حالتِ اعتکاف میں زیر ناف بال کاٹ سکتے ہیں یا نہیں؟؟ اگر کوئی کاٹ لے تو اس سے اعتکاف تو نہیں ٹوٹے گا؟؟

اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے تمام غیر ضروری بالوں کی صفائی کرلینی چاہیے، اور اگر کسی کے چالیس دن اعتکاف کے دوران مکمل ہورہے ہوں تو ایسے شخص کے لیے اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ہی صفائی کرلینا ضروری ہے، تاہم اگر کسی نے صفائی نہ کی ہو اور دورانِ اعتکاف چالیس دن مکمل ہوجائیں تو اس کے لیے صفائی کے لیے بیت الخلا میں قضائے حاجت کے دوران بال کی صفائی کی اجازت ہوگی، تاہم صفائی کے نام پر بلا ضرورت زائد وقت حمام میں گزارنے کی اجازت نہ ہوگی۔ البتہ وہ افراد جن کے چالیس دن مکمل نہ ہوئے ہوں ان کے لیے زیرِ ناف بالوں کی صفائی کے لیے جانے کی شرعاً اجازت نہ ہوگی، اگر کوئی چلا گیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ فتاوی ہندیہ میں ہے:

"سُئِلَ أَبُو حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - عَنْ الْمُعْتَكِفِ إذَا احْتَاجَ إلَى الْفَصْدِ أَوْ الْحِجَامَةِ هَلْ يَخْرُجُ فَقَالَ: لَا". (الْبَابُ الْخَامِسُ فِي آدَابِ الْمَسْجِدِ وَالْقِبْلَةِ وَالْمُصْحَفِ وَمَا كُتِبَ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ الْقُرْآنِ نَحْوُ الدَّرَاهِمِ وَالْقِرْطَاسِ أَوْ كُتِبَ فِيهِ اسْمُ اللَّهِ تَعَالَى، ٥ / ٣٢٠- ٣٢١)

مراقي الفلاحمیں ہے: "ولايخرج منه" أي من معتكفه فيشمل المرأة المعتكفة بمسجد بيتها "إلا لحاجة شرعية" كالجمعة والعيدين فيخرج في وقت يمكنه إدراكها مع صلاة سنتها قبلها ثم يعود وإن أتم اعتكافه في الجامع صح وكره "أو" حاجة "طبيعية" كالبول والغائط وإزالة نجاسة واغتسال من جنابة باحتلام لأنه عليه السلام كان لايخرج من معتكفه إلا لحاجة الإنسان "أو" حاجة "ضرورية كانهدام المسجد". (حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح، باب الاعتكاف، ١/ ٧٠٢)

فتاوی ہندیہ میں ہے: "(وَأَمَّا مُفْسِدَاتُهُ) فَمِنْهَا الْخُرُوجُ مِنْ الْمَسْجِدِ فَلَا يَخْرُجُ الْمُعْتَكِفُ مِنْ مُعْتَكَفِهِ لَيْلًا وَنَهَارًا إلَّا بِعُذْرٍ، وَإِنْ خَرَجَ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ سَاعَةً فَسَدَ اعْتِكَافُهُ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - كَذَا فِي الْمُحِيطِ". ( کتاب الصوم، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الِاعْتِكَافِ، ١/ ٢١٢) فقط واللہ اعلم

گر کوئ پتی ڈالتا ہے یعنی کسی کے پاس قسط وار رقم جمع کرتا ہے تو کیا وہ پتی کھلنے کے ( جمع شدہ رقم واپس ) ملنے کے وقت اس پر زکوۃ ہوگی یانہیں

الجواب وباللہ التوفیق: اگر وہ شخص پہلے سے صاحبِ نصاب ہے تو وہ جمع شدہ رقم واپس ملنے کے بعد اس رقم کو جمیع مال کے ساتھ ملا کر زکوٰۃ ادا کرے گا،اور اگر پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں ہے اور یہ حاصل ہونے والی رقم نصاب کے بقدر ہے تو پھر اس رقم پر سال گزرنے کے بعد زکوۃ واجب ہوگی… واللہ اعلم بالصواب

