تقلید کیا ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق:- (١)تقلید کہتے ہیں “کسی ناواقف/عام آدمی کا غیرمنصوص اجتہادی مسئلہ میں دلیل کے مطالبہ کے بغیر کسی مجتہد کی بات ماننا کہ یہ جو مسئلہ بتاۓ گا صحیح بتاۓ گا” (ماخوذ از فتاویٰ بنوری ٹاؤن) قرآن و سنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں جو دو اور دو چار کی طرح واضح ہیں ، ان میں کوئی اجمال (Abbreviation) ، ابہام (unclear) , مخالفت (opposition) نہیں ہے بلکہ جو شخص بھی انہیں پڑھے گا بغیر کسی الجھن انکا مطلب سمجھ لیگا جیسے پانچ نمازوں کی فرضیت اور شراب وغیرہ کی حرمت ، اس طرح کے مسائل میں اجتہاد و تقلید کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نا ہی جائز ہے اسکے برعکس قرآن و سنت کے بہت سے احکام ایسے بھی ہیں جن میں ابہام یا اجمال پایا جاتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن کی دوسری آیت یا کسی دوسری حدیث سے متعارض (Conflicting) معلوم ہوتے ہیں جیسے فروعی مسائل اب قرآن و سنت سے احکام کے مستنبط کے دو صورتیں ہیں: ایک صورت تو یہ ہےکہ ہم اپنی سمجھ اور بصیرت پر بھروسہ کرکے خود ہی کوئی فیصلہ کرلیں اور اس پر عمل کریں ، اور دوسری صورت یہ ہےکہ ازخود فیصلہ کرنے کے بجائے یہ دیکھیں کہ قرآن و سنت کے ان ارشادات سے صحابہ و تابعین کے زمانے کے ہمارے جلیل القدر اسلاف ، مجتہدین ، ائمہ نے کیا سمجھا ہے اور ان کی فہم و بصیرت پر بھروسہ کرتے ہوئے عمل کریں ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت خاصی خطرناک ہے اور دوسری صورت بہت محتاط (احتیاط والی) ان باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اگر ہم اپنی سمجھ پر بھروسہ کرنے کے بجائے قرآن و سنت کے پیچیدہ احکام میں اس مطلب کو اختیار کرلیں جو ہمارے اسلاف ، ائمہ میں کسی امام نے سمجھا ہے ؛ تو یہ کہا جائے گا کہ “ہم نے فلاں کی تقلید کی” 👆یہ ہے تقلید کی حقیقت (مستفاد از خلاصۂ تقلید کی شرعی حیثیت مفتی تقی عثمانی صاحب) مذکورہ بالا باتوں سے یہ واضح ہو گیا کہ کسی بھی امام ، مجتہد کی تقلید صرف اس موقع پر کی جاتی ہے جہاں قرآن و سنت سے احکام کے سمجھنے میں دشواری ہو

١:–اسمارٹ رنگ پہننا کیسا ہے ۔ مدلل جواب عنایت فرمائیں ۔

الجواب وبالله التوفيق: اسمارٹ رنگ آج کل ایک جدید ڈیوائس ہے جو چھوٹی سی انگوٹھی کی صورت میں پہنی جاتی ہے، اور مختلف کام انجام دیتی ہے، مثلا: صحت کی نگرانی،کال یا میسج کی اطلاع دینا، کسی ایپ یا موبائل کے ساتھ کنیکٹ ہو کر دیگر افعال انجام دینا وغیرہ۔ اور شریعت میں اشیاء کے سلسلہ میں اصل حکم جائز ہونا ہے جب تک کوئی دلیل اس کے منع پر موجود نہ ہو؛ اور اسمارٹ رنگ میں شرعاً کوئی قباحت موجود نہیں ہے؛ لہذا اس کا پہننا جائز ہے۔

الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على عدم الإباحة. (غمز عيون البصائر شرح كتاب الأشباه والنظائر/القاعدة الثالثة، ٢٢٣/١، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

