جواب:-بوسہ لینا پتھروں کو چومنا نہیں ہے کیونکہ حجر اسود کو بوسہ لینا یہ محبت کی طور پر لیا جاتا ہے نہ کہ عبادت کے طور پر ۔فقط واللہ اعلم
frahim9900@gmail.com
١.سوال:-ہندوستان والوں کے لیے موجودہ وقت میں میقات کیا ہے ؟
جواب:-ہندوستان والوں کے لیے حج اور عمرہ کو جانے والے بزریہ بحری راستہ تو یہ یلملم یہ ہے البتہ ہوائی سفر میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہوائی جہاز کون سا راستہ اختیار کرے اگر وہ سمندر کے اوپر سے سفر کرتے ہوئے یمن سے گزرتے ہوئے جدہ جاتے ہیں تو ہندوستان کے لیے میقات یلملم ہوگا اگر ہندوستانی جہاز خلیجِ عمان سے ہوکر دبئی سے گزرکر یا خلیجِ فارس سے ہوکر بحرین سے گزر کر پھر ریاض سے ہوتاہوا جدہ جاتاہے تو ان کا میقات بھی ’قرن المنازل‘‘ اور اس کی محاذات ہوگا۔
واعلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جعل الحج والعمرة مواقيت وهي خمسة في حديث عيشة رضي الله تعالى عنها ذو الحليفة لاهل المدينة والجحفة لاهل الشام والقرن ولهل النجد ويلملم لاهل اليمن عراق(تاتارخانية: ٥٤٩/٣ زكريا ديوبند)
يلملم: اهل اليمن وتهامه والهند الآخر (فقه العبارات على مذهب الحنفي: ١٨٢/١)
يلملم ميقات اهل اليمن واهل الهندي والصين(عمدة الكلام من كلام خير الانام صلى الله عليه وسلم:١٤٩/١ كتاب الحج، دار تفافته العربية)
سوال:-اگر کوئی حاجی احرام باندھے بغیر میقات سے نکل جائے تو شرعا کیا حکم ہے؟
جواب:-اگر میقات سے حاجی احرام باندھے بغیر گزر جائے تو اس پر حج یا عمرہ کی ادائیگی واجب ہو گا اور احرام باندھنے کے لیے میقات کی طرف لوٹنا واجب ہے اگر نہ لوٹے تو گنہگار ہوگا اور دم بھی لازم ہوگا پھر اگر وہ واپس جا کر میقات احرام باندھ لے تو دم ساقط ہو جائے گا۔فقط واللہ عالم
ومن دخل اي من اهل الاافاق مكة او الحرم بغير احرام فعليه احد منسكين اي من الحج والعمرة ،وكذا عليه المحاوزة او العود(دره مختار: ٦٢٦/٣، ومثاله في البحر العميق: ٦١٨/٣)
ومن جاوزه ميقاته غير محرم ثم اتى ميقاتا آخر فاحرم منه اجزاه ..... ولا يجوز الافاق يدخل مكة بغير احرام ،نوى النسك أولا ولو دخل وعليه حجة او عمرة(الهنديه: ٢٨٥/١ باب الثاني، كتاب المناسك، زكريا دوبند)
افاقي مسلم مكلف اراد الدخول مكة او الحرام ولو لتجاره او سياحه وجاوز آخر مواقيته غير محرم ثم احرمه او لم يحرم ثم لزمه دم وعليه العود الى ميقاته الذي تجاوز الآخر (غنية الناسك :٦٠،ومساله في الهندية:٢٥٣/١)
سوال:-احرام گھر سے باندھنا افضل ہے یا میقات پر جا کر باندھنا افضل ہے ؟
جواب:-اگر ممنوعات احرام سے بچنے کا یقین ہو تو گھر سے احرام باندھنا افضل ہے اور نہ میقات پر باندھنا چاہیے۔فقط واللہ اعلم ۔
فان قدم الاحرام على هذه المواقيت جاز وهو الفضل اذا امن مواقعة محظورات والا في التاخير الى الميقات افضل ...(الهنديه: ٢٨٥/١ كتاب المناسك زكريا ديوبند)
والافضل الافاقي: ان يحرم من ديورة أهله ويكره ان يحرم بالحج قبل اشهر الحج(قاضيخان:١٧٤/٧ كتاب الحج زكريا ديوبند)
الافضل تقديم عليها لان اتمام الحج .... انما يكون افصل اذا كان يملك نفسه ان لا يقع في محظور (اشرف الهدايه: ٣٠٢/٣ كتاب الحج دار الاساعات)
سوال:-کن لوگوں کے لیے کون سی جگہ میقات ہے مفصل بیان کریں ؟
جواب:-میقات پانچ ہیں۔۔(1). ذو الحلیفہ: یہ اہل مدینہ اور وہاں سے گزرنے والوں کے لیے میقات ہے (2). جحفہ: اہل شام والوں کے لیے جحفہ ہے-(3). ذات العرق: یہ اہل عراق کے لیے میقات ہے۔(4). قرن المنازل: یہ نجد والوں کےلیے میقات ہے۔(5). یلملم: یہ اہل یمن کے لیے میقات ہے
ا خمسة كذا رومی فی الحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقت لاهل المدينه ذالحليفة لاهل الشامي الجحفة ولاهل النجد قرن ولاهل اليمن يلملم ولاهل العراق ذات عراق (بدائع :٢٧٠/٢ كتاب الحج زكريا دوبند)
علي بن عباس رضي الله تعالى عنه قال: مقتل رسول الله صلى الله عليه وسلم لاهل المدينة ذا الحليفة واهل الشامي الجحفة ،ولاهل النجد قرن المنازل، والاهل اليمن يلملم ،فهن لهن ولمن اتي عليهن من غيرهن لمن كان يريد الحج والعمرة فمن كان دونهن فمحلو من اهله وكذلك حتى اهل مكة يهلون منها(خاري شريف ٢٠٦)