وﻣﻨﻬﺎ ﺣﻮﻻﻥ اﻟﺤﻮﻝ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺎﻝ اﻟﻌﺒﺮﺓ ﻓﻲ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻟﻠﺤﻮﻝ اﻟﻘﻤﺮﻱ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻘﻨﻴﺔ.....ﻭﻣﻦ ﻛﺎﻥ ﻟﻪ ﻧﺼﺎﺏ ﻓﺎﺳﺘﻔﺎﺩ ﻓﻲ ﺃﺛﻨﺎء اﻟﺤﻮﻝ ﻣﺎﻻ ﻣﻦ ﺟﻨﺴﻪ ﺿﻤﻪ ﺇﻟﻰ ﻣﺎﻟﻪ ﻭﺯﻛﺎﻩ اﻟﻤﺴﺘﻔﺎﺩ ﻣﻦ ﻧﻤﺎﺋﻪ ﺃﻭﻻ ﻭﺑﺄﻱ ﻭﺟﻪ اﺳﺘﻔﺎﺩ ﺿﻤﻪ ﺳﻮاء ﻛﺎﻥ ﺑﻤﻴﺮاﺙ ﺃﻭ ﻫﺒﺔ ﺃﻭ ﻏﻴﺮ ﺫﻟﻚ (ھندیہ قدیم:کتاب الزکاۃ:اﻟﺒﺎﺏ اﻷﻭﻝ ﻓﻲ ﺗﻔﺴﻴﺮﻫﺎ ﻭﺻﻔﺘﻬﺎ ﻭﺷﺮاﺋﻄﻬﺎ:ج/١ ص/١٧٥)

تراویح کے8 رکعت ہونے پر غیر مقلدین جو دلیل دیتے ہیں اسکا مدلل جواب اور اپنے 20 رکعت ہونے پر مضبوط و مستند دلائل مطلوب ہیں؟

الجواب باللہ التوفيق: آٹھ رکعات تراویح پر غیر مقلدین بنیادی طور پر دو حدیثیں پیش کرتے ہیں: پہلی حدیث: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں (رات کو) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات میں) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ خواہ رمضان کا مہینہ ہوتا یا کوئی اور پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے، پس ان کی خوبی اورلمبائی کے بارے میں مت پوچھو (کہ وہ کتنی لمبی اور خوب ہوا کرتی تھیں) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔ پھر تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے (صحیح البخاری: كتاب التهجد: باب قيام النبي صلى الله عليه وسلم في رمضان وغيره ج/١ ص/١٥٤) یہ حدیث دراصل نماز تہجد کے بارے میں ہے اور غیر مقلدین جو اس حدیث سے آٹھ رکعات تراویح پر استدلال کرتے ہیں ان کا یہ استدلال درست نہیں ہے اور ان کا خود بھی اس حدیث پرعمل نہیں ہے اس لیے کہ اس حدیث میں رمضان اور غیر رمضان دونوں میں آٹھ رکعات پڑھنے کا ذکر ہے اور یہ حضرات صرف رمضان میں پڑھتے ہیں اور اس حدیث میں چار چار کر کے پڑھنے کا ذکر ہے اور یہ حضرات دو دو کر کے پڑھتے ہیں اور اس حدیث میں تنہا پڑھنے کا ذکر ہے اور یہ حضرات جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس حدیث میں تین رکعات وتر پڑھنے کا ذکر ہے اور یہ حضرات ایک رکعت وتر پڑھتے ہیںدوسری حدیث جو غیر مقلدین پیش کرتے ہیں وہ مؤطا امام مالک کی یہ روایت ہے: حدثنی عن ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ، ﻋﻦ اﻟﺴﺎﺋﺐ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ؛ ﺃﻧﻪ ﻗﺎل ﺃﻣﺮ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺑﻦ ﻛﻌﺐ ﻭﺗﻤﻴﻤﺎ اﻟﺪﻳﺮﻱ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻣﺎ ﻟﻠﻨﺎﺱ ﺑﺈﺣﺪﻯ ﻋﺸﺮﺓ ﺭﻛﻌﺔ (مؤطا امام مالک:ص ١١٦) ترجمہ: حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات کی امامت کرائیں۔ علامہ عبدالبر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ امام مالک کے علاوہ میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس حدیث میں “احدی عشرۃ رکعة” یعنی گیارہ رکعت کا ذکر کیا ہو بلکہ تمام راویوں نے گیارہ رکعات کی جگہ “احدى و عشرين” (اکیس رکعات) ذکر کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ میرا غالب گمان یہ ہے کہ امام مالک کو گیارہ رکعات میں وہم ہوا ہے…

