الجواب وبالله التوفيق:
وقت ضائع کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے ایک ناپسندیدہ اور غیر مفید عمل ہے۔ قرآن و حدیث میں وقت کی قدر و قیمت واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔
قرآن کریم میں وقت کی قدر
1. سورۃ العصر:
(ترجمہ: زمانے کی قسم! بے شک انسان خسارے میں ہے)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمانے (وقت) کی قسم کھا کر انسان کے خسارے کو بیان کیا، یعنی جو وقت کو ضائع کرتا ہے، وہ نقصان میں ہے۔
2. سورہ المؤمنون:
(ترجمہ: بے شک وہ مؤمن کامیاب ہوگئے جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں اور جو لغویات سے دور رہتے ہیں)
اس سے معلوم ہوا کہ لغو اور فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا مؤمن کی شان نہیں، بلکہ اسے چھوڑ دینا کامیابی کی علامت ہے۔
احادیث مبارکہ میں وقت کی اہمیت
1. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ترجمہ: “دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ نقصان میں رہتے ہیں: صحت اور فارغ وقت۔”)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ وقت کی ناقدری کرنا خسارے کا باعث ہے۔
2. حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(ترجمہ: “قیامت کے دن کسی بندے کے قدم اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے، جن میں ایک یہ ہے: اس نے اپنی عمر کہاں صرف کی؟”)
مطلب یہ کہ وقت کا صحیح استعمال آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے، اور اسے ضائع کرنا باعثِ مؤاخذہ ہے۔ وقت اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے، اور اسے فضولیات میں ضائع کرنا قابلِ مذمت ہے۔ فضول گپ شپ، لایعنی مشاغل، اور غیر ضروری مصروفیات میں وقت کا زیاں ایک شرعی اور اخلاقی نقصان ہے، نیز وقت کا ضیاع دینی اور دنیاوی دونوں نقصانات کا باعث بنتا ہے۔ لغویات میں وقت ضائع کرنے کو ناپسندیدہ اور گناہ کے قریب قرار دیا گیا ہے، اور ہر مسلمان کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے وقت کو نیکی، عبادت، علم اور بھلائی کے کاموں میں استعمال کرے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ وقت کی اہمیت قرآن و حدیث سے واضح ہے۔ وقت کا ضیاع دنیا و آخرت میں خسارے کا سبب ہے، جبکہ اس کا صحیح استعمال انسان کو کامیابی اور نجات کی طرف لے جاتا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا وقت قیمتی سمجھے اور اسے نیک کاموں، عبادت، علم، اور خیر کے کاموں میں لگائے۔
جدید مسائل
آج کل آدمی کے پاس کتنے روپیے ہوں تو وہ صاحب نصاب بنتا ہے؟
الجواب وباالله التوفیق:
واضح رہے کہ جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر سامان تجارت یا اتنی مقدار میں مخلوط اموال زکوٰۃ یعنی سونا چاندی مال تجارت نقدی ہوں اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے ۔نیز یہ بھی یاد رہے کہ موجودہ دور میں گرام کے اعتبار ساڑھے باون تولہ چاندی کی مقدار 612 گرام 360 ملی گرام بنتی ہے اور گوگل کے حساب سے آج کا ریٹ ہمارے ہاپوڑ اور اس کے اطراف میں ایک گرام چاندی کا 95 روپئے 833 پیسے تھا
لھذا مذکورہ تفصیل کے بعد جاننا چاہئے کہ فی الوقت جس شخص کی ملکیت میں تقریباً 58ہزار 684روپئےہوں وہ صاحب نصاب ہے اور اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔۔ فقط واللہ اعلم باالصواب
