سوال:-خیار شرط کسے کہتے ہیں اور اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟

الجواب:-خیار شرط اس معاملہ کو کہتے ہیں جس میں دونوں کا اختیار ہو کہ نافذ کرنے کا یا ختم کرنے کا یعنی دونوں بیچنے والا اور خریدار کو یہ حق حاصل ہے کہ عقد معاہدے میں یہ شرط کر دیں کہ اگر منظور نہ ہو تو بیع باقی نہ رہے گی اسے خیار شرط کہتے ہیں اس کا حکم تین دن کے اندر اندر چاہے تو رکھ لے اور نہ چاہے تو واپس کر دے تین دن سے زائد ہو تو لازم ہو جائے گا-

فإن الاصل في العقد الزوم من الطرفين ولا يثبت لاحدهما اختيار الامضاء او الفسخ ولو في مجلس العقد عندنا الا باشتراط ذلك....(شامي: ١٠١/٧،كتاب البيوع، باب خيار الشرط،زكريا ديوبند)

خيار الشرط وان يشترط احد العاقدين كلاهما الخيار بين قبول العقد وردة ثلاثة ايام او اقل....(التعريفات الفقهية:١٧٦،باب الخاء،مكتبة التهانوي ديوبند)

اما في الاصطلاح فقد قال ابن عابدين ان خيار الشرط مركب اضافي صار علما في اصطلاح الفقهاء على ما يثبت بالاشترط لاخد المتعاقدين من الاختيار بين الامضاء والفسخ....(الموسوعة الفقهية:٧٧/٢،كويت)

سوال:-خیار رویت کا ثبوت قرآن و حدیث سے ثابت ہے یا نہیں اگر ثابت ہو تو اس کی وضاحت کرے اگر ثابت نہ ہو تو پھر خیار رویت کا کیا حکم ہوگا مدلل بیان کریں؟

الجواب:-سیارے رویت حدیث سے ثابت ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے بغیر دیکھے کوئی چیز خریدی تو جب اس کو دیکھے تو اس کے لیے خیار ہے یعنی چاہے تو مبیع رکھے یا واپس کر دے-

عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من اشتري شيئا لم يره لهو بالخيار ان اراه...(الدار القطني: رقم الحديث: ٣٨٥)

عن ابي هريرة من اشتري شيئا لم يره فهو بالخيار اذا راه....(البيهقي: رقم الحديث: ٤٨٥)

عن ابي هريرة من اشتري من الغنم فهو بالخيار....(صحيح مسلم: رقم الحديث: ١٥٢٤)

سوال:-اگر زمین خریدنے کے بعد رجسٹری نہ کرائے تو ایسی صورت میں خریدنے والا اس زمین کا مالک ہوگا یا بیچنے والا یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت اطمینان بخش جواب تحریر کریں؟

الجواب:-اس صورت میں خریدنے والا اس زمین کا مالک ہوگا کیونکہ جب ایجاب و قبول ہو گیا تو بیع لازم ہے اوربیع لازم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بائر کی ملکیت سے نکل کر مشتری کے ملکیت میں چلی جاتی ہے دوسری بات یہ ہے کہ ایجاب و قبول اہل سے صادر ہوا ہے لہذا اس کو منعقید کیا جائے گا اس کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ مشتری مالک ہوگا-

إذا حصل الايجاب والقبول لزم البيع وفي الحاشية ويثبت الملك لكل منهما....(الهداية:٦/٥،كتاب البيوع،بشري باكستان)

قلت وفي جامع الفصولين أيضاً: لو ذكر البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العدة جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد....(شامي: ٢٨١/٧،كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،زكريا ديوبند)

واذا حصل الايجاب والقبول لزم البيع ولا خيار لو احد منهما الا من عيب....(بالفتاوى الهندية:١١/٣،كتاب البيوع،زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص دیکھے بغیر زمین خرید لے پھر دیکھنے کے بعد پسند نہ ائے تو ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-اس مسئلہ میں اس شخص کو خیار حاصل ہوگا یعنی چاہے تو لے لے اور چاہے تو واپس کر دے-

ومن اشتري شيئا لم يره فالبيع جائز وله الخيار اذا راه ان شاء اخذه بجميع الثمن وان شاء رده....(الهداية:٥٢/٥،كتاب البيوع،مكتبة البشري،باكستان)

