قربانی
مسائل قربانی
الجواب و باللہ توفیق:- اگر بھینس قریب الولادت ہو تو اس کی قربانی مکرہ ہے اور اگر نہ ہو تو اس کی قربانی بلا کراہت جائز ہے ،اگر قربانی کے بعد بھینس کی پیٹ سے مرا ہوا بچہ نکلے تو اس کو کھانا جائز نہیں البتہ اگر زندہ بچہ نکلے تو اس کا گوشت کھایا جائے لیکن اگر ایام قربانی کے اندر ذبح نہ کیا جائے تو اسے صدقہ کرنا لازم ہے – فقط و الله اعلم–//} بحر الرائق ،ج:٨،ص:٣١٢ زکریا –//الہندیہ ج:٥ ص:٣٣١ زکریا –//بداءع، ج:٤ ص:١٥٩ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-در اصل دانت پر قربانی کی صحت کا مدار نہیں بلکہ عمر پر ہے دانت عمر معلوم کرنے کے لئے احتیاطی طور پر ایک علامت ہے لہذا کسی جانور کی عمر مکمل ہو گئی اور وہ دونتا نہیں تو پھر بھی اس کی قربانی درست ہوگی –//رد المختار ج:٩ ص:٤٢٢ زکریا –//التاتارخانیہ ج:١٧ ،ص:٤٢٥ زکریا –//نصب الرایہ ج:٤ ،ص:٥١٠ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-اگر کتے کے کاٹنے کی وجہ سے کوئی ایسا عیب پیدا نہ ہو جو مانع اضحىہ ہو نیز کاٹنے کا اثر گوشت تک نہ پہنچا ہو تو اسکی قربانی درست ہے -فقط و الله اعلم–//الہندیہ ج:٥،ص:٢٩٩ قدیم، زکریا –//مبسوط ج:١٢،ص:٢٠ –//الموسوعة الفقہیہ ج:٥،ص:٨٣ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-قربانی کے سلسلے میں قربانی کے آخری ایام کا اعتبار ہوتا ہے لہذا اس قاعدہ کی رو سے غرىب شخص کے قربانی کرنے کے بعد ایام اضحىہ میں مالدار ہونے کی صورت میں دوسری قربانی لازم ہونی چاہیے بر اسی بنا صاحب بداءع وغىرہ نے اجوب قربانی کے قول کو صحیح قرار دیا ہے لیکن صاحب فتاویٰ بزازیہ اور صاحب فتاویٰ تاتارخانیہ وعىرہ نے متاخرین احناف کے حوالے سے عدم وجوب قربانی کا قول نقل کیا ہے اور اسی کو راجح قرار دیا ہے اس لئے مذکورہ غرىب شخص کے لئے اس قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہے لہٰذا اگر وہ دبارہ قربانی نہ کرے تو وہ ترک واجب کی وجہ سے گناہ گار نہ ہوگا -اور مسافر ایام قربانی میں مقیم ہو جائے تو اس پر قربانی کرنا لازم ہے اور اگر مقیم مسافر ہو جائے تو قربانی کرنا لازم نہیں -فقط و الله اعلم–//الفتاویٰ التاتارخانیہ ج:١٧،ص:٤٥٩ زکریا –//رد المختار ج:٩ ص:٤٥٨ زکریا –//الہندیہ ج:٥ ص:٣٣٧ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-عام کتاب فقہ میں یہ مسلہ على الاطلاق لکھا گیا ہے کہ فقیر بنیٹ قربانی جانور خریدنے سے اس انور کی قربانی اس پر واجب ہو جاتی ہے خواہ ایام اضحىہ میں خریدے یا اس سے پہلے البتہ فتویٰ تاتارخانیہ میں شراء فی ایام النحر کی قید ہے جس کا تقاضہ یہ ہے کہ ایام اضحىہ سے قبل فقیر کے جانور خریدنے سے قربانی لازم نہیں ہوتی علامہ شامی نے بھی اسی طرح فتاویٰ کی طرف رجحان ظاہر کیا ہے نیز صہیب احسن الفتاویٰ نے بھی اسی