١.سوال:-اشھر حج اور ایام حج کتنے ہیں اور کیا کیا ہے ہر ایک کی وضاحت کریں؟

جواب:-اشھر حج تین ہیں.. شوال، ذو القعدہ، ذو الحجہ ۔اور ایام حج ٨ ذو الحجہ سے لے کے ١٢ ذو الحجہ تک۔

والاشهر الحج: شوال،و ذو القعده،وعشرون من ذو الحجة(قاضيخان:١٧٣/٣-مكتبه زكريا ديوبند)

ايام الحج ما لابد منه خمسة يوم عرفة وايام النحر والتشريق(مجمع الانهر:٣٩٠/١ كتاب الحج)

واما وقته فاشهر معلومات والاشهر المعلومات شوال زوالقده وعشر الحجة(الہندیہ -/١٨٨/٣--كتاب المناسك)

سوال:-اگر کوئی شخص حج کے لیے روپے جمع کر رکھے ہو اور حج کے وقت انے سے پہلے وہ روپے ختم ہو جائے یا ہلاک ہو جائے تو ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-اگر کوئی حج کے لیے روپے جمع کرے اور حج کے وقت کے انے سے پہلے ہی روپی ختم یا ہلاک ہو جائے تو ایسی صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر اس پر حج فرض ہوا ہے تو استطاعت ختم ہونے کے بعد اس کے ذمے سے حج کی فرضیت شرعا ساقط نہیں ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری زندگی حج کی فرضیت کو ادا کرنے کی کوشش کریں پھر اگر ادا نہ ہو پائے تو مرتے وقت حج کرنے کی وصیت کر کے جائیں۔فقط واللہ اعلم

وكذلك لو لم يحج حتى افتقر تقرر وجوبه دينا في ذمنه بالاتفاق ولا يسقط عنه بالفقر (الهنديه: ٢١٨/١ كتاب المناسك زكريا ديوبند)

ولا يسقط الحج وصدقة الفطر بهلاك المال لوجوبهما يفدرة ممكنة وهي القدره على الزاد والراحلة وملك النصاب(شامي: ٥٢٢/٩-٥٢٣)

فلو لم يحج حتى مات وعليه الايصاءبه وكذلك لو لم يحج حتى افتقر واجوبه دينا في ذمته ولا يسقط عنه بالفقر (غنية المناسك:٣٣ اداره القران)

سوال:- احرام کیا ہے اور اس کو باندھنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:-احرام کے لغوی معنی ہے حرام کرنا، کیونکہ احرام کی حالت میں بعض حلال کام بھی حرام ہو جاتے ہیں اصطلاح میں حد یا عمرہ کی نیت سے مکہ شہر میں مقام میقات سے پہلے صرف دو چادروں سے جسم کو ڈھانپ لینے کو احرام کہتے ہیں،اور احرام باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ناخن تراش بغل اور ناف کے نیچے کے بال صاف کر لیں بلکہ پیچھے کے بال بھی صاف کر لیں مسواک کرے،خوب اچھی طرح مل کر غسل کر لے جس اور احرام کے چادروں پر خوشبو لگائے پھر مرد سلا ہوا کپڑا اتار کر بغیر سلائی ہوئی ایک چادر بند ناف کے اوپر سے باندھے اور ایک چادر کندھوں سے ووٹ لیں سر ننگا رکھے اور دونوں بازوں ڈھانپ لے خواتین اپنے کپڑوں میں ہی احرام کی نیت کرے البتہ خواتین ایک چادر اپنے ہاتھ سے سر کے اوپر تھوڑا اگے رکھیں اور چہرے میں نہ لگے تاکہ پردہ کی طرح کام کرے،اور احرام کی کپڑوں میں گاڑی خوشبو نہ لگائے جس سے اس کا اثر بعد تک باقی رہے۔فقط واللہ اعلم

الاحرام شرعا: الدخول في حرمات مقصوصه أي التنرامها غير انه لا يلتحق الشرعا الا بالنيه مع الذكر والمراد بالذكر التلبية ونحوها (شامي: ٤٨٥/٣, مكتبة زكريا ديوبند)

وهو لغة مصدر احرم اذا ادخل في حرمة ورجل حرام اي: محرما كذا في الصحاح وشرعا : الدخول في حرمة مقصوصة اي الآخر (حاشيه ابن عابدين: ٥٥٥/٣ مكتب اشرفيه ديوبند)

واما الثوب فلا يجوز ان يتطيب بما تبقي عينه بعد الحرام الأخ والاولى ان لا تطيب ثوبه (غن ية المناسك :٧٠)

سوال:-حج کی کتنی قسمیں ہیں ہر ایک کی صورت اور حکم تحریر کریں؟

جواب:-حج کی تین قسمیں ہیں۔ (1)حج افراد:-اس نے میقات سے صرف حج کا احرام باندھا جاتا ہے اور ارکان حج کی ادائیگی کے بعد ہی احرام کھولتا ہے اور حج کے بعد عمرہ کرنے سے افراد پر کوئی اثر نہیں پڑتا،(2). حج تمتع:-اس میں آفاقی شخص اشہر حج میں اپنی میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھا کرتے ہیں اور عمرہ کر کے احرام کھول دیتا ہے پھر حج کا احرام الگ سے بلند کر حج کیا جاتا ہے (3). حج قران:-اس کا مطلب ہے کہ افاقی شخص حج کے مہینوں میں ایک ساتھ حقیقتا یا حکما عمرہ کی اور حج کے احرام کی نیت کرے اور مکہ معظمہ ا کر عمرہ کرنے کے بعد احرام ہی کی حالت میں رہے اور حج کی مناسک کی ادائیگی کے بعد حلال ہو-فقط واللہ اعلم

والقارن هو ان يجمع بين امراي الحج كل عمرة من الميقات وشرعا ان يهل اي يرفع صوته بالتلبيه بحجة وعمرة معا حقيقة وحكما(الهنديه: ٢٣٧/١--وكذا در مختار: ٥٥٤/٣ مكتبة زكريا ديوبند)

القرن افصل مطلقا ثم التمتع ثم الافراد وهو ان يهل(مجمع النهر:٤٢٣/١ كتاب الحج)

https://maslakedeoband.in/wp-content/uploads/2024/12/Untitled-design-3.mp4

سوال:-اگر کسی کے پاس اس قدر زمین ہو جس سے فروخت کر کے حج پر قادر ہو ایسے آدمی پر حج فرض ہے یا نہیں؟

جواب:-اگر وہ شخص اتنی زمین بیچ دے جس سے اس کو اتنا مال مل جائے کہ وہ حج کر سکے اور اس کے پاس اتنی زمین باقی بھی رہ جائے جن سے وہ زندگی گزر سکے تو اس پر حج فرض ہوگا اور زمین باقی نہ رہے تو حج فرض نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

قال الامام قاضي خان رحمة الله وان كان صاحب ضيعة ان كان له من الزياع ما لو باع مقدار ما بقي لزاده و راحلته ذاهبا وجائيا ونفقة عياله واولاده ويبقي له من الضيعة قدر ما يعيش بعلة الباقي يفترض عليه الحج --(خانيه على هامش الهنديه/٢٨٢/١-كتاب المناسك

وان كان له من الضياع ما لو باع مقدار ما بقي لزاده وراحلته ذاهبا وجائيا ونفقه عياله واولاده ويبقي له من الضيعه قدر ما يعيش بخلة الباقي يفترض عليه الحج (قاضي خان: ١٧٣/٧ كتاب الحج زكريا دوبند)

سوال:-حج مقبول اور حج مبرور دونوں ایک ہیں یا الگ الگ ہے مفصل بیان کریں؟

جواب:-حج مقبول اور حج مبرور دونوں ایک ہی ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مبرور مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں یہاں مبرور کا معنی مقبول ہی ہے البتہ علماء نے اس کی مختلف تعریفات کی ہیں (1) حج مبرور وہ حج ہے جس میں گناہ سے بچا جائے (2) وہ حج جس میں ریاکاری اور شہوت نام اور نمود سے پرہیز ہو (3) حج مبرور جس کے بعد حاجی مرتے وقت تک گناہوں سے بچے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کامقولہ ہے کہ حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ ادمی حج کر کے جب واپس ائے تو دنیا سے بے رغبت ہو اور اخرت کی طرف رغبت کرنے والا ہو۔

