ثنایا نام رکھنا کیسا ہے؟

الجواب و بالله التوفيق
ثنایا ثنیۃ کی جمع ہے اور ثنایا سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک کو کہتے ہیں ۔۔ نيز پہاڑی راستے پر ثنیہ کا اطلاق ہوتا ہے ( القاموس الوحید/225) یہ نام رکھ سکتے ہیں ۔۔
البتہ بہتر یہ ہے ہے کہ ازواجِ مطہرات اور صحابیات کے ناموں میں سے کوئی نام رکھا جائے ۔۔ فاطمہ خدیجہ حمنہ ۔۔ وغیرہ

ایک مکتب ہے اس میں پڑھنے والے تمام بچے فیس دیتے ہیں اس مکتب کا ایک نظام یہ ہے کہ جس طالب علم کی مہینے میں ایک بھی غیر حاضری نہیں ہوتی ہے اسے پچاس روپیے بطورِ انعام کے دیے جاتے ہیں، چنانچہ ایک شخص نے صدقہ کے لیے کچھ رقم الگ نکالی اور وہ مکتب کے استاد کو دیدی اور کہاں یہ پیسے بچوں کے انعام میں صرف کردیے جائیں تو کیا یہ پیسے بچوں کے انعام صرف کرسکتے ہیں ؟؟

الجواب وبالله التوفيق:
سوالِ مذکور میں صدقہ کی رقم بچوں کے انعام میں صرف کرسکتے ہیں۔

وقيد بالزكاة، لأن النفل يجوز للغني كما للهاشمي. (البحر الرائق/كتاب الزكاة/باب مصرف الزكاة، ٤٢٧/٢، ط: دار الكتب العلمية)

الأصل أن الصدقة تعطي للفقراء والمحتاجين... واتفقوا على أنها تحل للغني، لأن صدقة التطوع كالهبة فتصح للغني والفقير. (الموسوعة الفقهية/المادة: صدقة/التصدق على الفقراء و الأغنياء، ٣٣٢/٢٦، ط: الكويت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

اگر ہم کسی کو نیے کپڑے پہنے ہوئے دیکیھں تو اسے دیکھ کر کسی دعاء کا پڑھنا حدیث سے ثابت ہے؟

الجواب و بالله التوفيق:
اگر کسی کو نیا کپڑا پہنے ہوئے دیکھیں تو درج ذیل دعاء پڑھیں: “الْبَسْ جَدِيدًا، وَعِشْ حَمِيدًا، وَمُتْ شَهِيدًا “.

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ : أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عُمَرَ قَمِيصًا أَبْيَضَ، فَقَالَ : " ثَوْبُكَ هَذَا غَسِيلٌ أَمْ جَدِيدٌ ؟ " قَالَ : لَا، بَلْ غَسِيلٌ. قَالَ : " الْبَسْ جَدِيدًا، وَعِشْ حَمِيدًا، وَمُتْ شَهِيدًا ". (ابن ماجہ/كتاب اللباس/باب ما يقول الرجل إذا لبس ثوبا جديدا، ١٩١/٥، رقم الحديث: ٣٥٥٨) (مسند أحمد، ٤٤٠/٩، رقم الحديث: ٥٦٢٠)

١.سوال :-اگر لڑکا لڑکی زنا کی حد تک پہنچ جائے اور گواہ وہاں پر موجود نہ ہوں تو کیا لڑکا لڑکی کا آپس میں قبول کرنے سے نکاح ہو جاےگا

الجواب وبالله التوفيق:
دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر ان دونوں کا آپس میں نکاح قطعاً درست نہیں ہوگا چاہے زنا میں مبتلا ہونے کا اندیشہ کیوں نہ ہو۔

قال ومن كان له نصاب فاستفاد في اثناء الحول من جنسي ضمه اليه وذكرة به وقال الشافعي: لا يضم لانه اصل في حق المالك..(هدايه: ٢٠٩/٢, كتاب الزكاة زمزم بوك ديوبند)

عن عمران بن حصين، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا نكاح إلا بولي، وشاهدي عدل. (المعجم الكبير للطبراني، ١٤٢/١٨، رقم الحديث: ٢٩٩، ط: دار إحياء التراث العربي)