ويضم الذهب الي الفضة والفضة الي الذهب ويكمل احدي النصابين باالآخر عند علمائنا ثم قال ابو حنيفة: يضم باعتبارالقيمةالخ. (الفتاوي التاتارخانيه/كتاب الزكاة/فصل في زكاةالمال، ١٥٧/٣، ط: رشيدية)
جو شخص خود کشی کرتا ہے کیا اس کی روح معلق رہتی ہے براے مہربانی اس کے بارے میں وضاحت فرمایئے
الجواب وبالله التوفيق:
مرنے کے بعد مردہ کی روح اپنے اپنے مقام میں پہنچادی جاتی ہے، نیکوں کی ارواح علیین میں اور بدوں کی ارواح سجین میں خواہ ان کی موت کسی بھی طریقہ سے ہوئی ہو؛ لہذا یہ سمجھنا کہ خود کشی کرنے والے کی روح معلق رہتی ہے، درست نہیں ہے۔
كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ. (المطففين، الآية: ٧)
كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ. (المطففين، الآية: ١٨)
وقال كعب: أرواح المؤمنين في عليين في السماء السابعة، وأرواح الكفار في سجين في الأرض السابعة تحت خد إبليس. (شرح العقيدة الطحاوية/الاختلاف في مستقر الأرواح بعد الموت، ٥٨٣/٢، ط: مؤسسة الرسالة) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہماری مسجد میں امام صاحب تراویح پڑھارہے تھے،دوسری رکعت میں قعدہ کئے بغیر کھڑے ہوگئے ،پھر دو رکعت اور مکمل کرلیں ،اور سجدۂ سہو کرلیا ،تو کیا سجدۂ سہو کرنے سے چاروں رکعتیں صحیح ہوگئیں ،یا دو رکعت صحیح ہوگئیں ،یا ساری نماز فاسد ہوگئی،؟
باسمہ سبحانہ وتعالى
الجواب وباللہ التوفيق: مذکورہ صورت میں صرف آخر کی دو رکعتیں معتبر ہوگی اور شروع کی دو رکعتیں باطل قرار پائے گی نیز پہلی دو رکعتوں میں جو قرآن پڑھا گیا ہے اس کا اعادہ کرنا ہوگا ـ
وكان الشيخ أبوجعفر يقول، يجزيه عن تسليمة واحدة، و فى الخانية؛ هو الصـحيح به كان يفتي الشيخ الإمام أبوبكر محمد بن الفضل قال القاضي الإمام أبوعلى النسفي: قول الفقيه أبى جعفر، والشيخ الإمام أقرب إلى الاحتياط و كان الأخذ به أولى، وعليه الفتوى. (الفتاوی التاتارخائية۲- ۳۳۰رقم ۲۵۷۱ البحرالرائتق٢I٦٧ؐ کوئٹہ
ایک شخص ہکلاتا ہے اور اسکو ہکلاہٹ کی وجہ سے ۴ رکعات پڑھنے میں ۲۰ ۲۵ منت لگ جاتے ہیں تو کیا ایسا شخص سنت مؤکدہ چھوڑ سکتا ہے ?
الجواب وبااللہ التوفیق
واضح رہے کہ احادیث مبارکہ میں سنت موکدہ کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں اور بلا عذر ترک کرنے پر وعیدہے ۔لھذا صورت مسئولہ میں شخص مذکور کو چاہئے کہ بہت مختصر قرآت کے ساتھ یعنی ما یجوز بہ الصلاۃ ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات پر اکتفاء کرلے زیادہ لمبی قرآت نہ کرے مگر سنت موکدہ پڑھے سنت موکدہ کے چھوڑنے کی عادت بنا لینا خسارے کا باعث ہے اور ان شاءاللہ اس کی مشقت بھری عبادت مزید ثواب کا باعث ہوگی ۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ۔
عن عائشة رضي الله تعالى عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ثابر على ثنتي عشرة ركعة من السنة بنى الله له بيتا في الجنة. اربع ركعات قبل الظهر وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب وركعتين بعد العشاء وركعتين قبل الفجر.... ترمزي شريف. /ابواب الصلاه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم /باب. من صلى في يوم وليلة ثنتي عشرة ركعة من السنه/ج/١...ص...٤٣٩... رقم الحديث...٤١٤.... رجل ترك سنن الصلاة ان لم ير السنن حقا فقد كفر لانه ترك استخفافا وان راها حقا فالصحيح انه ياثم لانه جاء الوعيد بالترك كذا في المحيط السرخسي.... /الفتاوى الهندية /كتاب الصلاة /الباب التاسع في النوافل/.ج...١/ص/١١٢/..زكريا..
