سوال: -نئی دلی اسٹیشن میں انگریزوں کے زمانے سے ایک مسجد بنی ہوئی ہے اس میں باضابطہ امام و مؤذن ہے سرکار یہ چاہتی ہے کہ اس مسجد کو مسمار کر کے اس کے بدلے میں مسلمانوں کی پسندیدہ جگہ پر ایک بڑی مسجد تعمیر کر کے دینا چاہتی ہے تو کیا اس کی اجازت ہوگی ؟

الجواب:-جس جگہ ایک بار مسجد بن چکی ہے وہ تا قیامت مسجد ہی رہے گی اس کو کسی دوسرے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے لہذا پلیٹ فارم کی مسجد کو ریلوے کے استعمال کے لیے دینا جائز نہیں ہے اگرچہ حکومت اس کے بدلے میں دوسری جگہ بنا کر دے-(مستناد فتاوی قاسمیہ:٤٩٠/١٧)

لو كان مسجد في محلة ضاق على اهله ولا يسعهم ان يزيدوا فيه فسالهم بعض الخير ان يجعلوا ذلك المسجد له ليدخله في داره ويعطيهم مكانه عوضا ما هو خير له فيسع فيه اهل المحلة؟ قال محمد: لا يسعهم ذلك.(هندية:٤٥٧/٢، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به، زكريا،قديم)(الفتاوى التاتارخانية:١٦٢/٨،رقم: ١١٥١١،زكريا ديوبند)

سوال:-سرکاری زمین پر گاؤں والوں نے مسجد بنا لی اس میں نماز ہونے لگی اب مسجد بن جانے کے بعد اس میں نمازیں شروع ہو گئے مگر یہ غیر کی جگہ پر مسجد بنائی گئی اب غیر کی زمین پر نماز پڑھنا مکروہ ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کو مسجد شرعی کہا جائے گا یا نہیں؟حائضہ اور نفسہ کا دخول

الجواب:-صورت مسئولہ میں سرکاری زمین پر بنائی گئی مسجد شرعی نہیں ہے اس لیے کہ یہ غیر کی جگہ پر مسجد بنا لی گئی ہے لہذا جب تک معاوضہ ادا نہ کر دیا جائے تو نماز مکروہ ہوگی اور مسجد بھی غیر شرعی ہوگی لیکن حائضہ اور نفساء کے حق میں مسجد شرعی ہوگی لہذا اگر وہ اس حالت میں گزرے گی تو گناہ گار ہوگی-

لو غضب ارضا فبتي فيها او غيرين فإن كانت قيمة الأرض اكثر قلعها وردتها وإلا ضمن له قيمتها الخ(الاشباه والنظائر قديم: ١٢٤)

وكنا تكره في الارض مغصوبة او للغير لو مزروعة اومكروبة(در المختار: ٨١/١،كتاب الصلاة،كراچی)

عن ابي حرة الرقاشي عن عمه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يحل مال امري مسلم الا بطيب نفس منه(السنن الكبري للبيهقي قبل باب من غضب جارية فباعها :٥٠٦/٨، رقم: ١١٧٤٠،دار الكفر بيروت)

سوال:-حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانی کے زمانے میں ایک بیوہ عورت سے شادی کی (حضرت خدیجۃ الکبری) انہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولادیں ہوئی باقی کسی بیوی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اولاد نہیں ہوئی حضرت ماریہ قبطیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باندی تھے ان سے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے سوال یہ کرنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم 53 سال کے بعد بڑھاپا کے زمانے میں نو شادیاں کی ہے تو بڑھاپے کے زمانے میں اتنی شادیاں کرنے کی کیا ضرورت تھی کیا حکمت تھی اس کے واضح فرمائے تاکہ غیروں کا اعتراض دور ہو جائے؟

