سوال:- حقوق مجردہ کسے کہتے ہیں اور ان کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب:-علامہ رحیلی رحمہ اللہ کے بقول حقوق مجردہ وہ ہے کہ اگر اس سے صاحب حق دست بردار ہو جائے یا صلح کر کے ان حقوق سے تنازل کر لے تو محل حق میں کوئی تغیر واقع نہ ہو جیسے حق شفعہ کہ اگر شفیع حق شفعہ سے دست بردار ہو جائے تو اس زمین کے خریدار کی ملکیت جیسے پہلے اس زمین پر قائم تھے اب بھی قائم رہے گی حقوق مجردہ پر حنفیہ کے نزدیک مشہور قول کے مطابق کوئی عوض نہیں لیا جا سکتا اور دوسرے فقہاء کے نزدیک بعض حقوق مجردہ پر بھی عوض لیا جا سکتا ہے-

الحق المجرد او المحض: هو الذي لا يترك بالتنازل عنه صلحا او ايداء بل يبقي محل الحق عند المكالف بعد التنازل كما كان قبل التنازل مثل حق الدين....(الفقه الاسلامى وادلته:٢٨٥١/٤،دار الكتب، العلمية بيروت)

قوله لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك قال في البدائع الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها اقول وكذا لا تضمن....(شامي: ٣٣/٧-٣٤،كتاب البيوع،زكريا ديوبند )

الحقوق المجردة لا يجوز الاعتياض عنها كحق الشفعة....(الاشباه النظائر:١٧٥،كتاب البيوع،دار الكتب، العلمية بيروت)

سوال:-بیع الوفاء شرعا درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی اختلاف ہے اگر ہو تو اختلافی اقوال کو نقل کرنے کے بعد راجح قول کی بھی وضاحت کریں؟

الجواب:-بیع الوفاء شرعا درست ہے یا نہیں اس سلسلے میں اختلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ بہت سے حضرات نے اس بیع کو مطلقا رہن کے حکم میں رکھا ہے اور مشتری کے لیے مرہون سے انتفاع کو ناجائز قرار دیا ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ عقود میں الفاظ کا اعتبار نہیں ہے بلکہ مقاصد کا اعتبار ہونا ہے چنانچہ مقصود کا اعتبار کرتے ہوئے بیع الوفاء پر رہن کے تمام احکامات جاری ہوتے ہیں اور یہ معاملہ ظاہرا بیع اور باطناً رہن کا ہے اور اصولی اعتبار سے اس معاملہ میں عدم جواز کا پہلو غالب ہے- دوسرا قول یہ ہے کہ بعض پہلو کے اعتبار سے اگرچہ فساد پایا جاتا ہے لیکن انجام کاریہ ایک جائز عقد بن جاتا ہے جس کے ذریعہ مشتری کے لیے مبیع پر قبضہ کے بعد ملکیت مان لی جاتی ہے نیز لوگوں کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے شروط فاسدہ کو بھی اس عقد میں گوار کر لیا گیا ہے تیسرا قول یہ ہے کہ لوگوں کے عرف و تعامل اور ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض حضرات فقہاء نے عقد کو دائرہ جواز میں لانے کے لیے یہ حیلہ فرمایا ہے کہ اولا بیع کو مطلق عن الشرط رکھا جائے اور پھر مجلس عقد کے بعد آپس میں یہ طے کر لیا جائے کہ جب ثمن کی واپس ہوگی تو اس بیع کا اقالہ کر لیا جائے گا گویا بیع الگ ہو اور وعدہ الگ دونوں آپس میں مشروط نہ ہو اور یہی قول راجح ہے علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے-

وفي حاشية الفصولين عن جواهر الفتاوى: هو ان يقول بعت منك على ان تبيعه مني متى جئت بالثمن فهذا البيع باطل وهو رهن....(شامي:٥٤٥/٧،كتاب البيوع، باب الصرف، زكريا ديوبند)