جب لوگ نماز پڑھتے ہیں اور اللہ تعالی کسی بندے پر نظر فرمالیں تو اس بندے کی اور اس کے پیچھے والے لوگوں کی اللہ تعالی مغفرت فرمادیتے ہیں؟
الجواب وبالله التوفيق:
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے “إحياء علوم الدين” میں اور علامہ ابو طالب مکی رحمتہ اللہ علیہ نے “قوت القلوب” میں مذکورہ روایت بلا سند ذکر کی ہے، نیز اس روایت کو بلا سند ذکر کرنے کے بعد علامہ ابو طالب مکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “وقد رفعه بعض الرواة الخ” بعض راویوں نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنی ہے، نیز علامہ عراقی رحمتہ اللہ علیہ مذکورہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے: “مجھے یہ حدیث نہیں مل سکی”، اور علامہ مرتضی زبیدی رحمۃ اللہ علیہ نے “إتحاف” میں حافظ عراقی رحمتہ اللہ علیہ کے قول پر اعتماد کیا ہے، اس لیے مذکورہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے۔
وقد روينا عن أبي الدرداء فضيلة في الصف المؤخر، قال سعيد بن عامر: صليت إلى جنبه، فجعل يتأخر في الصفوف حتى كنا في آخر صف، فلما صلينا، قلت له: أليس يقال: خير الصفوف أولها؟ قال: نعم، إلا أن هذه أمة مرحومة منظور إليها من بين الأمم، وإن الله عز وجل إذا نظر إلى عبد منهم في الصلاة غفر لمن وراءه من الناس، فإنما تأخرت رجاء أن تغفرلي بواحد منهم ينظر الله إليه. وقد رفعه بعض الرواة أن أبا الدرداء سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول ذلك. (قوت القلوب/الفصل الحادي والعشرون: كتاب الجمعة، ٢٠٧/١، ط: دار التراث، القاهرة) (إحياء علوم الدين/آداب الجمعة على ترتيب العادة، ١٨٣/١، ط: دار المعرفة، بيروت)
حديث أبي الدرداء: "إن هذه الأمة مرحومة منظور إليها من بين الأمم وإن الله إذا نظر إلى عبد في الصلاة غفر له ولمن وراءه من الناس" ولم أجده. (المغني عن حمل الأسفار/كتاب أسرار الصلاة ومهماتها/الباب الخامس: في فضل الجمعة وآدابها وسننها، ١٣٦/١، رقم: ٥٣٥، ط: مكتبة دار تيرية)
قال العراقي: لم أجده بهذا اللفظ وروى ابن عساكر في تاريخ دمشق. (إتحاف السادة المتيقن بشرح إحياء علوم الدين/بيان آداب الحمعة، ٢٦٦/٣، ط: مؤسسة التاريخ العربي، بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.
١.سوال:-حیلہ تملیک کا شرعی حکم کیا ہے ؟؟
باسمہ سبحانہ و تعالٰی
الجواب وبالله التوفيق:
اگر کسی کے حق کو ساقط کرنے یا کسی ناحق کو حق دلانے کے لیے حیلہ اختیار کیا جائے تو ایسا حیلہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے البتہ کسی شدید ضرورت کے دفعیہ کےلیے حیلہ اختیار کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، باقی اس سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ متعلقہ جزوی مسئلہ اور در پیش صورت حال بیان کر کے مسئلہ معلوم کیا جائے…
ﺃﻥ ﻛﻞ ﺣﻴﻠﺔ ﻳﺤﺘﺎﻝ ﺑﻬﺎ اﻟﺮﺟﻞ ﻹﺑﻄﺎﻝ ﺣﻖ اﻟﻐﻴﺮ ﺃﻭ ﻹﺩﺧﺎﻝ ﺷﺒﻬﺔ ﻓﻴﻪ ﺃﻭ ﻟﺘﻤﻮﻳﻪ ﺑﺎﻃﻞ ﻓﻬﻲ ﻣﻜﺮﻭﻫﺔ (ھندیہ قدیم ٣٩٠/٦)
