اج کل کھانے پینے کی چیزوں میں نمبر ات اتے ہیں E471 اور بہت سارے اس طرح کے بارے میں اس میں کیا رائے قائم کی ہے

صورت مسئولہ میں محض ان نمبرات کی وجہ سے کسی چیز کی حلت یا حرمت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ واضح طور پر ان اشیاء میں حرام اجزاء کی آمیزش کا علم نہ ہو جائے۔ لہٰذا اس سلسلے میں ماہرین سے رابطہ کر کے ہی کوئی فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک ادارہ ہے حلال فاؤنڈیشن کے نام سے تو ان سے اس بارے میں تحقیق کی جائے۔

ان النجاسۃ لما استحالت وتبدلت اوصافها ومعانيها خرجت عن كونها نجاسة لانها اسم لذات موصوفة فتنعدم بانعدام الوصف وصارت كالخمر وتخللت (بدائع الصنائع ۱/۲۴۳)

قاعدہ: الاصل فی الاشیاء الاباحۃ (قواعد الفقہ ص:۵۹)

سوال:-ایک مدرسے میں ایک مہینے کی پیشگی فیس لی جاتی ہے اگر اس میں بھی تاخیر ہو جائے تو مالی جرمانہ لیا جاتا ہے موجودہ دور میں کیا فتویٰ ہے تفصیلی تحقیقی جواب مرحمت فرمائیں

باسمہ سبحانہ و تعالی الجواب وبا اللہ التوفیق جس ادارہ میں یہ ضابطہ ہے کہ وہ طلبہ سے پیشگی فیس وصول کرتا ہے تو ایسے ادارے کے لئے طلبہ سے پیشگی فیس وصول کرنا جائز ہوگا ۲ فیس جمع کرنے میں تاخیر ہوجانے پر مالی جرمانہ عائد کرنا جائز نہیں ہے

لا ‌يستوجب ‌الأجر ‌قبل الفراغ لما بينا. قال: (إلا أن يشترط التعجيل) لما مر أن الشرط فيه لازم." فتح القدیر (‌‌كتاب الإجارات، باب الأجر متى يستحق، ج:9، ص:74، ط: دار الفكر)

واعلم ان العادة العرف رجع الیہ فی مسائل کثیرة حتی جعلوا ذلک اصلا........ الخ." غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر (القاعدة السادسة العادة محكمة، ج:1، ص:295، ط: دار الكتب العلمية)

وفی شرح الآثار التعزیر بالمال کان فی ابتداء الإسلام ثم نسخ، والحاصل المذہب عدم التعزیر بالمال (شامي: ۳/۱۷۹)

سوال:-ایک آفیسر رشوت کا پیسہ کھاتا ہے اور تنخواہ خرچ نہیں کرتا اور صرف رشوت کے پیسے سے گھر چلاتا ہے تو اس کی بیوی بچوں کے لیے اس کے رشوت کا پیسہ سے خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں جبکہ اس پر بیوی کا خرچ لازم ہے اور اس کے بیوی کے پاس اس رشوت کے سوا کچھ نہیں ہے تو اس صورت میں عورت کیا کرے گی؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں بیوی کے لیے اس حرام مال سے بچنا ممکن ہو اور جائز طریقے سے اپنی ضرورت و حاجت پوری کر سکتی ہو تو اس کے لیے اس حرام مال سے بچنا بہتر ہے لیکن اگر کوئی اور راستہ نہ ہو تو شوہر کے مال کو استعمال میں لا سکتی ہے اپنے لیے اور اپنے نابالغ اولاد کے لیے لیکن بالغ اولاد کے لیے حلال کما کر اپنی ضرورت کو پورا کرنا ضروری ہوگا لیکن رشوت والے مال کا گناہ شوہر کے اوپر ہوگا بیوی اور اس کی نابالغ اولاد پر کوئی گناہ نہ ہوگا-

وفي جامع الجوامع: اشتري الزوج طعاما او كسوة من مال خبيث جاز للمرأة أكله ولبسها والاثم على الزواج.(شامي: ٢٧٩/٩،كتاب الغضب،زكريا ديوبند)