حدثنی عن ﻣﺎﻟﻚ ﻋﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﺭﻭﻣﺎﻥ اﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ اﻟﻨﺎﺱ ﻳﻘﻮﻣﻮﻥ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ‌ ﻓﻲ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﺑﺜﻼﺙ ﻭﻋﺸﺮﻳﻦ ﺭﻛﻌﺔ. (مؤطا امام مالک:ص/١١٦)

عن عبد الله قال في طلاق السنة يطلقها عند كل طهر تطليقة فإذا طهرت الثالثة طلقها وعليها بعد ذلك حيضة. (سنن ابن ماجة/كتاب الطلاق، ص: ٢٦٢، ط: رحمانية)

حضرت یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان میں تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے (بیس رکعات تراویح تین رکعات وتر) اور غیر مقلدین کے علاوہ ائمہ اربعہ اور جمہور امت کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مواظبت اور اجماعِ امت کی وجہ سے تراویح بیس رکعت ہی سنت ہیں جس پر کئ احادیث موجود ہیں:

عن ابن عباس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة والوتر (السنن الکبریٰ للبیہقی: کتاب الصلوۃ: باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شهر رمضان: ج/٢ ص/٦٩٨) عن يحيى بن سعيد ان عمر بن الخطاب امر رجلا يصلي بهم عشرين ركعة (مصنف ابن ابي شيبه: ج/٥ ص/ ٢٢٣ رقم:٧٧٦٤) عن ابي الحسناء: ان عليا امر رجلا يصلي بهم في رمضان عشرين ركعة (مصنف ابن ابی شیبہ:ج/٥ ص/ ٢٢٣ رقم:٧٧٦٣) عن سعيد بن عبيد: ان على بن ربيعة كان يصلي بهم في رمضان خمس تریحات ویوتر بثلاث (مصنف ابن ابی شیبہ: ج/٥ ص/٢٢٤ رقم:٧٦٩٠)

حضرت مفتی صاحب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت کثرت سے وائرل ہورہی ہے جس میں ایک شخص یہ کہ رہا ہے کہ نماز وتر میں دو رکعت کے بعد تشہد احادیث سے ثابت نہیں اور یہ بھی کہ رہا ہے کہ وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو اس طرح آپ کی وتر کی نماز نہیں ہوتی دعاء قنوت کی جگہ فنوت نازلہ پڑھی جائے گی یہ شخص لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر؛رہا ہے برائے مہربانی ہم سب کی صحیح بات کی طرف رہنمائی فرمائیں۔

الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ ویڈیو میں موصوف نے دو باتیں کی ہیں: نمبر: ١. وتر کی دوسری رکعت میں تشہد میں بیٹھنا سنت نہیں ہے بلکہ سیدھا تیسری رکعت میں کھڑا ہونا سنت ہے، نمبر .٢ وتر میں قنوت نازلہ پڑھنا نبی علیہ السلام سے ثابت ہے نہ کہ دعاۓ قنوت۔ پہلی بات کی دلیل دیتے ہوئے موصوف نے مستدرک حاکم کی روایت پیش کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں لا توتروا بثلاث تشبهوا بصلاة المغرب ولكن اوتروا بخمس او بسبع او بتسع او باحدى عشرة ركعة او اكثر من ذلك مذکورہ حدیث سے موصوف نے یہ استدلال کیا ہے کہ وتر کی نماز میں دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھنے سے اس حدیث میں منع کیا گیا ہے کیونکہ مغرب کی نماز میں تشہد میں بیٹھا جاتا ہے اور مغرب کی طرح وتر پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، تو اس حدیث سے یہ استدلال کرنا درست نہیں ہے کیونکہ مکمل حدیث پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تعدادِ رکعات کے اندر مغرب کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے تشہد کے اندر بیٹھنے سے منع نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اگے حدیث میں ہے کہ پانچ رکعت وتر پڑھو یا سات رکعت یا نو رکعت یا گیارہ رکعت یا اس سے زیادہ( یعنی چونکہ مغرب سے پہلے نفل نماز نہیں ہے اس جہت سے وتر کو مغرب کے مشابہ نہ کرو یعنی تین رکعت پر اکتفا نہ کرو بلکہ دو یا چار رکعت اس سے پہلے نفل بھی پڑھ لیا کرو) اور اس مطلب کی تائید مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے وہ فرماتی ہیں کہ تنہا تین رکعت وتر نہ پڑھو بلکہ اس سے پہلے دو رکعت یا چار رکعت نفل بھی پڑھ لیا کرو، اور موصوف کا دوسرا دعویٰ کہ وتر کے اندر قنوتِ نازلہ پڑھنا ہی سنت ہے نہ کہ دعائے قنوت یہ بھی حدیث کے خلاف ہے کیونکہ حدیث کے اندر وتر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بھی ثبوت‌ ملتا ہے…

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: لا توتروا بثلاث تشبهوا بصلاة المغرب و لكن أوتروا بخمس أو بسبع أو بتسع أو بإحدى عشرة ركعة أو أكثر من ذلك (مستدرك للحكام: ج/١ ص/٤٣٧ رقم: ١١٣٨) عن عائشة قالت: لا توتر بثلاث بتر،صل قبلها ركعتين او اربعا (مصنف ابن ابی شیبہ: ج/٤ ص/ ٤٩٢ رقم: ٦٨٩٨)

عن أبي عبد الرحمن، قال: علمنا ابن مسعود أن نقرأ في القنوت: اللّٰهم إنا نستعينك ونستغفرك، ونؤمن بك ونثني عليك الخير، ولانكفرك ونخلع ونترك من يفجرك، اللهم إياك نعبد، ولك نصلي، ونسجد، وإليك نسعى ونحفد، ونرجو رحمتك، ونخشى عذابك، إن عذابك الجد بالكفار ملحق (مصنف ابن ابی شیبہ:ج/٤ ص/٥١٨ رقم: ٦٩٦٥) والله اعلم بالصواب

اگر فرض نماز مسجد میں ادا نہ کر کے گھر میں تراویح کے ساتھ پڑھی جائے کیا یہ طریقہ جائز ہے یا نہیں

الجواب وبالله التوفيق: گھر میں عشاء کی باجماعت نماز اگر چہ جائز ہے مگر رمضان جیسے مبارک مہینے میں مسجد کی جماعت کو ترک کردینا بہت بڑی محرومی کی بات ہے؛ اس لیے عشاء کی فرض نماز مسجد ہی میں باجماعت ادا کرنی چاہیے، اس کے بعد گھر پر جہاں تراویح کی نماز ہوتی ہے سنتیں وغیرہ پڑھ کر تراویح کی نماز میں شریک ہونا چاہیے۔

عن زيد بن ثابت (إلى قوله) فصلوا أيها الناس في بيوتكم فإن أفضل صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة. (صحيح البخاري/كتاب الاعتصام/باب ما يكره من كثرة السوال، ١٠٨٣/٢، رقم الحديث: ٢٩٩٧، ط: النسخة الهندية)

وإن صلى أحد في بيته بالجماعة لم ينالوا فضل الجماعة التي تكون كما في المسجد لزيادة فضيلة المسجد، وتكثير جماعته، وإظهار شعائر الإسلام، وهكذا في المكتوبات، أي الفرائض، لو صلى جماعة في البيت على هيئة الجماعة في المسجد نالوا فضيلة الجماعة.....لكن لم ينالوا فضيلة الجماعة الكائنة في المسجد. (غنية المتملي في شرح منية المصلي جديد/كتاب الصلاة/فصل: في النوافل/مسائل التراويح، ١٢٢/٢، ط: الأشرفية ديوبند) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

