سوال:-کن لوگوں پر زکوۃ واجب ہے اور کن لوگوں پر واجب نہیں ہے تحریر کریں؟

جواب:-ان لوگوں پر زکوۃ واجب ہے جن کے اندر درز ذیل صفات پائی جائے:(1)۔ازاد ہو غلام باندی پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔(2). مسلمان ہو کافر پر زکوۃ کا مطالبہ نہیں ہے (3). سمجھدار ہو پاگل پر زکوۃ واجب نہیں ہے جبکہ پاگل پن اس پر مسلسل طاری ہو (4). بالغ ہو نابالغ پر زکوۃ نہیں (5)۔مالک نسب ہو جو مالک نصاب نہ ہو اس پر زکوۃ نہیں۔فقط واللہ اعلم

فمنها الحرية حتى لا تجب الزكاة على العبد... ومنها الاسلام حتى لا تجب على الكافر... ومنها العقل والبلوك وليس الزكاة على الصبي والمجنون... ومنها كون المالي نصاب فلا تجب في اقل منه... ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك الوالد ومنها فراغ المال (الهنديه: ٢٣٣/١-٢٣٤ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

وشرط افتراضها: عقل و بلوغ و اسلام و حرية... فلا تجب على مجنون وصبي .. فلا الزكاة على كافر لعدم خطابه وحرية فلا تجب على عبد ولو مكاتبا (در مختار مع شامي: ١٧٣/٣-١٧٤ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

سوال:-زکوۃ کی لغوی اور شرعی معنی کیا ہے؟

جواب:-زکوۃ کی لغوی معنی پاکیزگی بڑھانا برکت اور مدح ہے اور اصطلاح میں سال گزرنے کے بعد نصاب معین سے ایک حصہ فقراء کے درمیان زکوۃ کی نیت سے دینا ہے۔فقط واللہ اعلم

وهي لغة: الطهارة النماء وشرعا تمليك خرج الاباحة فلو اطعم يتيما ناويا الزكاة(در المختار: ١٧٠/٣-١٧١, كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

اما تفسيرها: تمليك المال من فقير مسلم غيرها شيء ولا مولاه قشرتي قطع المنفعة عن المملوك من كل وجه الله تعالى(الهنديه: ٢٣٢/١ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

الزكاة لغة: النماء والربع و الزيادة(الموسوعة الفقهيه الكوفيه: ٢٢٥/٢٣)

سوال:-کن اموال میں زکوۃ واجب ہے اور کی اموال میں زکوۃ واجب نہیں ہے بیان کریں؟

جواب:-زکوۃ پانچ قسم کے اموال پر واجب ہے۔۔سونا،چاندی،مال تجارت، نقدی ،مویشی ،البتہ زکوۃ اموال میں مطلقا زکوۃ واجب نہیں ہوتی بلکہ ان پر زکوۃ واجب ہونے کے لیے ایک مخصوص نصاب ہے اگر نصاب کی بقدر مال کسی عاقل بالغ مسلمان کے پاس ہو اور اس پر قمری سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہے جو اموال کے علاوہ ہے ان پر زکوۃ واجب نہیں ہے مثلا رہائش مقام ،بدن کے کپڑے، گھر کے سامان ،خدمت کے غلام اور استعمال کی چیزوں پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

ومنها كون النصاب ناميا حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة او تقديري بان يتمكن من الاستمتاء يكون المال في يده... فالخلقى الذهب والفضة ...الأخ(الهنديه: ٣٢٥/١ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

سببه اي السبب افتراضها ملك نصاب حولي.. تام.. اقول انه خرج باشتراط الحرية... فارق عن ديني له مطالب من جهة العباد... بخلاف دين..(شامي: ١٧٣/٣-١٧٧ كتاب الزكاة، زكريا ديوبند)

فرضت على حر مسلم مكاف مالك نصاب من نقد ولو نبذا او حليا او آنية او ما يساوي قيمته من عروض تجارة فازع عن الدين وعن جهة الاصلية ثيابه المحتاجه اليها لدفع الحد والبرد ..... الآخ (حاشية الطحطاوي:٧١٣-٧١٤, الزكاة، زكريا ديوبند)