الجواب:-حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 53 سال کے مدت کے بعد بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر نو شادیاں کیں اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی حکمتیں پیش نظر تھے ان کو مختصرا انداز میں ذیل درج کیا جاتا ہے: حکمت (1): ہجرت کے بعد جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو اس وقت بہت سی قومیں اسلام سے شرف ہو کر آپ سے وابستہ ہو چکی تھی تو اب ضرورت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تربیت دے کر اعلی درجہ پر فائز کر سکے لیکن چونکہ مردوں کی ضرورت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے پوری ہو جایا کرتی تھی مسئلہ تھا عورتوں کا ان تک صحیح طریقے سے دین کیسے پہنچائے لہذا یہ کام عورتوں ہی کے ذریعہ ہو سکتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منعدر نکاح فرمائے تاکہ آپ کی ازواج مطہرات کے ذریعہ گھریلو معاملات مسلمان عورتوں تک پہنچ سکے- حکمت (2): آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نو شادیاں مختلف قبائل میں کی تھی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان قبائل سے روابط مضبوط کر سکے اور جہاد کے معاملے میں آپ کو ان کا تعاون مل سکے اور اسلام کا قلع مضبوط ہو سکے اور خاندانی عادتیں جو ائی تھی وہ ختم ہو سکے-حکمت (3): آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکاح ان خواتین سے کیے تھے جن کے شوہر جنگ میں شہید ہو گئے تھے اور وہ بے سروسانی کے عالم میں رہ گئی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خواتین سے نکاح فرما کر ان کی دلداری کی اور امت کو سبق کہ دیا کہ ہمیں ایک دوسرے کے غم خواری اور دلداری کرنی چاہیے-

(سیرت خاتم الانبیاء:٢٧)

سوال:-ہیلتھ انشورنس کرانا جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ سوال میں جو ایک خاص صورت کے متعلق معلوم کیا گیا ہے تو ہیلتھ انشورنس کی یہ صورت جائز ہے۔ (مستفاد: بارہواں فقہی اجتماع ادارۃ المباحث الفقہیہ ۲۶-۲۷-۲۸ رجب المرجب ۱۴۳۷ھ ، مطابق ۴-۵-۶ مئی ۲۰۱۶ءبروز جمعرات جمعہ، منعقدہ دار العلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کشمیر، بحوالہ نخبۃ المسائل۳۰۶/۳)

والحاجة التي من أجلها يجوز العقد المشتمل على الغرر، ولو كان كثيرا وهي أن يصل المرء إلى حالة بحيث لو لم يتناول الممنوع يكون في جهد ومشقة، ولكنه لا يهلك يشترط فيها أن تكون عامةً أو خاصة بفئة معينة، وأن تكون متعينة. (موسوعة الفقه الإسلامي والقضايا المعاصرة ٢١٢/٤)

إن التأمينات الاجتماعية التي تدفعها الدولة أو صندوق المعاشات والتأمين أو مصحلة التأمينات للعمال والعاملين والموظفين في الدولة كلها في تقديري جائزة؛ لأن الدولة ملزمة برعاية مواطنيها في حال العجز والشيخوخة والمرض ونحو ذلك من إعاقة العمل أو الكسب، ولا ينظر إلى الضريبة التي تقتطعها الدولة من الراتب الشهري أو التي يدفعها شهريًا أرباب العمل لمصحلة التأمينات الاجتماعية أو المبلغ الذي يدفعه العامل أو المؤظف باختياره في حدود نسبة مئوية كل سنة الخ. (موسوعة الفقه الإسلامي والقضايا المعاصرة ٢١٦/٤) فقط واللہ اعلم۔

السلام علیکم ۔ حمیم نام رکھنا کیسا ہے ؟

الجواب و بااللہ التوفیق : واضح رہے کہ حمیم کے دو معنی آتے ہیں (۱) گرم پانی (۲) قریبی دوست لہٰذا اگر دوسرا معنی ملحوظ رکھتے ہوئے یہ نام رکھا جائے تو حمیم نام رکھنا درست ہے ۔

قال اللہ تعالیٰ: ولا صدیق حمیم ( سورۃ الشعراء آیت ۱۰۱) قال اللہ تعالیٰ: فلیس لہ الیوم ہھنا حمیم(سورۃ الحاقہ آیت ۳۵) واللہ اعلم بالصواب