وإذا فعله حيلة لدفع الوجوب... قال أبو يوسف لا يكره؛ لأنه امتناع عن الوجوب لا إبطال حق الغير...وقال محمد: يكره، واختاره الشيخ حميد الدين الضرير؛ لأن فيه إضرارا بالفقراء وإبطال حقهم مالا (شامی زکریا:٢٠٨/٣)
بچوں کی دینی اور دنیوی تعلیم میں زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟؟
الجواب وبالله التوفيق:
اگر دینی یا دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ زکوۃ کے مستحق ہیں تو ان کی تعلیم کےلیے زکوۃ دینا جائز ہے، البتہ انہیں زکوۃ کی رقم کا مالک بنانا ضروری ہے…
واللہ اعلم با الصواب
اما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم.... بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى ( هنديه قديم:۱۷۰/۱)
مصرف الزكاة هو فقير وهو من له ادنى شيء اي دون نصاب او قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة ( شامی زکریا: ٣٠٣/٣)
“گانا زنا کا منتر ہے” سوال یہ ہے کہ مذکورہ بات حدیث ہے اگر حدیث ہے تو کس کتاب میں موجود ہے ؟؟
الجواب وبالله التوفيق:
“گانا زنا کا منتر ہے” یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں ہے، بلکہ مشہور قول کے مطابق یہ فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے۔
مستفاد از:
(غير معتبر روایات کا فنی جائزہ، ٢٩٧/٤، مکتبہ عمر فاروق، کراچی)
"الغناء رقية الزنا" قال النووي في"شرح مسلم" هو من أمثالهم المشهورة انتهى. وعزاه الغزالي للفضيل بن عياض. (الاسرار المرفوعة في الاخبار الموضوعة/حرف الغين المعجمة، ص: ٢٥٢، رقم: ٣١٢، ط: مؤسسة الرسالة)
حديث: الغناء رقية الزنا من كلام الفضيل. (المصنوع في معرفة الحديث الموضوع/حرف الغين المعجمة، ص: ١٢٦، ط: مؤسسة الرسالة) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.
عالم اور مفتی کسے کہتے ہیں ان دونوں کی تعریف معلوم کرنی تھی حضراتِ مفتیان
الجواب وبااللہ التوفیق:
لغوی اعتبار سے عالم کہتے ہیں
علم يعلم علما ۔بمعنی ۔جاننا ۔واقف ہونا۔ پہچاننا ۔ ۔عالم۔۔ جاننے والا ۔
اور مفتی کہتے ہیں۔ فتي يفتي فتي وفتاء.. افتي في المسالة.. شرعی حکم بیان کرنا ۔قانونی رائے دینا ..اور.مفتی۔ شرعی احکام بیان کرنے والا ۔
اور عرفا عالم وہ شخص کہلاتا ہے جس نے درس نظامی مکمل پڑھا ہو۔اور مفتی وہ شخص کہلاتا ہے جس نے درس نظامی مکمل کرنے کے بعد کسی مفتی کی نگرانی یا کسی ادارے میں با ضابطہ داخلہ لے کر افتاء کا کورس کیا ہو گویا اس اعتبار سے عالم اور مفتی کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے یعنی ہر مفتی عالم ضرور ہوگا لیکن ہر عالم کا مفتی ہونا ضروری نہیں ۔۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ حقیقتاعالم بننے کے لیے صرف علوم کا پڑھنا اور درس نظامی کا مکمل کر لینا یہ کافی نہیں ہے بلکہ اصل اور حقیقت میں عالم وہ شخص ہے جس میں اللہ تعالی کا خوف اور خشیت اور اپنے علم پر عمل کرنے کی صفت بھی پائی جائے اسی طرح مفتی بننے کے لیے بھی صرف تخصص کر لینا اور درس نظامی کی تکمیل کے بعد ایک دو سال کسی ادارے یا مفتی کی نگرانی میں لگا لینا یہ کافی نہیں بلکہ حقیقت میں مفتی وہ شخص ہے جس میں تقوی و طہارت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی پائی جائے کہ اس نے ایک طویل عرصے تک کسی ماہر مستند عالم دین اور مفتی کی نگرانی میں رہ کر فقہ و فتاوی کی مشق وتمرین کی ہو۔
