الجواب:-نیند کے حالت میں طلاق دے تو طلاق واقع نہیں ہوگی (اور نیم میں خوابی کی حالت میں بے اختیار بغیر مطلب سمجھے طلاق کے الفاظ نکلنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی) اور خود بخود دل میں یعنی محض خیال سے طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ طلاق واقع ہونے کے لیے الفاظ کا ظاہر کرنا اگر صحیح سالم ہو اور گونگا ہو تو اشارہ ضروری ہے-
ولا يقع طلاق....... والنائم...... هكذا في فتح القدير (الهندية:٤٢٠/١،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)
لا يقع الطلاق..... والنائم.....(رد المختار: ٤٤٩/٤-٤٥٣،كتاب الطلاق ،زكريا ديوبند)
عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الله عز وجل تجاوز لامتي عما حدثت به انفسها ما لم تعمل او تتكلم به...(صحيح مسلم: ٧٨/١،كتاب الايمان)
لو اجري الطلاق على قلبه وحرك لسانه من غير تلفظ يسمع لا يقع.....(مرا في الفلاح شراح نور الايضاح:٢١٩)
سوال:-الفاظ کے اعتبار سے طلاق کے کتنی قسمیں ہیں ہر ایک کی تعریف اور حکم تحریر کریں؟
الجواب:-الفاظ کے اعتبار سے طلاق کی دو قسمیں ہیں (1) صریح(2) کنائی-صریح وہ ہے جو صریح الفاظ سے دی جائے اور صریح الفاظ وہ ہے جو اکثر وہ بیشتر طلاق ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں خواہ وہ کسی بھی زبان کے ہو مثلا عربی زبان میں طلاق وغیرہ اور اردو زبان میں چھوڑنا آزاد کرنا ۔کنائی طلاق وہ ہے جو کنائی الفاظ سے دی جائے جن کا استعمال طلاق اور غیر طلاق سب کے لیے ہوتا ہو مثلا عربی زبان میں اعتدی اور اردو زبان میں گھر سے چلی جا وغیرہ۔حکم صریح الفاظ سے وفوع طلاق کے لیے تین کی حاجت نہیں ہے البتہ شرط یہ ہے کہ وہ بیوی کے ارادہ سے کہے گئی ہو اگر تاکید وغیرہ سے خالی ہو تو طلاق رجعی واقع ہو گی اور اگر تاکید کے ساتھ کہے ہو تو اس سے طلاق بائن واقع ہوگی اور کنائی الفاظ سے واقع طلاق کے لیے نیت بہرحال ضروری ہے اور اس سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے البتہ قضاء مذاکرہ طلاق کی صورت میں نیت کے بغیر ہی طلاق واقع ہو جائے گی۔