سوال:-برتھ ڈے (سال گرہ) منانا شرعاً ثابت ہے؟

الجواب و باللہ التوفیق: برتھ ڈے (سال گرہ) منانا شرعاً ثابت نہیں ہے بلکہ یہ اغیار (غیر مسلموں ) کی طرف سے آئی ہوئی ایک رسم ہے، جس میں عموماً طرح طرح کی خرافات شامل ہوتی ہیں، مثلاً: مخصوص لباس پہنا جاتا ہے، موم بتیاں لگاکر کیک کاٹا جاتا ہے، موسیقی اور مرد وزن کی مخلوط محفلیں ہوتی ہیں، تصویر کشی ہوتی ہے اور پھر ان میں غیر اقوام کی نقالی بھی ہوتی ہے، اور یہ سب امور ناجائز ہیں، لہذا مروجہ طریقہ پربرتھ ڈے( سال گرہ) منانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر اس طرح کے خرافات نہ ہوں اور نہ ہی کفار کی مشابہت مقصود ہو، بلکہ صرف گھر کے افراد اس مقصد کے لیے اس دن کو یاد رکھیں کہ عمر کی یاداشت رہے اور رب کے حضور اس بات کا شکرادا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے عافیت وصحت کے ساتھ زندگی کا ایک سال مکمل فرمایا ہے اور اس کے لیے مذکورہ منکرات سے خالی کوئی تقریب رکھ لیں تو اس کی گنجائش ہوگی،پیدائش ہی کا دن بھی متعین نہ کریں آگے پیچھے کر لیں، باقی نیتوں کا حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں اور حساب بھی اسی کو دینا ہے۔ اور اس میں مبارک باد دینے کے لیے بھی غیروں کی مشابہت سے بچتے ہوئے صحت، سلامتی کے ساتھ عمر میں برکت اور دین پر ثابت قدمی وغیرہ کی دعائیں دینی چاہیے، مثلا ًاللہ تعالی آپ کی عمر میں برکت دے، وغیرہ

"{وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ}." (سورۃ آل عمران، الآیة: 85)

رجمہ:’’اور جو شخص اسلام کےسوا کسی اور دین کو تلاش کرے گا، پس اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائےگا، اور وہ شخص آخرت میں نقصان اٹھانےوالوں میں سےہوگا۔‘‘

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے: "قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.

(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب." (كتاب اللباس، الفصل الثاني ،222/8، ط: مكتبة حنفية)

پوجا کا کوئی بھائی نہیں ہے اسلئے پوجا نے زید کو بھائی بنایا ہوا ہےاور اب جب رکشا بندھن آیا تو پوجا نے زید کو راکھی باندھی واضح رہے کہ زید کو اس کا علم نہیں تھا کہ راکھی بندھوانا کیسا ہے ) اب معلوم یہ کرنا ہے کہ زید کا یہ فعل شریعت کی روشنی میں کیسا ہے ؟ کہیں زید دائرے اسلام سے تو خارج نہیں ہو گیا ؟

الجواب وبااللہ التوفیق ۔ واضح رہے کہ غیر مسلموں کے رسم و رواج میں شرکت کرنا یہ بالکل جائز نہیں اور راکھی ایک ہندوانہ رسم ہے بلکہ ہندوؤں کے تیوہار کا ایک اہم جز ہے لہذا کسی بھی مسلمان کے لیے کسی بھی صورت میں راکھی بندھوانا جائز نہیں اور مزید گناہ یہ ہے کہ راکھی باندھنے والی لڑکی غیر مسلم اور غیر محرم ہے یہ عمل بھی بالکل جائز نہیں مذکورہ تفصیل کے بعد جاننا چاہیے کہ اگر زید نے اپنی منہ بولی بہن پوجا سے راکھی بوجہ استحسان یعنی اچھا سمجھتے ہوئے بندھوائی ہے خواہ زید کو اس عمل کے ناجائز ہونے کا علم ہو یا نہ ہو تو اس صورت میں زید کے کفر کا اندیشہ ہے لہذا تجدید ایمان اور اگر نکاح ہو گیا ہے تو زید پر تجدید نکاح ضروری ہوگا اور اگر صرف رسما اور اپنے آپ کو اس کا قریبی ظاہر کرنے کے لیے یہ راکھی بندھوائی ہے تو ناجائز اور حرام اب بھی ہوگا البتہ کفر کا حکم نہیں لگے گا مگر پھر بھی احتیاط تجدید ایمان اور تجدید نکاح ہی میں ہیں اسلئے کہ یہ کفر و ایمان کا مسئلہ ہے جو ایک مسلمان کے لیے سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔۔۔۔۔۔فقط واللہ اعلم باالصواب ۔

