سوال:-کسی کی ملکیت میں تالاب ہے اور اس نے باہر سے مچھلیاں لا کر تالاب میں ڈال رکھا ہے تاکہ مچھلیاں اس تالاب میں پرورش پاکر بڑی ہو جائے پھر اس کے بعد اس میں سے پکڑ کر فروخت کیا جائے تو ایسے تالاب کی مچھلیاں مارنا دوسرے لوگوں کے لیے جائز ہے یا نہیں؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں جب ایک شخص نے باہر سے مچھلیاں تالاب میں لا کر ڈال دی ہے تو اب وہ اس کا مالک ہو گیا لہذا اب اس کے علاوہ کسی اور کو اس تالاب سے مچھلیاں مارنا صحیح نہیں ہوگا –

فإن كان اعدها لذلك فما دخلها ملكه وليس لأحد أن يأخذه(فتح القدير: ٣٧٥/٦)

لا يجوز التصرف في مال غيره بلا اذته(شامي: ٢٠٠/٦،كراچی)

لا يجوز الأحد أن يتصرف في تلك غيره بلا اذته (شرح المجلة:٦١/١)

سوال:- پھلوں کو باغ میں پھل آنے کے بعد فروخت کیا جاتا ہے تو یہ معدوم کی بیع نہیں ہے تو کیا بدو صلاح سے قبل پھلوں کی بیع جائز ہے اگر جائز ہو تو کسی مصلحت کی جائز ہے؟

الجواب:- بدو صلاح سے قبل یہ معدوم کی بیع ہے اور معدوم کی بیع ناجائز ہے اور یہ ناجائز ہونا مصلحت کی وجہ سے ہے اور وہ مصلحت حنفی الی النزاع ہونا ہے –

ان حديث محمول على نهي تنزبه أو ارشاد كما هو مفاد زيد ابن عند البخاري(تكمله فتح الملهم: ٣٩٦/١٠،كتاب البيوع)

عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال كان الناس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يتبايعون الثمار فاذا جد الناس و حضر تقاضيهم، قال المشائخ: أنه اصاب الثمر الرمان اصابه مراض اصابه قشام عاهات يحتجرن بها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لما كثرت عنده الحضومة في ذلك: فاما لا، فلا تتبايعوا حتى يبد و صلاح الثمر كالمستورة يشير بها الكثر حضومتهم واخر حي خارجة ابن زيد بن ثابت ان زيد ابن ثابت لم يكن يبيع ثمار ارضه حتى تطلع الثريا فتبين الأصفر من الأحمر (بخاري شريف: ٢٩٢/١،رقم: ٢١٩٣،هندى نسخه)

سوال:-باغات کی فروختگی کی متا دلی شکل کیا ہے؟

الجواب:-اگر پھول اور پھل آنے سے پہلے باغ فروخت کیا جائے جیسا کہ ہمارے ہندوستان کے اکثر علاقوں میں ہوتا ہے تو اس طرح باغ کے پھلوں کو فروخت کرنا شرعا جائز نہیں ہے اس لیے کہ جانبین میں سے ہر ایک کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ اصل عقد اس پھل پر ہو رہا ہے جس کے پیدا ہونے کی امید ہے اور ایسی مبیع کا وجود لازم اور شرط ہے: اس لیے ناجائز اور بیع فاسد ہو جاتی ہے بلا البتہ اس کی متا دلی شکل یہ ہو سکتی ہے کہ زمین مع پیڑوں کے ایک سال یا دو سال کے لیے کرایہ پر دے دے پھر اس درمیان باغ کی زمین میں سبزی وغیرہ کوئی بھی چیز بو دے اور پیڑوں کی بھی خدمت کرتا رہے تو ایسی صورت میں کھیتی اور باغ کے پھل سب خریدار کے لیے جائز ہو جائیں گے-

عن جابر بن عبد الله رضي الله تعالى عنه قال نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها....(صحيح البخاري:٢٠١/١،كتاب الزكوة،باب من باغ ثماره او نخله،رقم: ١٤٦٥)

ومن استاجر أيضاً على ان يكر بها و يزرعها ويستيها فهو جائز(هداية:٣٠٦/٣،باب الاجارة الفاسدة،اشرفية ديوبند ؛البحر الرائق: ١٨/٨،زكريا ديوبند)

