سوال:-کسی کی ملکیت میں تالاب ہے اور اس نے باہر سے مچھلیاں لا کر تالاب میں ڈال رکھا ہے تاکہ مچھلیاں اس تالاب میں پرورش پاکر بڑی ہو جائے پھر اس کے بعد اس میں سے پکڑ کر فروخت کیا جائے تو ایسے تالاب کی مچھلیاں مارنا دوسرے لوگوں کے لیے جائز ہے یا نہیں؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں جب ایک شخص نے باہر سے مچھلیاں تالاب میں لا کر ڈال دی ہے تو اب وہ اس کا مالک ہو گیا لہذا اب اس کے علاوہ کسی اور کو اس تالاب سے مچھلیاں مارنا صحیح نہیں ہوگا –

فإن كان اعدها لذلك فما دخلها ملكه وليس لأحد أن يأخذه(فتح القدير: ٣٧٥/٦)

لا يجوز التصرف في مال غيره بلا اذته(شامي: ٢٠٠/٦،كراچی)

لا يجوز الأحد أن يتصرف في تلك غيره بلا اذته (شرح المجلة:٦١/١)

سوال:- قرآن کریم میں سورہ ص میں سجدہ “اناب” پر لکھا گیا ہے اس پر سجدہ کرنا چاہیے یا اگلی آیت پر سجدہ کرنا چاہیے اس کے بارے میں فقہی جزئیات تحریر فرمائیے؟

جواب:- صورت مسؤلہ میں سورہ ص کا سجدہ “حسن مآب” پر ہے لیکن اگر کوئی “اناب” پر سجدہ کر لے تب بھی ایک قول کے مطابق ادا ہو جائے گا لیکن اگلی والی آیت “حسن مآب” پر سجدہ کرنا چاہیے-المستفاد: فتاوی محمودیہ،٤٧١/٧)

نحن نعد ذلك شكرا لما انعم الله على داؤد بالغفران والوعد بالزلفى وحسن الماب ولهذا لا يسجد عندنا عقيب قوله تعالى"اناب" بل عقيب قوله "حسن ماب" وهذه نعمه عظيمة في حقنا(بدائع الصنائع :٤٥٢/١)

وظن داود أنما فتناه فاستغفر ربه وخر راكيا واناب فغفرنا له ذلك وان له عندنا لزلفى وحسن ماب وهذا هو الأولى مما قاله الزيلعي تحب عند قوله تعالى! وخر راكعا واناب وعند بعضهم عند قوله تعالى "وحسن ماب"(حاشية الطحطاوي:ص:٤٨٢)

وفي ص عند (وحسن ماب) وهو اولى من قول الزيلعي عند "واناب"(شامي: ٥٧٦/٢،زكريا ديوبند)

سوال:-امام صاحب نے نماز میں آیت سجدہ تلاوت کی سجدہ بھی کر لیا خارجی آدمی نے آیت سجدہ کی قراءت امام صاحب سے سنی تو خارجی آدمی پر سجدہ کرنا واجب ہے یا نہیں؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں جب خارجی آدمی امام سے نماز میں کوئی آیت سجدہ سن لے تو اس کے اوپر سجدہ واجب ہو گیا لیکن اگر یہ شخص آیت سجدہ کے بعد امام کے رکوع میں اٹھنے سے پہلے نماز میں شامل ہو جاتا ہے “سجدہ والی رکعت پا لیتا ہے” تو سجدہ ادا ہو گیا اور اگر دوسری رکعت میں شامل ہوا تو اب علاحدہ سے نماز سلام پر سجدہ کرنا ہوگا-

ولو سمعها أي اية السجدة من الإمام اجنبي ليس معهم في الصلاة ولم يدخل معهم في الصلاة لذمه السجود كذا في جوهرة النيرة) فهو الصحيح كذا في هدايهوهو الصحيح كذا في الهداية(هندية:١٩٣/١)