سوال:-عمرہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟

جواب:-عمرہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو گھر میں پہلے اپ غسل کر کے احرام باندھ لے اور دونوں کاندھے ڈاپتے ہوئے دو رکعت نفل ادا کریں پھر اگر میقات پر احرام باندھا ہو تو وہیں سے تلبیہ پڑھیں اور پڑھتے رہے اور بیت اللہ میں داخل ہوتے ہوئے اگر فرض نماز کی جماعت کا وقت نہ ہو تو سب سے پہلے طواف کرے مطاف میں داخل ہوتے ہوئے اضطباع کرے اور طواف حجر اسود سے شروع کریں شروع کرنے سے پہلے طواف کی نیت کرے پھر دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر تکبیر و تہلیل کہے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر حجر اسود کو بوسہ دے کیا ہاتھ لگا کر چوم لے یا صرف ہاتھ سے اشارہ کر دے پھر رمل کے ساتھ کعبہ کا سات چکر لگائے دوران طواف اللہ کی زیادہ تسبیح بیان کرے ہر چکر پر رکن یمانی کی استلام کرے رکنی یمانی اور حجر اسود پر دعا پڑھیں : “ربنا اتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار”طواف کے بعد مقام ابراہیم دو رکعت نماز پڑھے برائے طواف پھر اب زمزم سیر ہو کر پیے پھر حضرت سواد کے استلام کر کے سائی کے لیے صفا کا رخ کرے صفا پر چڑھ کر قبلہ رخ ہو کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں پھر تین مرتبہ لا الہ الا اللہ وحدہ الاخ۔دعا پڑھیں پھر صفا اور مروہ کا سات چکر لگائے اس کے بعد بال کتروائی یا منڈھوائے اور احرام کھول دے

واما اذا أريد به الاكمال الوصف وعليه ما نقله في البحر من ان الصحابه فسرت الا تمام بان يحرم بهما من رويده اهله...... قوله: حلق او تقصير... قوله وغير ما واجب اراد بالغير من المذكورات هنا وذلك اقل عشوات الطواف والصعيد والحلق والتقصير والا فلها سنن محرمات من غير المذكور هنا فافهم(شامي :٥٤٥/٣-٥٤٦ كتاب الحجر اشرفيه ديوبند)

وصفتها ان يحرم بها من ميقاتها كلاحرام الحج فاذا ادخل مكة ... بدا بالمسجد من باب السلام ثم بدايا احجر الاسود واذا استلمه قطع الطابعة وطاف برمل واصطباع كالحج وصل ركعتين ثم خرج السعي على فرده وسعي كالحج الا انه لا يبلى فيه ولم يذكروا العوده الى اسلام الحجر الاسود في خصوص العمرة فلعله لعدم روايته هنا (غنية الناسك:٣٢٠ في كيفية اداء العمرة)

سوال:-دم کسے کہتے ہیں اس کا شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-دم جو کفارہ کے طور پر جو ایک بکری 🐐 (اس میں بکرا دنبہ بھیڑ شامل ہے اور گائے بیل بھینس اور اونٹ🐫 کا ساتواں حصہ کی بقدر قربانی دیا جاتا ہے اس کو دم کہتے ہیں اس دم کا شرعا حکم حدود حرم میں ذبح کرنا ضروری ہے اگر حدود حرم سے باہر ذبح کیا تو کفارہ اداء نہ ہوگا اور دم جنایت کا گوشت خود مالک کے لیے کھانا درست نہیں بلکہ وہ فقراء ہی کا حق ہے۔فقط واللہ اعلم

افسره ابن مالك بالشاة، وعشره في البحر الى سره بقوله: ان سبع البدنة لا يكفي في هذا الباب (شامي: ٥٧٢/٣ كتاب الحج، باب الجنايات، زكريا ديوبند)

وحيث ما اطلق الدم فالمراد الشاة الاخ(غنية الناسك: ٢٤٠-مراقي الفلاح:٧٤١)

١.سوال:-گھر پر پیتل کے برتن ہیں کچھ برتن استعمال ہوتے ہیں اور کچھ برتن کئی سال سے ایسے ہی رکھے ہوۓ ہیں؟؟ تو اب ان میں سے کن برتنوں پر زکوٰۃ واجب ہے رہنمائی فرمائیں۔