عن انس بن مالك رضي الله تعالى عنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم وقت لاهل المدائن الاعقيق ولاهل البصرة ذات عرق ولاهل المدينة ذا الحليفة واهل الشام الجحفة (الطبراني في المعجم الكبير حديث:٧٦١،نجب الافكار:٣٨،حاشية انوار المناسك:٢٤١)
١.سوال:کسی سے ناراضگی ہو یا بول چال بند ہو جایے تو اسکو منانے کی حد کیا ہے…؟
الجواب وبالله التوفيق:
حدیث شریف میں ہے کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلق کی اجازت نہیں ۔۔ الا یہ کہ کوئی شرعی وجہ ہو ۔۔
اور اس میں بھی بہتر اور افضل شخص اُس کو کہا گیا ہے جو ابتداء بالسلام کرے ۔۔ اور یہ بات بھی مذكور ہے کہ اگر وہ اُس سے ملا اور تینوں مرتبہ سلام کیا اور اُس نے جواب نہیں دیا ۔۔ تو اِبتدا با السلام والا ماخوذ نہ ہوگا ۔۔
باقی آپ جائز کوشش کرتے رہیں منانے کہ اگر مان جائیں تو فبہا و نعمت ۔ اور پیٹھ پیچھے دعاء بھی کرتے رہیں اُن کے لئے۔ واللہ اعلم بالصواب
عن عائشة رضي الله عنها، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يكون أي لا يجوز لمسلم أن يهجر مسلماً فوق ثلاث أي ثلاثة أيام، فإذا لقيه سلم عليه ثلاث مرار كل ذلك لا يرد عليه السلام، فقد باء أي رجع الذي لا يرد السلام بإثمه أي بإثم المسلم. (بذل المجهود/كتاب الأدب/باب: في هجرة الرجل أخاه، ٣٢١/١٣، ط: دار البشائر الإسلامية)
سوال :- ایک شخص نے صدقہ کے لیے کچھ رقم صدقہ کی نیت سے الگ نکال کر رکھ دی، پھر ایک شخص کو وہ رقم بطورِ قرض دیدی اور اس سے کہا کہ غریب کو یہ رقم دھیرے دھیرے دیتے رہنا تو شرعاً اس کا کیا حکم ہے ؟ کیا صدقہ کے لیے الگ رکھی ہوئی رقم کو بطورِ قرض کسی کو دے سکتے ہیں؟
الجواب وبالله التوفيق:
ذکر کردہ صورت میں صدقہ کے لیے الگ رکھی ہوئی رقم کس شخص کو بطورِ قرض دینا جائز ہے۔
لا يشترط الدفع من عين مال الزكاة، ولذا لو أمر غيره بالدفع عنه جاز. (شامي/كتاب الزكاة/مطلب: في زكاة ثمن المبيع وفاء، ١٨٩/٣، ط: دار عالم الكتب الرياض)
ولم يشترط أيضا الدفع من عين مال الزكاة لما قدمناه من أنه لو أمر إنسانا بالدفع عنه أجزأه. (البحر الرائق/كتاب الزكاة، ٣٧٠/٢، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.
سوال :- کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسٔلہ ذیل کے بارے میں ایک شخص روزآنہ کتتوں کو بسکٹ کہلاتا ہے ایک مولانا صاحب سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کی کتتوں کو کہلانے سے بہتر کسی غریب کی مدت کرنا ہے
لجواب وباللہ التوفیق
انسان چوں کہ اشرف المخلوقات ہے،اس لیے اس پر صرف کرنا زیادہ افضل ہے، نیز انسان مکلف بھی ہے، یعنی اس کے اعمال پر اجر و ثواب بھی مرتب ہوتاہے، اس اعتبار سے بھی اس پر خرچ کرنے میں زیادہ اجر ہوگا؛ کیوں کہ انسان پر خرچ کرنے کے ثواب کے ساتھ ساتھ، جس پر خرچ کیا گیا اسکو اس وجہ سے جو تقویت حاصل ہوئی، اور اس کی مدد سے جو نیک عمل کیا اس میں صارف کی بھی شرکت ہوگی- اور غالباً یہی مولوی صاحب کی بات کا مقصد بھی ہے،
البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی جانور یا پرندے کو بھوکا دیکھنے کے باوجود اس کو کھانا یا چارہ نہ کھلایا جائے، بھوکے جانوروں یا پرندوں کو کھانا کھلانا بھی بڑے ثواب کا کام ہے۔ ایک بدکار عورت کی مغفرت صرف اس لیے ہوئی کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا،
اسلیے آپ اگر امداد کا جذبہ رکھتے ہیں تو آپ ترجیح انسانوں کو دیں اور اللہ تعالی نے آپ کو زیادہ نوازا ہے تو آپ جانوروں پر بھی خرچ کر سکتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا فرمان ہے کہ ہمارے لیے جانوروں میں بھی اجر ہے فقط