فإن سمع اية السجدة رجل ليس معهم في الصلاة "ذكر في النوادر ان عليها ان يسجد،(فتاوى قاضيخان:١٠٠/١)

سوال:-ایک چھوٹی سی نالی ہے اس میں پانی جا رہی ہے اس نالی میں ناپاکی بھی پڑ جاتی ہے تو اس جاری پانی میں ناپاکی گر جانے کے بعد رنگ اور بو اور ذائقہ نہ بدلے پانی کی طبیعت میں صاف ستھرا ہے تو پانی کو پاک سمجھا جائے گا یا نہیں اگر پاک سمجھا جائے گا تو پاکی کی علامت کیا ہے؟ دونوں مسئلے متعدد کتابوں کے حوالہ سے مدلل کر کے واضح فرمائیے؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں مذکور جاری نالی کے اندر ناپاکی پر جانے کے بعد رنگ بو مزہ نہ بدلے تو پانی پاک و مطہر ہی رہے گا اور اس جاری پانی کے پاک ہونے کے علت رنگ بو اور مزہ کا نہ بدلنا ہے-

والماء الجاري إذا وقعت فيه نجاسة جاز الوضوء به إذا لم يريها اثر لأنها لا تستقر مع جريان الماء والاثر والطعم او الرائحة أو اللون والجارى ما لا يتكرر وقيل ما يذهب بتبنة....(هداية:٣٥/١-٣٦،هندي نسخه)

ويجوز بجار وقعت فيه والجارى وهو ما يعد جاريا عرفا.... لم يكن جريانه بمدد إن لم ير أثره وهو طعم، أو لون أو ريح، وتحته في الشامية وقعت فيه نجاسة يسئمل المرئية.(شامي:٣٣٤/١،زكريا ديوبند)

سوال:-ممبر رسول پر کتنی سیڑیاں، کتنے درجے کی پیڑیاں بنانا مسنون ہے واضح فرمائیں دلائل کے ساتھ؟

الجواب:-ممبر کی سیڑھیوں کی تعداد تین رکھنا مسنون ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو ممبر بنایا گیا تھا وہ تین سیڑھیوں کا تھا حضور تیسری پیڑی پر تشریف فرما ہوتے تھے، جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنائے گئے تو تیسری پیڑی پر تشریف نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسری پیڑی پر تشریف رکھتے تھے، لہذا تمام ائمہ کے لیے دوسری پیڑی پر بیٹھنا مستحب ہے، مگر ممبر کا تین پیڑیوں کا ہونا مسنون ہے-

عن ابن عباس رضي الله تعالى عنه وكان منبر النبي صلى الله عليه وسلم قصيرا، انا هو ثلاث درجات، (مسند احمد بن حنبل: ٢٦٩/١،رقم: ٢٤١٩)

عن كعب بن عجرة قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (احضروا المنبر) فحضرنا فلما ارتقي درجة قال: (امين)فلما ارتقي الدرجة الثانية قال: (امين)،فلما ارتقي الدرجة الثالثة قال:(امين)(المستدرك على الصحيحين:١٧٠/٤،دار الكتب العلمية)

ومنبره صلى الله عليه وسلم كان ثلاث درج غير المسماة المستراح(شامي:١٦١/٢، كتاب الصلاة باب الجمعة، زكريا ديوبند)

سوال:- پھلوں کو باغ میں پھل آنے کے بعد فروخت کیا جاتا ہے تو یہ معدوم کی بیع نہیں ہے تو کیا بدو صلاح سے قبل پھلوں کی بیع جائز ہے اگر جائز ہو تو کسی مصلحت کی جائز ہے؟

الجواب:- بدو صلاح سے قبل یہ معدوم کی بیع ہے اور معدوم کی بیع ناجائز ہے اور یہ ناجائز ہونا مصلحت کی وجہ سے ہے اور وہ مصلحت حنفی الی النزاع ہونا ہے –

ان حديث محمول على نهي تنزبه أو ارشاد كما هو مفاد زيد ابن عند البخاري(تكمله فتح الملهم: ٣٩٦/١٠،كتاب البيوع)

عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال كان الناس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يتبايعون الثمار فاذا جد الناس و حضر تقاضيهم، قال المشائخ: أنه اصاب الثمر الرمان اصابه مراض اصابه قشام عاهات يحتجرن بها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لما كثرت عنده الحضومة في ذلك: فاما لا، فلا تتبايعوا حتى يبد و صلاح الثمر كالمستورة يشير بها الكثر حضومتهم واخر حي خارجة ابن زيد بن ثابت ان زيد ابن ثابت لم يكن يبيع ثمار ارضه حتى تطلع الثريا فتبين الأصفر من الأحمر (بخاري شريف: ٢٩٢/١،رقم: ٢١٩٣،هندى نسخه)

سوال:-حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نماز جنازہ کس نے پڑھائی اور ان کی تجہیز اور نکفین کو نہلانے میں کون کون سی عورتیں شریک رہیں؟

الجواب:-حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضرت اسماء بنت عمیس اور حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہما نے غسل دیا تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے پانی لا کر دیا تھا اور نماز جنازہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پڑھائی تھی-

عن ام جعفر زوجة محمد بن علي قالت: حدثتني اسماء بنت عميس رضي الله تعالى عنها قالت: غسلت انا وعلي فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم(سنن الكبري للبيهقي:٢٥٦/٥،رقم: ٦٧٥٩)

ومن طريق عمرة: صلى العباس على فاطمة ونزل فيه حفرتها هو وعلى، والفضل ومن طريق علي بن حسين: أن عليا صلى عليها(الاصابه في تمييز الصحابة:٢٦٨/٨)

وعن عائشة قالت: دفنت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا علي ولم يشعر بها أبو بكر رضي الله عنه حتى دفنت وصلى عليها علي بن طالب رضي الله عنه(مستدرك حاكم كتاب المعرفة الصحابة: قديم: ١٦٣/٣-١٦٢، جديد:١٧٨٩/٥،رقم: ٤٧٦٤)

سوال:-امام صاحب نے تیسری رکعت پر دونوں طرف سلام پھیر دیا ابھی امام صاحب قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھے ہوئے تھے کہ پیچھے سے کچھ مقتدیوں نے کہا کہ تین رکعت ہوئی ہے کچھ مقتدی اٹھ کر چل دیئے پھر امام صاحب میں چپکے سے اٹھ کر ایک رکعت ادا کی اور سجدہ سہو کر لیا تو نماز درست ہوگی یا نہیں؟ اگر درست ہوئی تو کن لوگوں کی درست ہوئی اور کن لوگوں کی فاسد ہوئی واضح فرمائیں ؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں جب تک امام اپنی حیثیت پر ہو اور قبلہ سے نہیں پھیرا ہو اور امام جب جانب کھڑا ہو کر چوتھی رکعت مکمل کرا دے اور سجدہ سہو کر لے تو نماز درست ہو جائے گی یہی حکم مقتدیوں کا ہے یعنی جن مقتدیوں نے منافی صلاۃ عمل کیا ان کی نماز ختم ہو جائے گی اور جن سے منافی صلاۃ کا صدمہ نہیں ہوا ان کی نماز امام صاحب کے ساتھ صحیح ہو جائے گی-(المستفاد: ٦١٠/٧، قاسميه،كتاب النوازل:٦٢٢/٣)

يجب أن يعلم بأن ما يفسد الصلاة نوعان: قول وفعل فنبدا بالقول فنقول: إذا تكلم في صلاته ناسيا أو ساهيا أو عامدا أو حاطئا أو قاصدا أو قليلا أو كثيرا تكلم الاصلاح صلاته بأن قام الإمام في موضع القعود فقال له المقتدي أقعد او قعد في موضع القيام فقال له المقتدي: ثم أولا للاصلاح في صلاته ويكون الكلام من كلام الناس(لا تاتارخانية:٢١٦/٢،زكريا ديوبند)