اگر کوئی شخص کہیں پر قبلے کی طرف رخ نہ کر کے کسی اور طرف رخ کر کے قران کی تلاوت کرتا ہے اور اس دوران سجدے تلاوت ا جاتی ہے تو سجدہ کس طرف رخ کر کے ادا کرے قبلے کی طرف رخ کرنا ضروری ہے یا کسی بھی طرف رخ کر کے سجدہ ادا کر لے جواب عنایت فرمائیں

: الجواب بعون الوھاب

سجدہ تلاوت درست ہونے کے لئے ان تمام شرائط کا پایا جانا ضروری ہے جو نماز کے درست ہونے کے لۓ ضروری ہیں سواۓ تحریمہ کو چھوڑ کر اس لۓ کہ سجدہ تلاوت کے اندر تحریمہ شرط نہیں ہے لھذا صورت مسؤلہ میں سجدہ تلاوت ادا کرنے کے لئے قبلہ کی طرف رخ کرنا شرط ہے اگر کسی اور طرف رخ کرکے سجدہ ادا کیا تو ادا نہیں ہوگا

وشرائط ھذہ السجدہ شرائط الصلاۃ الا التحریمہ ( فتاوی ھندیہ ۱/ ۱۳۵. کتاب الصلاۃ. مسائل سجدہ الشک ط. دار الفکر بیروت )

واما شرائط الجواز فکل ما ھو شرط جواز الصلاۃ من طھارۃ الحدث وھی الوضوء والغسل وطھارۃ النجس وھی طھارۃ البدن والثوب ومکان السجود والقیام والقعود فھو شرط جواز السجدۃ لانھا جزء من اجزاء الصلاۃ فکانت معتبرۃ بسجدات الصلاۃ ( بدائع الصنائع. ۱/ ۱۸۶ ط. دار الکتب العلمیہ )

کچھ غیر مسلم ہیں جن سے تعلقات ہیں جان پہچان ہے وہ غیر مسلم از خود ہمارے گھر پے پاپڑ گُجیہ مٹھائ وغیرہ دے جاتے ہیں کیا ایسی مٹھائ وغیرہ کھانا ہمارے درست ہے ؟

الجواب وباللہ التوفق: اگر اس بات کا یقین ہو کہ غیر مسلموں نے مٹھائی وغیرہ اپنے معبودان باطلہ کے نام نہیں چڑھائی ہوگی اور اس میں کسی طرح کی حرام اجزاء کی آمیزش نہیں ہوگی تو غیر مسلموں کی تہوار پر ملنے والی مٹھائی کھانا جائز ہے لیکن جہاں تک ہو سکے اجتناب کیا جائے۔

البحر المحيط في التفسير"میں ہے: "‌وطعام ‌الذين أوتوا الكتاب ‌حل ‌لكم طعامهم هنا هي الذبائح كذا قال معظم أهل التفسير. قالوا: لأن ما كان من نوع البر والخبز والفاكهة وما لا يحتاج فيه إلى ذكاة لا يختلف في حلها باختلاف حال أحد، لأنها لا تحرم بوجه سواء كان المباشرة لها كتابيا، أو مجوسيا، أم غير ذلك. وأنها لا يبقى لتخصيصها بأهل الكتاب فائدة."(ص:١٨٢،ج:٤،سورۃ المائدة،الآية:٥،ط:دار الفكر،بيروت)

امام صاحب نے تراویح میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر ٩٤ میں فأولئك هم الظالمون کے بجائے هم الصادقون پڑھ دیا تو ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے؟؟

الجواب وباللہ التوفیق صورۃ مسؤلہ میں تغیر فاحش اور معنی کی تبدیلی کی وجہ سے نماز فاسد ہو گئی لہذا نماز کا اعادہ کیا جائے۔

إن كانت الكلمة الثانية في القرآن فهو على وجهين، إما إن كانت موافقة للأولى في المعنى، أو مخالفة، فإن كانت موافقة لا تفسد صلاته - وإن كانت مخالفة - قال عامة المشائخ تفسد صلاته وهو قول أبي حنيفة، ومحمد، وعن أبي يوسف فيه روايتان والصحيح هو الفساد، لأنه أخبر بخلاف ما أخبر الله تعالى (خانية، كتاب الصلاة، فصل في قراءة القرآن خطأ في الأحكام المتعلقة بالقراءة على هامش الهندية ١٥٢/١ - ١٥٣ ، قاضيخان، جدید زکریا ٩٦/١)