عن أبي هريرة أن رسول الله ﷺ قال: بينما رجل يمشي بطريق اشتد عليه العطش، فوجد بئرًا فنزل فيها فشرب، ثم خرج فإذا كلب يلهث يأكل الثرى من العطش، فقال الرجل: لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي كان قد بلغ مني، فنزل البئر، فملأ خفه ماء ثم أمسكه بفيه حتى رقي، فسقى الكلب، فشكر الله له، فغفر له قالوا: يا رسول الله، إن لنا في البهائم أجرًا؟ فقال: في كل كبد رطبة أجر. (بخاری شریف-كتاب أحاديث الأنبياء، باب حديث الغار (٤/ ١٧٣) رقم: (٣٤٦٧) _کذا فی مسلم ، كتاب السلام، باب فضل ساقي البهائم المحترمة وإطعامها (٤/ ١٧٧١)، رقم: (٢٢٤٥)
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: أفضل الصدقة أن تشبع كبدا جائعا. رواه البيهقي في شعب الإيمان۔ (سنن أبي داود٥٢٦/١)
سوال :-ایک شخص نے خواب دیکھا جس کی وجہ یوں محسوس کیا کہ احتلام ہوگیا پر بیدار ہونے کے کچھ علامت ظاہر نہیں ہوئی لیکن تھوڑی دیر کے بعد ایک دو قطرہ کچھ نکلا تو اس صورت میں کیا حکم ہے ؟
بسم اللّه الرحمن الرحيم
الجواب وبالله التوفيق
صورت مسئولہ میں شخص مذکور پر غسل واجب ہے، کیونکہ منی کا اپنے مستقر سے شہوت کے ساتھ جدا ہونے سے غسل واجب ہوجاتا ہے اگرچہ خروج کے وقت شہوت نہ پایٔ جا رہی ہو، اور سوال سے واضح ہو رہا ہے کہ مذکورہ صورت یہی ہے- (مستفاد از: کتاب المسائل١٧٢/١)
ففرض الغسل عند خروج مني منفصل عن مقره بشهوة فان لم يخرج من رأس الذكر بها (فتاویٰ ھندیہ١٤/١) _ (کذافی المحیط البرھانی ٢٢٩/١)
اسباب الغسل ثلاثة: الجنابة والحيض والنفاس(فتاویٰ تاتارخانیہ ٢٢٨/١) فقط- والله أعلم بالصواب
١.سوال:- کیا کوئی شخص ایام حج میں حرمین پہنچ جائے یا مکّہ ، مدینہ چلا جائے تو اس پر حج فرض ہوتا ہے یا نہیں؟
جواب:-کوئی شخص ایام حج میں حرمین پہنچ جائے تو اس پر حج فرض ہے بشرط کہ حج قریب ہو اور نہ اس پر فرض نہیں ہے یہ اس صورت میں ہے جبکہ یہ شخص فقیر ہو اور اگر مالدار ہو تو اس پر حج فرض ہے مطلقا خواہ حرمین پہنچے یا نہ پہنچے ۔فقط واللہ اعلم ۔
الفقير الافاقي اذا وصل الى ميقات فهوكالمكي (در المختار مع شامي: ٤٥٩/٣ كتاب الحج زكريا ديوبند)
فاذا بلغ مكة فهو يملك منافع بدنه فقد قدر على الحج بالمسمى وقيل زاد فوجب عليه الحج فاذا ارمي وقع عن حجة السلام (بدائع ٢٩٤/٢ كتاب الاحج الاشرفه ديوبند)
الفقير الافقى اذا وصل الى الميقات صارا كالمكي هل يجب عليه ان لم يقدر على الراحلة(غنية الناسك اشرفيه ديوبند)
١.سوال:-بینک یا کسی سے قرض لے کر حج کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب:-جب کسی کے پاس حج کرنے کے لیے حلال پیسہ موجود نہیں ہے تو شریعت نے سود پر قرض لے کر حج کو جائز پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ جب پیسہ وصول ہو جائے گا اس کے بعد آپ پر حج کو جانا لازم ہے مگر سودی قرض لے کر حج کرنا شرعا اجازت نہیں ہے کیونکہ بینک سود کے علاوہ قرض دے گا ہی نہیں۔فقط واللہ اعلم۔
رضي الله تعالى عنه قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم اكل الربا، وموكله، وكاتبه وشاهديه،قال: هم سواء (مسلم شريف ،باب لعن اكل الربا،نسخة الهنديه:٢٧/٢)
ان هريرة رضي الله تعالى عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ايها الناس ان الله لا يقبل الاطيبا الحديث (صحي مسلم الزكاة،بابو قبول الصدقة من الكتاب الطيب وتربيتهما نسخة الهنديه:١٢٧/١ بيت الافكار رقم: ١٠١٥)
لا بمال حرام ولو حج به سقط عنه الفرض لكنه لا تقبل عنه حجته (غنية الناسك، قديم: ٨،جديد ٢١)
سوال:-چندہ لے کر حج کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب:-غریب کمزور لوگوں پر نہ حج فرض ہے نہ لازم اور نہ ہی اس کو حج میں بھیجنے کے لیے چندہ جمع کرنا شرعی طور پر جائز ہے یعنی چند کر کے حج کرنا شراب جائز نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم ۔
ولو وهب له مال لحج به قوله سواء كان الوهم ممن تعتبر منه كالاجانب اولا تعتبر كالابوين والمولودين(فتح القدير،كتاب الحج دار الفكر مصري قديم:٤١٠/٢)(زكريا ٤١٦/٢)
ولله على الناس حج البيت من استطاع اليه سبيلا ومن كفر فان الله غني عن العالمين (صوره ال عمران: ٩٧)
وقد اختلف في حج الفقير فقاله اصحابنا والشافعي: لا حج عليه (احكام القران ،باب فرض الحج:٢٥/٢)
سوال:-اگر کوئی شخص طواف زیارت کے بغیر وطن واپس آ جائے تو شرعا کیا حکم ہے؟
