سوال:-اگر کوئی شخص سودی کاروبار کرے تو اس کی امدانی کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-چونکہ سودی کاروبار کرنا حرام ہے لہذا اس کے ذریعہ حاصل ہونے والے امدانی بھی حرام ہوگا کیونکہ اگرچہ حلال کاروبار کیا جائے تب بھی اس میں حرمت و خیاثت بدکتور برقرار رہے گی البتہ ایسی حرام کمائی سے کاروبار کرنا جس کا تعلق شخص معاملات سے ہو مثلا غصب یا رشوت وغیرہ کے ذریعہ حاصل ہونے والے مال سے کاروبار کیا جائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اصل رقم مالک تک پہنچائے اور اس کے ذریعہ جو کاروبار کیا ہے اس کا امدانی جائز ہے اور اگر مالک کا علم نہ ہو تو اس کی طرف سے فقراء مساکین پر وہ رقم صدقہ کر دی جائے-

والحاصل انه ان علم ارباب الاموال وجب رده عليهم والا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه....(شامي: ٣٠١/٧،كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما،زكريا ديوبند)

قال شيخنا: ويستفاد من كتب فقهائنا كالهداية وغيرها ان من ملك بملك خبيث ولم يمكنه الرد الى المالك فسبيله والتصدق على الفقراء..... قال: ان المتصدق....(معارف السنن: ٣٤/١،باب ما جاء لا تقبل صلاة بغير طهور سعيد)

يا ايها الذين امنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا ان كنتم مؤمنين فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله ورسوله....الخ(سورة البقرة:٢٧٨-٢٧٩)

سوال:- پوجاپاٹ میں استعمال ہونے والی سامانوں کی خرید و فروخت کرنا شرعا کیسا ہے؟

الجواب:- وہ سامان جو صرف پوجا پاٹ اور مشرکانہ مراسم کی ادائی میں استعمال کی جاتی ہے ان کی تجارت کسی مسلمان کے لیے شرعا جائز نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایک اعتبار سے شرک و بت پرستی میں تعاون ہے البتہ وہ چیزیں جنہیں غیر مسلم پوجا پات کے کاموں میں استعمال کرتے ہیں اور ان کے دیگر عام کاموں میں استعمالات بھی ہیں تو ایسی سامان خرید و فروخت کر سکتا ہے کوئی حرج نہیں-

ولا باس بأن يواجر دار امن الذمي يسكنها فإن شرب فيها الخمر.... لم يلحق المسلم اثم في شيء من ذلك لأنه لم يواجرها لذلك والمعصية في فعل المستاجر....(المبسوط للسرخسي:٤٣/١٦،كتاب البيوع،باب الاجارة الفاسدة غفارية كوئٹه)

لا يكره بيع الدنانير من النصراني والقلنسوة من المجوسي لان ذلك اذلال لهما....(تبين الحقائق:٦٥/٤،كتاب الكراهية،فصل فى بيع،دار الكتب العلمية بيروت)

سوال:-خون کی خرید و فروخت شرعا درست ہے یا نہیں اگر درست ہے تو کیوں اور اگر درست نہ ہو تو کیوں مدلل جواب تحریر کریں؟

الجواب:-خون کی خرید و فروخت شرعا درست نہیں ہے کیونکہ خون کسی کے نزدیک مال نہیں ہے جب کہ بیع کا رکن ہے مبادلة المال بالمال کا ہونا اور وہ یہاں منقود ہے اور نص کے اندر بھی خون کو حرام قرار دیا ہے-

حرمت عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير....الخ(سورة المائده: رقم الآية:٣)

واذا كان احد العوضين او كلاهما محرما فالبيع فاسد كالبيع بالميتة والدم.... لا نعدام ركن البيع وهو مبادلة المال بالمال فإن هذه الاشياء لا تعد مالا عند احد....(الهداية:٩٠/٥،كتاب البيوع،مكتبة البشري باكستان)

بطل بيع ما ليس بمال والمال ما.... ونحوه كالدم المسفوح فجاز بيع كبد وطحال والميتة....(رد المختار: ٢٣٥/٧،كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، زكريا ديوبند)

سوال:-حرام چیزوں کا کاروبار کرنا شرعا کیسا ہے؟ اگر حرام چیزوں کے کاروبار کے ذریعہ نفع حاصل ہو جائے تو اس نفع اور مال کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب: -حرام چیزوں سے کسی بھی قسم کا کاروبار کرنا شرعا درست نہیں ہے لیکن اگر کسی نے اس طرح کی چیزوں سے کاروبار کرہی لیا تو اس سے حاصل شدہ امدانی اور نفع کو حرام نہیں کہا جائے گا بلکہ وہ نفع اس کے لیے حلال ہے اور اصل سرمایہ مالک کو واپس کرنا ضروری ہوگا لیکن اگر مالک کا پتا ہی نہ ہو تو اصل سرمایہ کو غریبوں اور مساکین وغیرہ پر صدقہ کر دیا جائے گا-