وإن اختلفا متباعدا نحو أن يختم آية الرحمة بآية العذاب، أو آية العذاب بآية الرحمة ...... فعلى قول أبي حنيفة ومحمد : تفسد صلاته، وقيل في المسألة على قول أبي يوسف روايتان وفي الظهيرية: قال : والصحيح عندي أنه إذا وقف، ثم انتقل لا تفسد صلاته، وإن وصل تفسد وفي الخانية: والصحيح هو الفساد. (تاتارخانية، كتاب الصلاة، الفصل الثاني، مسائل زلة القاري، زكريا ٩٦/٢، رقم: ١٨٤٣) فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

ایک حافظہ عورت کا رمضان المبارک میں تراویح کی نماز میں دیگر عورتوں کو قرآنِ کریم سنانے کا شرعی حکم کیا ہے؟ آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کیا کوئی شرائط و قیود بھی ہیں، اور اگر ناجائز ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ نیز، اس مسئلے میں مختلف فقہی مسالک کی آراء کیا ہیں؟

الجواب وبالله التوفيق: حافظہ عورت کا تراویح کی نماز میں عورتوں کی امامت کرنا مکروہِ تحریمی ہے، اس لیے کہ عورتوں کا جماعت میں شریک ہونا فتنہ کا سبب ہے؛ البتہ اگر کوئی حافظہ عورت اپنا قرآن یاد رکھنے کی غرض سے تراویح میں قرآن سنانا چاہے تو اس کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ اپنے گھر میں اپنے ہی گھر کی عورتوں کو تراویح میں قرآن سنائے اگر چہ یہ بھی خلافِ اولی ہے لیکن فی الجملہ اس کی گنجائش ہے بشرطیکہ اور کوئی فتنہ نہ ہو، اور ایسی صورت میں وہ صف کے درمیان میں کھڑے ہوکر امامت کرے گی۔ عورتوں کی جماعت کے بارے میں ائمہ اربعہ کی آراء: (١): شافعیہ اور حنابلہ نزدیک جائز ہے۔ (٢): مالکیہ کے نزدیک درست نہیں۔ (٣): حنفیہ کے نزدیک مکروہ ہے۔ مستفاد از (کفايت المفتي قديم، ١٤٣/٣، ط: دار الاشاعت کراچی) (فتاوى قاسمية، ٨/٤١٠، ط: الأشرفية ديوبند)

عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها أنها كانت تؤم النساء في شهر رمضان، فتقوم وسطا، قال محمد: لا يعجبنا أن تؤم المرأة، فإن فعلت قامت في وسط الصف مع النساء كما فعلت عائشة رضي الله عنها وهو قول أبي حنيفة رحمه الله. (كتاب الآثار/باب المرأة تؤم النساء، وكيف تجلس في الصلاة، ٢٠٨/١، رقم الحديث: ٢١٧، ط: كراچی)

عن إبراهيم والشعبي، قالا: لا بأس أن تصلي المرأة بالنساء في شهر رمضان، تقوم في وسطهن. (مصنف عبدالرزاق/كتاب الصلاة/باب المرأة تؤم النساء، ١٤٠/٣، رقم الحديث: ٥٠٨٤، ط: المحلس العلمي)

لا خير في جماعة النساء...الخ (المعجم الكبير للطبراني/باب العين/سالم ابن عمر، ٣١٧/١٢، ط: مكتبة إبن تيمية القاهرة)

کیا عصر کے بعد یا رمضان میں عصر کے بعد مسجد میں بیٹھنے کی کوئ خاص فضیلت وارد ہوئ ہے؟