وفي الحانية: امرأة زوجها في ارض الجور إذا اكلت من طعامه ولم يكن عينه غضبا او اشتري طعاما او كسوة من مال أصله للبس بطيب فهي في سعة من ذلك والاثم على الزواج.(شامي: ٥٥٣/٩-٥٥٤،زكريا ديوبند)

سوال:-زید نے عمرو کے پاس 15 تولہ سونا گروی میں رکھا ہے 15 تولہ سونا گروی میں رکھ کل 10 لاکھ روپے کا قرض لے رکھا ہے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زید کے اوپر زکوۃ واجب ہے یا نہیں جو عمرو نے زید کو دس لاکھ روپے قرض دے رکھا ہے اور عمرو نے زید کے جو 15 تولہ سونا گروی رکھا ہے اس پر زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں؟

الجواب:-زکوۃ کی ادائیگی کے لیے مال پر قبضہ اور ملک تام ضروری ہے اس ضابطہ کی رویے زید اور عمرو دونوں میں سے کسی پر بھی زکوۃ واجب نہیں نہ ہوگی زید پر تو زکوۃ اس لیے واجب نہ ہوگی کہ زید عمرو کے پاس جو 15 تولہ سونا گروی رکھا ہے اس پر زید کی ملکیت تو ہے لیکن قبضہ نہیں ہے اور عمرو کے دس لاکھ کی زکوۃ اس لیے نہیں کہ اس پر اس کی ملکیت تو ہے لیکن قبضہ نہیں ہے لہذا دین ضعیف یا دین متوسط کے درجہ میں ہونے کی وجہ سے کسی کے بھی زکوۃ واجب نہ ہوگی –

ومنها ملك التام وهو ما جتمع فيه الملك واليد واما اذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض او وحد اليد دون الملك (إلى قوله) ولا على الراهن اذا كان الرهن هي المرتهن(هندية جديد:٢٣٣/١،زكريا ديوبند)

سوال: -نئی دلی اسٹیشن میں انگریزوں کے زمانے سے ایک مسجد بنی ہوئی ہے اس میں باضابطہ امام و مؤذن ہے سرکار یہ چاہتی ہے کہ اس مسجد کو مسمار کر کے اس کے بدلے میں مسلمانوں کی پسندیدہ جگہ پر ایک بڑی مسجد تعمیر کر کے دینا چاہتی ہے تو کیا اس کی اجازت ہوگی ؟

الجواب:-جس جگہ ایک بار مسجد بن چکی ہے وہ تا قیامت مسجد ہی رہے گی اس کو کسی دوسرے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے لہذا پلیٹ فارم کی مسجد کو ریلوے کے استعمال کے لیے دینا جائز نہیں ہے اگرچہ حکومت اس کے بدلے میں دوسری جگہ بنا کر دے-(مستناد فتاوی قاسمیہ:٤٩٠/١٧)

لو كان مسجد في محلة ضاق على اهله ولا يسعهم ان يزيدوا فيه فسالهم بعض الخير ان يجعلوا ذلك المسجد له ليدخله في داره ويعطيهم مكانه عوضا ما هو خير له فيسع فيه اهل المحلة؟ قال محمد: لا يسعهم ذلك.(هندية:٤٥٧/٢، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به، زكريا،قديم)(الفتاوى التاتارخانية:١٦٢/٨،رقم: ١١٥١١،زكريا ديوبند)

سوال:-اگر سال دو سال کے لیے باغ کو فروخت کر دیا ہے ظاہر باب ہے یہ معدوم کی بیع ہے اور معدوم کی بیع ناجائز ہے تو ایسی صورت میں باغات کے پھلوں کو بازار میں لا کر بیچنے سے بھی بیع فاسد ہونا چاہیے مفتی صاحب اس میں کیا فرماتے ہیں دلائل کے ساتھ واضح فرمائیں؟