اكتسب حراما واشتري به او بالدراهم المغصوبة شيئا: قال الكرخي ان نقد قبل البيع تصديق بالربع والا لا وهذا قياس....(رد المختار: ٤٩٠/٧،كتاب البيوع، باب المتفرقات، زكريا ديوبند)

بطل بيع ما ليس بمال كالدم المسفوح والميتة والحر....(الدر المختار مع الشامي: ٢٣٥/٧-٢٣٦،كتاب البيوع،زكريا ديوبند)

وإذ اكتسب المغصوب ثم استرده المالك مع الكسب لا يتصدق بالكسب ولو ضمن الغاصب القيمة عند الهلاك او الاباق حتى صار الكسب له تصدق بالكسب....(الهنديه: ١٦٦/٥،كتاب اللغه الغسب،اشرفية ديوبند)

سوال:-بنڈل اور ڈبے میں سامان رکھ کر غیر وزن کے خرید و فروخت کرنا شرعا کیسا ہے؟ اگر درست ہو اور بنڈل و ڈبے کھولنے کے بعد سامان خراب نکلے تو شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-صورت مسؤلہ میں خرید و فروخت کرنا شرعا درست ہے کیونکہ آج کا عام دستور یہی ہے لیکن اگر گاہک تولنے کی شرط لگائے تو پھر تولے بغیر خرید و فروخت درست نہیں ہے اور اگر خریدنے کے بعد سامان خراب نکلے تو مشتری کو اختیار ہے چاہے تو پورے ثمن کے بدلے میں سامان کو لے لے اور چاہے تو بیع کو فسخ کر دے-

واحل الله البيع وحرم الربوا...الخ(سورة البقرة: رقم الآية:٢٧٥)

إذا اطلع المشتري على عيب في المبيع فهو بالخيار ان شاء اخذه بجميع الثمن وان شاء رده، لان مطلق العقد يقتضي وصف السلامة فعند فواته يتخير.....(الهداية:٦٥/٥،كتاب البيوع، مكتبة البشري،باكستان)

إذا اطلع المشتري على عيب في المبيع فهو بالخيار إن شاء اخذه بجميع الثمن وان شاء رده....(الباب في شرح الكتاب: ٢٠٨/١،كتاب البيوع،اشرفية ديوبند)

ويجوز باناء بعينه لا يعرف مقداره وبوزن حجر بعينه لا يعرف مقداره لان الجهالة لا تفضي إلى المنارعة....(الهداية:١١/٥،كتاب البيوع،مكتبة البشري باكستان)

سوال:- بیع فاسد اور باطل کا حکم تحریر کریں؟

الجواب:-بیع باطل کا حکم یہ ہے کہ بیع باطل نہ ملک تصرف کا فائدہ دیتی ہے اور نہ ملک رقبہ کا یعنی بیع باطل کی صورت میں مشتری نہ عین مبیع کا مالک ہوتا ہے اور نہ اس میں تصرف کا مالک ہوتا ہے- اور بیع فاسد کا حکم یہ ہے کہ بیع فاسد قبضہ کرنے سے ملک کا فائدہ دیتی ہے یعنی اگر مشتری نے بائع کی اجازت سے قبضہ کیا تو مشتری مبیع کا مالک ہو جائے گا-

و الباطل لا يفيد ملك التصرف.... والفاسد يفيد الملك عند اتصال القبض به....(الهداية:٩٠/٥،كتاب البيوع، مكتبة البشري باكستان)

البيع الفاسد: وهو يفيد الملك بالقبض بامر البائع صريحا او دلالة كما اذا قبضه في المجلس وسكت حتى يجوز له التصرف فيه الا الانتفاع.... و الباطل لا يفيد الملك ويكون امانة في يده....(كتاب الاختيار: ٢٦/١-٢٧،كتاب البيوع،مكتبة فقهية الامة ديوبند)

والفاسد: ما افاده عند القبض.... و الباطل: ما لم يفذه أصلاً....(بالفتاوى الهندية:٦/٣،كتاب البيوع،زكريا ديوبند)

سوال:- بیع مکروہ کی تعریف اور اس کا حکم تحریر کریں؟

الجواب:-بیع مکروہ وہ ایسی بیع ہے جو اپنی اصل اور وصف کے اعتبار سے مشروع ہو لیکن اس کے ساتھ کوئی دوسری خارجی سبب کی وجہ سے ناپسندیدہ ہو جیسے- اذان جمعہ کے وقت خرید و فروخت کرنا اور اس کا حکم یہ ہے کہ یہ بیع منعقد ہو جاتی ہے اور کراہت کے ساتھ جائز ہے البتہ اس سے اجتناب کرنا چاہیے-

البيع المكروه: هو الصحيح باصله ووصفه دون مجاوره كالبيع بعد اذان الجمعة بحيث يفوت السعي الى صلاة الجمعة.....(التعريفات الفقهية:١٣٥،باب الباء، مكتبة تهانوية ديوبند)

وكره بيع الحاضر للبادي وهذا اذا كان اهل البلدة في فحط وهو ان يبيع من اهل البلد رغبة في الثمن الغالي فيكره.....(بالفتاوى الهندية:١٩٨/٣،كتاب البيوع، زكريا ديوبند)