بيع المعاملة وبيع الوفاء واحد وانه بيع فاسد لانه بيع بشرط لا يقنضيه العقد، وانه بفيد الملك عند اتصال القبض به كسائر البيوع الفاسدة....(الفتاوى السراجية:٤٢٢،مكتبة اتحاد ديوبند )

والصحيح ان العقد الذي جري بينهما ان كان بلفظ البيع لا يكون رهنا.... ثم ذكر الشرط على وجه المواعدة جاز البيع ويلزمه الوفاء بالوعد....(فتاوى قاضيخان:٩٩/٨،كتاب البيوع زكريا ديوبند)

سوال:-بیع وفاء کسے کہتے ہیں اس کو مثال سے سمجھائے؟

الجواب:- بیع وفاء یہ ہے کہ کوئی چیز اس شرط مدت پر بیچنا جب تک میں اس کا قیمت ادا نہ کروں اس وقت تک آپ کا ہے یعنی جب میں قیمت ادا کر دوں گا تو آپ مجھے واپس کر دینگے جیسے راشید نے خالد کے پاس ایک کتاب بیچا پانچ کی بدلے ایک مہینہ مدت تک کے لیے جب وہ راشید خالد کو پانچ واپس کر دیا تو خالد نے اس کو کتاب واپس کر دیا-

ان ببيعه العين بالف على انه اذا رد عليه الثمن رد عليه العين....(رد المختار: ٥٤٥/٧،كتاب البيوع،باب الصرف،زكريا ديوبند)

ان يقول البائع للمشتري: بعت منك.... بعتك هذا بكذا على اني متى دفعت لك الثمن تدفع العين التي....(بالفتاوى الهندية:١٩٦/٣،كتاب البيوع، زكريا ديوبند)

بيع الوفاء: هو ان يقول البائع للمشتري: بعت منك هنا العين بمالك علي من الدين على اني متى فضيت الدين فهولي.....(التعريفات الفقهية:١٣٦،باب الباء، مكتبة التهانوي ديوبند)

سوال:-قرض کی بدلے کن چیزوں کو گروی رکھنا درست ہے اور کن چیزوں کو گروی رکھنا درست نہیں مفصل بیان کریں؟

الجواب:-جن چیزوں کو بیچنا جائز ہے ان چیزوں کو گروی رکھنا جائز ہے اور جن چیزوں کو بیچنا جائز نہیں ان چیزوں کو گروی رکھنا درست نہیں-

منها ان يكون محلا قابلا للبيع وهو ان يكون موجودا وقت العقد مالا مطلقا متقوما مملوكا معلوم مقدود التسليم ونحو ذلك فلا يجوز رهن ما ليس بموجود عند العقد....(بدائع الصنائع:١٩٥/٥،كتاب الرهن، زكريا ديوبند)

ما يجوز بيعه يجوز رهنه و مالا يجوز بيعه لا يجوز رهنه كذا في التهذيب....(الهندية:٤٣٥/٥،كتاب الرهن،الفصل الرابع،زكريا ديوبند)

ولا يجوز رهن المشاع ولا رهن ثمرة على رؤس النحل.... يجوز رهن الدراهم والدنانير(انوار القدورى:٢٠٦/٢ تا ١١٠،كتاب الرهن، دار الاشاعت)

سوال:-اگر تالاب میں مچھلی ہو اور اس مچھلی کو نکالے بغیر تالاب کی مچھلیوں کو فروخت کر دے تو شرعا یہ درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت وضاحت تحریر کریں؟

