سوال:-اگر کوئی شخص کوئی سامان خریدے اور اس وقت عیب پر نظر پڑ جائے پھر بھی وہ سامان لے کر گھر آ جائے پھر اگر وہ سامان واپس کرنا چاہے تو اس کو شرعا اختیار ہوگا یا نہیں مفصل بیان کریں؟

الجواب:-اس صورت میں وہ عیب دیکھنے کی باوجود وہ سامان گھر لے آیا تو پھر اس کو اختیار نہیں ہو گا واپس کرنے کا اس لیے کہ جب وہ عیب کے باوجود وہ سامان گھر لے آیا تو بیع مکمل ہو گیا اور جب بیع مکمل ہو جاتا ہے تو خیار بھی باطل ہو جاتا ہے-

و إلى هنا ان خيار العيب يسقط بالعلم به وقت البيع او وقت القبض او الرضا به.... (شامي: ٢٣٠/٧،كتاب البيوع، باب خيار العيب،زكريا ديوبند)

ومنها جهل المشتري بوجود العيب عند العقد والقبض فإن كان عالما به احدهما فلا خيار له....(الهداية:٧١/٣،كتاب البيوع، باب خيار العيب،العلمية بيروت)

ومنها جهل المشتري بوجود العيب عند العقد والقبض فإن كان عالما به عند احدهما فلا خيار له....(بالفتاوى الهندية:٦٨/٣،كتاب البيوع، الباب الثامن في خيار العيب، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص سامان خریدے اور اس سامان کے اندر کوئی ایسی چیز ملا دے جس کو الگ کرنا ممکن نہ ہو پھر اس سامان کے اندر پرانا عیب نظر آ جائے تو اس کو خیار عیب ملے گا یا نہیں یا اس عیب کے نقصان کی تلافی کی جائے گی یا نہیں اگر کی جائے تو کس طرح جواب تحریر کریں؟

الجواب:-اس صورت میں ملاوٹ کی وجہ سے خیار عیب نہیں ملے گا اس لیے کہ زیادتی کر دینے کی وجہ سے لیکن پرانا عیب نظر آنے کی وجہ سے نقصان کی تلافی کی جائے گی اس طرح تلافی کی جائے گی یعنی کپڑا خریداری میں جو بلا عیب والا کپڑا کی قیمت 100 کا ہے اور عیب والا کپڑا 80 روپیہ کا ہے تو عیب نظر آنے کی وجہ سے جو 20 روپیہ نقصان ہوا ہے وہ 20 روپیہ واپس کریں گے-

لو باع المشتري الثوب كله او بعضه او وهبه بعد القطع لجواز رده مقطوعا لا مخيطا، كما.... وحاطه او صبغه بأي صبغ كان عيني اولت السويق بسمن او خبز الدقيق.... ثم اطلع على عيب رجع في بنقصانه لا متناع الرد بسبب الزيادة لحق الشرع لحصول....(رد المختار: ١٨٩/٧-١٨٠،كتاب البيوع، باب خيار العيب، زكريا ديوبند)

وان خاطه ثم وجد به عيبا كان فله ان يرجع بالعيب..... وكذلك في السويق اذ لته بالسمن اوالعسل.... وليس له ان يرد بالعيب ولا يرجع بنقصان العيب كذا في "الذخيرة"(بالفتاوى الهندية:٧٨/٣،كتاب البيوع، زكريا ديوبند)

وان قطع الثوب وخاطه وصبغه احمر اولت السويق بسمن ثم اطلع على عيب رجع بنقصانه الا فتناع الرد بسبب الزيادة(الهداية:٦٥/٣،كتاب البيوع، باب خيار العيب،نعيمية ديوبند)