روى علي بن طلحة عن ابن عباس انما يخشى الله من عباده العلماء.. قال.. الذين علموا ان الله على كل شيء قدير.. وقال الربيع بن انس.. من لم يخشى الله تعالى فليس بعالم وقال مجاهد.. انما العالم من خشي الله عز وجل وعن ابن مسعود.. كفى بخشية الله تعالى علما وبالاغترار جهلا. وقيل لسعد بن ابراهيم من افقه اهل المدينة قال اتقاهم لربه عز وجل.. وعن مجاهد قال.. انما الفقيه من يخاف الله عز وجل.. وعن علي رضي الله عنه قال.. ان الفقيه حق الفقيه من لم يقنط الناس من رحمة الله ولم يرخص لهم في معاصي الله تعالى ولم يؤمنهم من عذاب الله ولم يدع القران رغبة عنه الى غيره انه لا خير في عباده لا علم فيها ولا علم لا فقه فيه ولا قراءة لا تدبر فيها واسند الدارمي ابو محمد عن مكحول قال... قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان فضل العالم على العابد كفضلي على ادناكم ثم تلا هذه الاية انما يخشى الله من عباده العلماء.. ان الله وملائكته واهل سماواته واهل ارضيه والنون في البحر يصلون على الذين يعلمون الناس الخير. (تفسير القرطبي/سورة فاطر/رقم الآية: ٢٨، ط: بيروت)
١.سوال:-کسی غیر مسلم سے نمستے یا نمسکار کہ سکتے ہیں ؟؟
باسمہ سبحانہ وتعالی
الجواب وبا اللہ التوفیق
ملاقات کے وقت ایسے الفاظ سے سلام کرنا جو غیر مسلم کا شعار یا ان کی تہذیب کا حصہ ہو مثلا نمستے یا نمسکار کہنا تو یہ جائز نہیں ہے اور اگر وہ نمستے یا نمسکار سے سلام کرتے ہیں تو جوابا ھداک الله کہ دیا جاۓ
فتاوی محمودیہ کتاب الحضر والاباحہ باب السلام. جلد ۱۹ صفحہ ۹۲ -۹۳ ط جامعہ فاروقیہ
کفایۃ المفتی جلد ۹. صفحہ ۱۰۹ ط دار الاشاعت
فتاوی رحیمیہ جلد ۱۰ صفحہ ۱۲۶
اذا سلم علی اھل الذمۃ فلیقل السلام علی من اتبع الھدی وکذلک یکتب فی الکتاب الیھم وفی التاتارخانیہ قال محمد اذا کتبت الی یھودی او نصرانی فاکتب السلام علی من اتبع الھدی. ( فتاوی شامی ۶ صفحہ ۱۴۲ کتاب الحضر والاباحہ. فصل فی البیع ط سعید )
اگر کوئی کھانے میں مشغول شخص کو سلام کرے تو کیا کھانے میں مشغول شخص پر سلام کا جواب دینا ضروری ہے؟؟
الجواب وبالله التوفيق:
جو شخص کھانے میں مشغول ہو، اس کو سلام نہیں کرنا چاہیے، اور اگر آپ نے ایسے شخص کو سلام کرلیا، تو سننے والے پر جواب دینا ضروری نہیں ہے، تاہم اگر جواب دیدے تو حرج بھی نہیں ہے۔
ويكره أن يسلم على من هو في الخلاء ولا يرد عليه السلام، وكذا الآكل والقاري والمشتغل بالعلم. (البحر الرائق/كتاب الكراهية/فصل: في البيع، ٣٨٠/٨، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.