الجواب وبالله التوفیق
صورت مسئولہ میں کسی بھی برتن پر شرعاً زکوٰۃ واجب نہیں، کیونکہ برتن وغیرہ حوایج اصلیہ میں داخل ہے –فقط
(مستفاد از: فتاویٰ قاسمیہ ٢٧٦/١٠)

 

وليس في دوري السكنى و ثياب البدن واثاث المنزل ودواب الركوب وعبيد الخدمة و سلاح الاستعمال زكوة لأنها مشغولة بالحاجة الأصلية وليست بنامية اصلا ً(الهداية١٨٦/١)

وبهذا الشرط خرجت الثياب التي لا تراد لتجارة سواء صاحبها كان محتاجا أو لآ و اثاث المنزل والحوانيت والعقاراة وا الكتب لاهلها أو غير اهلها (الموسوعة الفقہیہ٢٤١/٢٣)

ومنها فراغ المال... و كذا طعام اهله وما يتجمل به من الاواني إذ لم يكن من الذهب والفضة(فتاوی عالمگیری ١٧٣/١)

سوال یہ ہے کہ ایک کمپنی ہے جس کے سامان کا ہم کو پرچار کرنا ہوگا اگر وہ سامان کوئی ہم سے خریدتا ہے تو ہمیں اس میں سے 80%کیا ایسا کرنا درست ہے دوسری بات ایک کورس ہوتا ہے جس میں کمپنی اپنے کام کو بتاتی ہے اگر ہم کسی کو اس کمپنی میں جوڑ دے تو اس میں بھی 80% ملے گا تو کیا ایسا کرنا درست ہے ؟

اسمہ تعالیٰ
الجواب وباللہ التوفیق:
سائل سے زبانی معلوم ہوا کہ پہلی صورت میں صرف وہ کمپنی کا پرچار کرنے پر اجرت اور عوض لے رہا ہے اسی کے مطابق جواب لکھا جا رہا ہے تو ایسی صورت میں اس کے لیے کمپنی کا پرچار کرنے پر اجرت لینا درست ہوگا بشرط کہ عرفا یا حقیقتا اجرت کا تعین ہو چکا ہو۔
(۲), کمپنی سے کسی شخص کو جوڑنے پر متعینہ کمیشن لینا درست ہے؛ لیکن اس کے بعد جو ممبر بنیں گے تو ان کے عمل پر پہلے والے شخص کے لیے اجرت لینا درست نہ ہوگا ؛ کیوں کہ اُس میں پہلے والے شخص کا براہ راست کوئی عمل دخل نہیں ہے اور اُن کا پہلے شخص کی ممبری سے وابستہ ہونا محض ایک دلالت اور رہنمائی ہے، جس پر کسی اجرت کا استحقاق نہیں ہوتا۔

وفي البزازية والولو الجية: رجل ضل له شيء فقال من دلني على كذا فله كذا فهو على وجهين : إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر. وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه إن دللتني على كذا فلك كذا، إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء. (رد المحتار، كتاب الإجارة / باب فسخ الإجارة ١٣٠/٩ زكريا)

الاجرۃ انما تكون بمقابلۃ العمل . (رد المحتار ۳۰۷/۴،كتاب النكاح ، باب المهر، زكريا) فقط والله سبحانه وتعالى اعلم

ایک شخص کی ٹرک سے ٹکر ہوگئی وہ بہت زخمی ہوگیا اسپتال میں بھرتی کیا گیا تقریباً دو گھنٹے زندہ رہا اور پھر اس کا انتقال ہوگیا اور اسپتال میں کافی رقم خرچ ہوئی جو اس کے بھائی نے خرچ کی ، تو اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس کے بھائی کو یہ پیسے اس کے ترکہ سے ملیں گے یا نہیں ملیں گے ؟

الجواب وبالله التوفيق:
بھائی نے علاج پر جو رقم خرچ کی ہے وہ بطورِ قرض تھی یا بطورِ امداد؟ بھائی سے اس کی تحقیق کی جائے، اگر بطورِ قرض تھی تو اسے ترکہ سے وصول کیا جائے گا، اور اگر بطورِ تعاون تھی تو اسے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس حسنِ سلوک كا بدلہ آخرت میں ملے گا، ان شاءاللہ۔