کو را جح قرار دیا ہے- فقط و الله اعلم–//تاتارخانیہ ج:١٧ ص:٤١١ زکریا –//بداءع ،ج:٤ ص:١٩٢ زکریا –//بحر الریق ج:٨ ص:٣٢٠ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-صورت مسلہ میں ایام اضحىہ میں ہی بکڑے کی قربانی کرنا لازم ہے کیونکہ اس نے قربانی کرنے کی نذر مانی ہے جسکا وقت مخصوص اور متعین ہے لہذا اس مخصوص وقت میں ہی قربانی کرنا لازم ہوگا اور نذر مانے والے شخص اور مالدار شخص کے لئے اس کا گوشت کھانا جائز ہے جس طرح فقیر کے لئے اپنی قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے حلانکہ اس کی قربانی بھی نذر کے درجے میں ہوتی ہے اور جس عبارت سے عدم جواز معلوم ہوتا ہے ان کا محل نذر اضحىہ المساکین ہے یعنی قربانی کی نذر مانے کے ساتھ ساتھ اس کا گوشت صدقہ کرنے کی نذر مانی ہو تب ناذر کے لئے اپنی نذر کی قربانی کا گوشت کھانا اسی طرح کسی مالدار کو کھلانا جائز نہ ہوگا –//شامی ج:٩ ص:٤٧١ زکریا –//الہندیہ قدیم ج:٥ ص:٢٩٤ زکریا –//بداءع،ج:٤،ص:٢٢٣-٢٢٤ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-اگر کوئی شخص میت کے حکم کے بغىر میت کی طرف سے قربانی کرے تو اس قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے اور اگر میت کے حکم سے اور میت کے مال سے قربانی کرے تو اس کے لئے قربانی کا گوشت کھانا جائز نہیں بلکہ صدقہ کرنا ضروری ہے -فقط و الله اعلم–//شامی ج:٩ ص:٤٧٢ زکریا –//الفتاویٰ التاتارخانیہ ج:١٧ ،ص:٤٤ ،زکریا –//قاضیخان ج:٩ ص:٢٤٧ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-ایسے جانور کا قربانی جائز ہے بشارت کہ اس کے گوشت میں کوئی خرابی اور بدبو پیدا نہ ہوئی ہو -فقط الله اعلم–//الہندیہ ج:٥ ص:٢٩٠ قدیم ،زکریا –//مبسوط ج:١١،ص:٢٨٤ زکریا –//شامی ج:٩ ص:٤٩١ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-جانور کو نصف چرائی پر دینے کا معاملہ درست نہیں لیکن اگر ایسا معاملہ کر دیا گیا ہو تو مالک کے لئے اس جانور کی قربانی درست ہے بشرط کہ جسکو چرائی پر دیا تھا اسکو چارہ پانی اور اجرت مثل دے دیا گیا ہو کیونکہ اس معاملہ کی وجہ سے جانور اس کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتا بلکہ وہی جانور کا مالک ہوتا ہے جسکو چڑھانے کے لئے دیا ہو اس لئے اس جانور کی قربانی درست نہیں کیونکہ وہ اس کا مالک نہیں ہے -فقط و الله اعلم–//التاتارخانیہ ج:٧ ص:٥٠٥ ، کتاب الشرکه ،زکریا –//شامی ج:٢ ص:٥٠٤ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-امام موذن اور ملازمین کو اجرت کے طور پر قربانی کی کھال دینا جائز نہیں اسی طرح اگر امام موذن اپنا حق سمجھتے ہو تو بھی اس کو کھال دینا جائز نہیں البتہ اگر امام موذن کو بطور ہدیہ دیا جائے تو دیگر لوگوں کی طرح دینا جائز ہے اپنے تنخواہ دار ملازم کو قربانی کا کھال دینے کا