الاصح الجواز وله اي للمشتري ان يرده رده إذا راه..... وان رضي.... قبله اي قبل ان يراه لان خياره معلق بالروية بالنص....(رد المختار: ١٥١/٧-١٥٢،كتاب البيوع باب خيار الروية،زكريا ديوبند)

ومن اشتري شيئا لم يره فالبيع جائز وله الخيار اذا راه ان شاء اخذه وان شاء رده.....(الباب في شرح الكتاب: ٢٠٥/١،كتاب البيوع،اشرفية ديوبند)

سوال:-خیار رویت کسے کہتے ہیں اور اس کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-کسی چیز کو دیکھے بغیر خریدنا اور دیکھنے کے بعد اس چیز کے پسند نہ آنے پر خریدار چاہے تو بیع کو فسخ کر دے اس اختیار کو خیار رویت کہتے ہیں اور اسی طرح کا معاہد کرنا شرعا جائز ہے لیکن مشتری کو دیکھنے کے بعد اختیار ہے چاہے تو کل مبیع کو کل قیمت کے ساتھ لے یا کل مبیع واپس کر دے-

خيار لروية: هو ان يشتر شيئا لم يره فللمشتري الخيار إذا راه وهو غير موقت بمدة..(التعريفات الفقهية:٢٨٣،باب الخيار،دار الكتاب ديوبند)

ومن اشتري شيئا لم يره فالبيع جائز وله الخيار إذا راه ان شاء اخذه بجميع الثمن وان شاء رده....(الهداية:٥٢/٥،كتاب البيوع،مكتبة البشري،باكستان)

من اشتري شيئا لم يره فله الخيار إذا راه ان شاء أخذه بجميع ثمنه وان شاء رده....(بالفتاوى الهندية:٥٩/٣،الباب السابع في خيار الروية،زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص کوئی سامان دیکھے بغیر خریدے تو شرعا کیا حکم ہے ؟

الجواب:-ایسی بیع جائز ہے لیکن جب وہ سامان کو دیکھے گا تو اس کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو سامان رکھے یا تو واپس کر دے-

ومن اشتري شيئا لم يره فالبيع جائز وله الخيار اذا راه ان شاء أخذه بجميع الثمن وان شاء رده....(الهداية:٥٢/٥،كتاب البيوع، بشري باكستان)

من اشتري ما لم يره جاز وله رده إذا راه ما يبطله وان رضي قبلها....(مجمع الانهر: ٥٠/٣،كتاب البيوع، فقهيةالامة ديوبند)

الاصح الجواز وله اي للمشتري ان يرده إذا راه إلا إذا حمله البائع لبيت المشتري فلا يرده إذا راه إلا إذا اعاده الى البائع اشباه وان رضي بالقول قبله اي قبل ان يراه لان خياره معلق بارؤية بالنص....(رد المختار:١٥١/٧-١٥٢،كتاب البيوع،باب خيار لرؤية ،زكريا ديوبند )

سوال:-اگر کوئی شخص کسی دوکان سے ادھار سامان خریدے اور قیمت ادا کرنے کی مدت طے نہ کرے بلکہ یوں کہے کہ بعد میں دونگا تو ایسی صورت میں شرعا یہ درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے؟

الجواب:-ادھار بیع کے اندر ثمن کی ادائیگی کی مدت معلوم ہونا ضروری ہے خواہ صراحتا معلوم ہو یا عرفا معلوم ہو لہذا صورت مسئولہ میں بیع درست ہے اگر متعاقدین کے درمیان مدت ادائیگی معلوم ہو ورنہ درست نہیں ہے-

ومن باع بثمن حال ثم اجله اجلا معلوما او مجهولا متقاربا كالحصاد والدياس.... لو باع موجلا ولم يقل الى رمضان لا يكون مؤبدا بل يكون ثلاثة ايام عند بعض ويفتى بأن يتاجل الى شهر.....(البحر الرائق: ٤٦٧/٥،كتاب البيع، المكتبة التهانوية ديوبند)

وصفه بثمن حاله وهو الاصل ومؤجل الى معلوم لئلا يقضي.... ولو باع مؤجلا صرف لشهر به يفتى....(رد المختار: ٥٢/٧-٥٣،كتاب البيوع،زكريا ديوبند)