(١): سلمان بن عامر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم: الصدقة على المسكين صدقة، وعلى ذوي الرحم ثنتان: صدفة، وصلة. (الترغيب والترهيب من الحديث الشريف/كتاب الصدقات/الصدقة على المسكين صدقة وعلى القريب صدقتان، ٣٧/٢، ط: دار إحياء التراث العربي)

فلو وهب لذي رحم محرم منه لا يرجع لحديث الحاكم مرفوعاً "إذا كانت الهبة لذي رحم محرم لم يرجع فيها". (البحر الرائق/كتاب الهبة/باب الرجوع في الهبة، ٥٠٠/٧، ط: دار الكتب العلمية بيروت

ثم تقدم ديونه التي لها مطالب من جهة العباد. (الدر المختار مع رد المحتار/كتاب الفرائض، ٤٩٤/١٠، ط: دار عالم الكتب الرياض)

نیم کے پتوں میں پکے ہوئے پانی سے وضو کرنا درست ہے یا نہیں ؟

الجواب وباللہ التوفیق:
نیم کے پتوں سے پکے ہوئے پانی کی رقت و سیلان اگر علی حالہ باقی رہے جیسا کہ عامہ ایسا ہی ہوتا ہے تو ایسے پانی سے وضوکرنا درست ہے اگر چہ پانی کا رنگ مزہ بدل جائے، ورنہ نہیں۔

وكذا الوطبخ بالماء ما يقصد به المبالغة في التنظيف كالسدر والحرض وان تغير لونه ولكن لم تذهب رفته یجوز به التوضوء. (فتاوی خانیة علی ہامش الفتاوى الهندية قدیم ١ / ١٦ كتاب الطهاره الباب الثالث في المياه ،فصل فيما لا يجوز به التوضوء. ) فقط والله سبحانه وتعالى اعلم۔

سوال:-اگر کوئی شخص منت مانگے کہ اگر میرا بچہ ٹھیک ہو گیا تو میں قربانی کرونگا تو اس قربانی کی گوشت کا شرعا کیا حکم ہے ؟

الجواب :- منت والی  قربانی کا تمام گوشت فقراء و مساکین کو دینا واجب ہے اس سے نہ خود کھانا جائز ہے اور نہ اہل و عیال کو کھلانا جائز ہے –//فقط و الله اعلم

و أما في الاضحية المنذورة سواء كانت من الغني أو الفقير فليس بصاحبها أن يأكل ولا أن يأكل الغني وهاكذا في النهاية--//

لا يأكل الناذر منها فأن اكل تصديق بقيمة ما اكل--//شامی ،ج:٢،ص:٢٣٢ نعيمية,ديوبند--//وكذا في قاضيخان:ج:٩،ص:٢٤٩ زکریا

سوال:-ایک امر آدمی قربانی کی نیت سے جانور خریدی تو اس کو قربانی کے وقت بدل سکتا ہے یا نہیں ؟

الجواب:-اگر کوئی امیر شخص قربانی کی نیت سے جانور خریدے تو اس کو بدل سکتا ہے یا فروخت بھی کر سکتا ہے البتہ اس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جو نانور بدلتا ہے یا فروخت کرتا ہے اس کے بعد والا اس سے اچھا ہو لیکن نہ بدلے تو بہتر ہے -البتہ بلا ضرورت اس کو بدلنا اور بیچنا مکروہ ہے اور دونوں جانور میں جو قیمت کا فرق  ہوگا اس کو صدقہ کرنا لازم ہے -و الله اعلم –//قاضیخاں ،ج:٩،ص:٢٤٥ زکریا 

و ام الذي يجب علي الفقير دزن الغني فالمشتري للاضحية ...وأن كان غنيا لا تجب علية بشراء شيء --//الہندیہ ج:٥،ص:٣٢٦ زکریا