الجواب:-سال دو سال کے لیے باغ کو فروخت کرنا تو بیع معدوم ہے اور چونکہ بیع معدوم ناجائز ہے اس لیے ان کے پھلوں کی بیع بھی نہ جائز ہوگی لیکن بازار میں سب طرح کے پھل آتے ہیں یعنی بعض وہ باغات بھی ہوتے ہیں جن کے بیع و شراء مباح طریقے سے ہوتی ہے اور بعض وہ ہے جن کی بیع و شراء ناجائز طریقے سے ہوتی ہے،لہذا اگر اسے معلوم نہ ہو کہ وہ کسی قسم کے باغ کے پھل ہیں تو اس کے لیے پھل خرید کر کھانا مباح ہے،اور اگر معلوم ہے کہ فلاں باغ کے پھل ہے اور اس کی بیع جائز طریقے سے ہوتی ہے تو اس کی پھل خرید کر کھا سکتا ہے ورنہ نہیں –

فإن باعه اى باع المشتري مااشتراه شراء فاسدا بيعا صحيحا نفذ بيعه لأنه ملكه فملك التصرف منه وسقط حق البائع الاول في الاسترداد(فتح القدير: ٤٢٧/٦،اشرفية:٤٦٦/٦،كويٹہ)

فإن باعه المشتري نفذ بيعه لانه ملكه فملك التصرف فيه.(هدايه: ١٦٥/٣،اشرفية ديوبند)

يكره للمشتري أن يتصرف فيما اشتري شراء فاسدا بتمليك وانتفاع فإن تصرف فيه كالبيع او ما اشبه ذلك نفذ تصرفه ولم ينفسخ(الفتاوى تاتارخانية:٤٥٤٨،رقم: ١٢٤٧٧،زكريا ديوبند )

سوال:-لڑکی والوں کا اپنی لڑکی کو رخصت کرتے وقت دوست و احباب کو کھانا کھلانا صحیح ہے یا نہیں؟دور ثبوت اور دور صحابہ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے یا نہیں؟

الجواب:-لڑکے والوں کے یہاں ولیمہ کے کھانا کھلانے کے متعلق جس درجہ کی روایت حدیث شریف سے ثابت ہے اسی درجہ کی روایت لڑکی والوں کے یہاں کھانا کھلانے سے متعلق ثابت نہیں ہے البتہ اس سے نیچے درجہ کی روایت ثابت ہے “مصنف عبد الرزاق:٤٨٧/٥،حديث: ٩٧٨٢،اور المعجم الكبير طبراني:٤١١/٢٢،حديث: ١٠٢٢”میں اس بارے میں مفصل روایت موجود ہے مگر روایت نیچے درجہ کی ہے اس لیے لڑکی والوں کے یہاں کھانا کھلانے کو مسنون نہیں کہا جا سکتا ہاں البتہ یہ اختیاری عمل ہے لڑکی والوں کا اس کو مباح اور جائز کہہ سکتے ہیں وہ اپنی حسب استطاعت اپنی مرضی سے جو چاہیں کھلائیں کسی کو دباؤ ڈالنے کا حق نہیں ہے -(المستناد فتاوی قاسمیہ:٥٥٣/١٢)

وفي حديث طويل: قال علي: يا رسول الله! متى تبنيني؟ قال: الليلة ان شاء الله ثم دعا بلالا، فقال: يا بلال! اني قد زوجت ابنتي ابن عمي وأنا أحب أن يكون من سنة امتي الطعام عبد النكاح، فات الغنم(المعجم الكبير دار أحياء التراث العربي: ٤١١/٢٢،رقم:١٠٢٢)