(ولاانتم عابدوں ما اعبد) ای ولا اعبد عبادتکم ای لا اسلکھا ولا اقتدی بھا وانما اعبد اللہ علی الوجہ الذی یحبہ ویرضاہ۔ (تفسیر القرآن العظیم/تفسیر ابن کثیر:677/7)

عن عبدِ اللهِ بنِ عمرٍو قال: من مرَّ ببلادِ الأعاجمِ فصنع نَيروزَهم ومهرجانَهم وتشبَّه بهم حتّى يموتَ وهو كذلك حُشِرَ معهم يومَ القيامةِ. (احکام اھل الذمہ:1248/3)

لا يجوز التشبه بالكفار في اعيادهم لما ورد في الحديث"من تشبه بقوم فهو منهم"ومعنى ذلك تنفير المسلمين عن موافقه الكفار في كل ما اختصوا به. (الموسوعۃ الفقهيه:7/12)

ويكفر بوضع قلنسوة المجوس على رأسه إلا لضرورة دفع الحر والبرد...... وبخروجه إلى نيروز المجوس والموافقه معهم فيما يفعلون في ذلك اليوم...... وبتحسين أمر الكفار اتفاقا۔ (البحرالرائق:208/5)

ایک شخص نے چائے کی دکان کھولی ہے اور اس نے پاس کی جگہ میں کیرم بورڈ کا انتظام بھی کررکھا ہے اور کیرم کھیلنے پر وہ کوئی کرایہ نہیں لیتا ہے فری کھیلنے کی اجازت ہے اور یہ کیرم کا انتظام اس نے اس لیے کیا ہے تاکہ اس کی چائے خوب فروخت ہو لہٰذا لوگ کیرم کھیلتے ہیں اور چائے بھی پیتے ہیں مگر کیرم جوئیں اور سٹہ کے ساتھ کھیلتے ہیں تو یہ کھیلنے والے گنہگار تو ہیں ہی کیا وہ چائے بیچنے والا جس نے کیرم کا فری میں انتظام کیا ہے کیا وہ بھی گنہگار ہوگا؟

الجواب و باللہ التوفیق صورت مسئولہ میں اس شخص کا کیرم بورڈ کا نظم کرنا صحیح نہیں ہے اس لیے کہ یہ تعاون علی الاثم ہے۔

ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان (سورۃ المائدہ آیت: ۲) واللہ اعلم بالصواب

لڑکے کا نام صرف محمد رکھ سکتے ہیں؟

باسمہ سبحانہ و تعالی الجواب وبا اللہ التوفیق صرف محمد نام رکھنا جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے لہذا لڑکے کا نام صرف محمد رکھ سکتے ہیں

حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن ايوب، عن ابن سيرين، سمعت ابا هريرة، قال ابو القاسم صلى الله عليه وسلم" سموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي “ صحيح البخاري/كتاب الأدب/حدیث نمبر. ۶۱۸۸. /6188

ما ضر أحدكم لو كان في بيته محمد ومحمدان وثلاثة." (فيض القدير، ج: 5، ص: 453، ط: المکتبة التجاریة الکبری مصر)

فرض نماز کے بعد دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنے پر کسی حدیث وغیرہ میں کوئی فضیلت وارد ہوئی ہے ؟

الجواب وبالله التوفيق: جی اس بارے میں ایک روایت “کنز العمال” میں منقول ہے: جس نے ہر فرض نماز کے بعد دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لی، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رضامندی اور مغفرت لازم فرما دیتا ہے۔

من قرأ قل هو الله أحد دبر كل صلاة مكتوبة عشر مرات، أوجب الله له رضوانه ومغفرته. (كنز العمال/الباب السابع: في تلاوة القرآن وفضائله/الفصل الثاني: في فضائل السور والآيات، ٥٩٩/١، رقم الحديث: ٢٧٣٢، ط: دار إحياء التراث العربي) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.