و الجواب ان المشتري للأضحية متعينة للقربة ألي أن يقام غيها مقامها فال يحل له الانتفاع بهاما دامت متعيمة...ويأتي قريبا اليه يكره ان يبدل بها غيرها فيفيد تعين ايضا --//شامی ،ج؛٩،ص:٥٤٤ ، اشرفیہ ،دیوبند

سوال:-اگر کوئی شخص سعودی کے اندر ملازمت کر رہا ہوں تو وہ اسی جگہ سے دوسروں کے لیے عمرہ کر سکتا ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے وضاحت کرے؟

جواب:-اگر وہ شخص حرم کے اندر رہتا ہو تو حدود حرم سے باہر جا کر عمرہ کا احرام باندھنا ضروری ہے اور اگر وہ شخص حدود حرام سے باہر حل میں رہتا ہے تو وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کر سکتا ہے اس لیے کہ عمرہ کا احرام حل سے باندھنا ضروری ہے اگر اسے حالت میں ہو تو دوسروں کے لیے عمرہ کر سکتا ہے۔فقط واللہ اعلم۔

والميقات لمن في مكة يعني من بداخل الحرام للحج الحرم والعمرة الحل (در المختار مع شامي:٤٨٤/٣ كتاب الحج، زكريا ديوبند)

وليس لاهل المكة ولا لاهل المواقيت تمتع ولا قرا ن...... ومن كان داخلا للمواقيت فهو بمنزلة المكي..... انما لهم ان يؤدوا العمرة أو الحج. (تاتارخانية: ٦٢٠/٣ كتاب الحج، الفصل:٩ زكريا ديوبند)

وقت المكي للحرام بالحج الحرم، والعمرة الحل ويخرج الذي يريد العمرة الا الحل من اي جانب شاء والتنعيم أو فضل(الهنديه: ٢٨٥/١ كتاب المناسك ،الباب الثاني في المواقيت،اشرفيه ديوبند)

١.سوال:-عمرہ کی فضیلت اور اہمیت بیان کریں ؟

جواب:-عمرہ کی فضیلت میں سے چند فضیلت یہ ہے ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ درمیانی عرصہ کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج و عمرہ بوڑھے کمزور اور عورت کے حق میں جہاد کے درجے میں ہے یعنی ان لوگوں کو حج عمرہ کرنے سے جہاد کا ثواب ملتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پدر پہ حج اور عمرہ ہے کیا کرو اس لیے کہ یہ دونوں نیک عمل فقر فاقہ اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے اور سونے چاندی کہ کھوٹ کو ختم کر دیتی ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔فقط واللہ اعلم۔

ان ابي هريرة رضي الله تعالى عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: العمرة الى العمرة كفارة ولما بينهما والحج المبرور ليس له جزاء الا الجنة (صحيح بخاري: رقم الحديث: ١٧٧٣)

ان عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: تابعوا بين الحج والعمرة فان المتابعة بينهما تنفي الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد(سنن ابن ماجه:٢٨٨٧ حديث)

انا ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحجة المبرورة ليس لها جزاء الا الجنة العمرة الى العمرة كفارة لما بينهما (سنن نسائ:٢٦٢٤)

سوال:-دوسروں کی طرف سے عمرہ کرنا شرعا درست ہے یا نہیں اگر درست ہے تو کوئی شرط ہے یا نہیں؟

جواب:-عمرہ دوسروں کی طرف سے کرنا درست ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ اور اس میں شرط ہے۔جس کی طرف سے عمرہ کرنا ہو احرام باندھتے وقت اس کی طرف سے احرام باندھنے کی نیت کرے اور تلبیہ بھی اسی کی طرف سے پڑھیں اور دوسرے یہ ہے کہ عمرہ اپنی طرف سے ادا کرے اور اس کا ثواب دوسرے کو ہدیہ کر دے۔فقط واللہ اعلم

الاصل وان كل من اتى بعبادة ماله جعل صوابها لغيره وان نواها عند الفعل لنفسه لظاهر الادلة...(قوله بعبادة ما) اي سواء كانت صلاه او قراءة هكذا او طوافا او حجا او عمرة او غير ذلك من زيارة القبور الانبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والاولياء والصالحين وتكفين الموتى... وبحيث ايضا ان الظاهر النوم لا فرق بين اي نبي به عند الفعل وللغير ان يفعله لنفسه ثم يجعل ثوابه لغيره الاطلاق كلامهم (شامي: ١٠/٤ باب الحج عن الغير،زكريا ديوبند)