سوال:-دھوبی کے یہاں پاک ناپاک کپڑا جمع ہو جاتا ہے اور دھوبی تمام کپڑوں کو مخلوط کرکے دھوتے ہیں تو دھوبی کے یہاں کا کپڑا پاک سمجھا جائے گا یا ناپاک دلائل کے ساتھ جواب تحریر فرمایئں؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں دھوبی اگر بڑے تالاب یا تالاب کے کنارے پر دھو رہا ہو تو اس صورت میں سب کپڑے پاک سمجھے جائیں گے اور اگر ماء قلیل”ٹب یا بالٹی میں”کپڑے دھو رہا ہے تو اس صورت میں بھی احتیاط دھلنے کے بعد کپڑوں کو نچوڑ دیا ہے تو ناپاک کپڑے بھی پاک سمجھے جائیں گے، لیکن اگر ماء قلیل میں احتیاط سے نہیں دھلتا ہے اور نہ ہی نچوڑتا ہے تو پھر پاک کپڑوں کو پاک اور ناپاک کپڑوں کو ناپاک سمجھا جائے گا اصولیہ یہی ہے “الیقین لا یزال بالشک”اس اصول مسلمہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے-

إذا صار مشكوكا في نجاسته حازت الصلاة معه، قوله: اليقين لا يرتفع بالشك معنى فإنه حينئذ لا يتصور أن يثبت الشك في محل ثبوت اليقين يتصور ثبوت شك فيه لا يرتفع به ذلك اليقين.(الأشياء والنظائر جديد:١٨٥)

ان شت الشك في طهارة الباقي ونجاسته لكن لا يرتفع حكم ذلك اليقين السابق بنجاسته وهو عدم جواز الصلاة الخ.(الأشباه جديد:١٨٦)

سوال:-مسافر اور مریض پر جمعہ لازم نہیں لیکن اگر مسافر جمعہ سے پہلے شہر میں داخل ہوا ہے اور شہر میں اتنی دیر رہے گا جتنے میں آسانی سے جمعہ پڑھ سکتا ہے تو کیا اس مسافر پر جمعہ فرض اور لازم ہے یا نہیں؟

الجواب:-مسافر شرعی پر جمعہ فرض نہیں ہے خواہ وہ کسی شہر میں اتنی دیر کے لیے ٹہرا ہو جتنی دیر میں آسانی سے جمعہ پڑھ سکتا ہے البتہ جمعہ پڑھنا مسافر کے لیے فرض نہیں ہے اگرچہ جمعہ پڑھنے کی فرصت اچھی طرح میسر ہو جائے تو افضل ہے-

حتى لا تجب الجمعة على العبيد والنسوان والمسافرين والمريضى كذا في محيط السرخسي(الهندية:٢٠٥/١)

ومن لا جمعه عليه ان اداها جاز من فرض الوقت لانهم تحملون....(حاشية الطحطاوي على المراقي الفلاح:٣٣٢/١)

والدليل على أنه لا جمعه على هؤلاء ما روى عن جابر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فعليه الجمعة إلا مسافرا او مملوكا او صبيا او امرأة او مريضا.(بدائع الصنائع:٥٨٢/١)

سوال:-خنزیر کے بالوں سے جوتا گاٹھا گیا ہے وہ جوتا پاک ہوگا یا نہیں اس کو پہن کر استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب:-خنزیر نجس العین ہے لہذا اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ جوتے کو خنزیر کے بالوں سے گاٹھا گیا ہے تو اس کو استعمال میں لانا جائز نہ ہوگا اور اگر مشکوک ہو تو اجتناب اولی ہے نیز قدیم زمانے میں جو تا گاٹھنے کا استعمال ضرورت کی وجہ سے دیا گیا اور اب ضرورت نہ رہی-

فلا يطهر جلد حية و فارة فلا جلد خنزير فلا يطهر وتحته في الشامية اي لان نجس العين بمعنى أن ذاته بجميع اجزائه نجسة حيا وميتا فلبست نجاسته لما فيه من الدم كنجاسة غيره من الحيوانات فلدا يقبل التطهير في ظاهر الرواية عن اصحابنا.(شامي:٣٥٦/١،كتاب الطهارة، باب المياه، زكريا ديوبند)

وذهب الجمهور الى نجاسة شعر الخنزير فلا يجوز استعماله لأنه استعمال للعين النجسة(الموسوعة:٣٥/٣)

وذهب الجمهور الى نجاسة شعر الخنزير فلا يجوز استعماله لأنه استعمال للعين النجسة(الموسوعة:٣٥/٣)