اگر عورت کو بحالت نماز شوہر یا اجنبی شخص با الشھوۃ یا بلا شھوۃ چھولے تو عورت کی نماز درست ہو جائگی یا فاسد ہو جائگی؟
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
الجواب وبا الله التوفیق
اگر عورت کو بحالت نماز شوہر نے یا اجنبی شخص نے چھولیا خواہ شھوۃ کے ساتھ ہو یا شھوت کے بغیر ہو بہر صورت نماز فاسد ہو جائیگی
لو کانت المرءۃ فی الصلاۃ فجامعھا زوجھا تفسد صلاتھا وان لم ینزل منی وکذا لو قبلھا بشھوۃ او بغیر شھوۃ او مسھا لانہ فی معنی الجماع فتاوی شامی کتاب الصلاۃ. باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا جلد ۱ صفحہ ۶۲۸ دار الفکر بیروت
ولو مس المصلیۃ بشھوۃ او قبلھا و لو بغیر شھوۃ تفسد فتح القدیر جلد ۱ صفحہ ۴۰۴
لو مس المصلیۃ بشھوۃ او قبلھا بدونھا فان صلاتھا تفسد فتاوی شامی جلد ۱ صفحہ ۶۵۲ باب ما یفسد الصلاۃ ط. دار الفکر فقط و اللہ اعلم باالصواب
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کی سزا ہے؟ اسی طرح نیکی کا بھی یہی معاملہ ہے ؟ مدلل رہنمائی فرمائیں
الجواب وبالله التوفیق:
ایک گناہ دوسرے گناہ کی سزا ہے یہ تعبیر اختیار کرنا تو مناسب نہیں البتہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گناہ بعض اوقات دوسرے گناہ کا سبب بنتا ہے اور انسان کو برے انجام تک پہنچا دیتا ہے اسی طرح نیکی بھی دوسرے نیک کاموں کا ذریعہ اور وسیلہ بنتی ہے اور انسان باری تعالیٰ کے مقرب بندوں میں شامل ہوجاتا ہے جیساکہ بیشتر نصوص شرعیہ سے اسکی تائید ہوتی ہے۔
قال الله تبارك وتعالى فلما زاغوا ازاغ الله قلوبهم والله لا يهدي القوم الفاسقين / سورة الصف/ رقم الاية ١٤/
عن عبد الله قال.. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عليكم بالصدق فان الصدق يهدي الى البر وان البر يهدي الى الجنة وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا واياكم والكذب فان الكذب يهدي الى الفجور وان الفجور يهدي الى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا.../مسلم شريف /كتاب البر والصلة والاداب/باب قبح الكذب وحسن الصدق وفضله/رقم الحديث ٢٦٠٧
عن ابي هريره. عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال... ان العبد اذا اخطأ خطيئة نكتت في قلبه نكتة سوداء فاذا هو نزع واستغفر وتاب سقل قلبه وان عاد زيد فيها حتى تعلو قلبه وهو الران الذي ذكر الله كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون../ترمزي شريف/ابواب تفسير القران عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/باب ومن سوره ويل للمطففين/رقم الحديث /٣٣٣٤/ فقط والله تعالى اعلم بالصواب
ایک شخص موبائل کی کمپنی کا مالک ہے اور اس کی ماتحتی میں مزدور کام کرتے ہیں اور کمپنی کا قانون یہ ہے اگر کوئی مزدور ایک دن کی بھی چھٹی کرتا ہے تو کمپنی ٥٠٠ روپیے کاٹ لیتی ہے جبکہ اسکی مزدوری ایک دن کی ٤٨٤ بیٹھتے ہیں، اور اسی طرح اگر کوئی مزدور دس دن کام کرکے چھوڑ دیتا ہے تو کمپنی اس کو دس دن کی مزدوری نہیں دیتی تاکہ مزدور چھٹی نہ کرے تو کیا اس طرح کا عمل جائز ہے یا نہیں ؟؟
الجواب وباللّه التوفيق=