الجواب وبالله التوفيق: عصر کے بعد مسجد میں ٹھہرنے کے تعلق سے علامہ شمس الدین سرخسی رحمہ اللہ نے “مبسوط سرخسی” میں اور علامہ احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی رحمہ اللہ نے “حاشية الطحطاوي” میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “جس شخص نے عصر کی نماز پڑھی اور وہ غروبِ شمس تک مسجد میں ٹھہرا گویا اس نے اسماعیل علیہ السّلام کی اولاد میں سے آٹھ غلام آزاد کیے”، تاہم مذکورہ حدیث احادیث کی کس کتاب میں موجود ہے تلاش کے باوجود بندہ کو نہ مل سکی۔

لأن المكث بعد العصر إلى غروب الشمس في موضع الصلاة مندوب اليه، قال عليه الصلاة والسلام: من صلى العصر ومكث في المسجد إلى غروب الشمس فكأنما أعتق ثمانية من ولد إسماعيل عليه السلام. (المبسوط للسرخسي/كتاب الصلاة/باب مواقيت الصلاة، ١٤٧/١، ط: دار المعرفة بيروت)

وقال عليه السلام: من مكث في مصلاه بعد العصر إلى غروب الشمس كان كمن أعتق ثمان رقاب من ولد اسمعيل. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح/كتاب الصلاة، ص: ١٨١-١٨٢، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

ایک خاتون کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے اور دوتولہ سونا تو کیا ضم کیا جائے گا؟ یا صرف پیسہ پر زکوٰۃ واجب ہوگی ؟ یا تیسری کوئی شکل ہوگی؟

الجواب وباللہ التوفیق مذکورہ صورت میں اگر ایک لاکھ روپیہ ضرورت سے زائد ہے تو دو تولہ سونا اور ایک لاکھ روپیہ کو ملا کر زکاۃ نکالی جائگی بشرطیکہ ایک سال مکمل ہوگیا ہو

الزکاۃ واجبۃ علی الحر العاقل البالغ المسلم اذا ملک نصابا ملکا تاما وحال الحول ( فتح القدیر کتاب الزکاۃ ۳/ ۴۶۰ ط. دار الفکر )

والصحیح الوجوب عزاہ فی البدائع الی الامام حیث قال ثم عند ابی حنیفۃ یعتبر فی التقویم منفعۃ الفقراء کما ھو اصلہ حتی روی عنہ انہ قال اذا کان لرجل خمسۃ وتسعون درھما ودینار یساوی خمسۃ دراھم انہ تجب الزکوۃ وذلک بان تقوم الفضۃ بالذھب کل خمسۃ بدینار منحۃ الخالق علی بحر الرائق کتاب الزکاۃ زکاۃ عروض التجارۃ ۲/ ۲۴۷. ط. دار الکتاب الاسلامی

ویضم الذھب الی الفضۃ وعکسہ بجامع الثمنیۃ قیمتہ ....... قولہ قیمتہ ای من جھۃ القیمۃ فمن لہ مائۃ درھم وخمسۃ مثاقیل قیمتھا مائۃ علیہ زکاتھا شامی. کتاب الزکاۃ باب زکاۃ المال ۲/ ۳۰۳ ط. ایچ ایم سعید

سوال:-غیر مسلم اگر مسجد کے لیے چٹائی دے تو لے سکتے ہیں؟؟

الجواب وبا اللہ التوفیق اگر کو غیر مسلم مسجد میں تعاون کرتا ہے نیک کام سمجھ کر اور کسی قسم کے فتنہ اور دینی یا دنیوی نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو اس سے تعاون لینا درست ہے لھذا صورت مسؤلہ میں مسجد کے غیر مسلم سے چٹائ لینا درست ہے فتاوی محمودیہ ۱۵/ ۱۳۹ کتاب الوقف باب احکام المسجد ادرۃ الفاروق

واما الاسلام فلیس من شرطہ فصح وقف الذمی بشرط کونہ قربۃ عندنا وعندھم البحر الرائق ۵/ ۲۰۴ کتاب الوقف شرائط الوقف. ط. دار الکتاب الاسلامی

الذمی ان یکون قربۃ عندا وعندھم کا الوقف علی الفقراء او علی مسجد القدس شامی ۴/ ۳۴۱. کتاب الوقف مطلب قد یثبت الوقف با الضرورۃ ط. سعید