والاصل في هذا الباب: ان الانسان له ان يجعل ثوابه عمله لغيره صلاه كان اوصوما او صدقه او غيرها كالحج ،والقراءة القران ،ولازكار ،والزيارة قبور الانبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء ،والاولياء ،والصالحين، وتكفين الموتى وجميع الواي البر...(الهنديه: ٣٢١/١ باب الرابع عشره في الحج عن الغير،زكريا ديوبند )

عن ابي رازين رجل من بني عامر انه قال: يا رسول الله ان ابي شيخ خبير لا يستطيع الحج والعمرة ولا الظعن ،قال: احج ان ابيك وعتمر(ابو داؤد:١٨١٠)

١.سوال:-حج بدل درست ہونے کے لیے کتنی شرائط ہیں اور کیا کیا ہے؟

جواب:-حج بدل کے لیے چند شرائط ہیں۔۔(1). آمر کا اسے حج کرنے کے لیے صراحتاً حکم دینا ،البتہ وارث کا اپنے مورث کی طرف سے بلا امر حج کرنا بھی معتبر ہے،(2). احرام باندھتے وقت مامور کا آمر کی طرف سے حج کی نیت کرنا،(3). مامور کا آمر کی طرف سے خود حج کرنا،دوسرے سے نہ کروانا،(4). اگر میت نے حج بدل کی وصیت میں کسی خاص شخص کو متعین کیا ہو تو اسی متعین شخص کا عرض کرنا ضروری ہے الا یہ ہے کہ کوئی معقول عذر ہو (5). اکثر سفر حج میں آمر کا مال خرچ کرنا،(6). اکثر سفر سوار ہو کر کرنا لہذا اگر پیدل سفر کیا تو آمر کی طرف سے حج درست نہیں ہو گا ،(7). آمر کی وطن سے سفر شروع کرنا،(8). حج کو فاسد نہ کرنا کیونکہ اگر حج بدل کو فاسد کر دیا تو یہ حج آمر کی طرف سے نہ ہو کر مامور کی طرف سے ہوگا ،(9). آمر کے حکم کی مخالفت نہ کرنا مثلا اس نے حج افراد کا حکم دیا ہے اور معمور نے اپنی مرضی سے حج قران یا حج تمتع کر لیا تو یہ حج آمر کی طرف سے نہیں ہوگا البتہ اگر خود آمر یا وصی حج تمتع یا قران کی اجازت دے تو اس کی گنجائش ہے(10). ایک سفر میں ایک ہے حج کا احرام باندھنا لہذا اگر معمور نے آمر کے احرام کے بعد اپنی حج کا بھی احرام باندھ لیا تو آمر کا حج ادا نہ ہوگا،(11). ایک احرام میں دو شخصوں کے نیت نہ کرنا لہذا اگر مثلا دو ادمیوں نے مامور کو حج بدل کا حکم دیا اور اس نے اس سفر میں دونوں امرو کی طرف سے نیت کر لی تو ان آمروں میں سے کسی کی طرف سے بھی حج ادا نہیں ہوگا(12). حج کا فوت نہ کرنا۔فقط واللہ اعلم ۔

لتاسع: وجود العذر قبل الاحجاج فلو احد جاء صحح ثم عجز لا يجزيه العاشر: ان يحج راكبا فلو حج ماشيا ولو بامره ضمن النفقة،(رد المختار،باب الحج عن الغير:١٧/٤ زكريا ديوبند)

منها: ان يكون المحجوج ان عاجزا عن الاداء بنفقة له مال.... ومنها: ان يحج راكبا حتى لو امره بالحج فحج ماشيا،يضمن النفقة ويحج عنه راكبا ثم الصحيح من المذهب فيمن حج عن غيره : الاصل الحج يقع عن المحجوج عنه ولهذا لا يسقط به الفرض عن المامور وهو الحج(الهنديه: ٣٢١/١،باب الربيع عشر: في الحج عن الغير،زكريا ديوبند)