ن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الحجه والمبرورة ليس لها جزاء الا الجنة(سنن النسائيه ٢/٢ كتاب المناسك-

انا عايشه رضي الله تعالى عنها قالت يا رسول الله ترى الجهاد افضل العمل افلا نجاهد؟لا لكن افضل الجهاد حج مبرور (بخاري -١٥٢٠/١)

سوال: سفر حج پر روانگی سے پہلے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟

جواب:-سفر حج سے پہلے چند چیزوں کا کیا رکھنا چاہیے ان میں سے بعض یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اپنی سب گناہوں کی توبہ کرے اگر اپنے اوپر کسی کا مالی یا جانی حق ہو تو اسے ادا کرے یا معاف کرائیں اور اگر اہل حقوق وفات پا گئے تو ان کے لیے دعا اور استغفار کریں والدین کی رضامندی سے سفر کریں اپنے پاس کسی امانت یا عاریت کی چیز ہو تو وہ مالک کو واپس کرے استخارہ کرکے سفر کا اغاز کرے تاکہ ہر ہر قدم پر اللہ تعالی کی مدد شامل حال ہو بہتر ہے کہ کسی نیک رفیق سفر کو ساتھ لے لے جو دینی اور دنیاوی اعتبار سے اس کا معاون ہو حج کے ضروری مسائل و مناسک سیکھ کر سفر شروع کریں یا کسی موقع پر عالم کے قافلہ میں شامل ہو کر سفر کرے زبان کو غیر ضروری باتوں سے محفوظ رکھے جمعرات کے روز سفر کا آغاز مسنون ہے۔فقط واللہ اعلم

ثم يبدا بالتوبه واخلاص النية ورد المظالم، ويجتهد في تحصيل نفقة حلال، ويكره الخروج الى الحج اذا كره احد ابويه وهو محتاج الى خدمته ويكره الخروج الحج-----الاخ(فتح القدير--٤١٢/٢،كتاب الحج دار الكتاب العلميه)

ولمن اراد الحجه مهمات ينبغي الاعتناء بها والبراية بالتوبه بشروطها من دار المظالم الى اهلها عند الإمكان وقصاما قصر في فعله من العبادات ولندم على تفريطه في ذلك......... اذا اراد الابن ان يخرج الى الحج ولا ابوه كاره لذلك ان كان الاب مستغنيا عن خذ منه ولا باس به وان كان معتدا يكره وكذا الأم --(البحر الرائق --/٥٤٠/٢/كتاب الحج الاشوفيه ديوبند)

سوال:-اگر کوئی حاجی دوران سفر حج وفات پا جائے تو اب اس کا ذمہ ساقط ہو جائے گا یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے؟

جواب:-اگر کسی شخص پر حج فرض ہو گیا تھا اور اس نے بلا تاخیر حج کا سفر شروع کیا اور اتفاقا دوران حج وفات پا جائے تو اس کا ذمہ سے ساقط ہو جائے گا اس لیے کہ اللہ تعالی اس کی ذمہ عبادت اتنا ہی رکھا تھا تو اس کی طرف سے وصیت واجب نہیں ہے اور اگر حج فرض کئی سال پہلے ہوا تھا لیکن اس نے نہ تو حج کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی سفر کے لیے نکلا تھا یہاں تک کہ وفات کا وقت اگیا تو اس پر حج بدل کی وصیت لازم ہے (جو اس کے متروکہ تہائی مال سے پوری کی جائے گی) فقط واللہ اعلم

فلو لم يحج حتى مات فعليه الايصاءبه هذا لم يحج ولم يخرج الى الحج (فتح القدير ٤٢٣/٢ كتاب الحج)

رجل وافق مع النبي صلى الله عليه وسلم يعرفه اذ وقع عن راحلته فوقصته او قال فاقعثه فقال النبي صلى الله عليه وسلم اغسلوه بماء وصدر وكفنوه في ثوبين او قال ثوبيه ولا تحنطوه ولا تخمروا راسه فان الله يبعثه يوم القيامة يلبي (صحيح بخاري-١٨٤٩)

سوال:-سفر حج شروع کرنے کے وقت کیا کرنا چاہیے اور کن چیزوں سے بچنا چاہیے؟

جواب:-جمعرات کے روز سفر حج کا اغاز کرنا مسنون ہے جب سفر کا ارادہ ہو تو نہا دھو کے وضو کر کے اپنے گھر میں دو رکعت نماز سفر کی نیت سے پڑھے اور اس طرح گھر سے نکلے گویا دنیا چھوڑ کر جا رہا ہے دوران سفر ذکر اور دعا کی کثرت کرے کیونکہ مسافر کی دعا قبول ہوتی ہے سفر میں غصہ گرمی سے اجتناب کرے اور نرم روئی اور حسن خلق کا مظاہرہ کریں سفر میں اکیلے رہنے سے بچے البتہ رفقاء کے ساتھ رہنے کا اہتمام کرے کیونکہ اکیلے ہونے کی وجہ سے بسا اوقات بہت پریشانی اٹھانی پڑتی ہے اور اشیاء ممنوعہ یہ ہے کہ فسق و جدال یعنی جھگڑا سے بچنا چاہیے سلے ہوئے کپڑے ٹوپی پگڑی وغیرہ کو پہننے سے پرہیز کرنا جماع سے دور رہنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم

ومسنونها ان يصلي ركعتين ويدع بالدعاء المعروف وبجردي سفره عن التجارة والرياء والسمعة والفخر وركوب الجمل افضل ولا يسعي خلفه ولا يماكسي في شراء الادوات و يودع اهله وراخوانه ويستحلهم ويطلب دعائهم ويستحب ان يجعل خروجه يوم الخمس (فتح القدير ٤١٢-٤١٣/٢ كتاب المناسك دار الكتاب العلمية)

ويستحب ان يجعل خروجه يوم الخمس اقتداء به عليه السلام ويودع اهله واخوانه ويستحلم ويطلب دعائهم ....... و يخرج خروج خارج من الدنيا ويصلي ركعتين قبل ان يخرج من بيته وكذا بعد الرجوع الى بيته (الهنديه-/٣٠٠/٣ كتاب المناسك مكتبه الاتحاد ديوبند)

سوال:-سفر حج پر روانگی کے وقت اور اس سے واپسی کے وقت دعا کرنا شرعا کیسا ہے؟

جواب:-حجاج کرام کا سفر حج کو جانے سے پہلے یا سفر حج سے واپسی پر دعوت کرنا اور اس دعوت کو ضروری سمجھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ائمہ مستحدین اور سلف صالحین سے بھی ثابت نہیں ہے سلف و خلف کیتری کا مسنونہ کے خلاف ایک نئے طریقہ کا ایجاد کرنا ہے جو فریضہ حج کو ادائیگی کے لیے رکاوٹ ہے ان سے گریز کرنا ہر حاجی اور ہر مسلمان پر لازم ہے اس سے پتہ چلتا ہے شرعا ممنوع ہے

انا عبد الله بن عمر رضي الله تعالى عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا لقيت الحاج فسلم عليه وصافحه مره ان يستغفرلك قبل ان يدخل بيته فانه مغفور له (مسند امام احمد/٦٩/٢, رقم،٥٣٧١)

انا اعيش رضي الله تعالى عنها ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من احدث في امرنا هذا ما ليس منه،فهو رد (ابن ماجه شريف باب التعظيم حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم التغليظ على من عارضه النسخة الهندية:٣, دار السلام رقم: ١٤)

گھر میں کئی قرآن کریم رکھے ہوۓ ہیں تو کیا ان سب میں پڑھنا ضروری ہے ؟؟

الجواب وبالله التوفيق:
جو قرآن کریم گھر میں رکھے ہوۓ ہیں، اور ان میں

 کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تو ان میں بھی کبھی کبھار تلاوت کرلی جائے تو بہتر ہے اور اگر ان میں تلاوت نہ کی جائے محض برکت کے لیے رکھے ہوۓ ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

(١): رجل أمسك المصحف في بيته، ولا يقرأ، إن نوى الخير، والبركة لا يأثم ويرجى له الثواب. (الأشباه والنظائر/القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها، ٢٣/١، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

ایک شخص ہے جو بیماری آفتوں میں مبتلا رہتا ہے اکثر اس کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ لگا رہتا ہے دنیا کی پریشانیوں سے تنگ آکر موت کی تمنا کرتا رہتا ہے تو کیا ایسے شخص کے لیے احادیث میں کوئی دعاء ہے اگر ہو تو برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

الجواب وبالله التوفيق:
اگر کوئی شخص دنیا اور اس کی تکلیفوں سے اکتا جائے تو موت کی تمنا نہ کرے، اور نہ ہی موت کی دعا مانگے، البتہ یہ دعا پڑھے:
اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي.

عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا يتمنين أحدكم الموت من ضر أصابه، فإن كان لا بد فاعلا فليقل: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي. (صحيح البخاري/كتاب المرضى/باب نهي تمنى المرض الموت، ١٢١/٧، ط: مصر)

ایک شخص اکثر بیمار رہتا ہے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ اس شخص کے نام کو تبدیل کردیا جائے تو وہ شخص صحیح ہوجائے گا تو اس کا شرعاً کیا حکم ہے ؟ کہیں یہ شرک تو نہیں ہورہا ہے ؟؟

الجواب وبالله التوفيق:
جو نام خلافِ شرع ہو اس کو تبدیل کرنا حدیث شریف سے ثابت ہے۔ شریعت کے موافق جو نام ہو اس کو جسمانی امراض کے علاج کے لیے بدلنا ثابت نہیں۔

عن عائشة أن النبى صلى الله عليه وسلم: كان يغير الإسم القبيح. (سنن الترمذي/أبواب الأدب/باب ما جاء في تغيير الأسماء، ١١١/٢، ط: الأشرفية ديوبند)

عن سهل بن سعد قال: أتى بالمنذر بن أبي أسيد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حين ولد، فوضعه على فخذه وأبو اسيد جالس فقال: فلها النبي صلى الله عليه وسلم بشئ بين يديه، فأمر أبو أسيد بابنه، فاحتمل من عند النبي صلى الله عليه وسلم، فأقلبوه فاشتاق النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: أين الصبي؟ قال أبو أسيد أقلبناه يا رسول الله قال ما اسمه؟ قال: فلان، قال: لا ولكن اسمه المنذر، فسماه يومئذ المنذر.

عشاء کے وقت ایک ٩ سال کا بچہ کڈنیپ ہوگیا کس نے غصب کرلیا پولیس میں رپورٹ کرائی گئ پولیس نے پوری کوشش کی اور کڈنیپر کو پکڑ لیا لیکن بچہ کڈنیپر کے پاس نہیں تھا اس نے کہا وہ کس وقت بھاگ گیا مجھے نہیں پتہ تو شریعت کڈنیپر کے بارے میں کیا حکم دیتی ہے ؟ اسے مارا جائے اس سے پیسے لیے جائیں جو بھی شریعت حکم دیتی ہے واضح فرمائیں۔

الجواب وبالله التوفيق:
اگر کوئی شخص کسی کا بچہ غصب کرلے پھر وہ بچہ غاصب کے پاس سے بھی غائب ہوجائے ایسی صورت میں غاصب کو قید کردیا جائے گا یہاں تکہ بچہ واپس آجائے یا اس بات کا علم ہوجائے کہ بچہ فوت ہوچکا ہے؛ لہذا ذکر کردہ صورت میں کڈنیپر کو نہ مارا جائے گا اور نہ ہی اس سے پیسے لیے جائیں گے بلکہ اسے قید کردیا جائے گا جب تکہ بچہ واپس نہ آجائے یا اس کے فوت ہونے کا علم نہ ہوجائے۔

رجل غصب صبيا حرا فغاب الصبي عن يده فإن الغاصب يحبس حتى يجيئ بالصبي أو يعلم أنه مات. (الفتاوى التاتارخانية/كتاب الجنايات/الفصل: ١٣/المسائل التي تتعلق بالصبيان، ٢١٩/١٩، ط: زكريا)

(الأشباه والنظائر/الفن الثالث: الجمع والفرق/أحكام الصبيان، ص: ٢٦٦، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله تعالى أعلم.

کیا قبرستان جانے سے پہلے اپنے گھر میں دورکعت نماز پڑھنا مستحب ہے؟

الجواب وبالله التوفيق:
جب کس کا قبرستان جانے کا ارادہ ہو تو اس کے لیے اپنے گھر میں دورکعت نماز پڑھنا مستحب ہے۔

وإذا أراد زيارة القبور يستحب له أن يصلي في بيته ركعتين. (الفتاوى الهندية/كتاب الكراهية/باب زيارة القبور، ٤٢٩/٥، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

یک شخص نے فون پر نشے کی حالت میں اپنی بیوی کے بھائی سے کہا کہ میں نے تمہاری بہن کو طلاق دے دی تم اسے میرے گھر مت لانا اور بھائی نے دو مرتبہ طلاق کا لفظ سننے کے بعد فون کاٹ دیا تو سورۃ مذکورہ میں کون سی طلاق واقع ہوگی اور کتنی واقع ہونگی جبکہ احتمال یہ بھی ہے کہ اس نے تیسری مرتبہ بھی لفظ طلاق بول دیا ہو

الجواب وباللہ التوفیق
یہ بات واضح رہے کہ فون پر اور حالت نشے میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے لہذا صورت مسئولہ میں چونکہ بھائی نے دو مرتبہ طلاق کا لفظ سنا ہے تو ایسی صورت میں بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہو چکی ہیں عدت کے دوران رجعت کرنے کی گنجائش ہے ، اور تیسری مرتبہ کے بارے میں احتمال ہے تو اس بارے میں شوہر سے ہی معلوم کر لیا جائے اگر تیسری طلاق دینے کا علم ہو جائے تو تینوں طلاق واقع ہو جائیں گی ، اور اگر علم نہ ہو تو دو ہی طلاق واقع ہوں گی۔

عن عبد الله بن مقسم قال : سمعت سليمان بن يسار، يقول: إن رجلا من آل البختري طلق امرأته وهو سكران ، فضربه عمر الحد وأجاز عليه طلاقه . (سنن سعيد بن منصور، باب ماجاء في طلاق ، دار الكتب العلمية بيروت ١ / ٢٧٠، رقم: ١١٠٦)

إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية، أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها. ( هداية، زكريا قديم ١ / ٤٧٠ ، جديد ٥٣٣/١ ، هداية اشرفيه ديوبند ٣٩٤/٢) فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

جب کسی مسلمان کے انتقال کی خبر سنے تو إنا لله وانا اليه راجعون کے علاوہ کسی اور دعاء کا پڑھنا حدیث سے ثابت ہے ؟؟

الجواب وباللہ التوفیق :
کسی کے انتقال کی خبر سن کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انا للہ وانا الیہ راجعون کے ساتھ ساتھ میں درج ذیل دعائے بھی پڑھنا ثابت ہے جو احادیث کی کتابوں میں مذکور ہیں۔

(١)اللهم اغفر لابي سلمة وارفع درجته في المهديين، واخلفه فيه عقبه في الغابرين ، واغفر لنا وله يا رب العالمين، وافسح له في قبره ونور له فيه. (٢)اللهم اغفر لي وله واعقبني منه عقبة حسنة. (٣) انا لله وانا اليه راجعون اللهم اجرني في مصيبتي واخلف لي خيرا منها.