سوال:-کن صورتوں میں خیار عیب ملتا ہے اور کن صورتوں میں خیار عیب نہیں ملتا ہے؟

الجواب:-اگر بیع کے وقت عیب کا علم ہو جائے یا بیع کے قبضہ کرنے کے بعد علم ہو جائے یا وہ شخص اس پر راضی ہو جائے خریدنے اور قبضہ کرنے کے بعد یا بائع اس شرط پر بیچے اس میں جو بھی عیب ہوگا اس کے ساتھ میں بیچ رہا ہو یا بائع اور مشتری کے کسی عیب پر صلح کر لینے کی وجہ سے یا بائع کے اقرار کر کے سامان بیچنے کے وجہ سے مثلا اس غلام میں بھاگنے کے علاوہ کوئی عیب نہیں تو ان صورتوں میں خیار عیب نہیں ملے گا اور ان کے علاوہ صورتوں میں خیار عیب ملے گا-

ان خيار العيب سقط بالعلم به وقت البيع او وقت القبض او الرضائه بعدهما او اشتراط البراءة من كل عيب او الصلح على شيء او الاقرار بأن لا عيب به اذا عينه كقوله ليس بابق فإنه اقرار بانتفاء الاباق....(شامي: ٢٣٠/٧،كتاب البيوع،باب خيار العيب زكريا ديوبند)

ومنها جهل المشتري بوجود العيب عند العقد والقبض فإن كان عالما به عند احدهما فلا خيار له ومنها عدم اشتراط البراءة عن العيب في المبيع عندنا حتى لو اشترط فلا خيار للمشتري كذا في" البائع"(بالفتاوى الهندية:٦٨/٣،كتاب البيوع زكريا ديوبند)

الاصل ان المشتري متى تصرف في المشتري بعد العلم بالعيب تصرف الملاك بطل حقه في الرد....(بالفتاوى الهندية:٧٦/٣،كتاب البيوع زكريا ديوبند)

سوال:- عیب کی تعریف مع مثال تحریر کریں؟

الجواب:-عیب کہتے ہیں ہر ایسی چیز کو جو قیمت کو گھٹائے تاجروں کے نزدیک مثلا کوئی آدمی کپڑا خریدے پھر وہ کپڑا چوہا وغیرہ کاکٹا ہوا نکلے تو مشتری کو کپڑا واپس کرنے کا حق ہوگا-

وکل ما اوجب نقصان الثمن في عادة التجار فهو عيب....(الهداية:٦١/٣،كتاب البيوع باب خيار لعيب،نعمية ديوبند)

وكل ما يوجب نقصان الثمن في عاده التجار فهو عيب....(الفتاوى السراجية السراجية:٤٣١ ،كتاب البيوع ،باب خيار العيب،زكريا ضبوبي افريقه)

من وجد بمشرية ما ينقص الثمن.... عند التجار(شامي: ١٦٩/٧-١٧٠،كتاب البيوع باب خيار العيب،زكريا ديوبند)

سوال:-خیار عیب کسے کہتے ہیں اور اس کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-خیار کہتے ہے ایسی کوئی عیب کی وجہ سے خیار کا حاصل ہونا جو ان سامان کے بنانے والے یا تاجر کے نزدیک جس سے قیمت گھٹ جائے، اور اس کا حکم یہ ہے کہ اگر چاہے تو سامان بائع کو واپس کر دے اگر چاہے تو سامان پوری قیمت سے لے لے-

خيار العيب هو ان يجد المبيع عيبا ينقص الثمن فله الخيار ان شاء اختيار المبيع بكل الثمن او يرده الى البائع....(قواعد الفقه: ١٧١،الخاء، اشرفية ديوبند)

خيار العيب يثبت من غير شرط.... اذا اشتري شيئا لم يعلم بالعيب وقت الشراء ولا علمه قبله، والعيب.... ان شاء رضي بجميع الثمن وان شاء رده كذا في....(بالفتاوى الهندية:٦٧/٣،كتاب البيوع، الباب الثامن في خيار العيب، زكريا ديوبند )