وفي القنية: استاجر أيضاً سنة على أن يزرع فيها ما شاء فله أن يزرع فيها زرعين ربيعا وخريفا(البحر الرائق: ١٨/٨،باب وما يجوز من الاجارة وما يكون خلافا فيها،زكريا ديوبند)

سوال:-باغات کی بیع کے بارے میں ایک دو سال کے لیے فروخت کرنا یعنی بیع السنین اگر ناجائز ہے تو اس کے دلیل کیا ہے اور اگر جواز کے بارے میں کسی امام کا قولی منقولی ہے تو ضرور نقل فرمائے نیز کیا تقامل ناس کی وجہ سے بیع کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں کیا اس کی نظیر شریعت میں موجود ہے یا نہیں؟

الجواب:-بیع السنین کی بیع ناجائز ہے اور اس کی دلیل اس میں دھوکہ کا پایا جاتا ہے اور دھوکہ والی بیعڑ سے اللہ کے رسول نے منع فرمایا ہے نیز اس میں کسی امام کا قول جواز کے سلسلے میں منقول نہیں ہے اس طرح توامل ناس کی وجہ سے بھی اسے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا اس لیے صراحت کے حدیث موجود ہے اور صریح نص کے مقابلے میں تعامل قیاس سب کو ترک کر دیا جاتا ہے نہ ہی اس کی کوئی نظیر شریعت میں ملتی ہے-

عن جابر رضي الله عنه قال: نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المحاقلة والمذابنة والمعاومة(مسلم شريف: ١١/٢)

واما النهي عن بيع المعاومة وهو بيع السنين فمعناه ان بيع ثمرة الشجرة عامين او ثلاثة او اكثر فسمى بيع المعاومة وبيع السنين وهو باطل بالاجماع ولانه غرر لأنه بيع معدوم(شرح النووي على مسلم: ١٠/٢)

سوال:-اگر سال دو سال کے لیے باغ کو فروخت کر دیا ہے ظاہر باب ہے یہ معدوم کی بیع ہے اور معدوم کی بیع ناجائز ہے تو ایسی صورت میں باغات کے پھلوں کو بازار میں لا کر بیچنے سے بھی بیع فاسد ہونا چاہیے مفتی صاحب اس میں کیا فرماتے ہیں دلائل کے ساتھ واضح فرمائیں؟

الجواب:-سال دو سال کے لیے باغ کو فروخت کرنا تو بیع معدوم ہے اور چونکہ بیع معدوم ناجائز ہے اس لیے ان کے پھلوں کی بیع بھی نہ جائز ہوگی لیکن بازار میں سب طرح کے پھل آتے ہیں یعنی بعض وہ باغات بھی ہوتے ہیں جن کے بیع و شراء مباح طریقے سے ہوتی ہے اور بعض وہ ہے جن کی بیع و شراء ناجائز طریقے سے ہوتی ہے،لہذا اگر اسے معلوم نہ ہو کہ وہ کسی قسم کے باغ کے پھل ہیں تو اس کے لیے پھل خرید کر کھانا مباح ہے،اور اگر معلوم ہے کہ فلاں باغ کے پھل ہے اور اس کی بیع جائز طریقے سے ہوتی ہے تو اس کی پھل خرید کر کھا سکتا ہے ورنہ نہیں –

فإن باعه اى باع المشتري مااشتراه شراء فاسدا بيعا صحيحا نفذ بيعه لأنه ملكه فملك التصرف منه وسقط حق البائع الاول في الاسترداد(فتح القدير: ٤٢٧/٦،اشرفية:٤٦٦/٦،كويٹہ)

فإن باعه المشتري نفذ بيعه لانه ملكه فملك التصرف فيه.(هدايه: ١٦٥/٣،اشرفية ديوبند)

يكره للمشتري أن يتصرف فيما اشتري شراء فاسدا بتمليك وانتفاع فإن تصرف فيه كالبيع او ما اشبه ذلك نفذ تصرفه ولم ينفسخ(الفتاوى تاتارخانية:٤٥٤٨،رقم: ١٢٤٧٧،زكريا ديوبند )

سوال:-کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا صحیح حدیث سے واضح فرمائے؟

