سوال:-ایک عورت کا شوہر یا محرم سعودی عرب یا انگلینڈ میں رہتا ہے تو ہندوستان سے خاندان کے محرم لوگ ایر پوٹ پر پہنچا دے اور وہ بلا محروم ہوائی جہاز کا سفر کر کے سعودی عرب یا انگلینڈ پہنچ جائے ایر پوٹ سے محروم اسے لے لے جائز ہے یا نہیں دلائل کے ساتھ جواب تحریر فرمائے؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں عورت کا اس طرح سفر کرنا جائز اور درست ہے اس لیے کہ دونوں طرف کے ایر پورٹ تک یہ محروم کے ساتھ ہوا ہے صرف درمیان میں ہوائی جہاز کا سفر بلا محروم کے ہوا ہے اور جہاز کے اندر کسی فتنہ کا اندیشہ نہیں ہے-

فقال مالك تخرج مع جماعة النساء وقال الشافعي تخرج مع ثقة حرة مسلمة وقال ابن سيرين تخرج مع رجل من المسلمين وقال الاوزاعي تخرج مع قوم عدول(اعلاء السنن:١٤/١٠، (

ان المحرم ليس بشرط في الحج الواجب قال الاثرم سمعت احمد يسأل هل يكون الرجل محرما لأم امراته يخرجها الغى الحج فقال أما في حجة الفريضة و أرجوا لأنها تخرج إليها مع النساء ومع كل امنته واما في غيرها فلا وقال مالك والشافعي ليس المحرم شرطا في حجتها(أو جز مسالك:٦٤٨/٨،بيروت)

قال حماد لا بأس للمرأة أن تسافر بغير محرم مع الصالحين(هندية:٤٢٣/٥،اشرفية ديوبند )

سوال:-لوگوں میں مشہور ہے کہ جہیز لینا دینا جائز نہیں ہے یہ بات کہاں تک درست ہے کیا دور نبوت اور دور صحابہ میں کچھ دینے کا رواج تھا یا نہیں؟

الجواب:-شادی کے موقع پر اگر لڑکی والے بغیر دباؤ کے اپنی خوشی سے لڑکے والوں کو جہیز میں کچھ سامان دے دیں تو یہ درست ہے اور روایتوں سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کو جہیز کا سامان عطا فرمایا تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ذرہ کی قیمت مھر میں دلوائی تھی جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر واجب تھی-

عن علي رضي الله عنه قال جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة في خميل وقربة ووسادة حشوها اذ خر (سنن النسائي: ٧٧/٢،كتاب النكاح، جهاز الرجل ابنته،حديث: ٣٣٨٦(مسند احمد بن حنبل:٨٤/١،المستدرك، كتاب النكاح،قديم: ١٨٥/٢)،دار السلام)

عن جابر بن عبد الله رضي الله تعالى عنه قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى جئنا امرأة من الانصار في الاسواف إلى فو الله لا تنكحان أبداً إلا ولهما مال(سنن ابو داؤد، الفرائض،هندية:٢٠/٢)

انس بن مالك رضي الله عنه يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: من تزوج امرأة لعزها لم يزده الله الا ذلا ومن تزوجها لما لها لم يزده الله إلا فقرا(المعجم الأوسط:١٨/٢،دار النكر،حديث: ٢٣٤٢)

سوال:-ڈاکٹر کا مانع حمل دوا لکھنا کیسا ہے جائز ہے یا نہیں؟

الجواب:-ڈاکٹر کے لیے ایسی دوا مریضہ کے حق میں لکھنا جس سے قوت تولید تو باقی رہے البتہ حمل نہ قرار پائے جائز اور درست ہے لیکن بلا ضرورت شدیدہ ایسی دواؤں کا استعمال کرنا مکروہ تنزیحی ہے-

ولا تعاونوا على الاثم والعدوان وما كان سببا لمحظور فهو محظور(شامي: ٥٠٤/٩،زكريا ديوبند)

ويكره أن تسقي الاسقاط حملها: وجاز لعذر حيث لا يتصور كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل وانقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستاجر به... ويخاف هلاك الولد قالوا يباح لها ان تعالج في استنزال الدم مادام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له وقدروا تلك بمئة وعشرين يوما وجاز لأنه ليس بادمي وفيه صبانة الادمي(شامي: ٤٢٩/٦،كتاب الحظر والاباحة،فصل في البيع،كراچی)

سوال:-لڑکے والے بارات لے کر کے ائے تو لڑکی والوں نے مثلا 50 آدمی لانے کی اجازت دی ہے تو لڑکے والوں کو اس سے زیادہ آدمی لانے کی اجازت ہے یا نہیں؟

جواب:-لڑکی والوں نے جتنے متعین آدمی لانے کی اجازت دی ہے اتنے ہی آدمی لانا چاہیے زائد آدمی لانا جائز نہیں ہے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر اجازت کے کسی کے یہاں دعوت پر جانے کو منع فرمایا ہے-