إذا سلم في الظهر على رأس الركعتين مضى على صلاة ويسجد للسهو....(تاتارخانية:٤١٢/٢،كتاب الصلاة ،الفصل السابع عشر،زكريا ديوبند)

و يسجد للسهو ولو مع سلامه للقطع ما لم يتحول عن القبلة أو يتكلم لبطلان التحريمة(شامي: ٥٥٨/٣،زكريا ديوبند)

سوال:-لڑکی والے اپنی لڑکی کو بلا کسی کے دباؤ اور خواہش کے اپنی حیثیت کے اعتبار سے کوئی سامان دے دے تو اس میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں جب لڑکی والے اپنی مرضی و خوشی سے جہیز دیں اپنی بیٹی کو اپنی حیثیت کے مطابق اور اس میں کوئی ریا نمود وغیرہ نہ ہو تو جہیز لے سکتے ہیں ناجائز نہیں ہے البتہ اس صورت میں بھی نہ لے اور خوش اسلوجی سے منع کر دے تو یہ اولی اور بہتر ہے خصوصا علماء طلباء حضرات کو ،ورنہ عوام علماء کو دیکھ کر دلیل پکڑے گی اور جہیز میں ان کے مطالبات پڑ جائیں گے اور منہ پھٹ اور جاہل قسم کے لوگوں کو کوں سمجھائے گا، لہذا علماء و مقتدی حضرات کا بچنا ہی بہتر ہے-

عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من أعظم النكاح بركة ايسره مؤنة(مشكاة المصابيح)

عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المتباريان لا يجابان ولا يؤكل طعامهما قال الإمام احمد: يعني المتعارضين باضيافة فخرا ورباء(مشكاة المصابيح شعب الامام للبيهقي:١٨٢/٨،حديث: ٥٦٦٧،دار الكتب العلمية بيروت )

سوال:-اگر دوران نماز بجلی چلی گئی اور خارج نماز شخص نے کہا کہ تکبیر کہدی جیو تو تکبیر کہنے والے کی دو حالتیں کی گئی ہیں(1) اس نے ضرورت کی وجہ سے تکبیر کہنا شروع کیا تو نماز درست ہو جائے گی (2) اس نے خارجی آدمی کے کہنے سے تکبیر کہی ہے تو مکبر کی نماز فاسد ہو جائے گی تو کیا اس کی اتباع کر کے رکوع اور سجدہ کرنے والے افراد کی بھی نماز فاصد ہو جائے گی فرمائیں؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں اگر کسی نمازی نے خارجی صلاة شخص کے کہتے ہی اس کے جواب میں ارکان انتقالیہ تکبیر کہہ دی ہے تو نماز فاسد ہو جائے گی لیکن اگر کچھ توقف کر کے اپنی جانب سے تکبیر کہی ہے تو نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی نہ ہی مکبر کی نماز میں کوئی فرق پڑے گا اور نہ ہی مکبر کی اقتدا کرنے والوں کی نماز میں کوئی فرق پڑے گا اور جب مکبر خارجی آدمی کے کہنے پر تکبیر کہنا شروع کرے تو مکبر اور اس کی اقتدا کرنے والے سب کی نماز فاسد ہو جائے گی-

مثل هو ما لو ايتثل بالقول وهو ما في البر عن القنية: مسجد كبير تجهر المؤذن فيه بالتكبيرات فدخل فيه رجل أمر المؤذن ان يجهر بالتكبير وركع الإمام للحال المؤذن إن قصدهوا به فسدت صلاته.(شامي: ٣٨١/٢،زكريا ديوبند) (البحر الرائق: ٩/٢،زكريا ديوبند)

قيل للمصلى: تقدم فتدم اذ دخل وأخذ فرحة الصف فتجانب المصلى توسعة له فسدت صلاته لأنه في ايتثل أمر غير الله في الصلاة وينبغي للمصلى أن يمكث ساعة ثم يتقدم برايه(البناية شرح الهداية:٤٤٢/٢)