الجواب:- “خصائص کبری” اور “فتح العزیز” وغیرہ کی نہایت ضعیف اور کمزور روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ ہونا مروی ہے لیکن مسند احمد بن حنبل میں دو جگہ صحیح اور مرفوع متصل مسند کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت موجود ہے جس میں حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے واقعہ کے تحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عام انسانوں کی طرح سایہ مبارک تھا اور یہ صراحت کے ساتھ حدیث سے ثابت ہے اس اعتماد اور اعتقاد یہی ہونا چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی سایہ مبارک موجود تھا اور صحیح روایت کے مقابلہ میں ضعیف روایت پر اعتقاد کرنا جائز نہیں-

عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في سفر له فاعتمل بغير لصفية وفي ابل زينب فضل، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ان بغيرا لصفية اعتمل فلو اعطيتها بغيرا من ابلك، فقالت: انا اعطى تلك اليهودية، قال: فتركها رسول الله صلى الله عليه وسلم ذو الحجة والمحرم شهرين، او ثلاثة لا ياتيها قالت: حتى يتست منه وحولت سريري قالت بينما انا يوما بنصف النهار إذ انا بظل رسول الله صلى الله عليه وسلم مقبل.(مسند احمد: ١٣١/٦-١٣٢) قديم

عن انس بن مالك قال: صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح،قال: فبينما هو في الصلاة...،ثم اخرها فلما فرغ من الصلاة، قلتا: يا رسول الله! صنعت في صلاتك هنها لم تصنع في صلاة قبلها؟قال: اني رأيت الجنة قد عرضت رأيت فيها دالية، قتونها دانية حبها كالدباء، فاردت أن اتناول منها،اوحي اليها ان استاجر فاستاجرت ثم عرضت على النار ييق وبينكم "حتى رأيت على وظلكم"فاو مات اليكم ان استاخروا فاوحي الى أن افرهم فلم ارنى عليكم فضلا الا بالنبوة، فلستدرك على الصحيحين للحاكم قديم: ٥٠٣/٢،جديد مكتبة نزار مصطفى الباز،رقم: ٤٠٨)

سوال:-مصنف کے مر جانے کے بعد اس کی کتابوں کی طباعت محفوظ رہتی ہے یا نہیں نیز دوسرے کے لیے اس کی کتابوں کو چھپوا کر خرید و فروخت کرنا شرعا کیسا ہے؟

الجواب:- صورت مسئولہ میں عام طور پر طباعت محفوظ نہیں رہتی ہے ادھر ادھر ہو جاتی ہے لیکن اگر کسی نے کتاب کا حق طباعت کو محفوظ کر رکھا ہے تو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حق میں تصرف کرنا اور تجارتی مقصود سے وہ کتاب چھپوا کر خرید و فروخت کرنا شرعا درست نہیں ہے البتہ اگر وہ اجازت دے تو خریدو فروخت کرنا شرعا درست ہے-

قال: الراجح عندنا والله اعلم ان حق الابتكار والتاليف حق معتبر شرعا فلا يجوز لاحد أن يتصرف في هذا الحق بدون اذن من المبتكر او المؤلف....(فقه البيوع: ٢٨٦/١،مكتبة المعارف القرآن،كراچی)

ومنها:ان يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح....(الهندية:٦/٣،كتاب البيوع اشرفيه ديوبند)

وبطل بيع ما ليس بمال والمال ما يميل اليه الطبيع ويجري فيه البزل والمنع....(الدر المختار مع الشامي: ٢٣٥/٧،كتاب البيوع، زكريا ديوبند)

سوال:-حق تعالی کا مطلب کیا ہے اور اس کے خرید و فروخت کا شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو راجح قول کی وضاحت کریں؟

الجواب:-اوپری منزل کے لوگوں کو اپنی تحتانی منزل کے چھت پر اپنے مکان کو قائم رکھنے کا جو مستقل حق حاصل ہے اسی کو حق تعلی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حق تعلی یعنی فضا کے خرید و فروخت کے سلسلے میں اختلاف ہے ان میں سے راجح اور صحیح قول یہ ہے کہ فقہاء کرام نے اس کو مال نہ ہونے کی وجہ سے اس کی بیع کو ناجائز لکھا ہے اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے بھی اسی کی صراحت فرمائی ہے-