عن ابي مسعود الانصاري رضي الله تعالى عنه قال: كان رجل من الانصار يكني ابا شعيب وكان له غلام لحام، وأنى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في اصحابه، فعرف الجوع في وجه النبي صلى الله عليه وسلم فذهب الى غلامه اللحام فقال اصنع لي طعاما يكفي خمسة، لعلي ادعوا النبي صلى الله عليه وسلم خامس خمسة فصنع له طعيما ثم اتاه فدعاه فتبعهم رجل فقال النبي صلى الله عليه وسلم يا ابا شعيب ان رجلا بتعنا، فإن كانت اذنت له وان شئت تركته. قال: لا بل اذنت له.( الصحيح البخاري:٨٢١/٢،حديث: ٥٢٥٠،الأطعمة)

عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من دعى فلم يجب فقد عصى الله ورسوله ومن دخل على غير دعواه دخل سارقا وخرج مغيرا(ابو داؤد:٥٢٥/٢،رقم: ٣٨٤١،كتاب الأطعمة، باب ما جاء في اجابة الدعوة)

عن نافع عن ابن عمر رضي الله تعالى عنه رفعه قال: من جاء إلى طعام لم يدع إليه دخل سارقا واكل حراما(مسند البزار:٢٠٦/١٢،رقم: ٥٨٨٩)

سوال:-ممبر رسول پر کتنی سیڑیاں، کتنے درجے کی پیڑیاں بنانا مسنون ہے واضح فرمائیں دلائل کے ساتھ؟

الجواب:-ممبر کی سیڑھیوں کی تعداد تین رکھنا مسنون ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو ممبر بنایا گیا تھا وہ تین سیڑھیوں کا تھا حضور تیسری پیڑی پر تشریف فرما ہوتے تھے، جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنائے گئے تو تیسری پیڑی پر تشریف نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسری پیڑی پر تشریف رکھتے تھے، لہذا تمام ائمہ کے لیے دوسری پیڑی پر بیٹھنا مستحب ہے، مگر ممبر کا تین پیڑیوں کا ہونا مسنون ہے-

عن ابن عباس رضي الله تعالى عنه وكان منبر النبي صلى الله عليه وسلم قصيرا، انا هو ثلاث درجات، (مسند احمد بن حنبل: ٢٦٩/١،رقم: ٢٤١٩)

عن كعب بن عجرة قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (احضروا المنبر) فحضرنا فلما ارتقي درجة قال: (امين)فلما ارتقي الدرجة الثانية قال: (امين)،فلما ارتقي الدرجة الثالثة قال:(امين)(المستدرك على الصحيحين:١٧٠/٤،دار الكتب العلمية)

ومنبره صلى الله عليه وسلم كان ثلاث درج غير المسماة المستراح(شامي:١٦١/٢، كتاب الصلاة باب الجمعة، زكريا ديوبند)

سوال:-ایک مسلم افیسر رشوت خور ہے اس کے یہاں دعوت قبول کرنا کیسا ہے؟

الجواب:-مذکورہ مسلم آفیسر کی آمدنی میں غلبہ اگر حلال کا ہے تو پھر دعوت قبول کرنے کی گنجائش ہے لیکن اگر آمدنی میں غلبہ حرام کا ہے جیسے رشوت وغیرہ لہذا دعوت قبول کرنا جائز نہ ہوگا-

اكل الربا وكاسب الحرام لو اهدي إليه أو اضافه وغالب ماله حرام لا يقبل ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال اصله حلال... أو استقرضه وان كان غالب ماله حلالا لا باس بقبول هديته والاكل منها كذا في الملتقط(هنديه: ٣٤٣/٥،زكريا)

إذا كان غالب مال المهدي حلالا فلا باس بقبول هديته واكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام وان كان غالب ما له الحرام لا يقبلها ولا يأكل إلا إذا قال إنه حرام حلالا ورشه واستقرضه(الاشباه والنظائر:٣٠٩،زكريا ديوبند)

ان كان غالب ماله حلالا فلا باس إلا أن يعلم بأنه حرام فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي ان لا يقبل(هنديه: ٣٣٩٢/٥، اتحاد ديوبند)

إذا كان غالب مال المهدي حلالا فلا باس بقبول هديته واكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام وان كان غالب ما له الحرام لا يقبلها ولا يأكل إلا إذا قال إنه حرام حلالا ورشه واستقرضه(الاشباه والنظائر:٣٠٩،زكريا ديوبند)

سوال:-میت کی قبر کھودی آج اور میت پوسٹ ماسٹم کے لئے گئی تھی اور وہ بول رہےہیں کی بوڈی کل ملے گی اب اس قبر کا کیا کریں؟

الجواب و باللہ التوفیق : صورت مسئولہ میں قبر کو ایسے ہی رہنے دیا جائے بند کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

المستفاد :اعلم ان استعداد الكفن للمرء لاباس وحفر القبر قبل أوانه لا يحمد. (اعلاء السنن ٢٧٢/٨کراچی )