وحدثنا أبو بكرين ابي شيبة قال نا ابو اسامة عن سعد بن سعيد، قال أخبرني عمر بن كثير بن افلح قال سمعت ابن سفينة، يحدث انه سمع ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم تقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:ما من عبد تصيبه مصيبة فيقول انا لله وانا اليه راجعون اللهم اجرني في مصيبتي وأخلف لي خيرا منها الا آجره الله في مصيبة واخلف له خيرا منها قالت قلما توفى ابو سلمة قلت كما امر نى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخلف الله لي خيرا منه رسول الله صلى الله عليه سلم . (الصحيح المسلم٣٠٠/١، كتاب الجنائز، فصل في استرجاع عند المصائب كلها وقول اللهم اجرني في مصيبتي واخلف لي خيرا منها، رقم:٩١٩)

١.سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: کیا حدیث میں دوسرے کے برے عمل سے بیزاری کی کوئی دعا مذکور ہے ؟؟ اگر کوئی دعاء ہو تو برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

لجواب و باللہ التوفیق
کسی کے عمل سے بیزاری کا اظہار کرتے وقت درج ذیل دعا پڑھنا ثابت ہے:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ فُلَانُ .
(صحیح بخاری ۹۳۸/۲، كتاب الدعوات، باب رفع الايدي في الدعاء، رقم:۶۳۴۱)
ترجمہ : اے اللہ ! میں تیری بارگاہ میں فلاں کے عمل سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔

نوٹ : فلاں کی جگہ جس کے عمل سے براءت کی جارہی ہے ، اس کا نام لیا جائے۔
فقط والله سبحانه وتعالى اعلم۔

ہمارے معاشرے میں اور خواص میں بھی جب جمائی لیتے ہیں تو جمائی لیتے وقت لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتے ہیں تو کیا یہ پڑھنا کہیں سے ثابت ہے ؟

الجواب وباللہ التوفیق:
جمائی آتے وقت حدیث میں حتی الامکان منہ کو بند رکھنے کا حکم ہے لیکن خاص اس وقت لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنا کسی روایت میں ثابت نہیں ہے۔
(مستفاد: نخبۃ المسائل ۲۹۴/۴)

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله ص عليه وسلم: إذا تثائب أحدكم فليمسك بيده على فمه فإن الشيطان يدخل. (صحيح مسلم، كتاب الزهد والرقائق / باب تشميت العاطس وكراهية التثاؤب ٤١٣/٢ رقم: ٢٩٩٥ المكتبة الأشرفية ديوبند) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلے ذیل کے بارے میں ہم نے اپنے علماء کرام سے سنا ہے کہ عورتوں کو جنت میں ان کے شوہر ملیں گے تو اگر کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اور بیوی دوسری جگہ نکاح کر لے تو اس عورت کو کون سا شوہر ملے گا ۔

الجواب و باللہ التوفیق :
اس کے متعلق حضرات علماء کرام کے دو قول ہیں: ایک یہ ہے کہ اخیر شوہر کو ملے گی، دوسرا یہ ہے کہ اس کو اختیار دیا جائے گا جس کو چاہے پسند کر لے، اور بعض علماء کرام نے فرمایا کہ جس شوہر نے زندگی میں اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہوگا اس کو ملے گی۔
(فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۶۹۱/۱ )

اختلف الناس فى المرأة إذا كان لها زوجان فى الدنيا لأيهما تكون في الآخرة؟ قال بعضهم : تكون لأخرهما، وقال بعضهم: تخير ، فتختار أيهما شاءت، وقدجاء في الأثر ما يؤيد قول كلا الفريقين: أما من قال : هي لآخر هما فقد ذهب إلى ماروى عن معاوية ابن أبي سفيان أنه خطب أم الدرداء، فأتت وقالت: سمعت أبا الدرداء يحدث عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أنه قال : المرأة لآخر زوجها في الآخرة وقال (أي أبو الدرداء): إني أردتتكون زوجتي في الآخرة، فلا تتزوجى بعدى. وأما من قال بأنها تخير، فذهب إلى ماروى عن أم حبيبة رضى الله تعالى عنها زوج النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أنها سألت النبي صلى الله تعالى عليه وسلم فقالت: يارسول الله ! المرأة منا ربما يكون لها زوجان، لأيهما تكون في الآخرة ؟ قال : " تخير فتختار أحسنهما خلقاً معها ثم قال صلى الله تعالى عليه وسلم: "ذهب حسن الخلق بخيرى الدنيا والآخرة الخ. (بستان فقيه بالليث السمر قندي رحمه الله ٢٤٨،باب اذا كان لها زوجان، مطبع فاروق دهلي، وكذا في احكام النساء ٤١١،الباب السابع بعد المأة في ذكر رد المرأة الى زوجها في الجنه اذا لم تتزوج بعده، وزاره الاوقاف والشؤون الاسلامية، قطر بحوالہ فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۶۹۲/۱ ) فقط والله سبحانہ و تعالی اعلم.

سردی کے موسم میں لحاف وغیرہ ناپاک ہوجائے تو صرف تر کپڑے سے پوچھ دینے سے پاک ہوجائے گا ؟ واضح رہے کہ اگر دھل دیا جاۓ تو خشک ہونے میں وقت لگتا ھو؟

الجواب و باللہ التوفیق:
لحاف میں چونکہ نجاست کو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے تو اس پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ کے بعد اتنی دیر چھوڑ دیا جائے کہ ٹیکنا بند ہو جائے ، نچوڑنا دشوار ہو تو نچوڑ نا ضروری نہیں ہے جیسا کہ ایسا ہی ہوتا ہے ، لیکن محض پوچھنے سے پاک نہیں ہوگا۔ اور اگر بار بار ناپاک ہونے کا خدشہ ہے تو لحالحاف کے نیچے چادر لگا لی جائے اس کی وجہ سے لحاف ناپاک نہیں ہوگا۔

وقدر بغسل و عصر ثلاثاً فيما ينعصر و بتثليث جفاف أي انقطاع تقاطر في غيره أي غير منعصر ( تنوير مع الدر ) وقال الشامي : قوله أي غير منعصر أي بأن تعذر عصرہ کا لحذف أو لعسر کا لبياظ أفاده في شرح المنية ( در مختار مع الشامی : ۵۴۱/۱ کتاب الطهارة، باب الانجاس، مطلب في حكم الوشم ، زکریا)

و ما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات، والتجفيف في كل مرة لأن للتجفيف أثراً في استخراج النجاسة، وحد التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس. الفتاوی الہندیۃ القدیمۃ۴۲/۱، کتاب الطہارۃ ، الباب السابع في النجاسة، الفصل الأول في تطهير الانجاس)

قوله وبتثليث الجفاف فيما لا ينعصر اى ما لا ينعصر فطهارته غسله ثلاثا وتجفيفه في كل مرة لان للتجفيف اثراً في استخراج النجاسة وهو ان يتركه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس . (البحر الرائق: ۲۳۸/۱، کوئٹہ) فقط اللہ سبحانہ و تعالی اعلم۔

ایک شخص کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا بیوی میکے چلی گئی بیوی اور اس کے گھر والے طلاق کا مطالبہ کر رہی تھے جبکہ شوہر طلاق دینا نہیں چاہ رہا تھا بالآخر دونوں جانب سے پنچایت بیٹھی اور طلاق نامہ لکھا گیا وکیل نے شوہر کے اور گواہوں کے بھی دستخط کرائے شوہر نے زبردستی فور میلٹی پوری کرنے کے لیے طلاق نامے پر دستخط کیے مگر شوہر راضی نہیں تھا لیکن وکیل نے دستخط کرانے کے ساتھ ساتھ زبانی بھی شوہر سے اس تحریر کو پڑھوایا، تو کیا ایسی صورت میں طلاق واقع ہو جائے گی جبکہ شوہر نے بخوشی دستخط نہیں کیے بلکہ اپنے آپ کو پریشانیوں سے بچانے کے لیے دستخط کیے ہیں لیکن بعد میں تحریر پڑھی ہے۔ برائے کرم جلد از جلد جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔

الجواب وباللہ التوفیق:
سوالنامہ سے واضح ہے کہ صورت مسئولہ میں شوہر نے جو طلاق نامے پر دستخط کیے ہیں وہ بدرجہ مجبوری اور اکراہ کی صورت میں کیے ہیں اور اکراہ کی صورت میں دستخط کرنے سے بیوی کے اوپر کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے جیسا کہ شامی کی عبارت سے واضح ہے ہوتی ہے۔
قال الشامي وفي البحر : أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته، فكتب لا تطلق.
(الدر مع الرد:۴۴۰/۴ كتاب الطلاق ، مطلب في الاكراه على التوكيل بالطلاق والنكاح والعتاق زکریا )
نیز اس نے جو تحریر بعد میں اپنی زبان سے پڑھی ہے تو اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اس لیے کہ یہاں پر اس کا مقصود طلاق دینا نہیں تھا بلکہ صرف تحریر کی نقل و حکایت مقصودتھی جیسا کہ سوال نامہ سے واضح ہے۔ اور اشباہ کی عبارت سے واضح ہے۔
(مستفاد:چند اہم عصری مسائل۲۵۶/۱)

ولو كتبت امرأتي طالق ، أو أنت طالق وقالت له اقرأ على فقرأ عليها لم يقع عليها لعدم قصده باللفظ (الأشباه والنظائر ۸۸/۱، القاعدة الاولى :لا ثواب الا بالنية، المكتبه اليوسفيه ديوبند الهند) فقط والله سبحانه وتعالى اعلم۔

00سوال:-حج کے لغوی اور شرعی معنی تحریر کریں؟

جواب:-حج کے لغوی معنی عظیم چیز کا ارادہ کرنے کے ہیں اور شریعت اصطلاح میں خاص طریقے سے خاص وقت میں خاص شرائط کے ساتھ بیت اللہ کا ارادہ کرنے کو حج کہتے ہیں۔فقت واللہ اعلم

وهو لغة القصد الى معظم لا مطلق القصد وشرعا مكانه مخصوص في زمن مخصوص بفعل مخصوص--//شامي ٤٤٧/٣-٤٥٠, كتاب الحج زكريا ديوبند

والظاهر انه عصوا للافعال المقصوصة من الطواف الافرض والوقوف بعرفه في وقته محرما بنية الحج سابقا--//فتح القدير-٤١٥/٢ مكتبة زكريا،،--//البحر الرائق ,٥٣٧/٢, مكتبة زكريا

سوال :-صحت حج کے لیے کتنی شرطیں ہیں مفصل مدلل بیان کریں؟

جواب:-مسلمان ہونا عاقل ہونا بالغ ہونا ،زاد اور راحلہ پر قادر ہو،اور اپنے اھل و عیال کے لیے کے لیے اتنی مال چھوڑ کر جائے کہ واپس انے تک ان کے لیے کافی ہو تندرست ہو اور راستہ بھی محفوظ ہو یہ صحتصحت کے لیے شرطیں ہیں۔فقط واللہ اعلم ۔

الاسلام والعقل والبلوغ و الوقت والقدره على الزاد والقدره على الراحلة والعدم يكون حج فرضا--//البحر الرائق،٥٣٧/٢ كتاب الحج

وهي سبعه الاسلام والعلم بالوجوب لمن في الدار الحرب والبلوغ والعقل الحرية والاستطاعة الوقت--//شامي-٥٢١/٣-كتاب الحج اشرفيه ،دوبند

سوال:-حج زندگی میں کتنی مرتبہ فرض ہوتا ہے؟

جواب:-حج زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہوتا ہے-فقط واللہ اعلم

ولله على الناس حج البيت من استطاع اليه سبيلا--//سوره ال عمران: ٩٧

فقال يا رسول الله صلى الله عليه وسلم الحج في كل سنة او مرة او واحدة؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بل مرة واحدة ممن استطاع فتطوع--//سنن ابن ماجه: ٢٠٧, باب فرض الحج

سوال:-اگر کوئی عورت حج کرنے پر قادر ہو اور تمام اسباب موجود ہوں البتہ محروم کوئی موجود نہ ہو تو اس عورت پر حج کرنا فرض ہوگا یا نہیں؟

جواب:-اگر عورت حج کرنے پر قادر ہو اور تمام اسباب موجود ہوں البتہ محرم اس کے ساتھ نہ ہو تو اس عورت پر حج کرنا فرض تو ہے لیکن اس وقت تک ادا کرنا واجب نہیں ہوگا جب تک کسی محرم کو ساتھ نہ پائیں اور اس صورت میں وہ محرم کی انتظار کریں اگر مرنے سے قبل یعنی مرنے کے وقت تک محرم نہ ملے تو مرنے کے وقت کسی کو اپنا حج کرنے کی وصیت کر کے جائیں اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر عورت پر حج فرض ہے اور کسی محرم کو نہ پائے تو وہ معتمہ اور دیندار عورتوں کے ساتھ حج پر جائے گی جبکہ احناف کے نزدیک کسی بھی حالت میں بھی عورت بغیر محرم کے سفر نہیں کر سکتی جیسا کہ بہت سارے احادیث شریف میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں سفر کرے گا عورت تین دن کا اس کے ساتھ محرم ہو ایسا ہی اور حدیث میں وارد ہے کہ بغیر محرم کے عورت کو گھر سے نکلنے سے منع کیا گیا ہے۔فقط واللہ اعلم

والمحرم في حق المراه شرط شابه كانت او عجوزا اذا كانت بينهما وبين مكة مسيرة ثلاثة ايام وقال الشافي رحمه الله يجوز لها عن تخرج فيه رفقت معها نساء ثقاب واختلافوا في قول المحروم شرط الاجوب الآخر //--تاتارخانية/٤٣٤/٢) زكريا ديوبند

منها المحرم للمراة شابة كانت او عجوزا اذا كانت وبين مكة مسيرة ثلاثة ايام--(الهنديه-(٢١٩/١) مكتبة الاتحاد ديوبند

سوال:-ارکان حج کتنی ہے ؟ہر ایک کی وضاحت کریں؟

جواب :-حج کے کل تین رکنے ہیں(١) احرام، دل سے حج کی نیت کر کے مکمل تلبیہ پڑھنا (۲). وقوف عرفہ یعنی نويں ذی الحج کو زوال افتاب کے بعد سے لے کر دسویں ذیحجہ کی صبح صادق کے درمیان میدان عرفات میں ٹھہرنا چاہے کچھ دیر ہی کیوں نہ ہو(یہ رکنا اعظم ہے اگر کسی نے وقوف عرفہ نہ کیا اس کا حج ہی نہیں ہوگا چاہے دم ہی کیوں نہ دے دے (۳). طواف زیارت جو کہ عقوف عرفہ کے بعد کیا جاتا ہے جب تک حاجی طواف زیارت نہ کر لے حج مکمل نہیں ہوتا بیوی اس کے لیے نہیں ہوتی اس کا وقت دلہج کے سورج طلوع ہونے سے لے کر 12 ذلحج کا سورج گروپ ہونے تک ہے وقت مقررہ درمیان طواف نہ کرنے کی صورت میں دم لازم ہوتا ہے-فقط واللہ اعلم

الحج(فرضه) ثلاثة(الاحرام) وهو شرط ابتداون وله حكم الركن انتهاء حتى لم يدوس لفائت الحج استدامه ليقضي به من قابل و لوقوفي عرفته في اوانه سميت به لان ادم وحواء تعارفا فيما. ومعزمه طواف الزياره وهما ركنان (شامي: ٥٣٦/٣-٥٣٧, كتاب الحج اشرفيه, ديوبند

فضل ركن الحج(فصل) واما ركن الحج--احدهما الوقوف العرفة وهو الركن المصلي والثاني طواف الزيارة//--(بدائع )-١٢٥/٢ كتاب الحج

فنقول: ركن الحج شيئان: الوقوف العرفة وطواف الزياره---لان الوقوف يؤدي في حال قيام الاحرام من وجهه//-- (المحيط البرهاني) ٦٩٣/٢