والمعدوم كبيع حق التعلي اي علو سقط لانه معدم قال في الفتح واذا كان السفل لرجل وعلوه لاخر فاسقطا او سقط العلو وحده فباع صاحب العلو علوه لم يجز لان المبيع حينئذ ليس الا حق التعلي وحق التعلي ليس بمال لان المال عين يمكن احرازها وامساكها....(الدر المختار مع الشامي: ٢٣٦/٧-٢٣٧،كتاب البيوع،زكريا ديوبند)

قال واذا كان السفل لرجل وعلوه لاخر فسقطا او سقط العلو وحده فباع صاحب العلو علوه لم يجز لان حق التعلي ليس بمال....(الهداية:١٠٧/٥،كتاب البيوع، مكتبة البشري باكستان)

بطل بيع ما ليس بما والمال ما يميل اليه الطبع ويجري فيه البذل والمنع....(الدر المختار مع الشامي: ٢٣٥/٧،كتاب البيوع،زكريا ديوبند)

سوال:-حق طباعت فروخت کرنا شرعا درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی اختلاف ہے اگر ہو تو صحیح قول کی نشان دہی کریں؟

الجواب:-واضح رہے کہ کتاب کا مسودہ اپنے ملکیت میں رکھ کر صرف حق طباعت کو فروخت کرنا شرعا درست نہیں ہے کیونکہ حق طباعت مال نہیں ہے لہذا حق طباعت پر کسی بھی اجرت لینا جائز نہیں ہے لیکن اگر مسودہ کے ساتھ فروخت کرے تو بلاتفاق جائز ہے البتہ قاموس الفقہ میں حق طباعت کی خرید و فروخت آئینی طور پر بھی درست قرار دی گئی ہے اور پوری دنیا میں اس نے ایک عرف عام کی حیثیت اختیار کر لی ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ حقوق شرعا مباح بھی ہے قابل انتفاع بھی ہے اور عرف میں بھی اس کی خرید و فروخت جاری ہے لہذا اس کی خرید و فروخت جائز ہونا چاہیے معاصر پر لوگوں اور علماء فقہ کا عام رجحان مجھی اس کے جواز کی طرف ہے اور یہی صحیح قول ہے-

ومنها: ان يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي اليها غير الصحيح....(الهندية:٥/٣، اشرفية ديوبند)

لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك.....(الدر المختار مع الشامي: ٣٣/٧،كتاب البيوع،زكريا ديوبند)

ومنها ان يكون ما للناس فيه تعامل.... فلا يجوز فيما لا تعامل لهم فيه....(بدائع الصنائع:٤٤٤/٤،كتاب البيوع، زكريا ديوبند )

سوال:-حق طباعت فروخت کرنا شرعا درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی اختلاف ہے اگر ہو تو صحیح قول کی نشان دہی کریں؟

الجواب:-واضح رہے کہ کتاب کا مسودہ اپنے ملکیت میں رکھ کر صرف حق طباعت کو فروخت کرنا شرعا درست نہیں ہے کیونکہ حق طباعت مال نہیں ہے لہذا حق طباعت پر کسی بھی اجرت لینا جائز نہیں ہے لیکن اگر مسودہ کے ساتھ فروخت کرے تو بلاتفاق جائز ہے البتہ قاموس الفقہ میں حق طباعت کی خرید و فروخت آئینی طور پر بھی درست قرار دی گئی ہے اور پوری دنیا میں اس نے ایک عرف عام کی حیثیت اختیار کر لی ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ حقوق شرعا مباح بھی ہے قابل انتفاع بھی ہے اور عرف میں بھی اس کی خرید و فروخت جاری ہے لہذا اس کی خرید و فروخت جائز ہونا چاہیے معاصر پر لوگوں اور علماء فقہ کا عام رجحان مجھی اس کے جواز کی طرف ہے اور یہی صحیح قول ہے-

ومنها: ان يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي اليها غير الصحيح....(الهندية:٥/٣، اشرفية ديوبند)

لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك.....(الدر المختار مع الشامي: ٣٣/٧،كتاب البيوع،زكريا ديوبند)

ومنها ان يكون ما للناس فيه تعامل.... فلا يجوز فيما لا تعامل لهم فيه....(بدائع الصنائع:٤٤٤/٤،كتاب البيوع، زكريا ديوبند )