من وجد بمسرية ما ينقص الثمن... اطلقه فشمل ما اذا كان به عند البيع او حدث بعده في يد البائع.... ولو يسيرا.... عند التجار.... اخذاه بكل الثمن او رده ما لم يتعين امساكه(رد المختار مع الشامي: ١٦٩/٧-١٨٠،كتاب البيوع باب خيار العيب،زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص سامان خرید کر لائے اور سامان کے اندر کوئی خرابی نظر آ جائے تو ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-اگر کوئی شخص سامان خرید کر لائے اور اس سامان کے اندر کوئی خرابی نظر آ جائے تو اس شخص کو اختیار ہوگا اگر چاہے تو اس سامان کو پورے ثمن سے لے لیگا اگر چاہے تو اس سامان کو واپس کر دے-

واذا طلع المشتري على عيب في المبيع فهو بالخيار ان شاء اخذه جميع الثمن وان شاء رده....(الهداية:٦٢١/٣،كتاب البيوع باب خيار العيب تعمية ديوبند)

من وجد بمشتريه ما ينقص الثمن ولو يسيرا جوهرة عند التجار المراد بهم اذ باب المعرفة بكل تجارة وصنعة قاله المصنف اخذاه بكل الثمن او رده ما لم يتعين امساكه....(رد المختار: ١٦٩/٧-١٨٠،كتاب البيوع باب خيار العيب، زكريا ديوبند)

واذا اشتري شيئا لم يعلم بالعيب وقت الشراء ولا علمه قبله والعيب يسير او فاحش فله الخيار ان شاء رضي بجميع الثمن وان شاء رده كذا في "شرح الطحاوي"(بالفتاوى الهندية:٦٧/٣،كتاب البيوع باب الثامن في خيار العيب زكريا ديوبند )

سوال:-کن کن صورتوں میں خیار شرط باطل ہو جاتا ہے اور کن کن صورتوں میں خیار شرط باطل نہیں ہوتا مدلل جواب تحریر کریں؟

الجواب:-جب خیار مشتری کو ہو اور وہ سامان مشتری کے ہاتھ میں ہلاک ہو جائے تو خیار شرط باطل ہو جاتی ہے اس طرح اگر سامان میں کوئی عیب پیدا ہو جائے جو مشتری کی طرف سے ہے تو بھی خیار شرط باطل ہو جاتی ہے اسی طرح اگر مبیع میں کوئی ایسی زیادتی پیدا ہو جائے جو اصل شئ میں ہو جیسے حسن و جمال مرض سے بری، انکھ وغیرہ سے سفیدی وغیرہ کی ختم ہونا بھی خیار شرط کو باطل کر دیتا ہے اسی طرح اگر دونوں کو خیار شرط ہو تو کسی ایک کی تصرف سے بھی خیار شرط باطل ہو جاتی ہے اسی طرح خیار شرط کے مدت گزر جانے سے بھی خیار شرط باطل ہو جاتی ہے وغیرہ ان کے علاوہ صورتوں سے خیار شرط باطل نہیں ہوتا ہے مثلا اگر ایسی زیادتی ہو جو اصل سے جدا ہو اور اصل سے پیدا بھی نہ ہوئی ہو-

ويخرج عن ملكه اي البائع مع خيار المشتري فقط في هلك بيده بالثمن كتعيبه فيها بعيب لا يرتفع كقطع يد فيلزمه قيمته في المسألة الأولى....(رد المختار: ١٢٢/٧-١٢٣،كتاب البيوع، باب خيار الشرط،زكريا ديوبند)

الخيار اذا كان للمشتري وهلكت العين في يده او انتقض وان ذلك يمنع للفسخ وكذا اذا ازداد المبيع زياده متصلة مولدة من الاصل كالحسن والجمال..... وكذا اذا كانت متصلة غير متولدة من الاصل كالصحيح والخياطة..... لو كان الخيار لهما فتصرف البائع وكذا تصرف المشتري.....(الفتاوى السراجية:٤٢٩،كتاب البيوع، باب خيار الشرط،زكريا جولي افريقه)

قال فإن هلك في يده هلك الثمن وكذا اذا دخله عيب يخلاف ما إذا كان الخيار للبائع....(الهداية:٤٩/٣،كتاب البيوع باب الخيار الشرط،طعمية ديوبند)