جواب:-اللہ حافظ زیارت حج کے دوسرا رکن ہے اسے ادا کیے بغیر حج مکمل نہیں ہوگا اور شریعت میں اس کا کوئی بدل نہیں لہذا جو شخص طواف زیارت نہیں کرے گا اس طرح کے ایام نحر شروع ہونے کے بعد کوئی طواف نہیں کیا تو جب تک خود جا کر طواف زیارت نہ کر لے اس کا طواف ادا نہیں ہوگا اور آخری عمر تک اس کی ادائیگی ذمہ میں قرض رہے گی اور جب تک طواف زیارت نہ کر لے اس وقت تک بیوی سے صحبت بوس و کنار اس کے لیے حرام ہے ہاں البتہ ایام نحر شروع ہونے کے بعد کوئی دوسرا طواف کیا تو یہ طواف طواف زیارت کے قائم مقام ہو جائے گا۔فقط واللہ اعلم ۔
وحل النساء اي : بعد الركن منه وهو منه .... ولو لم يطف اصلا لا يحل له النساء وان طلع ومضت سنون باجماع وكذا في الهنديه(شامي: ٦١٤/٣ طواف الزيارة اشرفيه ديوبند )
لو ترك طواف الزيارة كله او اكثر فهو محرم ابدا في حق النساء حتى يطوف فعليه حتما ان يعود لذلك الاحرام ويطوفه(غنية الناسك:٣٧٣)
سوال:-مال حرام سے حج کرنا درست ہے یا نہیں اگر درست نہ ہو تو پھر بھی کوئی مال حرام سے حج کر لے تو اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہو جائے گا یا نہیں اگر ساقط ہو جائے تو وہ گنہگار ہوگا یا نہیں اور وہ حج مقبول ہوگا یا نہیں ؟نیز کوئی ایسی متبادل صورت ہے کہ جس سے حج مقبول بھی ہو جائے اور مال حرام کا ارتکاب بھی لازم نہ آ ے؟
جواب:-اگر مال حرم سے حج کرنا درست نہیں ہے پھر بھی کوئی مالے حرم سے حج کر لے تو اس کے ذمہ سے فرضیت ساقت ہو جائے گا لیکن گنہگار ہوگا کیونکہ مال حرام سے حج کرنا حرام ہے اور اس سے حج مقبول نہیں ہوتا ہے اور ثواب بھی نہیں ملتا ہے اس شخص کو چاہیے کہ کسی سے قرض لے کر حج کرنے جائے اور واپسی کے بعد جائز طریقے سے حلال روزی کما کر اس سے قرض ادا کرے تو حج مقبول بھی ہو جائے گا اور گناہ کا ارتکاب بھی نہ ہوگا البتہ اگر مال حرام سے حج کر لیا تو بعد میں توبہ کر لے اور اگر کسی کا حق لے رکھا ہو تو اس کو واپس کر دے۔فقط واللہ اعلم ۔
قوله: الحج بمال حرام...... بالحج رياء وسمعة ان الحج نفسه الذي هو زيارة مكان مخصوص الى الآخ.. ليس حرام ويل الحرام هو انفاق اطال الحرام ولا تلازم بينهما ..... مع انه يسقط الفرض عنه معها .....فلا يثاب لعدم القبول(شامي: ٥١٩/٣ اشرفيه دوبند)
ويجتهد في تحصيل نفقة حلال فانه حلال وانه لا يقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث مع انه يسقط الفرض عنه مع ولا تنافي بين سقوطه وعدم قبوله ولا يثاب لعدم القبول ولا يعاقب ترك الحج(شامي: ٤٥٣/٣ زكريا ديوبند)
من حج بمال حرام فقال: لبيك اللهم لبيك،قال الله عز وجل لا لبيك ولا سعديك(كنز العمال:٢٧/٥ كتاب الحج)
سوال:-اولاد کو والدین سے پہلے حج کرنا درست ہے یا نہیں اگر درست ہے تو کیوں اگر نہیں تو کیوں؟
جواب:-اولاد کا والدین سے پہلے حج کرنا درست ہے وجہ یہ ہے اگر والدین صاحب استطاعت ہو تو ان کو خود حج میں جانا لازم ہے اور اگر اولاد پر حج فرض ہے والدین پر فرض نہیں تو بیٹا حج پر جا سکتا ہے اگر استطاعت ہو تو والدین کو بھی ساتھ لے جانا بڑے ثواب ہے۔فقط واللہ اعلم ۔
ان القدرة على الزاد والراحلة لابد فيها من المال دون الاباحة والعارية(شامي: ٤٦٠/٣،كتاب الحج زكريا ديوبند)
ومنها القدرة على الزاد والراحلهة بطريق الملك او الاجارة دون الامارة والاباحه سواء كانت الاحة من جهة من لا منه له عليه الوالدين المولودين او من غيرهم كالاجانب...(هنديه: ٢١٧/١ كتاب المناسك ،زكريا ديوبند
سوال:-طواف زیارت کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا شرعا کیسا ہے نیز اگر کوئی شخص عصر کے بعد طواف مکمل کرے تو یہ دو رکعت ادا کرنا اسی وقت شرعا درست ہے یا نہیں یا ضروری ہے اگر درست اور ضروری ہو تو کیوں جبکہ عصر کی نماز پڑھنا منع ہے کوئی نماز اگر درست نہ ہو تو کیوں ؟ مدلل بیان کریں؟