المستفاد:ومن حفر قبرا قبل موته فلا بأس به ويؤجر عليه هكذا عمل عمر بن عبد العزيز والربيع بن خثعم وغيرهم............وعن أبي بكر رضي الله عنه أنه رأى رجلا عنده مسحاة يريد أن يحفر لنفسه قبرا فقال لا تعدد لنفسك قبرا وأعدد نفسك للقبر قال البرهان الحلبي والذي ينبغي أنه لا يكره تهيئة نحو الكفن لأن الحاجة إليه تتحقق غالبا بخلاف القبر لقوله تعالى: ﴿وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾ [لقمان: ٣٤] الظاهر أن الإنبغاء وعدمه هنا بمعنى الأولى وعدمه لا الوجوب. (حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح٦١٥- ٦١٦،كتاب الصلاة، فصل في حملها و دفنها ، دار الكتب العلمية بيروت، هكذا في رد المحتار ٢٤٤/٢، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في زيارة القبور، بيروت )

اج کل کھانے پینے کی چیزوں میں نمبر ات اتے ہیں E471 اور بہت سارے اس طرح کے بارے میں اس میں کیا رائے قائم کی ہے

صورت مسئولہ میں محض ان نمبرات کی وجہ سے کسی چیز کی حلت یا حرمت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ واضح طور پر ان اشیاء میں حرام اجزاء کی آمیزش کا علم نہ ہو جائے۔ لہٰذا اس سلسلے میں ماہرین سے رابطہ کر کے ہی کوئی فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک ادارہ ہے حلال فاؤنڈیشن کے نام سے تو ان سے اس بارے میں تحقیق کی جائے۔

ان النجاسۃ لما استحالت وتبدلت اوصافها ومعانيها خرجت عن كونها نجاسة لانها اسم لذات موصوفة فتنعدم بانعدام الوصف وصارت كالخمر وتخللت (بدائع الصنائع ۱/۲۴۳)

قاعدہ: الاصل فی الاشیاء الاباحۃ (قواعد الفقہ ص:۵۹)

سوال:-ایک مدرسے میں ایک مہینے کی پیشگی فیس لی جاتی ہے اگر اس میں بھی تاخیر ہو جائے تو مالی جرمانہ لیا جاتا ہے موجودہ دور میں کیا فتویٰ ہے تفصیلی تحقیقی جواب مرحمت فرمائیں

باسمہ سبحانہ و تعالی الجواب وبا اللہ التوفیق جس ادارہ میں یہ ضابطہ ہے کہ وہ طلبہ سے پیشگی فیس وصول کرتا ہے تو ایسے ادارے کے لئے طلبہ سے پیشگی فیس وصول کرنا جائز ہوگا ۲ فیس جمع کرنے میں تاخیر ہوجانے پر مالی جرمانہ عائد کرنا جائز نہیں ہے

لا ‌يستوجب ‌الأجر ‌قبل الفراغ لما بينا. قال: (إلا أن يشترط التعجيل) لما مر أن الشرط فيه لازم." فتح القدیر (‌‌كتاب الإجارات، باب الأجر متى يستحق، ج:9، ص:74، ط: دار الفكر)

واعلم ان العادة العرف رجع الیہ فی مسائل کثیرة حتی جعلوا ذلک اصلا........ الخ." غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر (القاعدة السادسة العادة محكمة، ج:1، ص:295، ط: دار الكتب العلمية)

وفی شرح الآثار التعزیر بالمال کان فی ابتداء الإسلام ثم نسخ، والحاصل المذہب عدم التعزیر بالمال (شامي: ۳/۱۷۹)

سوال:-ایک آفیسر رشوت کا پیسہ کھاتا ہے اور تنخواہ خرچ نہیں کرتا اور صرف رشوت کے پیسے سے گھر چلاتا ہے تو اس کی بیوی بچوں کے لیے اس کے رشوت کا پیسہ سے خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں جبکہ اس پر بیوی کا خرچ لازم ہے اور اس کے بیوی کے پاس اس رشوت کے سوا کچھ نہیں ہے تو اس صورت میں عورت کیا کرے گی؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں بیوی کے لیے اس حرام مال سے بچنا ممکن ہو اور جائز طریقے سے اپنی ضرورت و حاجت پوری کر سکتی ہو تو اس کے لیے اس حرام مال سے بچنا بہتر ہے لیکن اگر کوئی اور راستہ نہ ہو تو شوہر کے مال کو استعمال میں لا سکتی ہے اپنے لیے اور اپنے نابالغ اولاد کے لیے لیکن بالغ اولاد کے لیے حلال کما کر اپنی ضرورت کو پورا کرنا ضروری ہوگا لیکن رشوت والے مال کا گناہ شوہر کے اوپر ہوگا بیوی اور اس کی نابالغ اولاد پر کوئی گناہ نہ ہوگا-

وفي جامع الجوامع: اشتري الزوج طعاما او كسوة من مال خبيث جاز للمرأة أكله ولبسها والاثم على الزواج.(شامي: ٢٧٩/٩،كتاب الغضب،زكريا ديوبند)

وفي الحانية: امرأة زوجها في ارض الجور إذا اكلت من طعامه ولم يكن عينه غضبا او اشتري طعاما او كسوة من مال أصله للبس بطيب فهي في سعة من ذلك والاثم على الزواج.(شامي: ٥٥٣/٩-٥٥٤،زكريا ديوبند)