وفي الزخيرة: ثم انما يسقط فرض الحج عن الانسان باحجاج غيره اذا كان يحج وقت الاداء عاجزا عن الاداء بنفسه ،... مات اما اذا زال عجزه بعد ذلك فلا يسقط عنه حج الفرض(بدائع الصنائع:٤٥٥/٢،نعيميه ديوبند)

سوال:-حج بدل کرنے والا اگر اپنی طرف سے حج کی نیت کر لے تو شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-حج بدل کرنے والا اپنی طرف سے حج کی نیت کر لے تو حج ادا نہیں ہوگا بلکہ جو حج بدل کرا رہا ہے اس کی جانب سے ادا ہوگا شرط یہ ہے کہ وہ آمر کی جانب سے حج ادا کرنے کی نیت کرے۔فقط واللہ عالم

ويشرط نية الحج عنه اي: من الأمر...(شامي: ١٨/٤ كتاب الحج اشرفيه ديوبند)

ويقع الحج بمفروض عن الامر على الظاهر من المذهب(در مختار مع شامي،كتاب الحج: ٢٠/٤ زكريا ديوبند)

سوال:-حج بدل کرنے والا اقسام حج میں سے کون سا حج کریں ؟

جواب:-حج بدل میں اصل یہ ہے کہ معمور کا حج میقاتی ہو یعنی وہ میقات سے حج کے احرام باندھے اور یہ بات حج افراد اور حج قران میں تو پائی جاتی ہے لیکن حج تمتع میں نہیں پائی جاتی اسی لیے بہت سے کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ حج بدل میں افراد یا قران ہی کا ہونا چاہیے حج تمتع سے حج بدل معتبر نہ ہوگا البتہ حج قران کے لیے آمر کی طرف سے اجازت ضروری ہے۔فقط واللہ اعلم

قالوا قيل بالقران لان في التمتع يسير مخالفا بالاجماع وانما العمرة عن الامر لانه امر بالانفاق في سفر الحج وقد اتفق في سفر العمرة لانه امر بحجه ميقاتيه وقد اتى بحجة مكية(البحر العميق: ٣١٢٣/٤)

قال الشيخ ابو بكر محمد بن الفضل رحمه الله تعالى اذا امر غيره بأن يحج عنه ينبغي ان يفوض الامر الى المامور فيقول: حج عني بهذا كيف شئت ان شئت حجة؟ وان شئت حجة وعمرة ،وان شئت قرانا والباقي في المال مني لك وصية كيلا يضيق الامر على الحاج ولا يجب عليه رد ما فصل الى الورثة(قاضيخان:٣٠٧/١)

١.سوال:-قربانی کرنے والوں پر ذی الحجہ کے مہینے میں کون سی چیز واجب اور کون سی چیز مسنون ہے وضاحت کے ساتھ تحریر کریں؟

الجواب:-قربانی کرنے والے پر تن چیزیں واجب مثلا یہ صاحب کا مالک ہونا ، عید کی نماز پڑھنا ایام تفریق میں بلند اواز سے تکبیر تشریق پڑھنا وغیرہ اور چند چیزیں مسنون ہیں مثلا عید کے دن نماز فجر محلہ کی مسجد میں پڑھنا مسواک کرنا نہانا خوشبو لگانا ادبیہ میں جانے سے پہلے میٹھی چیزیں مثلا کھجور وغیرہ اور اچھا کپڑا پہننا نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا ناخن بال وغیرہ نہ ترشنا وغیرہ وغیرہ۔فقط واللہ اعلم

واما بيان ما يستحب في يوم العيد فاستحب فيه منها انه النبي سواك ويغسل ويطعم شيئا ويلبس احسن نيابه ولمس طيبا ويخرج فطرة قبل ان يخرج واما في الى آخر... --//بدائع الصناءع،ج:١، ص:٦٢٤ زكريا دوبند

ويستحب ان ياكل من اضحيه ويطعم منها غيره ويستحب عين يربط الاضحية قبل ايام النحر... الى آخ. ؛--//الفتاوى الهنديه،ج:٥، ص:٣٤٦-٣٤٧،كتاب الاضحية ،زكريا،ديوبند