بینک میں ہمارا سود کا روپیہ ہے، تو کیا بدلے میں اپنی جیب سے روپیہ نکال کر خرچ کر سکتے ہیں؟

الجواب و بالله التوفيق صورت مسئولہ میں بینک سے سود کا پیسہ نکالے بغیر اپنی جیب سے سود کی اتنی رقم نکالنا جائز نہیں ۔ کتاب النوازل/۱۱ /۲۹۶… محمودیہ /24/453 … قاسمیہ/20 /690

إذْ لَوْ اخْتَلَطَ بِحَيْثُ لَا يَتَمَيَّزُ يَمْلِكُهُ مِلْكًا خَبِيثًا، لَكِنْ لَا يَحِلُّ لَهُ التَّصَرُّفُ فِيهِ مَا لَمْ يُؤَدِّ بَدَلَهُ (حاشية ابن عابدين/٥/٩٩/باب البيع الفاسد )

وَإِنْ كَانَ مَالًا مُخْتَلِطًا مُجْتَمِعًا مِنْ الْحَرَامِ وَلَا يَعْلَمُ أَرْبَابَهُ وَلَا شَيْئًا مِنْهُ بِعَيْنِهِ حَلَّ لَهُ حُكْمًا، وَالْأَحْسَنُ دِيَانَةً التَّنَزُّهُ عَنْهُ . حاشية ابن عابدين/٥/٩٩/ باب البيع الفاسد)

کیا قبلہ کی طرف وضو خانہ بنایا جاسکتا ہے جبکہ احادیث میں قبلہ کی طرف تھوکنے کی ممانعت آئ ہے

الجواب:-\وضو خانہ قبلہ کی طرف بنا سکتے ہیں اور یہی مستحب بھی ہے رہی بات کلّی کی تو وضو کرتے وقت کُلی نیچی کی طرف منھ کرکے کی جاتی ہے اسلئے اسمیں بے ادبی نہیں ہے

ومن آدابہ استقبال القبلہ والجلوس فی مکان مرتفع شامی ذکریا ۱۔۔۔ ۲۵۰ ۔۔ الطحطاوی ۔ دار الکتب العلمیہ ص 75

سرکاری امداد حاصل کرنے کے لے سرکاری اسکیم کے تحت نکاح کرانے کے بعد تجدید نکاح کا کیا حکم ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق اگر شرعی اصول و شرائط کو ملحوظ رکھ کر نکاح ہوگیا ہے تو اب دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں تاہم اگر دوبارہ نکاح کرلیں تو کوئی حرج نہیں کرسکتے ہیں البتّہ ایسی صورت میں گواہ مقرر کرلے کہ یہ جو دوبارہ نکاح ہے یہ محض دکھاوے اور اظہار کیلئے ہے تاکہ دو بارہ مہر لازم نہ ہو ورنہ اگر بیوی اتفاق نہ کرے تو اس دوسرے نکاح میں طے شدہ مہر بھی لازم ہوگا

جدّد النکاح بزیادۃ الف لزمہ الفان قال الشامی حاصل عبارۃ الکافی تزوّجھا فی السر بالف ثم فی العلانیۃ بالفین ظاھر المنصوص فی الاصل انہ یلزم الالفان۔۔۔۔۔۔ تواضعا فی السر علی مہر ثم تعاقدا فی العلانیۃ باکثر و الجنس واحد فان اتفقا علی المواضعۃ فالمہر مہر السر والّا فالمُسمّی فی العقد مالم یبرھن الزوج علی ان الزیادۃ سمعۃ شامی 4/ 315

کیا لاوارث مجہول النسب بچہ کو پالنے کے بعد اس کی ولدیت میں پرورش کرنے والے کا نام لکھ سکتے ہیں

الجواب وباللّٰه التوفیق: ایسے بچے کو پالنے یا گود لینے کے بعد اس کی ولدیت میں اپنا نام لکھنا جائز نہیں ہے،البتہ بطور سرپرست اپنا نام لکھا جا سکتا ہے…