جواب:-طواف زیارت کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اگر کسی نے دو رکعت ادا نہیں کی ہو تو اس کا طواف ادا ہو گیا البتہ نوافل کو چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا اور کوئی شخص عصر کے بعد طواف مکمل کرے تو وہ بھی دو رکعت نہ پڑھے کیونکہ عصر کے بعد کسی قسم کی نوافل ادا کرنا درست نہیں ہے بلکہ مغرب کی فرض نماز کے بعد سنتوں سے پہلے طواف کی دو رکعت ادا کر لے۔فقط واللہ اعلم
ولو طاف اسابيع فعليه لكل اسبوع ركعتان على حدة...... ويكره تاخيرها عن الطواف الا وقت مكروه اي لان الموالات سنة ولو طافه بعد العصر يصلي المغرب ثم ركعتي التواف ثم سنة المغرب (بحر الرائق ٣٥٦/٢ باب الاحرام)
صلاه ركعتين لكل اسبوع من اي طواف كان فلو تركها هل عليه دم قيل نعم فيوصي به(در مختار مع رد مختار: ٥٤١/٣ كتاب الاحج الاشرفه ديوبند)
ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة بعد الصبح حتى تشرق الشمس وبعد العصر حتى تغرب (صاحب بخاري: ١٢٠/١ رقم الحديث: ٥٨١)
١.سوال:-اقسام حج میں سے کون سی قسم افضل ہے اور کیوں؟
جواب:-حج کی اقسام میں سے حج قران افضل ہے وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حج ادا کیا ہے یعنی ہمارے نزدیک صحیح دلائل کی رو سے حج تمتع افضل ہے کیونکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ قران کیا تھا مگر اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا جو بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی ہے وہ اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا (صحیح بخاری:٧٢٢٩،. ابو داؤد:١٧٨٤)
التمتع افضل من الافراد والقران افضل من الكل (قاضيخان:١٨٥/٧ كتاب الحج زكريا ديوبند)
باب القران وهو افضل لحديث واتاني الليله ات من ربي وانا بالعقيق وقال يا ال محمد اهله الحج والعمرة معا(شامي: ٦٣١/٣-٦٣٣ كتاب الحج، اشرفيه ديوبند)
القران افضل من التمتع والافراد وصفته القران اي يهل بالعمرة والحج معا من الميقات.....(هدايه: ٢٧٩/١ كتاب الحج، رحمانيه)
سوال:-اگر کوئی شخص ممنوعات احرام میں سے کسی ممنوع چیز کا ارتکاب کریں تو شرعا کیا حکم ہے؟
جواب:-اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں ممنوعات احرام میں سے کسی ممنوع چیز کو بھول کر کرے تو وہ شرعا اس پر کوئی چیز نہیں ہوتا اور اگر ممنوعات حرام میں سے کسی چیز کا مکمل ارتکاب کرے بلا کسی عذر کے تو اس صورت میں ایک دم واجب ہوتا ہے اور اگر کسی ممنوع چیز مکمل طور پر نہ کرے بلکہ ناقص کرے تو اس صورت میں جزاء کے طور پر صدقہ واجب ہو جاتا ہے-فقط واللہ عالم۔
وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَٰكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا(سوره احزاب:٥)
ولو طيب المحرم بعد الشارب او بعض اللحية كان عليه صدقة ولو طيب ولو طيب عضوا كاملا كلراس..... عليه دم(قاضيخان:١٧٦/٧ كتاب الحج، زكريا ديوبند)
جزاوي جنايات اما دم حتما اذا ارتكب المحظور كاملا بلا عذر او صدقه حتما اذا ارتكب المحظور ناقصا (غنية الناسك:٢٣٨)
سوال:-طواف کی کتنی قسمیں ہیں اور کیا نام ہے ان کا درجہ کیا ہے؟
جواب:-طواف کے ساتھ اس میں ہے -1. طواف تحیہ یہ مستحب ہے، 2. طواف قدوم یہ مسنون ہے، 3. طواف زیارت یہ طواف ہر حاجی پر واجب ہے، 4. اللہ حافظ صدر اس کا درجہ واجب کا ہے، 5. طواف عمرہ جو شخص عمرہ کا احرام باندھ کر مسجد حرام میں ائے اس پر طواف عمرہ ضروری ہے، 6. طواف نظر اس کی ادائیگی واجب ہے، 7. طواف ننطوع یہ طواف نفل ہے۔
اذا دخل مكة بدا بالمسجد...... ثم يبدا بالتعافي لانه تحية البيت...... والطواف بالبيت طواف القدومي ويسن..... والضعف بالبيت نفلا ماشيا بلا رمل وسعى....... ثم توفى لزيارتي يوما من ايام النحل..... ثم طفى للصدر اي الوداع..... خطافه وسعى وتحلل اى: بافعال العمرة (شامى:٥٧٣/٣-٦٢٨-كتاب الحج اشرافه ديوبند)
طوافذ زيارت الركن تواف الحج وهو ركن لا يتم الحج الا به (الدر المنتقي:٢٨١/١)
وهو مستحب لكل من دخل المسجد محرما كان او حلالا وطواف العمرة وهو ركن فيها (غنية المناسك:١٠٩)(وكذا في البحر الرائق)
١. سوال:-حج تمتع کے افعل کیا ہیں ترتیب سے بیان کریں؟