سوال:-اگر کوئی شخص استطاعت سے پہلے حج کرے تو استطاعت کے بعد دوبارہ حج کرنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب:-اگر کوئی شخص استطاعت سے پہلے اگر فرض حج کی نیت سے احرام باندھ کر حج کر لے تو استطاعت کے بعد دوبارہ حج کرنا ضروری نہیں لیکن اگر نفل حج کی نیت سے احرام بندہ ہو تو استطاعت کے بعد اس پر حج فرض ہوگا اور اگر اس نے فرض اور نفل کی نیت کے بغیر مطلب نیت کر کے احرام باندھا تھا تب بھی استطاعت کے بعد اسی شخص پر دوبارہ حج کرنا ضروری نہیں ہوگا-فقت واللہ اعلم

ولو حج الفقير ثم استغنى لم يحج ثانيا لان الشرط الوجوب التمكن من الاصول الى موضع المكي وفي النوادر انه يحج ثانيا//--مجمع الانهار-٢٦٠/١-مكتبة دار الاحياء

ولو حج الفقير ماشيا فقط عنه حجة الاسلام حتى لو استغنى بعد ذلك لا يكرمه ثانيا//--البنايه شرح الهدايه--٤/١٤٤//مكتبة دار العلميه

ليفيد انه يتعين عليه ان لا ينوي نفلا على زعم انه لا يجب عليه لفقره فلو نواه نفلا لزمه الحج ثانيا//--الدر المختار-(٤٦٠/٢ مكتبة دار احياء والنوات العربي)

سوال:-حج کی فرضیت کب ہوئی اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرضیت سے قبل حج ادا کیا ہے یا نہیں اگر کیا ہے تو کتنی مرتبہ ؟

جواب:-راجح قول کے مطابق حج کی فرضیت نو ہجری میں ہوئی اس میں اختلاف ہے اپ علیہ الصلاۃ والسلام نے حج کی فرضیت سے قبل تین حج ادا کیے ہیں اور فرضیت حج کا حکم نازل ہونے کے بعد اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حج ادا کیے ہیں۔فقط واللہ اعلم

سنة تسع وانما اخره عليه الصلاه والسلام لعشر بغرز--//٥٣٦/٣ زكريا،

عن جابر بن عبد الله ان النبي صلى الله عليه وسلم حد ثلاث حج حجتين قبل ان بها مروجة بعدها ما هاجر ومعها عمرة//--جامع الترمذى،حديث نمبر: ٨١٥ كتاب الحج

ان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتمر اربع عمر كلهن في ذي القادة الى التي مع حجة عمرة من الحديدية او زمن الحديبية في ذي القعده وعمرة من العام مقبل في ذي القعدة وعمرة//-- مسلم،٤٠٩/١, حديث نمبر: ١٢٥٣

حج
حج

سوال:-عقیقہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟1

جواب:-عقیقہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بچے کی جانب سے پوری دو بکرے اور بچی کی جانب سے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا (سنن ترمذی:١٥١٣،سنن ابن ماجه:٣١٦٣) میں موجود ہے بچے کی پیدائش کے ساتھ ہوئے دن اس کا عقیقہ کرنا بہتر ہے لڑکا ہو تو دو بکرے یا دو بکریاں اور اگر لڑکی ہو تو ایک بکرا ذبح کرنا ہے یہی مسنون ہے اور اسی دن بچے کا نام رکھا جائے۔فقط واللہ اعلم

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الغلام مرتهن بعقيقة يذبح عنه يوم السابع ويسمي ويلحق راسه--//ترمزي ٢٧٨/١ ابواب الاضاحي

عن اهل العلم يستحبون ان يذبح عن الغلام العقيقه يوم السابع فان لم يتهبا يوم السابع فيقوم الرابع عشرفان لم يتهبا عق عنه يوم احدى وعشرين وقالوا لا يجزي في العقيقة من الشاة الا ما يجزي في الاضحية --//ترمزي،٢٧٨/١ باب من العقيقة مكتبة قديمي

عن سمرة بن جندب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كل غلام رهين بعقيقة تذبح عنه يوم السابعه ويحلق راسه وسمي-٣٧٢/٤ كتاب العقيقة مكتبة موسة

سوال:-عقیقہ کی گوشت کا شرعا کے حکم ہے؟

جواب:-عقیقہ کی گوشت کا شرعا وہی حکم ہے جو قربانی کے گوشت کا ہے البتہ فرق اتنا ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے برائے استحباب لیکن عقیقہ کا گوشت تین ن حصے میں تقسیم کرنا کوئی ضروری نہیں۔

والافضل ان يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث زياره لاقرباء واصدقائه ويدخل الثلث ولو حبس الكد جاز لان القربه في الاراقة والتصديق باللحم تطوع--//در المختار،٤٧٢/٩ كتاب الاضحية دار الفكر

وكذا لو اراد بعضهم العقيقه عن ولد قد ولد له من قبل لان ذلك جهة والقربة بالشكر على نعمه الولد--//رد المختار،٤٧٢/٩ كتاب الاضحية ،زكريا،دوبند

سوال:-عقیقہ کے اندر لڑکا اور لڑکی دونوں کےحصوں میں کوئی فرق ہے؟

جواب:-عقیقہ کے اندر لڑکا اور لڑکی کے حصوں میں فرق ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا اور عقیقہ کے جانور میں مذکر اور مونث میں کوئی فرق نہیں ہے (اگر کوئی شخص لڑکے کے لیے دو بکریوں پر قادر نہ ہو تو ایک بکرا سے بھی عقیقہ کر سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔فقد واللہ اعلم

ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امرهم عن الغلام شاتان مكافاتان وعن الحجارة شاة --//جامع الترمذي،٤٧٤/١ مكتبة التحاد ديوبند

عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة--//مشكوة المصابيح،٣٦٢/١

من احب ان ينسك عن واحده فلينسك عنه عن الغلام شاتان مكافاتان وعن الجارية شاة--//سنن النسائي حديث نمبر ٤٢١٧ كتاب العقيقة

مسنون
مسنون
مسنون
مسنون

سوال:-عقیقہ کے لغوي اور شرعی معنی کیا ہے؟

جواب:-عقیقہ کے لوگوں کی معنی ہے کاٹنا اور شرعی معنی ہے بچے کی پیدائش پر شکرانہ طور پر جو قربانی کی جاتی ہے اس سے عقیقہ کہتے ہیں۔واللہ اعلم

العقيقة في الاصطلاحي ما يذكي عن المولد شكر الله تعالى بنية وشرائط مخصوصة--//الموسوعة الفقهيه،ج٣،ص٢٧٦

سوال:-عقیقہ کا شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-عقیقہ  شرعی طور پر مستحب ہے نو مولد بچہ بچی کی جانب سے اس کی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتا ہے وہ عقیقہ ہے اور عقیقہ کرنا سنت ہے اور صحابہ کرام سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے

عن سموره بن جندب رضي الله تعالى عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال كل غلام رهينه بعقيقته تذبح عنه يوم سابعه ويلحق ويسمى--//سنن ابو داؤد

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم انما نسالك احدنا يولد له قال من احب ان ينسك عن واحده فلينسك عنه عن الغلام شاتان مكافاتان وعن الجارية شاة آخ --//سنن نسائی:٤٢١٧

عن امر كرز كعبة قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول عن الغلام الشاتان مكافتان وعن الجارية شاه--//مسند محمد بن حنبل،ج:٦،ص:٤٢٢

مردہ بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا درست ہے یا نہیں اگر اس میں کوئی اختلاف ہے تو وضاحت کریں؟

.جواب:-سورۃ مسئلہ میں عقیقہ کرنا درست نہیں ہے اور یہی صحیح قول ہے کیونکہ جب بچہ فوت ہو گیا تو اس کو بلاؤ اور مصیبتوں سے بچانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر بھی اگر اس کی طرف سے بکرا وغیرہ ذبح کرے اور غریب دوست احباب رشتہ داروں کو گوشت تقسیم کر دے صدقہ نافلہ کا ثواب ملے گا یہ عقیقہ نہ ہوگا البتہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح زندوں کی طرف سے عقیقہ کرنا مستحب ہے اسی طرح مردوں کی طرف سے بھی عقیقہ کرنا مستحب ہے حضرات حسن بصری اور مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کی طرف سے عقیقہ کرنا مستحب نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