والمكروه: مشروع باصله ووصفه لكن جاوره شيء اخر من هي عنه.....(الباب في شرح الكتاب: ٢١١/١،كتاب البيوع،اشرفية ديوبند)

سوال:-گڑیا کی خرید و فروخت شرعا درست ہے یا نہیں اگر کوئی شخص اس کا کاروبار کرتے ہو تو اس کی امدانی کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-شریعت میں تصویر سازی اور مجسمہ سازی منع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا جاندار کی تصویر ہو اور یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والے کو ہوگا یا گڑیا اگر بعینہ جاندار کے مجسمے ہو یا تصویر والے ہو اور مقصود بھی یہی ہو تو اس کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس کے باوجود اس سے کاروبار کرے تو نفع کو صدفہ کرنا پڑے گا اور اگر مقصود ہو کھلونا ہو اور اس پر ضمنا تصویر لگی ہوئی تو اس کی خرید و فروخت لفظ سر جائز ہوگی لیکن تصویر کی وجہ سے کراہت ہوگی

تو اس کی خرید و فروخت فی نفسہ جائز ہوگی لیکن تصویر کی وجہ سے کراہت ہوگی-

عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة....(صحيح البخاري: رقم الحديث: ٣٣٢٢)

اكتسب حراما واشتري به او بالدراهم المغصوبة شيئا: قال الكرخي في ان نقد فيل البيع تصدق بالربع والا لا....(الدر المختار مع الشامي: ٤٩٠/٧،كتاب البيوع،زكريا ديوبند)

سوال:-کتے اور بلی کی خرید و فروخت شرعا درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے اگر ہو تو مفصل جواب تحریر کریں؟

الجواب:-جس کتے کو پالنا جائز ہے اس کے خرید و فروخت بھی جائز ہے اور جس کتے کو پالنا جائز نہیں ہے اس کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں ہے اب رہی کن کتے کو پالنے کی اجازت ہے شکار کے لیے، گھر اور کھیتی کی حفاظت کے لیے ہے لہذا جو کتا مذکورہ امور کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو اس کی خرید وہ فروخت جائز ہے ورنہ نہیں نیز بلی کی خرید و فروخت کراہت کے ساتھ جائز ہے-

وبيع الكلب غير المعلم يجوز إذا كان قابلا للتعليم، والا فلا وهو الصحيح كذا في جواهر الاخلاطي.... وهكذا نقول في الاسد....(بالفتاوى الهندية:١١٥/٣،كتاب البيوع، زكريا ديوبند)))))

وكذا بيع سعر الخنزير وبيع الكلب المعلم عند ناجائز وكذلك بيع السنور وسباع الوحش والنظير جائز عندنا معلما كان او لم يكن(فتاوى قاضيخان:٨١/٨،كتاب البيوع، فصل في البيع الباطل ،زكريا ديوبند)

سوال:-بیع فاسد اور باطل دونوں ایک ہیں یا الگ الگ اگر الگ الگ ہو تو مثال سے سمجھاوں؟

الجواب:-بیع فاسد اور باطل دونوں الگ الگ ہیں- بیع باطل: ذات اور وصف دونوں میں کسی اعتبار سے صحیح نہیں ہے مثلا کسی نے مردار خون اور آزاد آدمی کو ثمن بنایا اور کپڑے کو مبیع بنایا تو ان صورتوں میں بیع باطل ہوگی کیونکہ مردار وغیرہ مال نہیں ہے شریعت کی اندر، اور فاسد: ذات کے اعتبار سے تو صحیح ہے البتہ وصف کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے مثلا کسی نے غلام بیچا ایک ہزار درہم کے عوض میں ادھار اور قیمت ادا کرے گا فصل کاٹنے کے وقت تو یہ بیع فاسد ہوگی کیونکہ مدت مجہول ہے-

البيع الباطل: هو الذي لا يكون صحيحا باصله كبيع ما ليس بمال كالميتة والدم والخمر والخنزير للمسلم.... والفاسد: هو الصحيح باصله لا بوصفه كبيع مال غير متقوم بالغرض.... ولو باع عبد بالف درهم مؤجلة الى الحصاد فسد البيع لمجهله الاجل....(التعريفة الفقهية:١٣١-١٣٢،باب الباء، اشرفية ديوبند )

والباطل: ما لا يصح اصلا ووصفا ولا يفيد الملك بوجه حتى لو اشتري عبدا بمية.... والفاسد: ما يصح اصلا لا وصفا وهو يفيد الملك عند اتصال القبض به حتى لو اشتري عبدا بخمر....(حاشية الهداية:٩٠/٥،كتاب البيوع باب البيع الفاسد،مكتبة البشري باكستان)

قوله (المراد بالفاسد الممنوع الخ) قد علمت ان الفاسد مباين للباطل لأن ما كان مشروعا باصله فقط يباين ما ليس بمسروع أصلاً وايضا حكم الفاسد انه يفيد الملك بالقبض والباطل لا يفيده اصلا....(شامي: ٢٣٣/٧،باب البيع الفاسد،زكريا ديوبند)