جواب:-حج تمتع یہ ہے کہ سب سے پہلے عمرہ کا احرام باندھنا ہے ،عمرہ کا طواف کرنا ہے، رمل کرنا ہے عمرہ کی سعی کرنا،سر منڈانا یا کترانا،پھر حج کا احرام باندھنا ہے قیام منی (از ظہر ٨/ذو الحجہ تا فجر٩/ذوالحجہ)،وقوف عرفہ (٩/ذی الحجہ) پھر وقوف مزدلفہ (١٠/ذوالحجہ) پھر اخری جمرہ کی رمی (١٠/ذوالحجہ) فی القربانی کرنا،سر منڈانا یہ کترانا پھر طواف زیارت پھر حج کی راہ میں کرنا ہے تینوں جمرات کی رمی (١١-١٢/ذو الحجہ) اخر میں منی میں شب گزاری (١١-١٢ ذوالحجہ)
والتمتع عندنا من ياتي باعمال العمرة على الحج الثالثه اي يطوف اكثر طوافها في عشر الحج ثم ياتي بالحج ويحج من عامه ذلك قبل ان يلم باهله بيتهما الماما صحيحا الآخر (قاضيخان:١٨٥/٧ كتاب الحج مكتبة زكريا دوبند)
والتمتع ما ياتي باعمال العمرة في اشهر الحج او يطوف اكثر طوافها في اشهر الحج ثم يحرم بالحج ويحجه من عامه ذلك قبل اي يلم باهله بينهما الماما صحيحا (الهنديه: ٣٠٢/١،كتاب المناسك زكريا ديوبند)
لاول: ايه فضل العمرة كله او اكثره في شهر الحج، الثاني: اي يقدم احرام العمره على الحج، الثالث: اي طفل العمره كله او اكثره قبل احرام الحج ، الرابع: عدم افساد العمرة،الخامس: عدم الامام الماما صحيحا كما ياتي،السابع: ان يكون التوافق العمرة كله او اكثره والحج في السفر احد الآخر (در مختار: ٥٦٢/٣،مكتبة زكريا ديوبند)
سوال:-حج قران کسے کہتے ہیں اس کے افعال کیا کیا ہے ترتیب سے بیان کریں؟
جواب:-کرن اصطلاح میں حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ کر ایک ساتھ حج اور عمرہ کرنے کو کہتے ہیں،اور اس کے افعال یہ ہے کہ حج کے مہنو میں میقات پر پہنچ کر یا اس سے پہلے غسل و غیرت سے فارغ ہو کر احرام کے کپڑے پہن کر دو رکعت نماز پڑھ کر سلام کے بعد سر کھولنا اور قبلہ رخ بیٹھ کر دل میں حج اور عمرہ دونوں کے احرام کی نیت کرنا اور زبان سے کہنا “اللهم اني اريد الحج والعمرة الآخر..”جب مکہ مکرمہ مجھے تو اول عمرہ کا طواف سائی وغیرہ کر کے عمرہ پوری کرے پھر مکہ میں ہی قیام کرے اس کے بعد اٹھیں تاریخ کو منی جائے اور نویں کو عرفات جائے، منی عرفات اور مزدلفہ کے احکام میں قران اور افراد میں کچھ فرق نہیں ہے لہذا سب افعال اسی طرح کرے جس طرح مفرد کرتا ہے پھر دسویں تاریخ کو منی ا کر جمرہ اخری کی رانی کرے پھر قران کے شکریہ میں قربانی کرے پھر سر کے بال منڈائے یا کٹوائے اور طواف زیارت کریں آخر میں طواف وداع کرے-فقط واللہ اعلم
والقران لغة: الجمع بين شيئين وشرعا: اي رفع صوته بالتلبية بحجة وعمرة معا حقيقة او حكما بان يحرم بالعمره اولا ثم بالحج قبل اي توفى لها اربعة اصواط او عكسه....... والمراد به النية اذا النية بقلبه تكفي كالصلاة. بعد الصلاه ة: اللهم اني اريد الحج والعمرة الآخر.. ويستحب تقدم العمرة في النكر لتقدمها في الفعل،طواف للعمره اولا وجوبا حتى لو نواه للحجي لا يقع الا لها (دره مختار مع رد مختار: ٥٥٣/٣ كتاب الحج-زكريا ديوبند)
القران وهو ان يجمع بين احرام العمرة والحج ....... وهو ان يهل الافاق بهما معا في الميقات او قبله وهو الافضل... استحباب تقديم العمرة على الحج في النية والتربية طواف القدومي للقران والرمل فيه السعي بعده ثم يتوفى لقدومه ويضطبع فيه ايضا ويرمل... وحكم من طافين العمره والحج ثم سعي سعين(فتاوى هنديه:٣٠١/١ كتاب المناسك اشرفيه ديوبند) وكذا في غنية الناسك:٣٢٤/١-٣٢٨ كتاب المناسك اشرفيه ديوبند )
سوال:-حج افراد کسے کہتے ہیں اور اس کے افعال کیا ہیں ترتیب وار بیان کریں؟
جواب:-صرف حج کے احرام باندھنے کو حج افراد کہتے ہیں اور اس کے افعال یہ ہے کہ حج کا احرام طواف قدوم قیام منی از ظہر ٨/ذو الحجہ تا ٩/ذوالحجہ،وقوف عرفہ٩/ذوالحجہ،حروف مزدلفہ ١٠/ذوالحجہ،رمل ،سعی،تینوں جمرات کی رمی ،منی میں شب گزاری،طواف و وداع بوقت واپسی۔
وقال المفرد بالحج بلسانه مطابقا لجنانه اللهم انا اريد الحجه الآخر المشفته وطول مدته ثم لبي دير صلاته ناويا بها بالتلبية الحج...(در مختار مع رد مختار: ٤٨٩/٣-٥٠٦ كتاب الحج زكريا ديوبند)
فصل: في كيفية اداء الحج المحرم بالحج اذا القى محظوراته احرامه و قدم مكه فدخلها ليلا او نهارا لا يضر المستحب ان يدخلها نهرا..(قاضيخان: ١٧٨/٧-١٨٤ كتاب المناسك اشرفيه ديوبند)