الجواب:-مچھلی شکار کرنے سے قبل تالاب وغیرہ میں مچھلی کا فروخت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ مچھلی جب تک تالاب وغیرہ میں ہو تب تک وہ کسی کی ملک نہیں ہوتی ہے بلکہ مباح ہوتی ہے اور غیر مملوک کی بیع جائز نہیں ہے البتہ اگر مچھلیاں ایسے گڑھے میں ہوں جس کو دریا یا تالاب سے کاٹ کر باندھ لیا ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں خظیرہ ایسا چھوٹا ہو کہ جس سے بغیر حبلہ کے ہاتھ ڈال کر مچھلیاں پکڑنا ممکن ہو تو اس کی بیع درست ہیں اور اگر خظیرہ بڑا ہو کہ جس سے بغیر حبلہ کے مچھلیاں پکڑنا ممکن نہ ہو تو اس کی بیع درست نہیں ہے اور اگر مچھلی خود بخود جمع ہو گئی ہو تو اس کی بیع جائز نہیں ہے ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے –

عن حكيم بن حزام قال: يا رسول الله ياتيني الرجل فيريد متي البيع ليس عند..... فقال: لا تبع ما ليس عندك...(سنن ابو داود: رقم الحديث: ٣٥٠٣)

بيع السمك في البحر او البئر لا يجوز فإن كانت له حظيرة فدخلها السمك فاما ان يكون اعدها لذلك اولا.... ثم ان كان يؤخذ بغير حيلة اصطياد جاز بيعه وان لم يكن يؤخذ الا بحيلة لا يجوز بيعه....(بالفتاوى الهندية :١١٤/٣،كتاب البيوع، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص ایک قسم کے چاول کو دوسری قسم کے چاول سے تبادلہ کرنا چاہے تو شرعا یہ درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت مفصل جواب تحریر کریں؟

الجواب:- صورت مسئولہ میں تبادلہ کرنا شرعا درست ہے لیکن شرط یہ ہے کہ برابر برابر ہو ہاتھ در ہاتھ ہو اور اچھا و کھوٹے کے درمیان تفریق نہ کیے ہو یعنی اچھے کے بدلے میں کھوٹا نہ دیا ہو-

ولا يجوز بيع الجيد بالدي مما فيه الربا....(الهداية:١٧٦/٥،كتاب البيوع، مكتبة البشري، باكستان)

واذا تبايعا كايليا بكيلي او وزنيا بوزني كلاهما من جنس واحد او من جنسين.... فان البيع لا يجوز حتى يكون كلاهما عينا....(شامي:٤١٢/٧،كتاب البيوع، باب الربا، زكريا ديوبند)

قال: الربا محرم في كل مكيل او موزون اذا بيع بجنسه متفاضلا.... والاصل فيه الحديث المشهور وهو قوله عليه الصلوة والسلام الحنطة بالحنطة مثلا بمثل يدا بيد والفضل ربا....(الهداية:١٧٣/٥،كتاب البيوع،مكتبة البشري،باكستان)

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی زیورات کو دوسرے کی زیورات سے تبادلہ کرنا چاہے تو شرعا درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے اگر ہو تو مفصل مدلل جواب تحریر کریں؟

الجواب:-شرعا تبادلہ کرنا درست ہے بشرطیکہ جنس ایک ہو تو اگر مختلف جنس ہو تو درست نہیں ہے-

ولو تبايعا مكيلا او موزونا غير مطعوم بجنسه متفاضلا كالجنس والحرير لا يجوز عندنا لو جود القدر والجنس.... اذا بيع المكيل او الموزون بجنسه مثلا بمثل جاز البيع فيه: لو جود شرط الجواز....(الهداية:١٧٦/٥-١٧٧،كتاب البيوع، مكتبة البشري، باكستان)

لو باع ذهبا بذهب او فضة بفضة كيلا ولو مع التساوي لان النص.... اما لو علم تساويهما في الوزن والكيل معا جاز ويكون المنظر اليه هو المنصوص عليه....(رد المختار مع الشامي: ٤٠٩/٧،كتاب البيوع، باب الربا، زكريا ديوبند)

قال: لحربا محرم في كل مكيل او موزون اذا بيع بجنسه متفاضلا....(الهداية:١٧٣/٥،كتاب البيوع، مكتبة البشري، باكستان)