سوال:-خیار شرط کن کو ملتا ہے اور کن کو نہیں ملتا ہے مدلل جواب تحریر کریں؟

الجواب:-خیار شرط بائر اور مشتری دونوں کو ملتا ہے بشرطیکہ شرط لگائے-

خيار الشرط جائز في البيع للبائع والمشتري....(هدايه: ٣١/٥،بشري باكستان)

يصح البيع بشرط الخيار لاحد العاقدين ولهما جميعا عندنا....(بالفتاوى الهندية:٤٠/٣،كتاب البيوع،الباب السادس في خيار الشرط،زكريا ديوبند)

اما خيار بشرط يصح البيع بشرط الخيار لاحد المتعاقدين او لهما جميعا عندنا....(فتاوى قاضيخان:١٠٦/٨،كتاب البيع،باب الخيار الشرط،زكريا ديوبند)

سوال:-خیار شرط کے اندر کو اختلاف ہے یا نہیں اگر اختلاف ہو تو تمام اختلافی اقوال کو لکھنے کے بعد صحیح قول کی وضاحت کریں ؟

الجواب:-خیار شرط کے اندر اختلاف یہ ہے کہ امام اعظم و زفر رحمہ اللّہ اور شافعی کے نزدیک تین دن یا اس سے کم دن ہے اور صاحبین رحمہ اللہ کے نزدیک مدت معلوم ہو تو بھی جائز ہے مثلا ایک مہینہ یا دو مہینہ وغیرہ اور راجح قول پہلا یعنی امام اعظم رحمہ اللہ غیرہ کا جو تین دن پر ہے-

ومختلف فيه: وهو ان يقول على اني بالخيار شهرا او شهرين فإنه فاسد عند ابي حنيفة رحمه الله تعالى ،جائز عند ابي يوسف ومحمد.... لا يجوز اكثر من ثلاثة ايام..... يجوز إذا سمى مدة معلومة.... والصحيح قول الإمام كذا في "جواهر الاخلاطى"(بالفتاوى الهندية:٤٠/٣،كتاب البيوع، الباب السادس، في خيار الشرط ،زكريا ديوبند)

وان شرط الخيار اكثر من ثلاثة ايام فسد البيع في قول ابي حنيفة رحمه الله تعالى كما لو شرط الخيار ابدا وقال صاحباه إذا ذكر وقتا معلوما شهرا او سنة او اكثر جاز....(فتاوى قاضيخان:١٠٦/٨،كتاب البيوع، باب الخيار الشرط،زكريا ديوبند)

وهو ان يقول: على اني بالخيار ثلاثة ايام فما دونها ومختلف فيه وهو ان يقول: على اني بالخيار شهرا او شهرين فإنه فاسد عند ابي حنيفة وزفر والشافعي، جاز عند ابي يوسف ومحمد....(شامي: ١٠٦/٧،كتاب البيوع، باب خيار الشرط،زكريا ديوبند)

سوال:-خیار شرط کی اندر مدت کی تعین ہے یا نہیں اگر ضروری ہے تو کتنی مدت مدلل بیان کریں؟

الجواب:- خیار شرط کے اندر مدت کی تعین ہے اور ضروری ہے اور وہ مدت تین دن کی ہیں-

لا يجوز اكثر من ثلاثة ايام وعند هنا.... وان شرط الخيار اكثر من ثلاثة ايام او أبداً حتى فسد العقد فان اجاز في الثلاث صح العقد....(بالفتاوى الهندية:٤٠/٣،كتاب البيوع، باب السادس في خيار الشرط،زكريا ديوبند)

وهو ان يقول على أني بالخيار ثلاثة ايام فما دونها.... وهو ان يقول على اني بالخيار شهرا او شهرين فإنه فاسد....(شامي: ١٠٦/٧،كتاب البيوع، باب خيار الشرط ،زكريا ديوبند)

وكذلك خيار الشرط للاجنبي جائز عندنا وهو موقت بثلاثة ايام او اقل وان شرط الخيار اكثر من ثلاثة ايام فسد البيع في قول ابي حنيفة....(فتاوى قاضيخان:١٠٦/٨،باب الخيار،زكريا ديوبند)