بھی یہی حکم ہے -فقط و الله اعلم–//شامی ج:٩ ،ص:٤٧٥ زکریا –//بحر الرائق ج:٨،ص:٣٢٧ زکریا ،–//التاتارخانیہ ج:١٧ ص:٤٤٢ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-جس شخص پر قربانی لازم ہو وہ اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجاے اپنے کسی محروم رشتہ دار کی طرف سے اس کی وصیت اور حکم کے بغىرقربانی کر دے تو قربانی کرنے والا شخص کے ذمے سے قربانی ساقط ہو جاےگی اور میت کو اس قربانی کا ثواب مل جاےگا ہاں اگر اس شخص پر قربانی لازم بھی نہ ہو یا اپنی لازم قربانی کر چکا ہو تو میت کی طرف سے کی جانے والے قربانی میت کی ہی طرف سے ادا ہوگی اور میت کو اس کا ثواب مل جاےگا نیز اگر اپنے کسی زندہ رشتہ دار کی طرف سے ایسا شخص قربانی کرے جس پر قربانی لازم ہو تو بھی قربانی کرنے والے کے ذمے سے فریضہ ادا ہو جاےگا -فقط و الله اعلم–//شامی ج:٩،ص:٤٨٤ زکریا –//تاتارخانیہ ج:١٧ ،ص:٤٤٤ زکریا –//قاضیخاں ،ج:٩ ،ص:٢٤٨ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-مذکورہ اجیر کو قربانی کا گوشت کھلانا جائز نہیں اس لئے کہ قربانی کا گوشت بطور معاوضہ اور اجرت دینا جائز نہیں ہوتا ہے البتہ اگر کھانے کے پیسہ دے دے یا کھانے میں دیگر چیزوں کے ساتھ قربانی کا گوشت بھی ہدیہ دیا جائے تو اس طرح سے کھلانا جائز ہوگا -فقط و الله الم–//شامی ،ج:٩ ،ص:٤٧٥ زکریا –//بحر الریق ،ج:٨ ص:٣٢٧
الجواب و باللہ التوفیق :-جس شریک کی قربانی خالص حرام ہو اگر وہ اپنی اسی آمدانی سے قربانی میں حصّہ لے تو کسی شریک کی بھی قربانی درست نہ ہوگی اسی طرح مخلوط آمدانی والے شخص کی اکثر آمدانی حرام ہو اور وہ اپنی آمدانی سے ہی قربانی میں حصّہ لے تو کسی کی بھی قربانی صحیح نہیں ہوگی البتہ اگر یہ شخص کسی حلال آمدانی والے شخص سے قرض لیکر قربانی میں حصّہ لے پھر اپنی حرام آمدانی سے قرض ادا کر دے تو پھر سب کی قربانی صحیح ہو جاےگی -فقط و الله اعلم–//شامی ،ج:٩ ،ص:٤٧٢ زکریا –//الہندیہ ج:٥ ص:٣٥١ زکریا –//
الجواب و باللہ التوفیق :-قربانی کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رخ لٹایا جائے یعنی اسکا پیر قبلہ کی جانب کر دیا جائے اور اپنا دایاں پاؤں اس کے شانے پر رکھ کر تیز چھری سے اپنی ہاتھ سے جلد زنہ کریں تاکہ ذبح کے وقت جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہو اور ذبح سے پہلے بسم الله الله اکبر پڑھے -فقط و الله اعلم–//جامع الترمزی ،ج:١،ص:٢٧٥ ،باب ما جاء فصل الاضحىہ ،–//مشکوة المصابىح،ج:١٢٧ اشرفیہ –//سنن نسائی ج:١٨٣ الاتحاد دیوبند