حضرت مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ کھیت بٹائی (بٹیہ) پر دینا (لینا)کیسا ہے اس طرح سے کہ کھیت زید کا ہے اور بکر اس میں فصل اگاتا ہے اور محنت کھاد پانی کھیتی کے جتنے خرچے ہیں سب بکر برداشت کرتا ہے ۔ اور زید کا کچھ خرچ نہیں ہوتا نہ ہی کھاد پانی کا خرچ اس کے طرف سے ہوتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی محنت کرتا ہے کھیت کے لیے، بلکہ کبھی کھیت دیکھنے بھی نہیں جاتا ۔ لیکن اناج اور گلے کی تقسیم دونوں میں برابر ہوتاہے۔ تو کیا زید کے لیے کھیت سے آئے ہوئے اناج کا لینا درست ہے یا یہ پھر سود ہے

الجواب بعون الملک الوھاب

کھیت بٹایٔ پر دینا بایں طور کہ بیج اور عمل ایک شخص کا ہو اور زمین دوسرے شخص کی ہو تو یہ طریقہ شرعاً جائز و درست ہے، سود نہیں ہے، اور مذکورہ شخص کیلئے وہ غلّہ لینا بھی درست ہے،
واضح رہے کہ اس کے اندر نفع ہمیشہ تناسب سے ہوگا، فقط _ واللّه أعلم بالصواب

إن كان الارض لواحد و العمل و البقر و البذر لواحد جازت. (ھدایہ ٤٢٧/٤)_(الدرالمختار مع رد المحتار ٤٠١/٩)

(دفع ) رجل ( أرضه إلى آخر على أن يزرعها بنفسه وبقره والبذر بينهما نصفان والخارج بينهما كذلك فعملا على هذا فالمزارعة فاسدة، ويكون الخارج بينهما نصفين، وليس للعامل على رب الأرض أجر )؛ لشركته فيه (و ) العامل ( يجب عليه أجر نصف الأرض لصاحبها )؛ لفساد العقد ( وكذا لو كان البذر ثلثاه من أحدهما وثلثه من الآخر والرابع بينهما ) أو ( على قدر بذرهما ) نصفين فهو فاسد أيضاً؛ لاشتراطه الإعارة في المزارعة.(فتاویٰ شامی ٢٨٦/٦)

سوال:-کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں اگر کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ جتنی فرائض نماز ہیں ان کا حکم اللہ اور اللہ کے رسول نے دیا ہے اور ما بقیہ جو سنن و نوافل ہیں ان کو بندوں نے ایجاد کیا ہے، سب انسانوں نے بنا رکھا ہے تو کیا ایسا شخص اسلام سے خارج ہے،اور اگر اسلام سے خارج نہیں تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے

الجواب وبالله التوفيق:
سوال مذکور میں زید کا یہ عقیدہ گھڑنا کہ تمام سنن و نوافل ایجاد بندہ ہیں بہ صراحت فقہاء موجبِ کفر ہیں؛ کیونکہ یہ در اصل استخفاف دین اور انکار حدیث پر مشتمل ہے، یاد رہے شریعت احکام الہیہ کا نام ہے بندہ شریعت بنانے پر قادر نہیں؛ لہذا زید کو ایسے کفریہ عقائد سے فوراً توبہ کرنی چاہیے اور ساری سنن و نوافل کو حق سمجھنا چاہیے۔

قلت: إنما لم يقل بوجوبها لأنه عليه السلام ساقها مع سائر السنن في حديث المثابرة، وقالوا العالم إذا صار مرجعا للفتوى يجوز له ترك سائر السنن لحاجة الناس إلا سنة الفجر، وذكر التمرتاشي في "الأمالي"ترك الأربع قبل الظهر والتي بعدها وركعتي الفجر لا يلحقه الإساءة إلا أن يستخف به، ويقول هذا فعل النبي وأنا لا أفعل، فحينئذ يكفر، وفي النوازل وفوائد الرستغفني من ترك سنن الصلوات الخمس ولم يرها حقا كفر، ولو أرها حقا وترك قيل لا يأثم، والصحيح أنه يأثم، لأنه جاء الوعيد بالترك. (البناية/كتاب الصلاة/باب النوافل، ٥٠٦/٢)

وفي التجنيس والنوافل والمحيط: رجل ترك سنن الصلوات الخمس إن لم ير السنن حقا فقد كفر لأنه ترك استخفافا، وإن رأى حقا منهم من قال لا يأثم والصحيح أنه يأثم لأنه جاء الوعيد بالترك. (البحر الرائق/كتاب الصلاة/باب الوتر والنوافل، ٨٠/٢، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

رجل ترك سنن الصلوات الخمس، إن لم ير السنن حقا، فقد كفر، وإن رأى السنن حقا، منهم من قال: لا يأثم، والصحيح أنه يأثم. (المحيط البرهاني/كتاب الصلاة/الفصل الحادي عشر: التطوع قبل الفرض وبعده، ٢٣٦/٢، رقم: ١٦٤٨، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.