سوال:-اگر کوئی شخص سنار سے سونا یا چاندی کا کوئی زیور ادھار بنوائے تو یہ شرعا درست ہے یا نہیں؟

الجواب:- اس صورت میں سنار سے زیور ادھار بنوانا شرعا درست ہے بشرطیکہ مجلس عقد احد البدلین پر قبضہ ہو جائے ورنہ بیع الکالی کی طرح ہو جائے گا جس سے آپ صلی ال اللہ علیہ نے فرمایا ہے-

وعلته اي علة تحريم الزيادة القدر معهود بكيل او ورن مع الجنس فان وجدا حرم الفضل اي الزيادة والنساء بالمد.....(رد المختار: ٤٠٣/٧-٤٠٤،كتاب البيوع، باب الربا، زكريا ديوبند)

وعلته اي علة تحريم الزيادة القدر معهود بكيل او ورن مع الجنس فان وجدا حرم الفضل اي الزيادة والنساء بالمد.....(رد المختار: ٤٠٣/٧-٤٠٤،كتاوعن ابن عمر نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الكالي وهو بيع الدين بالدين...(مصنف عبد الرزاق: ٩٠/٨،رقم: ١٤٤٤)ب البيوع، باب الربا، زكريا ديوبند)

فالعلة فيه الكيل مع الجنس.... واذا وجدا حرم التفاضل والنساء....(اللباب:٢٢١/١-٢٢٢،كتاب البيوع، اشرفيه ديوبند)

سوال:-معدوم چیز کی بیع و شراء شرعا درست ہے یا نہیں اگر درست ہو تو کیوں اور اگر درست نہ ہو تو کیوں؟

الجواب:-معدوم چیز اشیاء کی خرید و فروخت کرنا شرعا درست نہیں ہے کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے دوسری بات یہ ہے کہ اس میں دھوکہ ہے اور جھگڑا کا اندیشہ ہے-

عن حكيم بن حزام قال: يا رسول الله ياتيني الرجل فيريد متي البيع ليس عند..... فقال: لا تبع ما ليس عندك...(سنن ابو داود: رقم الحديث: ٣٥٠٣)

ولا ينعقد بيع الملافيح والمضامين والتلقوح: ما في رحم الانثى....(الهندية:١١٧/٣،كتاب البيوع،اشرفيه ديوبند)

ولا بيع الحمل ولا النتاج، للنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الحبل وحبل الحبلة ولان فيه غررا ولا اللبن في الضرع للغر فساخ انتفاخ....(الهداية:٩٥/٥-٩٦،كتاب البيوع، مكتبة البشري باكستان)

سوال:-جانوروں کو زندہ یا مذبوحہ کا کاروبار کرنا شرعا کیسا ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہو تو فصل بیان کریں؟

الجواب:-اس میں تفصیل یہ ہے بعض جانور ایسے ہیں جن کو زندہ یا مذبوحہ دونوں طرح سے کاروبار کرنا شرعا درست ہے جو مال ہو مثلا گائے بھینس اور اونٹ وغیرہ البتہ کچھ جانور ایسے ہیں جن کو نہ جیسے خنزیر ،چوہا،، منڈک وغیرہ –

ولو باع مذبوحة بحية او مذبوحة جاز اتفاقا....(رد المختار:٤١٥/٧،كتاب البيوع باب الربا،زكريا ديوبند)

ويجوز بيع جميع الحيوانات سبوي الخنزير، وهو المختار كذا في "جواهر الاخلاطي "(بالفتاوى الهندية:١١٥/٣،كتاب البيوع،زكريا ديوبند ت٩

ولا يجوز بيع هو ام الارض كالحية والعقرب والوزع وما اشيه ذلك ولا يجوز بيع ما يكون في البحر كالضفدع والسرطان وغيره الا السمك....(هنديه: ١١٥/٣)