الجواب و باللہ التوفیق :-ذبح کرنے والا قبلہ رو ہو اور جانور کو شمال اور جنوب دونوں لٹایا جائے جس سے وہ قبلہ رخ ہو جائے خواہ وہ دائیں کروٹ ہو یا بائیں کروٹ جس میں ذبح کرنا آسان ہو البتہ بائیں کروٹ لٹانا افضل ہے -فقط و الله اعلم–//بداءع،ج:٤،ص:١٨٩ ،زکریا –//شامی ،ج:٩ ص:٤٩٥ زکریا –//الموسوعة الفقهىه ج:٢٢،ص:١٩٩ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-قربانی کا گوشت غىر مسلم کو دینا درست ہے ،حضرت تھانوی (رح )نے جو جواز کا قول بہشتی زیور میں لکھا ہے وہ درست ہے -فقط و الله اعلم –//الہندیہ ج:٥ ،ص:٣٠٠ ،زکریا –//التاتارخانیہ ج:١٧،ص:٤٣٧ زکریا –//سورة الممتحنة :آیت :٨
الجواب و باللہ التوفیق :-قربانی کے جانور کے گوشت کو تول کر تقسیم کرنا ضروری ہے اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں البتہ اندازے سے تقسیم کر سکتے ہے کہ ہر ایک کے حصّے میں سری ،پائے ،وغىره بھی آجاے تو اس میں کوئی حرض نہیں -فقط و الله اعلم–//الہندیہ ،ج:٥،ص:٣٥٢ زکریا –//شامی ،ج:٩ ص:٤٦٠ زکریا –//قاضی خان ،ج:٣،ص:٢٤٧ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-عورت اور بچہ اگر ذبح پر قدرت رکھتا ہو اور بسم الله کہے تو ان کا ذبیحہ درست ہوگا ،الله اعلم–//الہندیہ ج:٥،ص:٤٣٣ زمزم ،دیوبند –//شامی ج:٩،ص:٤٣٠ زکریا ،دیوبند –//فتح القدیر ،ج:٩ ،ص:٤٩٧ دار الکتاب دیوبند
الجواب و باللہ التوفیق :-اگر جانور کی شہ رگیں کٹ چکی ہے تو جانور تو حلال ہوگیا اب دم مسفوح جانور سے نکال جاےگا لیکن مستحب یہ ہے کہ جب تک جانور پر سکوں نہ ہو اس کی کھال وغىره نہ اتاری جائے ،اگر اس کی خلاف کیا جاےگا تو یہ عمل مکروہ اور خلاف سنت ہوگا ،لیکن جانور حلال ہو جاےگا -فقط و الله اعلم–//التاتار خانیا ج:١٧ ،ص:٣٩٢ زکریا –//شامی ج:٩،ص:٤٢٦ زکریا –//الہندیہ ج:٥،ص:٢٨٨ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-قربانی کی کھال اپنے استعمال میں لانا جائز ہے اسی طرح کسی غنى کو تحفہ میں دینا بھی جائز ہے -الله اعلم –/شامی ج:٩ ص:٤٧٥ زکریا –//تاتارخانیہ ج:١٧ ص:٤٣٩ زکریا –//شامی ج:٩،ص:٤٧٥ زکریا –//تبین الحقائق ج:٦،ص:٤٨٥ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-قربانی کا گوشت اجرت کے طور پر دینا جائز نہیں ہے اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو جتنی قیمت کا گوشت دیا ہے اتنی رقم غرىبوں پر صدقہ کردے -الله اعلم –//تاتارخانیہ ج:١٧ ،ص:٤٤٢ زکریا –//شامی ج:٩،ص:٤٧٥ زکریا –//مسلم شریف ج:١،ص:٤٢٧
الجواب و باللہ التوفیق :-ذبح کرنے والا اور جو لوگ ذبح کے معاون ہو یعنی ہاتھ پکڑ کر یا چھری پکڑ کر مدد کریں تو ان پر بسم الله پڑھنا ضروری ہے -الله اعلم –//الہندیہ ج:٥،ص:٣٢٩ ،زکریا –//شامی ج:٩ ص:٥٠٣ اشرفیہ –//رد المختار ج:٩،ص:٥٥١ اشرفیہ
