الجواب و باللہ التوفیق :اگر مسجد میں تلاوت کر رہا ہو تو تلاوت جاری رکھنی چاہیے یہی افضل ہے البتہ تلاوت موقوف کر کے جواب دینے کا بھی اجازت ہے اور اگر گھر میں تلاوت کر رہا ہو اور اس کی مسجد کی آذان ہو رہا ہو تو تلاوت موقوف کر کے آذان کا جواب دینا چاہیے اور اگر دوسرے مسجد کی آذان ہو تو تلاوت جاری رکھنی چاہیے ،—آذان کے وقت بیت الخلا جانے کا حکم یہ ہے کہ اگر سخت تقاضا ہو تو جانے میں کوئی حرض نہی اس لئے کہ جماعت شروع ہو نے کے بعد سخت تقاضہ کے حالت میں بیت الخلا جانے کا حکم ہے تو آذان کے وقت بدرجہ اولى بیت الخلا جانے میں کوئی حرض نہی ،اور اگر معمولی تقاضہ ہو تو بیت الخلا نہی جانا چاہیے آذان کاجواب دینا چاہیے –
رجل في مسجد يقرأ القران فسمع الأذان فإن كان هذا الرجل في المسجد يمضي على قراءته ولا يجيب المؤذن وإن كان في منزله فان لم يكن هذا أذان منزله لا يجيب المؤذن ويمصي في قلاءته وإن كان هذا أذان مسجده يقطع القرآن ويجيب المؤذن (التاتارخانية)2/154،ط.زکریا
ولو كان في المسجد حين سمعه ليس عليه الإجابه ولو كان خارجه أجاب بالمشي إليه بالقدم ولو أجاب باللسان لابد لا يكون مجيبا وهذا بناء على أن الإجابة المطلوبة بقدمه لا بلسانه فيقطع قراءة القرآن ولطان يقرأ بمنزله ويجيب لو أذان مسجده ولو بمسجد لا لانه أجاب بالحضور .....(الدر المختار مع الشامي)2/68 ..ط زكريا
سوال :-اقامت کے وقت امام اور مقتدیوں کو کب کھڑا ہونا چاہیے شروع اقامت سے کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے ؟
اگر امام پہلے سے ہی مصلے کے قریب موجود ہو تو بہتر یہ ہے کہ شروع اقامت سے کھڑے ہو کر صف سیدھی کرنے میں مشغول ہو جائے البتہ اگر شروع اقامت میں کوئی کھڑا نہ ہو تو اس کی بھی اجازت ہے البتہ حي الفلاح تک کھڑا ہو ہی جانا چاہیے اس کے بعد بیٹھے نہیں رہنا چاہیے
اور اگر امام صفوں کی طرف سے آئے تو جس صف پر پہنچے اس صف کے مقتدی کھڑے ہوتے جائے اور اگر سامنے کی طرف سے آئے تو امام کو دیکھتے ہی کھڑے ہو جائے