ويستحب لمن ولد له ولد ان يسمعه يوم الاسبوعه ثم يعق عنه الحق عقيقة اباحة او تطوعا--//شامي, ٤٨٥/٩ كتاب الاضحية زكريا دوبند

وانما اخذ اصحابنا الحنيفة في ذلك يقول الجمهور وقالوا بالاستحباب العقيقه--//اعلا السنن١١٣/١٧ دار الكتاب العلميه بيروت

حديث ثمرة بن جندب رضي الله تعالى عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الغلام مرتحن بعقيقته يذبح عنه يوم السابع وفي روايه كل غلام رهينه بعقيقته يذبع عنه يوم السابع ويحلقه ويسمي قال الشافعي رحمه الله مات المولد قبل السابع استحبب العقيقه عنه كما تستحب عن الحي وقال الحسن بصري ومالك رحمه الله لا تستحي بالعقيقه عنه--//الموسوعة الفقهيه,٢٧٦/٣ باب العقيقه

بالغ ہونے کے بعد عقیقہ کرنا درست ہے یا نہیں اگر درست ہو تو بلوغ کے وقت استحباب کی فضیلت حاصل ہوئی یا نہیں مدلل بیان کریں؟

جواب:-سورت مسند میں عقیقہ کرنا تو درست ہے البتہ استحباب کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی کیونکہ مستحب وقت ساتویں دن چودھویں یا اکیسویں دن ہے اس کے بعد استحباب کی فضیلت باقی نہیں رہتی ہے۔فقط واللہ اعلم

ويستحب لمن ولد له ولد ان يسمعه يوم اسبوعه ثم يعق عنه الحلق عقيقة اباحه او فطوعا--// شامي،ج:٩،ص٤٨٥،كتاب الاضحية ،زكريا،دوبند

عن سمره قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الغلام مرتهم بعقيقته يذبح عنه يوم السابع وسمي ويحلق راسه-والعمل على هذا عند اهل العلم يستحبون ان يذبح عن الغلام العقيقة يوم السابع فان لم ينهيا يوم السابع فيوم الرابع عشره فان لم الى آخ --//سنن الترمذي, ١٨١/٣ رقم الحديث: ١٥٢٢ باب من العقيقة

انما اخذ اصحابنا الحنيفة في ذلك يقول الجمهور قالوا باستحباب العقيقة --/الملاء سنن:١١٣/١٧ باب العقيقة ،دار الكتاب العلميه بيروت

سوال:-عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا درست ہے یا نہیں؟1

الجواب:-عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا شہر والوں کے لیے جائز نہیں ہے اور گاؤں والوں کے لیے جائز ہے جہاں جمعہ اور عیدین کی نماز نہ ہوتا ہو،واللہ اعلم

واول وقتها بعد الصلاته ان ذبح في مصراى.... وبعد طلوع الفجر يوم النهر ان ذبح في غيره الخ وفى الشامى قوله -ان ذبح في غيره-(اي غير المصر)--//شامي،ج:٩,ص:٥٢٧, كتاب الاضحيه ,اشرفيه, دوبند

والوقت المستحب التضحية في حق اهل السواد: بعد طلوع الشمس وفي اهل المصري بعد الخطبه كذا في ظهيرية ولو ذبح والامام في خلال الصلاه لا يجوز...--//هنديه،ج:٥،ص:٣٤١ كتاب الاضحية ,زكريا،دوبند

اما اهل السواد القراى الرباطات عندنا تجوز لهم التضحية بعد طلوع الفجر من اليوم العاشر من ذي الحجة واما احد اليوادي لا يضحون الا بعد الصلاه واقرب الائمة اليهم--//قاضيخان،ج:٩،ص:٢٤٣ كتاب الاضحية ،زكريا،ديوبند

عید کی نماز
عید کی نماز
عید کی نماز
عید کی نماز

0سوال:-اگر کوئی شخص گوشت کھانے کی نیت سے بڑے جانور میں شریک ہو جائے جبکہ باقی شرکاء کی نیت صحیح قربانی کی ہے تو ایسی صورت میں قربانی کا شرعا کیا حکم ہے؟

الجواب :-اگر باقی شرکا کو اس شخص کے بارے میں معلوم ہو کہ گوشت کھانے کی نیت سے قربانی کر رہا ہے تو کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی اور اگر اس شخص کی نیت کے بارے میں باقی شرکاء کو معلوم نہ ہو تو اس شخص کے علاوہ باقی کے قربانی درست ہو جائے گا کیونکہ وہ لوگ بے قصور ہیں

وان كان كل واحد منهم صبيا او كان شريك السبع من يريد اللحم او كان نصرانيا ونحو ذلك لا يجوز للاخرين ايضا كذا في السلاحية الهنديه،ج:٥،ص:٣٥١, كتاب الاضحية، زكريا،ديوبند

قد علم ان الشرط قصد القربة من الاكل--//شامي, ج:٩,ص:٤٧٦, كتاب الاضحية، زكريا،ديوبند

وان كان شريكا لستة بنصرنيا يريد اللحم لم تجوز عن واحد منهم وجه الفرق تجوز عن سبعة بشرط قصد الاكل القربة--//بحر الريق،ج:٨,ص:٢٠٢،كتاب الاضحية، كذا في مجموع الانهار

گوشت کھانے کی نیت
گوشت کھانے کی نیت

0سوال:-ایک شخص نے قسم کھاٸی کہ ساری رات نہیں سوٶں گا پھر آدھی رات میں نیند ایسا غالب ہوا کہ غیر اختیاری سوگیا۔اب کفارہ ادا کرے گا یا نہیں۔باحوالہ جواب چاہٸے ؟

                                                             :الجواب وباللہ التوفیق 
جب اس نے قسم کھائی کہ وہ پوری رات نہیں سوئے گا لیکن بغیر کسی اختیار کے پھر رات کے کسی پہر میں سو گیا تو اس کی وجہ سے وہ حانث نہیں ہوگا اور اس کے اوپر کفارہ بھی واجب نہیں ہوگا  جیسا کہ درج ذیل عبارت سے مستفاد ہوتا ہے۔ 

إذا حلف " لا ينام حتى يقرأ كذا وكذا “ فنام جالسا ، وفى الخانية : من غير قصد ، قبل أن يقرأ ما سمى : لا يحنث. (الفتاوى التاتار خانیہ٢٠٨/٦، کتاب الایمان، الفصل ١٢: الحلف علی الافعال ، رقم:٩٢٠٩)

إذا حلف لا ينام حتى يقرأ كذا وكذا، فنام جالساً قبل أن يقرأ ما سمى، لا يحنث ؛ لأن النوم جالساً غير مراد من هذا اليمين عادة؛ لأنه لا يمكن الاحتراز عنه فلا يقع الحنث به . المحيط البرهاني كتاب الايمان والنذور الفصل الثاني عشر الحلف على الاإذا حلف " لا ينام حتىفعال ، رقم:٧٤٩٥) . فقط والله سبحانه وتعالى اعلم.

