“گانا زنا کا منتر ہے” سوال یہ ہے کہ مذکورہ بات حدیث ہے اگر حدیث ہے تو کس کتاب میں موجود ہے ؟؟

الجواب وبالله التوفيق: “گانا زنا کا منتر ہے” یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں ہے، بلکہ مشہور قول کے مطابق یہ فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے۔ مستفاد از: (غير معتبر روایات کا فنی جائزہ، ٢٩٧/٤، مکتبہ عمر فاروق، کراچی)

"الغناء رقية الزنا" قال النووي في"شرح مسلم" هو من أمثالهم المشهورة انتهى. وعزاه الغزالي للفضيل بن عياض. (الاسرار المرفوعة في الاخبار الموضوعة/حرف الغين المعجمة، ص: ٢٥٢، رقم: ٣١٢، ط: مؤسسة الرسالة)

حديث: الغناء رقية الزنا من كلام الفضيل. (المصنوع في معرفة الحديث الموضوع/حرف الغين المعجمة، ص: ١٢٦، ط: مؤسسة الرسالة) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

عالم اور مفتی کسے کہتے ہیں ان دونوں کی تعریف معلوم کرنی تھی حضراتِ مفتیان

الجواب وبااللہ التوفیق: لغوی اعتبار سے عالم کہتے ہیں علم يعلم علما ۔بمعنی ۔جاننا ۔واقف ہونا۔ پہچاننا ۔ ۔عالم۔۔ جاننے والا ۔ اور مفتی کہتے ہیں۔ فتي يفتي فتي وفتاء.. افتي في المسالة.. شرعی حکم بیان کرنا ۔قانونی رائے دینا ..اور.مفتی۔ شرعی احکام بیان کرنے والا ۔ اور عرفا عالم وہ شخص کہلاتا ہے جس نے درس نظامی مکمل پڑھا ہو۔اور مفتی وہ شخص کہلاتا ہے جس نے درس نظامی مکمل کرنے کے بعد کسی مفتی کی نگرانی یا کسی ادارے میں با ضابطہ داخلہ لے کر افتاء کا کورس کیا ہو گویا اس اعتبار سے عالم اور مفتی کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے یعنی ہر مفتی عالم ضرور ہوگا لیکن ہر عالم کا مفتی ہونا ضروری نہیں ۔۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ حقیقتاعالم بننے کے لیے صرف علوم کا پڑھنا اور درس نظامی کا مکمل کر لینا یہ کافی نہیں ہے بلکہ اصل اور حقیقت میں عالم وہ شخص ہے جس میں اللہ تعالی کا خوف اور خشیت اور اپنے علم پر عمل کرنے کی صفت بھی پائی جائے اسی طرح مفتی بننے کے لیے بھی صرف تخصص کر لینا اور درس نظامی کی تکمیل کے بعد ایک دو سال کسی ادارے یا مفتی کی نگرانی میں لگا لینا یہ کافی نہیں بلکہ حقیقت میں مفتی وہ شخص ہے جس میں تقوی و طہارت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی پائی جائے کہ اس نے ایک طویل عرصے تک کسی ماہر مستند عالم دین اور مفتی کی نگرانی میں رہ کر فقہ و فتاوی کی مشق وتمرین کی ہو۔

روى علي بن طلحة عن ابن عباس انما يخشى الله من عباده العلماء.. قال.. الذين علموا ان الله على كل شيء قدير.. وقال الربيع بن انس.. من لم يخشى الله تعالى فليس بعالم وقال مجاهد.. انما العالم من خشي الله عز وجل وعن ابن مسعود.. كفى بخشية الله تعالى علما وبالاغترار جهلا. وقيل لسعد بن ابراهيم من افقه اهل المدينة قال اتقاهم لربه عز وجل.. وعن مجاهد قال.. انما الفقيه من يخاف الله عز وجل.. وعن علي رضي الله عنه قال.. ان الفقيه حق الفقيه من لم يقنط الناس من رحمة الله ولم يرخص لهم في معاصي الله تعالى ولم يؤمنهم من عذاب الله ولم يدع القران رغبة عنه الى غيره انه لا خير في عباده لا علم فيها ولا علم لا فقه فيه ولا قراءة لا تدبر فيها واسند الدارمي ابو محمد عن مكحول قال... قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان فضل العالم على العابد كفضلي على ادناكم ثم تلا هذه الاية انما يخشى الله من عباده العلماء.. ان الله وملائكته واهل سماواته واهل ارضيه والنون في البحر يصلون على الذين يعلمون الناس الخير. (تفسير القرطبي/سورة فاطر/رقم الآية: ٢٨، ط: بيروت)

Leave a Comment