١- واضح رہے کہ کویٔ بھی کمپنی اپنے مزدور کو جو تنخواہ دیتی ہے وہ در حقیقت مزدوری کی اجرت دیتی ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص کمپنی میں چھٹی کرتا ہے تو مالک کو شرعاً یہ اختیار ہیکہ وہ أیام غیر حاضری کی تنخواہ کاٹ لے، لیکن مالک کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ غیر حاضری پر اتنی زیادہ تنخواہ کاٹے جس سے مزدور کو حرج ہو، یہ ظلم ہے،
٢- مالک کے لیے یہ ہرگز جایز نہیں ہے کہ وہ صرف بغرض خود مزدور کی دس یوم کی تنخواہ نہ دے، یہ عمل شرعاً و اخلاقاً درست نہیں ہے، قرآن و احادیث نے اس کی سخت مذمت کی ہے، بروز قیامت یہ روکی ہویٔ تنخواہ اعمالِ صالحہ کے ذریعہ ادا کرنا ہوگی-
لھذا مالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تمام مزدور کی تنخواہ لوٹا دے جس – جس کی تنخواہ اب تک نہیں دی ہے، اور کمپنی کو نقصان سے بچانے کے لیے جایز و عدل وانصاف پر مبنی قانون بناییں،۔ نیز أیام غیر حاضری کی جو تنخواہ ہے صرف وہی کاٹے، اور مزدوروں کے ساتھ آسانی وحسنِ سلوک کرے؛ فقط
والّله سبحانه وتعالى أعلم بالصّواب
قال اللّه تعالى:وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ( سورۃ الأعراف : ٨٥)
عن عبدالله بن عمر قال: قال رسول الله صلى عليه وسلم: أعطوا الأجير أجره، قبل أن يجف عرقه. (سنن ابن ماجة/كتاب الرهون/باب أجر الأجراء، ٨١٧/١، رقم الحديث: ٢٤٤٣، ط: بيروت)
١.سوال:-کیا حضرت عائشہؓ اللہ کے نبیﷺ کو نام لیکر پکارتی تھیں ۔ یا کس نام سے بلاتی تھیں۔ تحقیق مطلوب ہے؟
الجواب وبااللہ التوفیق ۔
بندے کی تحقیق کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عموما یا رسول اللہ کہہ کر مخاطب کرتی تھیں متعدد احادیث میں یہ الفاظ منقول ہیں جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے یا آپ سے کسی بات کے بارے میں سوال یا استفسار کرتے ہوئے یا رسول اللہ کے الفاظ کہیں ہیں حضرات صحابہ اور ازواج مطہرات کا عمومی طریقہ جناب رسول اللہ صلی ال علیہ وسلم کو خطاب کرنے کا یہی تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعظیم اور ادب کے ساتھ یا رسول اللہ ۔۔یا ۔۔ یا نبی اللہ کہہ کر پکارتے تھے اس کے علاوہ بھی نصوص پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ حضرات یا محمد کہ کریعنی آپ کے نام کے ساتھ مخاطب کرتی تھیں۔
قال الله تبارك وتعالى.. يا ايها الذين امنوا لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبي ولا تجهروا له بالقول كجهر بعضكم لبعض ان تحبط اعمالكم وانتم لا تشعرون ...... سوره حجرات/ رقم الايه /٢/....... وقال تعالى ان الذين ينادونك من وراء الحجرات اكثرهم لا يعقلون.... سوره الحجرات/رقم الايه/٤/ قالت عائشة .قلت .يا رسول الله. كيف يحشر الناس يوم القيامه. قال حفاة عراة..قلت والنساء .قال والنساء.. قلت يا رسول الله فما يستحيا قال. يا عائشة الأمر اهم من ان ينظر بعضهم الى بعض ...... /سنن ابن ماجه ./كتاب الزهد... باب ذكر البعث /رقم الحديث/٤٢٧٦/ عن عائشة. ان صفية حاضت بمنى وقد افاضت. فقالت عائشة.. يا رسول الله. ما ارى صفيةالا حابستنا قال لم .. قلت حاضت قال اولم تكن قد افاضت قلت قال اظنه قالت بلى............ بخاري شريف جلد نمبر/١/ص/٧٣/رقم الحديث/٣٢٨/كتاب الحيض،،باب،المرءة تحيض بعد الافاضه.. ..و../مسند احمد/مسند الصديقه عائشه بنت الصديق رضي الله عنها/رقم الحديث٢٤٦٧٤....
