الجواب و باللہ التوفیق :-مذکورہ صورت میں جب مسافر تنہا نماز پڑھےگا تو قصر کریگا اور اگر نفل نماز کی اقتدہ کی تھی تو اکمال کریگا –//شامی ج:٢ ص:٦١٢ زکریا –//الہندیہ ج:١،ص:٢٢ زکریا التاتارخانیہ ج:٢،ص:٥١٤ زکریا
(١) وأما اقتداء المسافر بالمقيم فيصح في الوقت ويتم سواء بقي الوقت أو خرج قبل إتمامها لتغير فرزه بالتبعية لاتصال المغير البسب وهو الوقت ولو أفسده صلى ركعتين لزوال المغير بخلاف ما له اقتدى به متنفلا حيث يصلي أربعا إذا أفسده...(الدر المختار مع الشامي) 2/612.ط زكريا
(۲) وإن اقتدى مسافر بمقيم أتم أربعا وإن أفسده يصلي ركعتين بخلاف ما له اقتدى به بنيه النفل ثم أفسد حيث يلزم الأربع...(الهندية الجديدة)1/202.ط زكريا
(٣) الفتاوى التاتارخانيه.2/514.ط زكريا
٢١.سوال :-مسبوق اگر امام کے ساتھ سلام پھر دے تو اسکی نماز ہوگی یا نہی اور اس پر سجدہ سہو کب لازم ہوگا ؟
اگر باجماعت نماز میں امام سجدہ سہو کرے تو مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو تو کرے گا؛ لیکن سجدہ سہو کے سلام میں امام کی پیروی نہیں کرے گا۔ اور اگر مسبوق نے جان بوجھ کر( یعنی یہ جانتے ہوئے سلام پھیرے کہ ابھی اس کی ایک یا چند رکعتیں باقی) امام کے ساتھ سجدہ سہو کا سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی، اسے از سر نو نماز پڑھنی ہوگی
اگر مسبوق نے امام کے ساتھ سجدہ سہو کا سلام بھول کر یا سہواً پھیرا یعنی: یہ سمجھا کہ میں مسبوق نہیں ہوں، میری نماز بھی مکمل ہورہی ہے تو اس میں تین صورتیں ہیں:
(١)پہلی صورت : مسبوق نے بھول کر امام کے السلام کہنے کے بعد السلام کہا اور اس کے بعد یاد آیا تو وہ آخر میں سجدہ سہو کرے گا۔
(٢)دوسری صورت: مسبوق نے بھول کر ٹھیک امام کے ساتھ السلام کہا تو سجدہ سہو واجب نہ ہوگا؛ البتہ یہ صورت عام طور پر پائی نہیں جاتی یا اس کا جاننا مشکل ہے ؛ اس لیے جب تک یقین کے ساتھ اس کا علم نہ ہو ، سجدہ سہو ضرور کرے۔
(٣)تیسری صورت:مسبوق نے بھول کر امام سے پہلے سلام پھیرا، اس کا حکم یہ ہے کہ اس صورت میں مسبوق کی نماز پر کوئی فرق نہیں آئے گا اور نہ ہی آخر نماز میں اس پر سجدہ سہو واجب ہوگا