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مسجد میں گمشدہ چیز اور جنازہ وغیرہ کا اعلان کرنے کا حکم؟

                  باسمہ تعالیٰ
الجواب وبالله التوفیق : مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ جوچیز اندورن مسجد گم ہو جائے تو اس کا علان اس شرط کے سا تھ جائز ہے، کہ شور و شغب نہ ہو اور نمازیوں کو خلل نہ ہو، اور اگر بیرون مسجد کم ہوگئی ہے تو حدود مسجد سے باہر دروازہ پر کھڑے ہو کر اعلان کرنا جائز ہے، اندرون مسجد ممنوع ہے۔ (مستفاد: فتاوی محمودیه قدیم ۲۵۳/۱۵، جدید ڈابھیل ۲۱۱/۱۵، قاسمیہ ۴۶۳/۱۸)
(۲)اور جنازے کا اعلان بوقت ضرورت مسجد میں کرنا جائز ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ جب نجاشی کی خبر اللہ کے رسول کو پہنچی تو آپ اس وقت مسجد میں موجود تھے اور آپ نے اس کا اعلان کیا 

(مستفاد: دار الافتاء بنوری ٹاؤن کراچی فتویٰ نمبر:144205201497) وأما إنشاد الضالة فله صورتان إحداهما إن ضل شيئي في خارج المسجد وينشده في المسجد لاجتماع الناس فهو أقبح وأشنع وأما لو ضل في المسجد فيجوز الإنشاد بلا شغب الخ. (العرف الشذى على هامش الترمذي ،ابواب الصلواة، باب كراهية البيع والشراء انشاد الضالة في المسجد ۸۰/۱)

قال الشيخ وأما إنشاد الضالة فله صورتان : إحداهما : وهي اقبح وأشنع بأن يضل شيئى خارج المسجد ثم ينشده في المسجدلأجل اجتماع الناس، والثانية: أن يضل في المسجد نفسه فينشده فیه وهذا يجوز إذا كان من غير لغط وشغب. (معارف السنن اشرفيه۳۱۳/۳) وقد استدل محمد رحمه الله تعالى في «موطئه» أن مُصَلَّى الجنائز في عهد النبي صلى الله عليه وسلم كان يجنب المسجد. فهذا دليل قوي على أن صلاةالجنازةينبغي أن تكون خارج المسجد، حتى أَنَّ النبي صلى الله عليه وسلملما بلغه نعي النجاشي خرج إلى خارج المسجد ولم يصل فيه". (شرح النووي على مسلم مشکول 369/3) فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: زید کے پیر میں پھوڑا تھا زید فجر کی سنت گھر سے پڑھ کر نکلا اور اس پھوڑے سے خون نکلا اور بہ گیا زید نے مسجد میں وضو کیا اور جماعت میں شریک ہوگیا نماز مکمل کی اور اس پھوڑے سے جماعت کے دوران خون نکل آیا تھا تو اب شرعاً کیا حکم ہے ؟ کیا زید کو شرعاً معذور مانتے ہوئے نماز درست ہوجائے گی یا نماز کا اعادہ کرنا ہوگا ؟

الجواب وباللہ التوفیق:
سوالنامہ سے واضح ہے کہ خروج دم کا دورانیہ نماز کے مکمل وقت کو گھیرے ہوئے نہیں ہیں لہذا نماز میں خون نکلنے کی وجہ سے وضو اور نماز دونوں باطل ہو جائیں گے اور نماز کا اعادہ کرنا ہوگا ،مصلی اس سلسلے میں معذور شمار نہیں ہوگا۔

المعاني الناقضة للوضوء. الدم والقيح إذا خرجا من البدن فتجاوزا إلى موضع يلحقه حكم التطهير .... لأن خروج النجاسة مؤثر في زوال الطهارة الخ. (الهداية / كتاب الطهارة ٢٤/١ مكتبه بلال ديوبند)

ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان (الدر المختار، كتاب الطهارة / مطلب نواقض الوضوء ٢٦٢/١ زكريا)

ما ينقض خروجه الطهارة يكون نجسا في نفسه. (رسائل ابن عابدين / رسالة: الفوائد المخصصة بأحكام كي الحمصة ٥٥/١ سهيل اكيلمي لاهور)

مسجد سے اعلان کرتے وقت جو سلام کیا جاتا ہے اس کا جواب دینا بھی واجب ہے۔۔۔؟

الجواب وباللہ التوفیق :
اگر کوئی شخص کسی مجمع کو سلام کرے تو سننے والوں میں سے کسی ایک فرد پر سلام کا جواب دینا واجب ہے، اگر کوئی ایک شخص بھی جواب نہ دے تو وہ تمام لوگ گنہگار ہوں گے، لہذا ایسی صورت میں اگر مسجد کے مائک سے سلام کا اعلان ہو تو جہاں تک مائک کی آواز پہنچے اور جو حضرات اس سلام کو سنے ان میں سے کسی ایک فرد پر سلام کا جواب دینا واجب ہوگا ،اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ کیسے معلوم ہو کہ کس نے جواب دیا ہے اور کس نے نہیں تو ایسی صورت میں جو بھی سنے اس کو سلام کا جواب دینے کی کوشش کرنی چاہیے کوئی نہ کوئی ایک فرد سلام کا جواب دینے والا ہو جائے گا اور وہ تمام لوگ اس کی وجہ سے ذمے سے بری ہو جائیں گے۔ جیسا کہ درج ذیل عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔

لو دخل شخص مجلسًا فإن كان الجمع قليلاً يعمهم سلام واحد فسلم كفاه، فإن زاد فخصص بعضهم فلا بأس ويكفي أن يرد منهم واحد، فإن زاد فلابأس، وإن كانوا كثيرًا بحيث لا ينتشر فيهم فيبتدئ أول دخوله إذا شاهدهم وتتأدى سنة السلام في حق جميع من يسمعه، ويجب على من سمعه الرد على الكفاية. (فتح الباري ١٤/١١-١٥ رياض)

قال الفقيه أبو الليث : إذا دخل جماعة على قوم، فإن تركوا السلام فكلهم آثمون في ذلك، وإن سلم واحد منهم جاز عنهم جميعا، وإن تركوا الجواب فكلهم آثمون، وإن ردّ واحد منهم أجزأهم. (تكملة فتح الملهم ٢٤٣/٤ المكتبة الأشرفيةدیوبند) فقط واللہ تعالی اعلم ۔

ایمان والے حضرات بھی دیوالی میں بہت سے لوگ گوشت لیتے ہیں اور اس دن ہڈیوں کو چھت پر ڈال دیتے ہیں پھر صبح پھینکتے ہیں دھولا ہوا پانی دیواروں پر چھڑک تے ہیں جس دن غیر مسلم چراغ روشن کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے وضاحت فرمادیں ؟

الجواب باللہ التوفیق :سوال میں جن اعمال کا تذکرہ کیا گیا ہے تو ان کو مسلمان اس لیے کرتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس عمل کی وجہ سے گھروں میں جادو، ٹونا ، آسیب وغیرہ کے اثرات نہ ہوں تو ایسے اعمال کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے بظاہر یہ برادران وطن کے فاسد عقائد و توہمات میں شامل ہیں ، اس لیے مسلمانوں کو ایسی مشکوک باتوں سے احتراز کرنا چاہیے۔
( مستفاد: نخبۃ المسائل۶۲/۱)

عن أبي هريرة رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر الخ. (صحيح البخاري ٨٥٠/٢ رقم: ٥٤٨٨)

قال عبد الله بن أبي بكر حسبت أنه صلى الله عليه وسلم قال: والناس في مبيتهم لا تبقين في رقبة بعير قلادة من وتر ولا قلادة إلا قطعت، قال مالك أرى أن ذلك من أجل العين. (سنن أبي داؤد، كتاب الجهاد / باب في تقليد الخيل بالأوتار ٣٤٦/١ رقم: (٢٥٥٢)

کیا فرماتے میں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: Happy diwali / کا اسٹیٹس لگانا شرعاً کیسا ہے ؟

الجواب وباللہ التوفیق:

دیوالی کا تہوار ایک مذہبی تہوار ہے جو ہندو مذہب کے ماننے والے مناتے ہیں، اور اس میں مخصوص عقائد اور عبادات شامل ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے، ایسے تہواروں میں شرکت کرنا یا ان سے متعلق کسی طرح کا تاثر دینا، جیسے کہ “Happy Diwali” کا اسٹیٹس لگانا، مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں سمجھا جاتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دینِ اسلام میں غیر اسلامی عبادات اور عقائد کی ترویج یا اس سے وابستگی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے تاکہ دین کی اصل روح اور شناخت برقرار رہے۔ اسی لیے مسلمان ایسے اسٹیٹس یا پیغامات سے اجتناب کریں۔

 

عَنِ اِبْنِ عُمَرَ ‏-رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُمَا‏- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ ‏- صلى الله عليه وسلم ‏-{ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ, فَهُوَ مِنْهُمْ } أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ, (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: 4031) قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ: “وَأَمَّا التَّشَبُّهُ بِهِمْ فِي أَعْيَادِهِمْ فَهُوَ أَقْبَحُ مِمَّا ذُكِرَ” (اقتضاء الصراط المستقيم، جزء 1،)

قسم
قسم