ادعوهم لابائهم هو اقسط عند اللّٰه (سورۃ الأحزاب:آیت:٥)

عن عراك بن مالك ، انه سمع ابا هريرة ، يقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا ترغبوا عن آبائكم، فمن رغب عن ابيه فهو كفر (صحیح مسلم:کتاب الایمان، باب بَيَانِ حَالِ إِيمَانِ مَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ: رقم:٢١٨) و

دوا کھانے سے پہلے کسی خاص دعاء کا پڑھنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے یا پھر بسم اللہ پڑھ کر دوا کھائیں گے ؟ توجہ فرمائیں۔

الجواب وباللہ التوفیق دوا کھانے کی کوئی خاص سنت نہیں ہے لیکن ہر کام کی ابتداء میں بسملہ پڑھنا ثابت ہے لہٰذا دوا کھانے سے پہلے بھی بسملہ پڑھنا چاہیے البتہ ایک دعا بطور علاج پڑھنا ثابت ہے اور وہ دعا یہ ہے اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، أذْهِبِ البَاسَ، اشْفِهِ وأَنْتَ الشَّافِي، لا شِفَاءَ إلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لا يُغَادِرُ سَقَمًا ” یا اس دعا کی جگہ “يا شافي،ياكافي” بھی کہہ سکتے ہیں۔ فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب میں ہے:

ولو وقعت تين نهر فأصاب ثوبه، ان ظهر اثرها تنجس والا لالف طاهر في نجس مبتل بماء....(رد المختار: ٥٦٠/١،كتاب الطهارة،باب الانجاس ،زكريا ديوبند)

?جہاز میں اگر نماز قیام کے ساتھ ادا کی جاے تو کیا اس کا اعادہ کرنا ہوگا مقام پر

باسمه سبحانه وتعالیٰ الجواب وباللّٰه التوفیق: اگر جہاز میں قیام،رکوع و سجود کے ساتھ قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کی ہے تو اس نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوگا….

ﻣﻦ ﺃﺭاﺩ ﺃﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﻓﻲ ﺳﻔﻴﻨﺔ ﺗﻄﻮﻋﺎ ﺃﻭ ﻓﺮﻳﻀﺔﻓﻌﻠﻴﻪ ﺃﻥ ﻳﺴﺘﻘﺒﻞ اﻟﻘﺒﻠﺔ ﻭﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﺣﻴﺜﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﻭﺟﻬﻪ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺨﻼﺻﺔ (ھندیہ قدیم: كتاب الصلاة، الباب الثالث في شروط الصلاة:ج/١ص/٦٣-٦٤)

ﻭﻣﻨﻬﺎ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻭﻫﻮ ﻓﺮﺽ ﻓﻲ ﺻﻼﺓ اﻟﻔﺮﺽ ﻭاﻟﻮﺗﺮ. ﻫﻜﺬا ﻓﻲ اﻟﺠﻮﻫﺮﺓ اﻟﻨﻴﺮﺓ ﻭاﻟﺴﺮاﺝ اﻟﻮﻫﺎﺝ (ھندیہ قدیم: كتاب الصلاة، الباب الثالث في شروط الصلاة:ج/١ص/٦٩)

(ﻭﻣﻨﻬﺎ اﻟﺮﻛﻮﻉ) ﻭﻗﺪﺭ اﻟﻮاﺟﺐ ﻣﻦ اﻟﺮﻛﻮﻉ ﻣﺎ ﻳﺘﻨﺎﻭﻟﻪ اﻻﺳﻢ ﺑﻌﺪ ﺃﻥ ﻳﺒﻠﻎ ﺣﺪﻩ ﻭﻫﻮ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﺑﺤﻴﺚ ﺇﺫا ﻣﺪ ﻳﺪﻳﻪ ﻧﺎﻝ ﺭﻛﺒﺘﻴﻪ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺴﺮاﺝ اﻟﻮﻫﺎﺝ....(ﻭﻣﻨﻬﺎ اﻟﺴﺠﻮﺩ) اﻟﺴﺠﻮﺩ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻓﺮﺽ ﻛﺎﻷﻭﻝ ﺑﺈﺟﻤﺎﻉ اﻷﻣﺔ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺰاﻫﺪﻱ (ھندیہ قدیم: كتاب الصلاة، الباب الثالث في شروط الصلاة:ج/١ص/٧٠) واللّٰه اعلم بالصواب