ويستحب: ان يغتسله للدخول المكه واي دخلها نهارا فاذا دخل المكه ابدا بالمسجد بعد ما حط اثقاله،ومنها احرام الحج: قالوا ينبغي ان يكون محرما بالحج عند عدي الصلاتين المراد بالحج اذا انى بتواف القدوم وافضل اي يسعي بعده ولكن يسعي بعد طواف زيارتة ..... ثم يرجع الى منى فان كان معه نسك ذبحه وان لم يكن فلا يضره لانه مفرد بالحد ثم يحلق راسه او يقصر ويحلق افضل..طواف زيارة (الهندية:٢٨٩/١-٢٩٥ كتاب المناسك اشرفيه ديوبند)
١.سوال:بینک سے لون لیکر کاروبار کرنا جاٸز ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق
واضح رہے کہ بینک سےلون لے کر جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے، جس کا لینا دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے،چوں کہ کسی بھی بینک سے لون لینے کی صورت میں سود کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے کسی بھی بینک سے لون لینا، خاص کر عام حالات میں ہرگز جائز نہیں ہے، لہذا اگر لون لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور سے غیر سودی قرضہ حاصل کر یں، نیز اگر کاروبار کرنا ہےتو اپنی طاقت اور استعداد کے بقدر جو کاروبار کرسکتے ہیں وہ کریں،چھوٹے پیمانے سے ہی کام شروع کردیں فقط_ واللہ أعلم باالصواب
(مستفاد: کتاب النوازل٢٠٣/١١__فتاوی قاسمیہ ٣١/٢١)
عن جابررضى الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آ كل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء." ( مشكاة المصابيح ،باب الربوا، ص: 243، ط: قدیم)
والثاني انه معلوم ان ربا الجاهلية انما كان قرضا مؤجلا بزيادة مشروطة فكانت الزياده بطلا من الأجل فابطله الله وحرمه (أحكام القران للجصاص- تحت آية انما الخمر والميسر والانصاب..467/1)
وهو ربا اهل الجاهلية، وهو القرض المشروط فيه الأجل وزياده مال على المستقرض(أحكام القران للجصاص، سورة البقره ٥٦٩/١)
سوال :- قارون ایمان میں داخل ہوا تھا یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق
قارون حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں ایک شخص تھا اور حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کا رشتہ دار تھا البتہ رشتہ دارری کیا تھی اس میں حضرات مفسرین کا اختلاف ہے، اور وہ پہلے مومن شخص تھا اور تورات کا حافظ تھا لیکن پھر بعد میں اس نے کفر اختیار کیا اور روایات، آیات، احادیث ، اور جزئیات کی روشنی میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا انتقال کفر پر ہوا ہے حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ضمنا اس کے کفر کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔
بیان القران ۱۲۱/۲میں ہے اور قران مجید میں ایک جگہ اس قدر آیا ہے فكلا اخذنا بذنبه آگے اس کی تعمیل میں فرمایا ہے اور ومنهم من خسفنا به الارض اور ذنب عام ہے ممکن ہے کہ یہی ذنب مذکور ہو یا اس کے سوا اور بھی ہو اور سب سے بڑھ کر کفر کرنا اور ایمان نہ لانا ذنب ہے شاید یہ پہلے ہی ایمان نہ لایا ہو جیسا کہ سورہ مومن میں آیت ولقد ارسلنا موسى باياتنا وسلطان مبين الى فرعون وهامان وقارون فقالوا ساحر كذاب .الاخ سے بظاہریہی معلوم ہوتا ہے ۔
جزئیات ملاحظہ فرمائیں:
قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَا مَنَ وَ لَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَ مَا كَانُوا سَبِقِيْنَ - فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَ مِنْهُمْ مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَّنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ . (سورۂ عنکبوت ۳۹-۴۰)
وله تعالى : ﴿وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ قال الكسائي : إن شئت كان محمولاً على عاد، وكان فيه ما فيه، وإن شئت كان على فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وصد قارون وهامان ، وقيل : أي وأهلكنا هؤلاء بعد أن جاءتهم الرسل (فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ) عن الحق وعن عبادة الله . ﴿وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ) أي فائتين . وقيل : سابقين في الكفر بل قدسبقهم للكفر قرون كثيرة فأهلكناهم. (الجامع لاحكام القران ۳۴۴/۱۳،دار احياء التراث العربي)