شب برأت کے موقع پر مسجد میں علماء کرام سے بیان کرانا اور بذریعہ اشتہار لوگوں کو اس کی دعوت دینا کیسا ہے؟
الجواب وبالله التوفيق:
پندرہ شعبان کی رات میں عبادت کرنا اور دن میں روزہ رکھنا حدیثِ پاک سے ثابت ہے البتہ اس رات بہت سی خرافات ہوتی ہیں ان خرافات پر روک تھام کے لیے اگر حضراتِ علماء کرام سے بیانات کرالیے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اس کو لازم اور ضروری نہ سمجھا جائے۔
عن على بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى عليه وسلم "إذا كانت ليلة النصف من شعبان، فقوموا ليلها وصوموا نهارها إلى آخر الحديث. (سنن ابن ماجة/كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها/باب ماجاء في ليلة النصف من شعبان، ٤٤٤/١، رقم الحديث: ١٣٨٨، ط: بيروت)
عن أبي موسى: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إنما مثل الجليس الصالح، والجليس السوء، كحامل المسك، ونافخ الكبير، فحامل المسك: إما أن يحذيك، وإما أن تبتاع منه، وإما أن تجد منه ريحا طيبة، ونافخ الكبير: إما أن يحرق ثيابك، وإما أن تجد ريحا خبيثة. (صحيح المسلم/كتاب البر والصلح والأدب/باب استحباب مجالسة الصالحين ومجانبة قرناء السوء، ٣٣٠/٢، ط: النسخة الهندية) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.
ایک شخص نے وصیت کی کہ ان پیسوں کو مسجد میں لگادینا پھر اس کا انتقال ہوگیا تو کیا ان پیسوں کو مدرسہ میں خرچ کرسکتے ہیں ؟؟
الجواب وبالله التوفيق:
سوالِ مذکور میں ان پیسوں کو مرحوم کی شرط کے مطابق مسجد میں صرف کرنا لازم ہے، مدرسہ میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔
أما الوصية لمسجد كذا أو قنطرة كذا، صرف إلى عمارته وإصلاحه. (بزازية/كتاب الوصايا، ٢٦٢/٣، ط: زكريا)
اتفق الفقهاء على هذه العبارة وهي أن شرط الواقف كنص الشارع. (الفقه الإسلامي وأدلته/الباب الخامس: الوقف/المبحث الأول: شروط الوقف، ١٧٨/٨، ط: دار الفكر)
صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة. (شامي/مطلب: مراعاة غرض الواقفين واجبة، ٦٦٥/٦، ط: دار عالم الكتب الرياض) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.
کیا نفلی روزے میں خالص سیاہ خضاب کر سکتے ہیں یا نہیں؟
الجواب وباللّه التوفيق : –
واضح رہے کہ سیاہ خضاب لگانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے حدیث میں اس کے لیے وعید آئی ہے، البتہ اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا،
(مستفاد از: فتاویٰ دارالعلوم دیوبند)
وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة؛ لیکون أهیب في عین العدو فهو محمود منه، اتفق علیه المشائخ. ومن فعل ذلك لیزید نفسه للنساء أو لحبب نفسه إلیهن فذلك مکروه، و علیه عامة المشائخ. وبعضهم جوز ذلك من غیر کراهة”. (الفتاوى الهندية ۵/۳۵۹)
ایک شخص بچوں کو پڑھاتا ہے اس کی ڈیوٹی چھ گھنٹے کی ہے اب اگر وہ چار گھنٹے میں بچوں کو پڑھا دیتا ہے تو اس کے لیے چھہ گھنٹے کی سیلری لینا جائز ہوگا یا نہیں ؟؟
الجواب وبالله التوفيق:
مسؤولہ صورت میں اجارہ کا معاملہ عمل اور وقت دونوں سے متعلق ہے؛ لہذا شخصِ مذکور کا چار گھنٹے میں بچوں کو پڑھا کر چھ گھنٹے کی سیلری لینا جائز نہیں ہے۔
وليس للخاص أن يعمل لغيره؛ بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التاتارخانية: وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة، ولا يشتغل بشيئ آخر سوى المكتوبة. (شامي/كتاب الإجارة/باب ضمان الأجير/مطلب: ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة، ٩٦/٩، ط: زكريا) واللہ اعلم بالصواب
ایک شخص تہجد کے وقت اٹھا اس نے وضو کرکے دورکعت نفل نماز پڑھی نماز سے فارغ ہونے بعد پتہ چلا کہ فجر کا وقت شروع ہوچکا کافی دیر پہلے اب معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ دو رکعت فجر کی سنتوں کے قائم مقام ہوں جائیں گی یا نہیں ؟
الجواب وباللّه التوفيق=
صورتِ مسئولہ میں پڑھی ہوی دو رکعت نیت کے فرق کے سبب فجر کی سنتوں کی طرف سے کافی نہیں ہونگی- فقط