سوال:-مدت رضاعت کیا ہے اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو اس کی بھی وضاحت کریں؟

الجواب:-مدت رضاعت کے سلسلے میں ائمہ کرام اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کی مدت ڈھائی سال ہے اور حضرات صاحبین کے یہاں مدت رضاعت دو سال ہے اور یہی قول امام شافعی کا بھی ہے اور حضرت امام زفر کے نزدیک تین سال ہے-

هو حولان ونصف عنده وحولان فقط عندهما وهو الاصح فتح وبه يفتى كما في تصحيح القدوري.....(الدر المختار مع شامي: ٣٩٤/٤،كتاب النكاح باب الرضاع،زكريا ديوبند)

ثم مدة الرضاع ثلثون شهدا عند ابي حنيفة و قالا سنتان وهو قول الشافعي وقال زفر ثلاثة احوال لان الحول حسن للتحول من حال ابي حال.....(هداية:٣٧١/٢،كتاب النكاح باب الرضاع،زمزم ديوبند)

وقت الرضاع في قول ابي حنيفة رحمه الله عليه مقدر بثلاثين شهرا وقال مقدر جحولين......(هنديه: ٤٠٩/١،كتاب النكاح،الشرفيه ديوبند)

سوال:-حرمت مصاہرت کسے کہتے ہیں اور اس کا شرعا کیا حکم ہے نیز کن کن چیزوں سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتا ہے اور کن چیزوں سے نہیں تفصیل بیان كري

الجواب:-ازدواجي تعلق قائم ہو جانےكي بنا پر جو رشتے حرام ہو جاتے ہیں اس کو حرمت مصاہرت کہتے ہیں اور اس کا حکم یہ ہے کہ اس کی وجہ سے یہ عورتیں حرام ہو جاتی ہے-مثل: ساس بیوی کی بیٹی جو دوسرے سے ہو اگر وہ اپنے بیوی سے جماع کیا ہو بیٹے کی بیوی پوتے کی بیوی سو تیلی ماں سوتیلی دادی وغیرہ، اور حرمت مصاہرت جس طرح نکاح سے ثابت ہو جاتی ہے اس طرح زنا اور شرائط معتبرہ کے ساتھ دواعی زنا سے بھی ثابت ہو جاتی ہے یا اس عورت کو شہوت کے ساتھ کسی جائل کے بغیر چھولے یا شہوت کے ساتھ اس کی شرمگاہ کے اندرونی حصہ کی طرف دیکھ لے تو حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے یعنی اس عورت کے اصول و فرو ع مرد پر حرام ہو جائیں گے اور اس مرد کے اصول و فروع عورت پر حرام ہو جائیں گے اور اس کے علاوہ چیزوں سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی-

وحرم بالمصاهرة بنت زوجته الموطوءة واما زوجته وجداتها مطلقا بمجرد العقد الصحيح وان لم توطا الزوجه.... وزوجة اصله وفروعه مطلقا.... وحرم الكيل ممامر تحريمه نسبا ومصاهرة رجاعا.... وحرم ايضا بالصهرية اصلي مزنيته..... واصلي ممسوسته بشهوة..........(الدر المختار:١٠٤/٤-١٠٨ كتاب النكاح، زكريا ديوبند)

المصاهرة عند الفقهاء هي حرمة الختونة....( قواعد الفقه:٤٩، باب الميم ،دار الكتاب ديوبند)

وتثبت حرمة المصاهرة بالنكاح الصحيح دون الفاسد..... فمن زني بامراة حرمت عليه امها وان علت وابنتها وان سفلت وكذا تحرم المزني بها على اباء الزاني و اجداده وان علوا...(الهنديه: ٣٣٩/١،كتاب النكاح باب الثالث في بيان المحرمات زكريا ديوبند)

Leave a Comment