اگر کوئ شخص کسی کے گھر یا دوکان پر جا کر قرآن پڑھے اور وہ اسکو پیسے دے تو یہ پیسے لینا کیسا ہے ؟؟؟

الجواب وبالله التوفيق: کسی کے گھر یا دکان پر جا کر برکت کی نیت سے یا علاج کے لیے قرآن پڑھنا اور اس پر روپیہ پیسہ لینا جائز ہے، البتہ اگر ایصال ثواب کے لیے ہو تو پھر لینا جائز نہیں ہے۔

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه ۔ إلى قوله ۔ فجعل يقرأ بأم القرآن، ويجمع بزاقه ويتفل، فبرأ فأتوا بالشاء فقالوا: لا نأخذه حتى نسأل النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه فضحك وقال: وما ادراك أنها رقية خذوها واضربوا لي بسهم. (صحيح البخاري/باب الرقى بفاتحة الكتاب، ٨٥٤/٢، رقم الحديث: ٥٥١٢، ط: النسخة الهندية)

عن عبدالرحمن بن شبل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به، ولا تستكثروا به، ولا تجفوا عنه، ولا تغلوا فيه. (الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار/كتاب الصلاة/في الرجل يقوم بالناس في رمضان فيعطي، ١٦٨/٢، رقم الحديث: ٧٧٤٢، ط: دار التاج بيروت)

لأن المتقدمين المانعين الاستئجار مطلقا جوزوا الرقية بالأجرة، ولو بالقرآن كما ذكره الطحاوي لأنها ليست عبادة محضة بل من التداوى. (شامي/كتاب الإجارة/باب الإجارة الفاسدة/مطلب في الاستئجار على الطاعات، ٧٩/٩، ط: زكريا ديوبند)

غیر شادی شدہ جوڑا اگر دو گواہوں کے سامنے یہ کہے کہ یہ عورت میری بیوی ہے اور وہ عورت بھی کہے کہ میں اس کی بیوی ہوں تو کیا اس اقرار کے بعد وہ میاں بیوی بن جائیں گے؟

الجواب وباللہ التوفیق صورت مسئولہ میں یہ مرد و عورت جو غیر شادی شدہ ہیں، اگر دو گواہوں کے سامنے اپنے میاں بیوی ہونے کا اقرار کریں تو اس بھی نکاح منعقد ہو جائے گا، ان کے اقرار کو انشاء کے درجہ میں رکھ کر نکاح کے منعقد ہونے کا حکم دیا جائے گا،

فى الدر المختار: ولا (بالاقرار على المختار) خلاصة كقوله: هي امرأتي، لان الاقرار إظهار لما هو ثابت وليس بإنشاء (وقيل إن) كان (بمحضر من الشهود صح) كما يصح بلفظ الجعل (وجعل) الاقرار (إنشاء وهو الاصح)

تحته فى الشامية: وَقَالَ فِي الْفَتْحِ قَالَ قَاضِي خَانْ: وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْجَوَابُ عَلَى التَّفْصِيلِ إنْ أَقَرَّا بِعَقْدٍ مَاضٍ وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا عَقْدٌ لَا يَكُونُ نِكَاحًا، وَإِنْ أَقَرَّ الرَّجُلُ أَنَّهُ زَوْجُهَا وَهِيَ أَنَّهَا زَوْجَتُهُ يَكُونُ إنْكَاحًا وَيَتَضَمَّنُ إقْرَارُهُمَا الْإِنْشَاءَ بِخِلَافِ إقْرَارِهِمَا بِمَاضٍ لِأَنَّهُ كَذِبٌ، (الفتاوى الشاميه:٧٤/٤، ط: بيروت )