الجواب و باللہ التوفیق :-قربانی کے اندار دعا پڑھنا مستحب ہے ،اگر کوئی شخص نہ پڑے تو کوئی حرض نہیں قربانی ہو جاےگا لیکن دعا پڑھ لینا بہتر ہے- فقط و الله اعلم –//شامی ج:٩ ص:٥٠٢ اشرفیہ –/التاتارخانیہ ج:١٧،ص:٤٠١ زکریا –//الہندیہ ج:٥،ص:٢٨٨ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-وحشی انور کی قربانی شرعا جائز نہیں ہے چاہے اس کا گوشت حلال ہو ،جیسے -ہرن ،وحشی گائے اور بھینس -البتہ پالتو جانور میں سے بکری ،گائے اور ابل اور جو اس کے جنس میں سے ہو اس کی قربانی شرعا درست ہے -فقط و الله اعلم –//الہندیہ ج:٥،ص:٢٩٧ زکریا –//بداءع،ج:٤،ص:٢٠٥ زکریا –//تبین الحقائق ج:٦،ص:٧
الجواب و باللہ التوفیق :-شرعا جائز نہیں ہے اگر کوئی شخص قربانی کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے مرغى کی قربانی کرے تو یہ مکروہ ہے اس لئے کہ یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے –//الہندیہ ج:٥،ص :٣٤٦ زکریا –//بزازیہ ج:١٣،ص:١٥٧ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-قربانی کی گوشت روئے ،پیسوں اور ایسی چیز کی عوض فروخت کرنا جائز نہیں جسکے باقی رہتے ہوئے نفع اٹھانا ممکن نہ ہو مثلا :کھانا ،تیل ،اناج وغىره اور جن چیزوں کے باقی رہتے ہوئے نفع حاصل کرنا ممکن ہو ان سے تبادلہ درست ہے جیسے :مصلی ،کپڑا ،وغىره-اور اگر کسی نے روپئے کے عوض یا ایسی چیز جن سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں باقی رہتے ہوئے تو اس کی قیمت اور حاصل شدہ چیز کا صدقہ کرنا لازم اور ضروری ہے -الله اعلم–//بداءع،ج:٤،ص:٢٢٤ زکریا –//شامی،ج:٩،ص:٤٧٥ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-قربانی کی گوشت کو تین حصّوں میں تقسیم کرنے کا ثبوت تو قران و حدیث سے صراحت کے طور پر نہیں ہے البتہ اشرہ النس سے ملتا ہے ،الله اعلم –//شامی ج:٩،ص:٥٤٢ اشرفیہ –//ترمزی ج:١،ص:٢٨٦ دار الکتاب –//الہدایہ ج:٤،ص:٤٥٠ ،دار الکتاب دیوبند
الجواب و باللہ التوفیق :-اگر کسی کے پاس بہت زیدہ قربانی کا گوشت ہو اور تنہا کھانے والا کھا بھی نہیں سکتا ہو اور لینے والا بھی کوئی نہ ہو اور گوشت خراب ہونے کا یقین ہو تو اس صورت میں بچنے کی گنجائش ہے لیکن بعد میں ان کی قیمت غرباء میں تقسیم کرنا ضروری ہوگا اس لئے کہ قربانی کا گوشت بیچنا جائز نہیں اگر کوئی بیچ دے تو صدقہ کرنا ضروری ہے -فقط و الله اعلم –//شامی ،ج:٩،ص:٤٧٥ –//بداءع،ج:٤،ص:٢٢٤ زکریا –//
الجواب و باللہ التوفیق :-اگر کسی شخص نے قربانی کے لئے جانور خریدا پھر قربانی کے وقت جانور کے اندار عیب مانع پیدا ہو جائے تو قربانی کرنے کا حکم یہ ہے کہ اگر مالدار ہو تو دوسرا خرید کر قربانی کر دے اور اگر غرىب ہو تو اسی جانور کافی ہو جاےگا -فقط و الله اعلم–//شامی ج:٩،ص:٥٣٩،اشرفیہ –//[بداءع ج:٥،ص:٧٦ زکریا –//الہدایہ ج؛٤ ،ص:٤٤٨ دار الکتاب
الجواب :-اگر جانور میں اتنا عیب ہو کہ تہائی یا اس سے زاید ہو تو قربانی درست نہیں ہے اور اگر تھائی حصّے سے کم ہو تو قربانی درست ہو جاےگا -الله اعلم–//بزازیہ ج:١٢،ص:١٥٩ زکریا –//شامی ج:٩،ص:٥٣٦ اشرفیہ –//قاضیخان ج:٩،ص:٢٤٨ زکریا