وفي المنح: لو باع مؤجلا انصرف الى شهر لأنه المعهود في الشرع في السلم....(مجمع الانهر: ١٣/٣،كتاب البيوع، فقهية الامة ديوبند)

سوال:-کسی سامان کو قسط وار خریدنا شرعا کیسا ہے؟

الجواب:- قسط وار خریداری میں سامان اس شرط کی ساتھ جائز ہے کہ جب دونوں عقد کے وقت ایک قیمت پر رضامند ہو جائیں یعنی ادھار اور قصد وار زائد رقم کی تعیین ہو جائے کہ قسط وار اتنی قیمت میں یہ چیز دی جائے گی تو یہ شکل جائز اور درست ہے-

البيع معا تاجيل الثمن وتقسيطه صحيح...(شرح المجله:١٢٤/١،رقم المادة:٢٤٥)

نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة وقد فسر بعض اهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة ان يقول ابيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين لا بقارقه على احد البيعين فاذا فارقه على احدهما فلا باس اذا كانت العقدة على واحد منهما (ترمذي شريف:٢٣٣/١،)

رجل باع على انه بالنقد بكذا و بانسيئة بكذا والي شهر بكذا والى شهرين بكذا لم يجز كذا في "الخلاصة"(بالفتاوى الهندية:١٣٧/٣،كتاب البيوع،زكريا ديوبند)

سوال:-منقولی اور غیر منقولی کے درمیان کیا فرق ہے نیز خرید و فروخت کے سلسلہ میں منقولی اور غیر منقولی کی شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-منقولی وہ اشیاء ہیں جس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ممکن ہو مثلا نقود عروض حیوانات، مکیلات، موزونات اور جو اس کے مشابہ ہو اور غیر منقولی وہ اشیاء ہیں جس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ممکن نہ ہو مثلا زمین وغیرہ اور خرید و فروخت کے سلسلہ میں حکم یہ ہے کہ منقولی اشیاء پر قبضہ کرنے سے پہلے فروخت کرنا شرعا جائز نہیں ہے اور غیر منقولی کو قبضہ سے پہلے فروخت کرنا شرعا جائز ہے-

فلما المنقول هو كل ما يمكن نقله وتحويله..... والعقار: هوماله اصل ثابت لا يمكن نقله وتحويله كالاراضي والدور ونحوها....(الموسوعة الفقهية: باب الميم،ط: كويت)

صح بيع عقار لا يخشي هلاكه قبل قبضه.... ونحوه كان كمنقول فلا يصح اتفاقا ككتابة واجارة وبيع منقول قبل قبضه لأنه نهي عن بيع ما لم يقبض.....(الدر المختار مع الشامي:٣٦٩/٧،كتاب البيوع،باب المرابحه والتوليه،زكريا ديوبند)

ومن اشتري شيئا مما ينقل ويحول: لم يجز له بيعه حتى يقبضه ويجوز بيع العقار قبل القبض....(هدايه:١٦٣/٥-١٦٤،كتاب البيوع،مكتبه البثري باكستان)

سوال:-اگر کوئی شخص سامان پر قبضہ کیے بغیر فروخت کر دے تو شرعا کیسا ہے؟

الجواب:-سامان پر قبضہ کیے بغیر فروخت کرنا شرعا درست نہیں ہے اس باری میں اگر منقولی چیز ہو تو اس لیے کہ بیع صحیح ہونے کے لیے مبیع کا موجود اور مقدور التسلیم ہونا شرط ہے لیکن اگر غیر منقولی چیز ہو تو قبضہ کیے بغیر فروخت کرنا جائز ہے-

وبيع ما ليس في ملكه لبطلان بيع المعدوم وماله خطر العدم.... قوله: لبطلان بيع المعدوم اذ من شرط المعقود عليه: ان يكون موجودًا مالا متقوما مملوكا في نفسه.....وان يكون مقدور التسليم.....(رد المختار مع الشامي: ٢٤٦/٧،كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،زكريا ديوبند)

شرط انعقاد البيع للبائع ان يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد وان ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه الا السلم خاصة وهذا بيع ما ليس عنده....(بدائع الصنائع:١٤٧/٥-١٤٦،دار الكتب العلمية بيروت)