﴿وَيَكانهُ لَا يُفْلِحُ الكَفِرُونَ ) ، يعنون أنه كان كافراً، ولا يفلح الكافرون عند الله، لا في الدنيا ولا في الآخرة. (تفسیر ابنِ کثیر زکریا ۳۷/۵، سورۂ قصص تحت رقم الآیۃ ۸۳
امام ابوحنیفہ رحمہ نے کسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث روایت کی ہے ؟
الجواب وباللہ التوفیق:
بعض محدثین مثلا امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ نے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کسی بھی صحابی سے رؤیت اور ملاقات کا انکار کیا ہے لیکن اکثر محدثین نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی چند صحابہ کرام سے ملاقات اور رویت کو ثابت مانا ہے(کہ امام ابو حنیفہ تابعی ہیں) اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل اور شواہد کی بنیاد پر صحابہ کرام سے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے روایت نقل کرنے کو ثابت کیا ہے اگرچہ بعض محدثین نے اس کا انکار کیا ہے لیکن علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل اور شواہد کی بنیاد پر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ کئی صحابہ سے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مروی روایات ہیں چنانچہ چند احادیث بطور دلیل کے ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:
قد ألف الإمام أبو معشر عبد الكريم بن عبد الصمد الطبري المقري الشافعي جزء فيما رواه الإمام أبو حنيفة عن الصحابة ذكر فيه : قال أبو حنيفة لقيت من أصحاب رسول الله ﷺ سبعة : 1 - أنس بن مالك،۲ - وعبد الله بن جزء الزبيدي - وجابر بن عبد الله ، ٤ - ومعقل بن يسار، ه - ووائلة بن الأسقع، ٦ - وعائشة بنت عجرد، رضي الله عنهم. ثم روى له عن أنس ثلاث أحاديث وعن ابن جزء حديثاً، وعن واثلة حديثين، وعن جابر حديثاً، وعن عبد الله بن أنس حديثاً، وعن عائشة بنت عجرد حديثاً، وروي له أيضاً عن عبدالله بن أبي أوفى حديثاً. ( تبييض الصحيفة بمناقب ابي حنيفه۳۳، ذكر من ادركه من الصحابه رضي الله عنهم، دار الكتب العلميه بيروت)
احادیث ملاحظہ فرمائیں: (١) دع ما يريبك الى ما لا يريبك. (٢) لا تظهر الشماته لاخيك فيعافيه الله ويبتليك. ثم قال أبو معشر أنا أبو عبد الله حدثنا إبراهيم حدثنا أبو بكر الحنفي، حدثنا أبو سعيد الحسين بن أحمد ثنا علي بن أحمد بن الحسين البصري ثنا أحمد بن عبد الله بن حرام ثنا اسماعيل بن حرام ثنا المظفر بن منهل ثنا موسى بن عيسى بن المنذر الحمصي ثنا أبي ثنا اسماعيل بن عياش عن أبي حنيفة عن واثلة بن الأسقع أن رسول الله ﷺ قال : دع ما يريبك إلى ما لا يريبك . وبه عن واثلة عن النبي ﷺ قال : لا تظهر الشمائة لأخيك فيعافيه الله ويبتليك .
أقول : الحديث الأول : متنه صحيح ورد من رواية جمع من الصحابة وقد صححه الترمذي وابن حبان والحاكم والضياء من حديث الحسن بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه . والحديث الثاني: أخرجه الترمذي من وجه آخر عن واثلة وحسنه وله شاهد من حديث ابن عباس. (تبييض الصحيفة بمناقب ابي حنيفۃ ۳۶-۳۷،ذكر من ادركه من الصحابه رضي الله عنهم ، دار الكتب العلميه بيروت)
سوال : کیا دکان کا بیمہ کرانا جائز ھے؟
لجواب وبالله التوفیق-
واضح رہے کہ لائف انشورنس کے مقابلے میں املاک کے انشورنس میں سود بالکل نہیں ہوتا اس لیے کہ جمع کی جانے والی رقم میں سے کوئی رقم مدت پر واپس نہیں ملتی ہے، اور نہ ہی اس پر اضافہ ملتا ہے، البتہ صرف شبہ قمار ہے کہ اگر خدانخواستہ ہلاک ہو جائے گا تو پورے نقصان کی تلافی کی جاتی ہے، اور عموم بلویٰ اور حالات کے تقاضے کی وجہ سے شبہِ قمار کی خرابی برداشت کر کے اموال کے بیما کی گنجائش قرار دی گیٔ ہے فقط – والله أعلم باالصواب(فتاویٰ قاسمیہ ٤٧٢/٢٠)